ترکیہ میں ترگیترائز 11 مشقیں ، پاک بحریہ شریک
اشاعت کی تاریخ: 21st, January 2025 GMT
پاک ترک مشترکہ بحری مشقیں بحرِروم میں جاری ہیں—فوٹو بشکریہ اے پی پی
پاک بحریہ ترکیہ میں جاری ترگیترائز 11 نامی سمندری مشقوں میں حصہ لے رہی ہے۔
مشرقی بحیرۂ روم میں پاک ترک بحری مشقیں جاری ہیں، ان مشقوں کا نام ترکتریز 11 سلطنتِ عثمانیہ کے مشہور ایڈمرل ترکت رئیس کے نام پر رکھا گیا ہے۔
اس مشق میں پاک بحریہ کا نیا آف شور پیٹرول ویسل پی این ایس یمامہ شامل ہے جو گزشتہ سال دسمبر میں پاک بحریہ کے بیڑے میں شامل ہوا ہے اور وطن واپسی کے دوران اپنے پہلے سفر میں اس وقت ترکیہ میں موجود ہے۔
یہ مشقیں دونوں ممالک کے درمیان باہمی تعاون کو بہتر بنانے کےحوالے سے کی جا رہی ہیں، مشقوں کے دوران دونوں جانب سے شامل جہازوں نے مختلف میری ٹائم آپریشنز میں حصہ لیا۔
مشقوں کے دوران دونوں بحری افواج نے ابھرتے ہوئے چیلنجوں سے نمٹنے اور علاقائی میری ٹائم سیکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے باہمی تعاون کے عزم کا اعادہ بھی کیا۔
ترگیترائز (ترگت رئیس) کون تھے؟یہ بتاتے چلیں کہ ایڈمرل ترگیترائز (ترگت رئیس) 1485ء میں ترک شہر کاراتوپراک میں پیدا ہوئے تھے۔
1520ء میں انہوں نے سلطنتِ عثمانیہ کی بحریہ شمولیت اختیار کی اُن کی سب سے مشہور مُہم اسپین، فرانس اٹلی اور شمالی افریقہ پر محیط تھی، جس میں جزیرہ مالٹا کے محاصرے کے دوران وہ شہید ہو گئے تھے۔
ترگیترائز (ترگت رئیس) کی شہادت کے بعد کاراتوپراک کا نام ترگت رئیس کے نام پر ترگیترائز ہی رکھ دیا گیا۔
.ذریعہ: Jang News
پڑھیں:
اسرائیل کیساتھ اقتصادی تعلقات دوبارہ بحال کئے جا سکتے ہیں، تُرک عہدیدار
اپنی ایک رپورٹ میں مڈل ایسٹ آئی نیوز ویب کا کہنا تھا کہ اسرائیل نے مئی 2024ء میں 116 ملین ڈالر کی مصنوعات، ترکیہ سے مقبوضہ سرزمین میں درآمد کیں۔ اسلام ٹائمز۔ ترکیہ کی اقتصادی کمیٹی کے سربراہ "نائل اوپک" نے کہا کہ ترکیہ، غزہ میں مستقل امن کے قیام کی صورت میں اسرائیل کے ساتھ تجارتی تعلقات بحال کر سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ امن کی برقرای سے مراد یہ ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تجارت بند کرنے کی وجہ ختم ہونے کی صورت میں اقتصادی تعلق دوبارہ بحال کیا جا سکتا ہے۔ نائل اوپک نے ان خیالات کا اظہار سال 2025ء کے اقتصادی جائزہ اجلاس میں اپنی تقریر کے دوران کیا۔ دوسری جانب ترکیہ کے صدر "رجب طیب اردگان" سال کے آغاز میں اعلان کر چکے ہیں کہ انقرہ نے غزہ کی پٹی میں فلسطینیوں کی نسل کشی کی وجہ سے اسرائیل کے ساتھ اپنے تمام تعلقات منقطع کئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم آخر تک غزہ کی عوام کے ساتھ کھڑے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ رجب طیب اردگان کے اس بیان کے کچھ روز بعد ہی "مڈل ایسٹ آئی" نیوز ویب نے انکشاف کیا کہ ترکیہ اور اسرائیل کے درمیان کاروباری لین دین، یونان جیسے کسی تیسرے ملک کی مدد سے انجام پا رہا ہے۔ Middle East Eye نے خبر دی کہ اسرائیل کے مرکزی ادارہ شماریات سے جاری ہونے والے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ اسرائیل نے مئی 2024ء میں 116 ملین ڈالر کی مصنوعات، ترکیہ سے مقبوضہ سرزمین میں درآمد کیں۔ یہ خبر ترکیہ اور اسرائیل کے درمیان تجارتی سہولت کاری فراہم کرنے والے دو تاجروں نے لیک کی۔ ان میں سے ایک تاجر نے مڈل ایسٹ آئی سے باقاعدہ بات کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی حکام، تُرک کمپنیوں کو یونان کے ذریعے جانے والی مصنوعات کا مقام تبدیل کرنے تک کا نہیں کہہ سکتے کیونکہ اس سے مزید اخراجات بڑھیں گے۔