ٹرمپ کے پہلے ایگزیکٹو آرڈرز ان کی ترجیحات کے مظہر
اشاعت کی تاریخ: 21st, January 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 21 جنوری 2025ء) ڈونلڈ ٹرمپ نے پیر کے روز اپنے عہدہ صدارت کے پہلے دن کئی ایگزیکٹو آرڈرز پر دستخط کیے۔ آرڈرز کی اتنی بڑی تعداد جو نہ صرف غیر معمولی تھی، بلکہ انہوں نے یہ دستخط اپنے حامیوں کی موجودگی میں کیپیٹل ون ایرینا میں ریڈ ڈیسک پر کیں۔ حالانکہ عام طور پر، ہر نیا امریکی صدر وائٹ ہاؤس کے اوول آفس میں ایگزیکٹو آرڈرز پر دستخط کرتا ہے۔
ٹرمپ نے بعد میں دن میں مزید احکامات پر وہیں دستخط کیے۔ڈونلڈ ٹرمپ کی حلف برداری، اہم خارجہ پالیسی سے متعلق اہم فیصلوں کا اعلان
ایگزیکٹیو آرڈرز وہ ہدایات ہیں جو صدر کانگریس سے مشورہ کیے بغیر جاری کرتے ہیں۔ کانگریس ہی باقاعدہ قوانین کی منظوری دیتی ہے۔ صدر ایوان اور سینیٹ کو نظر انداز کرکے وفاقی حکام کو براہ راست اپنی ہدایات جاری کر سکتے ہیں۔
(جاری ہے)
تاہم، ان ایگزیکٹو آرڈرز کو عدالت میں چیلنج کیا جا سکتا ہے، اور اگلا صدر اسے تبدیل کر سکتا ہے۔
واشنگٹن میں امریکن یونیورسٹی میں سیاست، گورننس اور معاشیات کی پروفیسر مشیل ایگن نے ای میل کے ذریعے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان صدارتی فرمودات پر دستخط کرنا " تیزی سے گورننس کی اہم شکل بن گیا ہے لیکن انہیں آسانی سے الٹا بھی گیا ہے۔
" ٹرمپ نے پہلے دن کن ایگزیکٹو آرڈرز پر دستخط کیے؟ٹرمپ نے جس پہلے ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کیے، وہ اپنے پیشرو جو بائیڈن کے قائم کردہ 78 ضوابط کو منسوخ کرنا تھا۔
ٹرمپ کی فتح ریلی: صدارت کے پہلے ہی دن ایگزیکٹو آرڈرز کے بہت سے وعدے
انہوں نے ایک اور ایگزیکٹو آرڈر پر بھی دستخط کیے جس میں کہا گیا تھا کہ امریکہ پیرس موسمیاتی معاہدے سے دستبردار ہو رہا ہے اور بعد میں وائٹ ہاؤس میں ایک ہدایت نامہ جاری کیا گیا جس میں کہا گیا تھا کہ امریکہ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) سے نکل جائے گا۔
ٹرمپ کی مہم کے سب سے بڑے موضوعات میں سے ایک، امیگریشن، بھی پہلے دن کے کئی ایگزیکٹو آرڈرز کا حصہ تھا۔ صدر نے میکسیکو کے ساتھ امریکی سرحد پر ایک قومی ہنگامی صورتحال کا اعلان کیا، تاکہ حکومت اس پر قابو پا سکے جسے ٹرمپ ایک تباہ کن صورت حال کہتے ہیں۔ اور اس سے غیر دستاویزی تارکین وطن کے اس "حملے" کو روکا جا سکتا ہے جو بائیڈن کی صدارت میں ہوا تھا۔
ٹرمپ کی مہم کا ایک اور اہم موضوع ایل بی جی ٹی کیو پلس سے متعلق تھا۔ انہوں نے پیر کو اس حوالے سے بھی ایک ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کیے۔
حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ امریکی پالیسی کے مطابق، صرف دو جنسیں ہوں گی، مرد اور عورت، جس میں غیر بائنری یا متنوع آپشن اب موجود نہیں ہے۔ حکم نامے میں وفاقی ایجنسیوں کو صدر بائیڈن کے تحت جاری کردہ پالیسیوں کو منسوخ کرنے کی ہدایت کی گئی، جس نے خواجہ سراؤں کے لیے وفاقی شناخت پر اپنے جنس کے متعلق اپ ڈیٹ کرنا آسان بنا دیا تھا۔
ٹرمپ کی ہدایات کا امریکہ کے لیے کیا مطلب ہے؟ٹرمپ نے اپنے دفتر میں پہلے ہی دن جن ایگزیکٹو آرڈرز پر دستخط کیے وہ صدر کی ترجیحات کو ظاہر کرتے ہیں۔
پوٹن ٹرمپ کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہیں، کریملن
بین الاقوامی لاء فرم پِلزبری کے پبلک پالیسی پریکٹس کے ایک پارٹنر کریگ سیپرسٹین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "میرے خیال میں یہ (ثقافتی جنگ) کے مسائل نئی انتظامیہ کے ابتدائی دنوں اور نئی کانگریس کے ابتدائی دنوں میں نمایاں ہوں گے۔
"ماہر قانون ایمی گھوش کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کے ذریعہ ایک ہی وقت میں اور پہلے دن اتنے ایگزیکٹو آرڈرز جاری کرنا ملک کے لیے فوری تبدیلی کی علامت نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن سے دستبرداری کو لاگو ہونے میں ایک سال لگے گا۔ ان کا مزید کا کہنا ہے کہ اس سے پہلے کہ امریکی کچھ دوسرے احکامات کے نتائج کو محسوس کریں، اس میں کچھ وقت لگے گا۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے علاقائی عزائم: پاناما کینال اور گرین لینڈ پر کنٹرول کی خواہش
گھوش کا کہنا تھا کہ ٹرمپ قومی ایمرجنسی کا اعلان کرنے والے حکم نامے پر دستخط کر سکتے ہیں، لیکن جن پالیسیوں کو وہ نافذ کرتے ہوئے دیکھنا چاہیں گے انہیں نافذ کرنے والی وفاقی ایجنسیوں کو کئی مراحل پر مشتمل عمل سے گزرنا پڑے گا۔
ٹرمپ کی 6 جنوری کے فسادیوں کے لیے معافیپیر کو اوول آفس میں، ٹرمپ نے تقریباً تمام 1,600 مدعا علیہان کو معاف کرنے کے احکامات پر دستخط کیے جنہوں نے 6 جنوری 2021 کو اقتدار کی منتقلی کو روکنے کی کوشش میں کیپیٹل ہل پر دھاوا بولا تھا۔
ٹرمپ ان لوگوں کو "6 جنوری کا یرغمال" کہتے ہیں۔کسی امریکی صدر کا عہدہ سنبھالنے کے اپنے پہلے دن ہی اتنی بڑی تعداد میں معافیوں پر دستخط کرتے دیکھنا ایک نایاب منظر تھا۔
ج ا ⁄ ص ز (کارلا بلیکر)
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ایگزیکٹو آرڈرز پر دستخط پر دستخط کیے ٹرمپ کی پہلے دن ٹرمپ کے کے لیے
پڑھیں:
سپریم کورٹ:آرمی ایکٹ میں بھی کچھ بنیادی حقوق دیے گئے ہیں، جسٹس محمد علی مظہر
فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل کالعدم قرار دینے کے خلاف کیس کی سماعت جسٹس امین الدین کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ کر رہا ہے، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس شاہد بلال بھی بینچ کا حصہ ہیں۔
وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کے جواب الجواب میں دلائل جاری ہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے خواجہ حارث سے مکالمہ کیا کہ آپ 20 منٹ میں دلائل مکمل کرلیں،اس پر خواجہ حارث نے کہا کہ 20 منٹ میں تو نہیں مگر آج دلائل مکمل کرلوں گا۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ اگر خواجہ حارث آج دلائل مکمل کرتے ہیں تو اٹارنی جنرل کل دلائل دیں گے۔
مزید پڑھیں: سویلینز کا ملٹری ٹرائل: شکایت کنندہ خود کیسے ٹرائل کر سکتا ہے، جسٹس جمال مندوخیل کا استفسار
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آرمی ایکٹ میں بھی کچھ بنیادی حقوق دیے گئے ہیں، رینجرز اور ایف سی اہلکار نوکری سے نکالے جانے کے خلاف سروس ٹربیونل سے رجوع کرتے ہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ کیا پولیس اور رینجرز کی اپنی الگ عدالت ہوتی ہے، کیا پولیس میں آئی جی اپیل سنتا ہے یا یا ایس پی کیس چلاتا ہے؟
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ بھارت میں بھی آزادانہ فورم دستیاب ہے، ایف آئی آر کے بغیر نہ گرفتاری ہو سکتی ہے نہ ہی مجسٹریٹ کے آرڈر کے بغیر حراست میں رکھا جا سکتا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ 9 مئی واقعات کے ملزمان پر آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت مقدمات درج ہوئے، فوج نے براہ راست کوئی ایف آئی آر درج نہیں کرائی۔
مزید پڑھیں: سویلینز کے ملٹری ٹرائل کیخلاف درخواستوں پر آئینی بینچ کا آئندہ 2 سماعتوں پر فیصلہ دینے کا عندیہ
جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ انسداد دہشتگردی کی عدالتوں کے ذریعے سویلین کی حوالگی فوج کو دی گئی، حراست میں دینا درست تھا یا نہیں یہ الگ بحث ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ اس کیس کے مستقبل کے لیے بہت گہرے اثرات ہوں گے۔ ایف بی علی کیس پر آج بھی اتنی دہائیوں بعد بحث ہو رہی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آئینی بینچ جسٹس امین الدین سپریم کورٹ۔ فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل