پی ٹی آئی انٹراپارٹی انتخاب کیس، بیرسٹر گوہر نے الیکشن کمیشن سے مہلت مانگ لی
اشاعت کی تاریخ: 21st, January 2025 GMT
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔21 جنوری ۔2025 )پی ٹی آئی انٹراپارٹی الیکشن کیس میں چیئرمین پاکستان تحریک انصاف بیرسٹر گوہر نے الیکشن کمیشن سے مہلت مانگ لی ہے الیکشن کمیشن میں چیف الیکشن کمشنر کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے پی ٹی آئی انٹراپارٹی انتخابات کیس کی سماعت کی بیرسٹر گوہر الیکشن کمیشن کے سامنے پیش ہوئے.
(جاری ہے)
اکبر ایس بابر نے کہا کہ پی ٹی آئی کے اکاﺅنٹ کا آڈٹ ہونا چاہیے کیس کا فیصلہ ہونے تک پی ٹی آئی کے اکا ﺅنٹس فریز کئے جائیں پی ٹی آئی کے بیرسٹر گوہر نے جواب جمع کرانے کیلئے الیکشن کمیشن سے مہلت مانگ لی الیکشن کمیشن نے مہلت دیتے ہوئے پی ٹی آئی انٹراپارٹی انتخاب کیس کی سماعت 11 فروری تک ملتوی کر دی.
دریں اثنائالیکشن کمیشن کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بیرسٹر گوہر کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی واحد پارٹی ہے جس نے آئین وقانون کے مطابق انٹرا پارٹی الیکشن کرائے مگرابھی تک الیکشن کمیشن کی طرف سے ہمیں سرٹیفکیٹ نہیں ملا ہم نے الیکشن کمیشن کے آئینی وقانونی سوالات کا جواب دے دیا تھا. انہوں نے کہا کہ پارٹی سرٹیفکیٹ ہمارا آئینی وقانونی حق ہے پارٹی دفتر پر چھاپے کے دوران ایف آئی اے دستاویزات لے گئی تھی ہمیں امید ہے اگلی سماعت پر پی ٹی آئی کو سرٹیفکیٹ مل جائے گا ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی دنیا کی چھ بڑی سیاسی پارٹیوں میں سے ہے پاکستان میں سب سے بڑی سیاسی جماعت پی ٹی آئی ہے سب لوگ بانی پی ٹی آئی کے ساتھ ہیں عمران خان ہی ہماری پارٹی کا نشان ہیں. چیئر مین پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کیلئے عمرایوب نے سپیکر کو خط لکھا ہے جبکہ شبلی فراز نے چیئرمین سینیٹ کو پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل کیلئے خط لکھا ہے جب تک نئے چیف الیکشن کمشنر نہیں آتے آئینی طور پر یہی کام جاری رکھیں گے چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ ممبران صاحبان اور چیف الیکشن کمشنر کیلئے وہی طریقہ کار ہے جو آئین میں درج ہے، پارلیمنٹری کمیٹی بننے پر ہی یہ پراسیس جلد مکمل ہوگا.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے چیف الیکشن کمشنر الیکشن کمیشن کے بیرسٹر گوہر نے پی ٹی آئی کے نے کہا کہ
پڑھیں:
تنزانیہ میں 1977 سے برسر اقتدار پارٹی نے اپوزیشن جماعت کو الیکشن کیلئے نااہل قرار دلوا دیا
تنزانیہ کے الیکشن کمیشن نے ملک کی مرکزی اپوزیشن جماعت ”چادیما“ (Chadema) کو رواں سال اکتوبر میں ہونے والے صدارتی اور پارلیمانی انتخابات میں حصہ لینے سے روک دیا ہے۔
الیکشن کمیشن (INEC) نے ہفتہ کو اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ چادیما نے انتخابی ضابطہ اخلاق پر مقررہ مدت میں دستخط نہیں کیے، جو انتخابی عمل میں شرکت کے لیے لازمی تھا۔
کمیشن کے ڈائریکٹر آف الیکشنز، رمضانی کائیلیما نے کہا، ’جو بھی جماعت ضابطہ اخلاق پر دستخط نہیں کرے گی، وہ عام انتخابات میں حصہ نہیں لے سکے گی۔‘ انہوں نے مزید کہا کہ چادیما کی نااہلی کا اطلاق 2030 تک تمام ضمنی انتخابات پر بھی ہوگا۔
اس فیصلے کے بعد چادیما کی جانب سے کوئی فوری ردعمل سامنے نہیں آیا۔
چند دن قبل چادیما کے رہنما، تونڈو لِسو (Tundu Lissu) پر غداری کا مقدمہ قائم کیا گیا تھا۔ اُن پر بغاوت پر اکسانے اور انتخابات روکنے کی کوشش کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ استغاثہ کے مطابق، لِسو نے عوام کو ووٹنگ کے خلاف اقدامات کرنے پر اکسایا، تاہم اُنہیں عدالت میں صفائی کا موقع نہیں دیا گیا۔ اگر الزام ثابت ہوتا ہے تو اس کے نتیجے میں سزائے موت بھی ہو سکتی ہے۔
تونڈو لِسو، جو ماضی میں صدارتی امیدوار بھی رہ چکے ہیں، برسراقتدار جماعت ”چاما چا ماپندو زی“ (CCM) اور صدر سامیا سُلحُو حسن کی سخت تنقید کرتے رہے ہیں۔ صدر حسن دوسری مدت کے لیے انتخاب لڑنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔
چادیما نے اس سے قبل خبردار کیا تھا کہ اگر انتخابی نظام میں اصلاحات نہ کی گئیں تو وہ انتخابات کا بائیکاٹ کرے گی۔ اسی سلسلے میں ہفتے کے روز جماعت نے ضابطہ اخلاق پر دستخط کی تقریب میں شرکت سے بھی انکار کیا، جسے انہوں نے اصلاحات کے لیے اپنی مہم کا حصہ قرار دیا۔
چادیما کی نااہلی اور اس کے رہنما پر غداری کا مقدمہ مشرقی افریقہ میں جمہوریت کے مستقبل پر سنگین سوالات اٹھا رہا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیمیں اور اپوزیشن جماعتیں حکومت پر سیاسی اختلاف رائے کو دبانے کا الزام لگا رہی ہیں، جن میں کارکنوں کی پراسرار گمشدگیوں اور قتل کے واقعات بھی شامل ہیں۔ تاہم، صدر حسن کی حکومت ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے دعویٰ کرتی ہے کہ وہ انسانی حقوق کی پاسداری کے لیے پرعزم ہے۔
1977 سے برسراقتدار جماعت سی سی ایم بھی بارہا اپوزیشن کو دبانے یا انتخابی عمل میں دھاندلی کے الزامات کو رد کر چکی ہے۔
Post Views: 3