ایف پی سی سی آئی معیشت کی بحالی کے لیے تمام شعبوں میں اصلاحات پر اپنی توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے زراعت کے ساتھ تعمیرات اور ہاؤسنگ کے شعبے پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں
اشاعت کی تاریخ: 21st, January 2025 GMT
ملتان (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 21 جنوری2025ء) پیٹرن انچیف فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری ایس ایم تنویر اور چیئرمین قائمہ کمیٹی کپاس صنعت نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایف پی سی سی آئی معیشت کی بحالی کے لیے تمام شعبوں میں اصلاحات پر اپنی توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے زراعت کے ساتھ تعمیرات اور ہاؤسنگ کے شعبے پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔
72 صنعتی شعبے اس صنعت سے براہ راست جڑے ہوئے ہیں، وہ روزگار کے بے پناہ مواقع پیدا کرتے ہیں اور معاشی ترقی کو آگے بڑھاتے ہیں۔ پاکستان کے ہاؤسنگ سیکٹر کی مکمل صلاحیت کو بحال کرنے اور اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے ہم حکومت سے درخواست کرتے ہیں کہ تعمیراتی شعبہ کی بحالی کے لیے ودہولڈنگ ٹیکس کو کم کریں ،پراپرٹی کے لین دین پر ٹیکس کو 1% تک کم کریں، اور گھر کی ملکیت کو فروغ دینے کے لیے پہلی جائیداد کی خریداری کو ٹیکس سے پاک قرار دیں۔(جاری ہے)
فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی %3 کو ختم کریں جو کہ صوبوں میں قانونی طور پر ناقابل نفاذ ہے اوراس شعبے پر غیر ضروری بوجھ ڈالتا ہے۔ انکم ٹیکس آرڈیننس کے سیکشن 7E کو منسوخ کریں "ڈیمڈ انکم" کے تصور نے ہاؤسنگ سیکٹر میں ترقی کو نمایاں طور پر روکا ہے اور اسے فوری طور پر ہٹانے کی ضرورت ہے۔گھر کی ملکیت کو مزید سستی بنانے کے لیے 10 سالہ فکسڈ ریٹ مارگیج پروڈکٹ لانچ کریں۔ تعمیراتی فنانسنگ کو ترجیح دیں بینکوں کو ترغیب دیں کہ وہ تعمیرات کو ترجیحی شعبے کے طور پر درجہ بندی کریں، جو وسیع تر اقتصادی ترقی کو تحریک دے گا۔انہوں نے کہا ہمیں پختہ یقین ہے کہ ان اقدامات پر عمل درآمد نہ صرف سرمائے کی پرواز کو روکے گا بلکہ 100 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی صلاحیت کو بھی کھولے گا، جس سے مضبوط اقتصادی بحالی اور ترقی کی راہ ہموار ہوگی۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کے لیے
پڑھیں:
تمام قسم کے یارن اور کپڑے کی درآمدات پر پابندی لگائی جائے، چیئرمین ٹیکسٹائل ملز
اسلام آباد:آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن نے کہا ہے کہ
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے اپٹما چیئرمین کامران ارشد اور دیگر نے کہا کہ ایک سال سے ایف بی آر اور وزرات خزانہ سے بات کر رہے ہیں، 2021 میں ایکسپورٹ سہولت اسکیم لائی گئی تھی، یہ اسکیم ڈیڑھ سال تک بہت اچھی ثابت ہوئی، اسکیم سے ساڑھے 19 ارب ڈالر کی ٹیکسٹائل کی ایکسپورٹ رہی، اسکیم سے تب ایکسپورٹ بڑھی اب 3سالوں سے رک چکی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ٹیکسٹائل کے خام مال کی درآمد بڑھ چکی، 120 ٹیکسٹائل ملیں، اور 1200 جننگ ملیں بند ہو گئیں، صنعت کمزور ہوتی جا رہی ہے تو کسان کی کپاس کون اٹھائے گا، ہم مسلسل ای ایف ایس کی بحالی کے لیے کوشش کی، 22 فیصد شرح سود 12 فیصد پر آچکا ہے، بجلی کی قیمت بھی 7 روپے 41 پیسے سستی کی جا چکی ہے، صنعت کی بحالی کے اقدامات اٹھانا ہوں گے، 60 لاکھ خاندانوں کے روزگار کا مسئلہ ہے، ایکسپورٹ فیسلٹیشن اسکیم کو بحال کیا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ مالی سال 2025ء کے بجٹ میں ای ایف ایس کے تحت مقامی خام مال پر سیلز ٹیکس کی چھوٹ ختم کر دی گئی، درآمدی خام مال بدستور سیلز ٹیکس اور ڈیوٹی سے مستثنیٰ ہے، مقامی خام مال پر عائد 18 فیصد سیلز ٹیکس قابل واپسی ہے، سیلز ٹیکس کی واپسی میں تاخیر، ادھوری ادائیگیاں اور پیچیدہ عمل ایس ایم ایز کو شدید نقصان پہنچا رہا ہے، صرف 60–70 فیصد ریفنڈ جاری کیے جاتے ہیں، ریفنڈز پھنسے ہوئے ہیں، جن میں گزشتہ 4–5 سال سے کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔
چیئرمین اپٹما نے کہا کہ برآمدکنندگان درآمدی خام مال کو ترجیح دیتے ہیں، جس سے مقامی سپلائرز کو نقصان ہوتا ہے، صرف کپاس، یارن اور گریج کپڑے کی درآمد میں 1.6 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا، برآمدات میں صرف 1.5 ارب ڈالر کا اضافہ دیکھا گیا، سپورٹ پرائس نہ ہونے اور طلب میں کمی کے باعث کسان دوسری فصلوں کی طرف جا رہے ہیں، مقامی کپاس مزید غیرمقابلہ بخش مارکیٹ بن گئی ہے، کپاس کی پیداوارتاریخ کی کم ترین سطح پر، مزید کمی کا امکان ہے، موجودہ پالیسی تبدیل کی جائے تو زرمبادلہ 1.5–2 ارب ڈالر کا اضافہ ممکن ہے۔
چیئرمین اپٹما کا کہنا تھا کہ تجارتی خسارہ، ملازمتوں کا خاتمہ اور ٹیکس آمدنی میں کمی بڑھتی جا رہی ہے، امریکا نے پاکستان کی تمام برآمدات پر 29 فیصد ٹیرف عائد کردیا ہے، امریکا سے پاکستان کی سب سے بڑی درآمد کپاس ہے، پاکستان میں ایک فعال اور مسابقتی اسپننگ انڈسٹری کا ہونا لازمی ہے، اگر مقامی اسپننگ یونٹس کو بحال نہ کیا گیا تو اضافی کپاس درآمد نہیں کی جاسکے گی، ای ایف ایس کے تحت تمام یارن اور کپڑے کی درآمدات پر پابندی لگائی جائے۔