عوام کو حقیقی نمائندگی چاہیے
اشاعت کی تاریخ: 21st, January 2025 GMT
ایک عام انسان کی کمزوری ہوتی ہے کہ وہ کسی بھی قسم کی تنقید کو برداشت نہیں کر پاتا اور اس کا نقصان یہ ہے کہ آدمی اچھے ساتھیوں سے محروم ہوکر رہ جاتا ہے۔ اگر آپ وطنِ عزیز کی بڑی سیاسی جماعتوں اور اُن کے رہنماؤں پر نظر دوڑائیں تو یہ بات واضح طور پر نظر آجاتی ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت کا سربراہ یا ان کے ساتھی اور حتیٰ کہ ان کے حواری بھی تنقید برداشت نہیں کر پاتے اور نہ ہی تنقید سننے کا حوصلہ رکھتے ہیں بلکہ اپنے حریفوں کو پوری شدمد کے ساتھ بےجا تنقید کا نشانہ بنانا اپنا اہم فریضہ سمجھتے ہیں اور اس سلسلےمیں یہ لوگ ہر حد پارکرجاتےہیں اور ان کے نتائج سے عوام بخوبی واقف ہے کہ حال اور مستقبل میں کیا کچھ ہوتارہا ہےیااب بھی ہورہا ہے۔ پاکستان پییپلزپارٹی، پاکستان مسلم لیگ(ن)، تحریک انصاف، جماعت اسلامی، مسلم لیگ(ق) اور ان سے ٹوٹ کر بننے والی متعددجماعتوں میں بھی دیکھ لیں کہ ان لوگوں میں تنقید برداشت کرنے کا حوصلہ ہی نہیں ہے اور اس سب کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جماعتیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوکر رہ جاتی ہے اور ان سے مفاد پرست اور ملک دشمن عناصر دیگر جماعتیں بنا کر اپنے عزائم کے استعمال کے لیے کام لینے کی کوشش کرتی ہیں۔ یہی صورتِ حال حکومت کے ساتھ بھی رہتی ہے وہ حزبِ اختلاف کو برداشت نہیں کرتی لیکن ساتھ لے کرچلنے کا راگ ہر وقت الاپتی نظر آتی ہے لیکن عملی طور پر ایسا دیکھنا عوام کو نصیب نہیں ہوتا کہ یہ لوگ آپس میں خوش گوار ماحول قائم رکھ پائیں۔ اگر حزبِ اختلاف مضبوط بن کر ابھرےتو حکمران جماعت اپنے مختلف اداروں (ایجنسیوں) کے ذریعے یا مختلف ترغیبات دے کر اس میں دراڑیں ڈالنے کی کوشش کرتی ہے اور اس حربہ میں وہ کافی حد تک کامیاب بھی رہتی ہے کیونکہ ہر جماعت میں کچھ مفاد پرست اور کمزور سیاسی رہنما ہوتے ہیں جن کی کمزوری کا فائدہ حکمران اور ان کو لانے والے بھرپور طریقے سے اٹھا کر اپنے مفادات کی تکمیل بہ احسن طریقے سے کر پاتے ہیں۔
اس وقت حکومت اور حزبِ اختلاف کے درمیان محاذ آرائی اور کشیدگی روز بروز زور پکڑ رہی ہے جس سے سیاسی انتشار میں مزید اضافہ ہونے کا قوی امکان پیدا ہو رہا ہے اور اس سب سے وطنِ عزیز کی عوام میں تردد اور بددلی بہت تیزی کے ساتھ پھیل رہی ہے۔ صدر اور وزیرِ اعظم کا ارشاد اپنی جگہ کہ ’’وطنِ عزیز میں سیاسی استحکام کے دور کا آغاز ہوگیا ہے اور اس کے ساتھ ہی معشیت مستحکم ہونے کے ساتھ ہی ملک تیزی کے ساتھ ترقی کی طرف گامزن ہوگیا ہے اور بہت جلد ہی پاکستان ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہو جانے گا۔‘‘ اللہ رب العزت کرےکہ ایسا ہی ہو جائے آمین لیکن حقیقت یہ ہے کہ سرکاری سبز باغ دکھاتے بیانات کی روشنی کے برعکس ملک میں سیاسی و انتظامی امن و چین کی فضا مضطرب نظر آرہی ہے۔ جمہوریت کی صرف ایک ہی تعریف ہے اور وہ یہ ہے کہ عوام کی حکومت عوام کے لیے اور آزاد عوامی حق رائے دہی سے بنائی جائے۔ جمہوریت صرف جمہوریت ہے اس میں کسی اور چیز کا عمل دخل نہیں ہونا چاہے اور نہ ہی ہوسکتا جیسا کہ آج کل کیا جاتا ہے کہ ’’پائیدار جمہوریت‘‘ اس کا تصور وطنِ عزیز میں اب نہیں رہا ہے۔ حزبِ اختلاف اب یہ سوچ رہی ہے کہ ملک میں حقیقی جمہوریت اور پارلیمینٹ کی بالادستی کے ساتھ اپنی جماعت کی بقاء کے لیے عوام کو سڑکوں پر لائیں گے، اس سلسلے میں یہ عرض کرنا ہے کہ اس طرح کی سوچ صحیح نہیں ہے۔ احتجاجی سیاست سے کسی بھی فرد کا فائدہ نہیں ہوسکتا بلکہ اس کے کئی منفی اثرات وطنِ عزیز سے زیادہ عوام پر ہوتے نظر آرہے ہوتے ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر روزی کمانے والا طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہو جاتا ہے اور وطنِ عزیز کی معیشت اور ترقی پہ کیا کیا منفی اثرات مرتب ہونے کے ساتھ ساتھ وطنِ عزیز کا اقوامِ عالم میں تاثر بھی متاثر ہو کر رہ جاتا ہےاور اس سے سرمایہ کاری کے مواقع بھی کم سے کم ہوتے نظر آرہے ہوتے ہیں لیکن ان سب سے سیاسی جماعتوں کو کوئی سروکار نہیں ہوتا، ان کو صرف اپنے مفادات ہی عزیز ہوتے ہیں چاہےاس کے لیے انہیں کچھ بھی کرنا پڑے وہ اس سے گریز نہیں کرتے اور اس احتجاجی سیاست کے انجام دیکھ جائے کو اس سے کچھ بھی حاصل وصول ہوتا نظر نہیں آتا سوائے نقصانات کے۔ اب وقت آگیا ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کو نہایت سنجیدگی کے ساتھ سوچنا پڑے گا اور اپنے اندازِ سیاست میں انہیں تبدیلی لانے کی اشد ضرورت ہے۔
جب سے وطنِ عزیز میں الیکشن ہوئے ہیں عوام دیکھ رہی ہیں کہ اس عرصہ میں کیا ہوتا رہا ہے، قانون ساز اداروں میں عوام الناس کی بھلائی کے لیے کوئی خاطر خواہ کام نہیں کیا گیا سوائے چند ترامیم کے اور وہ بھی جو ان کے مفادات کے لیے اہم و ضروری تھیں، جن کے نتیجہ میں حکمران یا ان کو یہ منصب سوپنے والوں کو ہی فائدہ حاصل ہوسکتا ہے اور وہ حاصل بھی کررہے ہیں اور یہ بات باآسانی وطنِ عزیز کے باشعور عوام سمجھ رہی ہے۔
( جاری ہے )
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: سیاسی جماعت ہے اور اس ہوتے ہیں جاتا ہے کے ساتھ نہیں کر اور ان کے لیے رہی ہے
پڑھیں:
سوشل میڈیا، گلوبل سیفٹی انڈیکس اور پاکستان کی حقیقت
سوشل میڈیا بھی ایک سمندر ہے، جس کی تہوں میں پوری کائنات کی معلومات چھپی ہوئی ہیں۔ اس کی سطح پر تیرتی خبروں، علمی و ادبی پوسٹوں اور مزاحیہ خاکوں کی بے شمار اقسام ہیں۔ جب کوئی ایک بار اس کے پانیوں میں قدم رکھتا ہے تو پھر اس میں اترتے ہی جاتا ہے۔ دلچسپ مواد کی کشش اسے جکڑ لیتی ہے اور وہ معلوماتی لہروں کے بیچ بھنور میں پھنس جاتا ہے۔
گزشتہ روز مری سے پنڈی سفر کے دوران فیس بک پر چلتی ایک خبر پر نظر پڑی۔ عنوان کی دلفریبی نے نظریں روک لیں: ’’گلوبل سیفٹی انڈیکس پر پاکستان بھارت سے اوپر‘‘۔ تفصیل پڑھ کر دل کو عجیب اطمینان ملا کہ وطن عزیز کے بارے میں کوئی مثبت اور حوصلہ افزا خبر ملی۔ ورنہ منفی خبروں اور افواہوں کی زد میں تو یہ مسکین ملک ہر وقت رہتا ہے۔ ملک دشمن عناصر اس کی ساکھ کو نقصان پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے، جس کے نتیجے میں ملکی تجارت اور سرمایہ کاری متاثر ہوتی ہے۔ خاص طور پر سیاحت جیسی اہم انڈسٹری پر اس کے منفی اثرات نمایاں ہوتے ہیں، اور بیرونی ممالک کے سیاح پاکستان کے سفر سے گریز کرتے ہیں۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کسی بھی ملک کی بیرونی تجارت اور سیاحت اس کے اندرونی حالات پر منحصر ہوتی ہے۔ اگر امن و امان کی صورت حال بہتر ہو، سفر محفوظ ہو، جرائم کی شرح کم ہو اور معیار زندگی اچھا ہو تو بیرونی سیاح اور سرمایہ کار خود بخود کھنچے چلے آتے ہیں۔ لیکن اگر حالات اس کے برعکس ہوں تو معیشت تنزلی کا شکار ہو جاتی ہے۔
سوشل میڈیا پر کچھ ایسی ویب سائٹس موجود ہیں جو سیاحوں، مسافروں اور سرمایہ کاروں کو اپنے منصوبے مرتب کرنے میں مفید معلومات اور راہنمائی فراہم کرتی ہیں۔ ان میں سے ایک ’’نمبیو‘‘ ہے، جسے 2009 ء میں سربیا سے تعلق رکھنے والے ایک گوگل ملازم نے تخلیق کیا تھا۔ یہ ایک آن لائن ڈیٹا بیس ہے جہاں دنیا بھر کے صارفین مسلسل اپنے ملک اور شہر کے سماجی، سیکورٹی اور اقتصادی حالات کے بارے میں معلومات فراہم کرتے ہیں۔ اس ویب سائٹ پر معیار زندگی، تعلیمی سہولتوں، صحت کے شعبے، ہوٹلنگ، ٹرانسپورٹ، آلودگی اور جرائم کی شرح جیسے عوامل کو ایک خاص اسکیل پر پرکھا جاتا ہے، جس کے بعد متعلقہ ممالک اور شہروں کی رینکنگ ترتیب دی جاتی ہے۔ اس کا ایک اہم فیچر ’’گلوبل سیفٹی انڈیکس‘‘ ہے، جو دنیا کے محفوظ ترین اور غیر محفوظ ترین ممالک کی درجہ بندی کرتا ہے۔
سال 2025 ء کے اعداد و شمار کے مطابق سیاحت، سفر اور قیام کے لیے دنیا کا سب سے زیادہ موزوں اور محفوظ ملک ’’ایڈورا‘‘ ہے، جو کہ فرانس اور اسپین کے درمیان واقع ہے اور اس کی آبادی تقریبا اسی ہزار ہے۔ اسی ویب سائٹ کے مطابق وینزویلا کو دنیا کا سب سے غیر محفوظ ملک قرار دیا گیا ہے، جو اس رینکنگ میں آخری نمبر پر ہے۔
اگر ہم پاکستان کی پوزیشن دیکھیں تو گلوبل سیفٹی انڈیکس 2025 ء کے مطابق پاکستان 3.56 پوائنٹس کے ساتھ 65 ویں نمبر پر ہے، جبکہ بھارت 7.55 پوائنٹس کے ساتھ 66 ویں نمبر پر ہے۔ اگرچہ دونوں ممالک کے درمیان بہت کم فرق ہے، مگر سیفٹی کے معاملے پر پاکستان کو بدنام کرنے والوں کے لیے یہ ایک منہ توڑ جواب ہے۔ پاکستان کے حالات اتنے خراب نہیں جتنا کہ ہمارے مخالفین بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔ البتہ، اندرونی سطح پر سیاسی عدم استحکام اور تفریق کی وجہ سے ایک خاص طبقہ ملکی مفاد کی پرواہ کرنے سے بھی گریزاں ہے۔ بعض افراد اپنے سیاسی اختلافات اور ذاتی مفادات کی خاطر ملک کے خلاف سوشل میڈیا پر منفی پروپیگنڈا پھیلانے میں مصروف رہتے ہیں، جو کسی بھی محب وطن شہری کے شایان شان نہیں۔
ہمیں چاہیے کہ سیاسی اختلافات ضرور رکھیں، حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کریں، لیکن جب بات ملکی مفاد اور سلامتی کی ہو تو سب کچھ ایک طرف رکھ کر یکجہتی کا مظاہرہ کریں۔ دشمن کے مذموم عزائم کو ناکام بنانے کے لیے ہمیں اپنے ملک کے مثبت پہلوئوں کو اجاگر کرنا ہوگا اور کمزور گوشوں کی نشاندہی کر کے اصلاحی تجاویز دینی ہوں گی۔ وقت کی نزاکت کا یہی تقاضا ہے اور ہمیں اس کا ادراک اور احساس کرنا ہوگا ۔ حکومتیں بدلتی رہتی ہیں ۔ آج کسی اور کل کسی اور سیاسی پارٹی کے ہاتھ میں زمام اقتدار ہو گا ۔ محض ایک عارضی اور مخصوص مدتی مفاد کی خاطر یا سیاسی بغض میں ملکی سالمیت اور بقا کو داو پہ نہیں لگانا چاہیے۔ ملکی ترقی اور خوشحالی کے اشاروں پر فسردہ نہیں بلکہ خوشی اور فخر محسوس کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس کے لئے ہمیں اپنی نفسیات اور ترجیحات کا از سر نو جائزہ لینا ہوگا ۔ قومی ترقی کے سفر میں ملنے والی کامیابیوں کو اجتماعی خوشی اور فخر کے جذبے کے ساتھ منانا ہو گا ۔ یہی مہذب ، متحد اور غیرت مند قوموں کا خاصا ہوتا ہے ۔