لاہور:
پاکستان کے بھارت کے مابین تناؤ اور کشیدہ تعلقات کے دوران دونوں ملکوں کے طلباء کی بنائی گئیں پینٹگز پر مشتمل 13 ویں پاک انڈیا امن کلینڈر کا اجرا کر دیا گیا ہے۔
پینٹنگز کے علاوہ، امن کیلنڈر میں امن اور بقائے باہمی کے مقصد کی حمایت کرنے والی ممتاز شخصیات کے پیغامات بھی شامل ہیں۔
پاک بھارت امن کلینڈر 2025 کا اجرا گزشتہ روز بھارتی شہر گڑگاؤں میں کیا گیا تاہم منتظمین کا کہنا ہے آئندہ چند روز میں پاکستان میں بھی امن کلینڈر کے اجرا کی تقریب ہوگی۔
پاک بھارت امن کلینڈر کا اجرا کرنے والی غیرسرکاری تنظیم آغاز دوستی کی طرف سے جاری تفصیل کے مطابق امن کلینڈر کے اجرا کے موقع پر ’’پرامن بقائے باہمی کی امیدوں کا اشتراک ‘‘ کے موضوع پر مباحثے کا بھی اہتمام کیا گیا جس میں ڈاکٹر اے۔ انملائی (سماجی کارکن، ڈائریکٹر نیشنل گاندھی میوزیم)، راکیش کھتری (ماحولیاتی کارکن، ’’نیسٹ مین آف انڈیا‘‘ کے نام سے معروف) اور امیت کپور (صدر آئی ڈبلیو ایس انڈیا) مقررین تھے۔
مباحثے میں لاہور سے تعلق رکھنے والے صحافی آصف محمود نے ورچوئل شرکت کی۔ اس پروگرام میں کئی فنکاروں، سماجی کارکنوں، نوجوانوں نے شرکت کی جو اس اقدام کی حمایت میں جمع ہوئے تاکہ برصغیر کا مستقبل مزید پرامن اور محفوظ بنایا جا سکے۔ کئی ایسے طلباء جو مسابقتی امتحانات کی تیاری کر رہے تھے، بھی اس تقریب میں موجود تھے۔
آغاز دوستی کی کنونیر ڈاکٹر دیویکا متل نے کہا کہ ’’معصوم اور غیرسیاسی ذہن کی پینٹنگز والا کیلنڈر ہمیں خطے میں امن، دوستی اور بھائی چارے کا فروغ کتنا ضروری ہے۔ یہ کیلنڈر امن اور دوستی کے مشترکہ خوابوں کا مجموعہ ہے۔ یہ ایک ایسی امید کی نمائندگی کرتا ہے جو ہم جیسے لوگوں کے درمیان ہے، عادات اور جدوجہد میں۔ ہر نئے مہینے کے آغاز پر صفحہ پلٹنے سے امید دوبارہ زندہ ہوگی۔
ڈاکٹر اے انملائی نے لوگوں کے درمیان تعلقات کے ذریعے امن قائم کرنے کی اہمیت اور ضرورت پر بات کی۔ انہوں نے زور دیا کہ گاندھی کے عدم تشدد، معافی اور غور و فکر کے راستے کسی بھی جگہ امن قائم کرنے کے عمل میں اہم ہیں۔
راکیش کھتری نے کہا کہ ماحول ہر کسی کو سرحدوں کے پار جوڑتا ہے اور ہمیں اس کی حفاظت کے لیے کام کرنا چاہیے۔ انہوں نے قدرت کی آزادی، دریاؤں، پہاڑوں، پرندوں کی آزادی کا موازنہ انسانی بنائی ہوئی مختلف شناختوں اور سرحدوں کی پابندیوں سے کیا۔ انہوں نے اپنے چڑیا کے تحفظ کے پروگرام پر پاکستانی عوام کی جانب سے ملنے والے ردعمل کا بھی ذکر کیا۔ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے پاکستان کے اسکولوں اور طلباء کو ماحول دوست مواد سے گھونسلے بنانے کا طریقہ سکھایا ہے۔
آئی ڈبلیو ایس انڈیا کے صدر امیت کپور نے سرحد پار کے فنکاروں اور فن کے طلباء کے ساتھ اپنی بات چیت کے تجربات شیئر کیے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ زیادہ سے زیادہ نوجوانوں کو ایسے تخلیقی کاموں میں شامل کیا جانا چاہیے جہاں وہ اپنے خالص خیالات کو مختلف پینٹنگز میں ڈال سکیں۔ یہ پینٹنگز جذبات، خواب اور امیدیں ہیں جو اشارہ کرتی ہیں کہ مستقبل کیسا ہونا چاہیے۔
لاہور کے صحافی آصف محمود نے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان امن قائم کرنے کی مستقل کوششوں کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ خطے میں امن کے لیے طلبا نے جس طرح اپنے جذبات اور خیالات کو رنگوں کے ذریعے کینوَس پر اتارا ہے اس پیغام کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔
آغاز دوستی کے کوآرڈنیٹر نتن مٹو نے کہا کہ ہمارا مقصد اسکول کے طلباء کے ساتھ کام کرنا ہے کیونکہ وہ مستقبل کے ذمہ دار شہری ہیں اور ان کا مستقبل نفرت سے پاک، تشدد سے پاک اور جنگ سے پاک ہونا چاہیے۔ جب طلباء کوئی فن تخلیق کرتے ہیں، تو وہ اپنے جذبات، اپنے خیالات اور اپنے خوابوں کو پیش کرتے ہیں۔ جب ہم ان فنون کو کیلنڈر میں دیکھتے ہیں، تو ہمیں احساس ہوتا ہے کہ ہمیں ان طلباء سے بہت کچھ سیکھنا چاہیے۔
Tagsپاکستان.
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: پاکستان
پاکستان
کھیل
امن کلینڈر
نے کہا کہ
کے طلباء
انہوں نے
کا اجرا
پڑھیں:
پاکستان کو موسمیاتی فنڈنگ کے لیے سیکٹورل حکمت عملی کی ضرورت ہے. ویلتھ پاک
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔20 جنوری ۔2025 )پاکستان کو عالمی
موسمیاتی مالیات کو موثر طریقے سے استعمال
کرنے کے لیے ایک مضبوط بینک ایبل سیکٹورل حکمت عملی کی ضرورت ہے ایسا کرنے سے ملک کی موسمیاتی لچک کی کوششیں بین الاقوامی فنڈنگ کے مواقع اور مالیاتی اداروں کے ساتھ ہم آہنگ ہو جائیں گی وزارت موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی رابطہ کاری کے ترجمان محمد سلیم نے ویلتھ پاک کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہاکہ آب و ہوا کے اثرات سے سب سے زیادہ خطرے والے 10 ممالک میں شامل
پاکستان نے ابھی تک سیکٹر کے لیے مخصوص فنڈنگ کی حکمت عملی نہیں بنائی ہے جو بین الاقوامی موسمیاتی فنانس کے بہاﺅ کو روک رہی ہے کسی بھی ملک کو فنانسنگ، فنڈنگ یا عطیہ کے لیے ایڈجسٹ کرنے کے لیے تمام بین الاقوامی ایجنسیوں کو اچھی طرح سے طے شدہ قابل عمل منصوبوں کی ضرورت ہوتی ہے جو واضح نتائج دکھاتے ہوں.
انہوں نے کہا کہ پیرس معاہدے کے تحت پاکستان کی قومی سطح پر طے شدہ شراکت این ڈی سی گرین ہاﺅس گیس کے اخراج میں کمی کو کم کرتی ہے لیکن تکنیکی صلاحیت اور ادارہ جاتی خامیاں مذکورہ مقاصد کے نتائج پر مبنی منصوبوں میں رکاوٹ ہیں انہوں نے کہاکہ ماحولیاتی موافقت اور تخفیف کی حکمت عملیوں کو لاگو کرنے کے لیے شعبے سے متعلق نقطہ نظر کی اشد ضرورت ہے یہ نقطہ نظر نجی شعبے کی شمولیت، سرکاری اداروں کے فعال کردار اور معاشی استحکام کو یقینی بنانے کے لیے بھی اہم ہیں اس مقصد کے لیے موسمی اثرات سے براہ راست نمٹنے والے مختلف کلیدی شعبوں پر توجہ مرکوز کی جانی چاہیے ان شعبوں میں شہری منصوبہ بندی، آبی وسائل، توانائی اور زراعت شامل ہیں مناسب پالیسی ترغیبات اور رسک شیئرنگ میکانزم کے ساتھ قابل تجدید توانائی کے منصوبے گرین فنانس کو راغب کر سکتے ہیں.
انہوں نے کہا کہ متعلقہ سرکاری اداروں میں سنٹرلائزڈ کلائمیٹ فنانس یونٹ کا قیام ادارہ جاتی صلاحیت کو بڑھانے اور پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کو فروغ دینے کے لیے بہت ضروری ہے اس سے بین الاقوامی عطیہ دہندگان کے ساتھ فنانسنگ کے عمل اور مصروفیات کو ہموار کرنے میں مدد ملے گی انہوں نے کہاکہ جیسے جیسے بین الاقوامی موسمیاتی فنانس پول بڑھ رہا ہے پاکستان فنڈ کے استعمال میں احتساب اور شفافیت کا مظاہرہ کرکے ایک قابل اعتماد مقام کے طور پر اپنی پوزیشن کو محفوظ بنا سکتا ہے اس کے اثرات سے نمٹنے کے لیے نہ صرف ایک موثر آب و ہوا ضروری ہے بلکہ یہ ملک کے لیے ایک اقتصادی موقع بھی ہے اس کام کو پورا کرنے کے لیے ممکنہ معاون مالیاتی اداروں میں گھریلو مالیاتی نظام بین الاقوامی موسمیاتی مالیاتی ایجنسیاں اور نجی شعبے شامل ہو سکتے ہیں پاکستان میں گرین ٹیکنالوجی سے متعلق منصوبے شروع کرنے کے لیے سرمایہ کاری کی ضرورت ہے.
انہوں نے کہاکہ متعلقہ پاکستانی اسٹیک ہولڈرز اور اختراع کاروں کو ان کے عالمی ہم منصبوں کے ساتھ جوڑنا ضروری ہے تاکہ سبز اختراعی منصوبوں اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لیے موسمیاتی مالیات کا فائدہ اٹھایا جا سکے جوقابل ضمانت آب و ہوا کی سمارٹ ٹیکنالوجیز کو بڑھانا ایک سرسبز اقتصادی مستقبل کی تعمیر میں بھی مدد کرے گا. سینٹر فار رورل چینج سندھ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹرمحمد صالح منگریو نے پاکستان میں موسمیاتی مالیات اور دلچسپی رکھنے والے سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے لیے بینک ایبل سیکٹورل حکمت عملیوں کی اہمیت پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان بہت سے بین الاقوامی ذرائع سے مالی مدد حاصل کرنے کے لیے سخت جدوجہد کر رہا ہے متعدد گرانٹس، رعایتی قرضے اور تکنیکی امداد بشمول نقصان کے فنڈز، صفر اثر کے ساتھ اقدامات کے طور پر باقی ہیں اس کی بنیادی وجہ بین الاقوامی سطح پر تکنیکی پیشکش کی کمی ہے انہوں نے کہا کہ اس مسئلے پر قابو پانا موسمیاتی فنانس حاصل کرنے کے لیے بہت ضروری ہے دوسری صورت میںموسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے حکمت عملی سے نمٹنا مشکل ہو جائے گا پاکستان کو ایک شاندار احتساب اور شفافیت کا نظام متعارف کرانے کی ضرورت ہے جس میں فنڈنگ کا صحیح استعمال اور حتمی نتائج دکھائے جائیں.
انہوں نے کہاکہ بینک ایبل کلائمیٹ فنانس مارکیٹ کے مواقع نہ صرف بین الاقوامی مالیاتی اداروں کو اپنی طرف متوجہ کریں گے بلکہ قومی اور بین الاقوامی سطح پر کاربن مارکیٹوں سے متعلق نجی سرمایہ کاروں کی حوصلہ افزائی بھی کریں گے لہذا پالیسی سازوں کو اس نقطہ نظر پر سنجیدگی سے توجہ مرکوز کرنی چاہیے.