انگلش کرکٹر پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) اور انڈین پریمئیر لیگ (آئی پی ایل) کیلئے 2 الگ الگ قوانین پر اپنے بورڈ پر بھڑک اُٹھے۔

انگلینڈ کے ورلڈکپ فاتح ٹیم کے رکن جیمز ونس کا کہنا ہے کہ پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) مختصر ٹورنامنٹ ہے، وہاں کھیل کر پلیئرز ڈومیسٹک سے زیادہ محروم نہیں ہوتے جبکہ آئی پی ایل طویل ٹورنامنٹ ہے، وہاں ڈومیسٹک پلیئرز کا جانا نہیں بنتا تھا۔

جیمز ونس نے سوال اٹھایا کہ آئی پی ایل کی اجازت کیوں؟ پی ایس ایل کی کیوں نہیں؟ ممکن ہےکہ قوانین میں یہ تضاد بورڈز کے باہمی تعلق کی وجہ سے ہو۔

انگلش کرکٹر کا کہنا تھا کہ پی ایس ایل ڈرافٹ میں مزید انگلش پلیئرز پِک ہوتے تو اور پلیئرز بھی اپنا ڈومیسٹک ریڈ بال کنٹریکٹ چھوڑ دیتے لیکن پی ایس ایل ٹیموں نے این او سی کے خدشےکی وجہ سے اکثر انگلش پلیئرز کو منتخب نہیں کیا۔

جیمز ونس کا کہنا تھا کہ ای سی بی کی نئی پالیسی انگلش کرکٹرز کیلئے مددگار ثابت نہیں ہورہی بلکہ مشکلات کا سبب بن رہی ہے۔

خیال رہے کہ انگلش بیٹر جیمز ونس نے حال ہی میں پی ایس ایل کی خاطر اپنا ریڈ بال کنٹریکٹ منسوخ کیا ہے۔

جیمز ونس نے پی ایس ایل کے لیے انگلش فرسٹ کلاس سیزن کو خیرباد کہہ دیا ہے اور وہ اس سال صرف ہمپشائر کی جانب سے وائٹ بال کرکٹ کھیلیں گے۔

جیمز ونس کاؤنٹی چیمپئن شپ میں ہمپشائر کی قیادت سے بھی دستبردار ہوگئے ہیں۔

واضح رہے کہ انگلش بیٹر جیمز ونس پی ایس ایل 10 میں کراچی کنگز کا حصہ ہیں۔

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: پی ایس ایل پی ایل ایل کی

پڑھیں:

صلح ہی کرنی تھی تو جنگ کیوں چھیڑی؟

جنگوں کی تاریخ میں لاشوں کی تعداد اور تباہی کی مقدار کو کبھی فتح و شکست کا پیمانہ نہیں سمجھا گیا ، بلکہ حصول مقصد فتح وشکست کی بنیاد قرار پاتا ہے۔ آزادی کی جنگوں میں اس اصول میں ایک اور چیز داخل ہوجاتی ہے اور وہ ہے ، حریت پسندوں کا ثبات ، اگر وہ تن ،من، دھن سب کچھ دائو پر لگا کر بھی اپنے نعرہ مستانہ پر قائم ہیں ، تو فاتح وہی ہیں ،جو کھو دیا وہ ان کی قابل فخر قربانی ہے ، جو تحریک آزادی کا ایسا سرمایہ قرار پاتی ہیں ،جو تحریکوں کو کمزور لمحات میں حوصلہ عطا کرتا ہے اور بے سروسامانی کے عالم میں مایوسیوں کو قریب نہیں آنے دیتا۔ ان قربانیوں پر ان کی نسلیں ہی نہیں ، تاریخ حریت بھی صدا فخر کرتی ہے،کہ سب کچھ قربان کردینے کے بعد بھی وہ اپنے عزم پر قائم رہے اور دشمن اپنی بے پناہ قوت اور بہیمانہ مظالم کے باوجود ان کے قلب وجگر سے جذبہ حریت کو نکالنے میں ناکام رہا ۔تاریخ سرجھکا کر ان مجاہدین کی عظمت کو سلام پیش کرتی ہے جنہوں نے اپنی پوری نسل قربان کردی ، اپنی آنکھوں کے سامنے بچوں کو تڑپتے دیکھا ، بھائیوں کے لاشے کاندھوں پر اٹھائے ، اپنے کوچہ وبازار اور گھروں کو ملیا میٹ ہوتے دیکھا ، مصائب کا مقابلہ کیا لیکن اپنے مقصد سے سر مو بھی انحراف نہیں کیا ۔ یہی ان کی سب سے بڑی کامیابی اور فتح ہے ، جبکہ دشمن کے لئے ایک شرمناک شکست،شکست فاش ، کہ انسانیت کے درجے سے نیچے گرکر ، شرمناک اور سفاک طرز عمل کےباوجود وہ شمع آزادی کو بجھانا تو کیا اس کی لو کم کرنے میں بھی کامیاب نہیں ہو سکا ۔ غزہ کی اس 15مہینوں پر مشتمل جنگ کا ایک ایک لمحہ اور اب جنگ بندی کا یہ معاہدہ حماس کے مجاہدین اور فلسطینیوں کی فتح اور اسرائیل و امریکہ کی شرمناک شکست فاش کا اعلان ہے ۔ حماس اور فلسطینی آج بھی اپنے مقصد پر کاربند ہیں ، مکمل آزادی سے کم کسی چیز کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں ، قربانیوں سے تھکے نہیں ، جھکے نہیں ، جنگ بندی کی درخواست لے کر کسی فرعون کے در پر سجدہ ریز نہیں ہوئے ، یہی ان کی فتح اور کامیابی ہے۔ دوسری جانب اسرائیل اور امریکہ جو غزہ کو مٹادینے ، فلسطینیوں کو ختم کردینے کے نعرے بلند کرتے نہیں تھکتے تھے ، جن کا اعلان تھا کہ قیدیوں کی بازیابی تک وہ جنگ بندی نہیں کریں گے ، وہ مجبور ہوئے کہ معاہدے کے تحت سودے بازی کرکے اپنے قیدی رہا کروائیں ۔ ان کےتین مقاصد تھے ، فلسطینیوںکے جذبہ حریت کو ختم کرنا، نہیں کر سکے ، بلکہ اگریہ چنگاری تھی تو اب الائو بن چکی ہے ،دوسرا مقصد تھا حماس کو بے اثر کرنا ، بری طرح ناکام رہے ، پہلے یہ ایک تنظیم تھی ، اب جذبہ اور نظریہ بن چکی ہے ،بلکہ عالمی بساط پر امریکہ اور اسرائیل کے مقابلے میں تسلیم شدہ فریق ، تیسرا مقصد تھا قیدیوں کی رہائی ، اس میں بھی شرمناک ہزیمت ان کا مقدر بنی کہ معاہدہ کی بھیک مانگنے پر مجبور ہوئے ۔ یہ کامیابیاں حماس مجاہدین کی ثابت قدمی ،للہیت اور بالغ نظر قیادت کی بے لچک مگر زمینی حقائق سے قریب تر حکمت عملی کا نتیجہ ہے ۔ حماس کی اس جنگ میں اسماعیل ھانیہ اوریحییٰ شینوار ایسے حکمت کار ، منصوبہ ساز عسکری و سیاسی دماغ کے طور پر دانش عالم کے سامنے آئے ہیں کہ صدیوں تک ان کی عسکری حکمت عملی کو دنیا بھر کے مجاہدین آزادی نمونے کے طور پر اختیار کریں گے ، کوئی شبہ نہیں کہ دنیا کی جنگی درس گاہوں میں حماس کے ان شہ دماغوں کی ستریٹجی کو پڑھا اور پڑھایا جائے گا ۔
المیہ مگر یہ ہے کہ ہمارے معاشرے کے اندر سے تذبذب کا شکار ، اپنی شناخت کے حوالہ سے احساس کمتری کے مارے بعض عناصر جو ہر کامیابی میں کیڑے نکالنے کے عادی ہیں ، انہیں پہلے اس جنگ پر اعتراض تھا ، اب وہ جنگ بندی پر بھی معترض ہیں ، یہ وہ لوگ ہیں ، جو خود تنکا بھی توڑنے کی صلاحیت نہیں رکھتے البتہ دوسروں پر اعتراض کے نشتر چلانے میں ید طولیٰ کے حامل ہواکرتے ہیں۔ ایک اعتراض بڑے شد ومد سے اٹھایا جا رہا ہےکہ’’ صلح ہی کرنی تھی تو جنگ کیوں چھیڑی؟‘‘ سوشل میڈیا بھرا پڑا ہے ، ایسے نفسیاتی مریضوں سے ، اصولی طور پر یہ لاعلاج مریض ہیں ، انہیں نظر انداز کردینا ہی بہترین حل ہے ، لیکن ’’فرینڈز آف فلسطین پاکستان ‘‘ کے نام سے روز اول سے فلسطینیوں کی حمائت میں سر گرم گروپ نے ان دانش دشمنوں کو مدلل اور مربوط جواب دیا ہے جو ان کے وٹس ایپ گروپ میں شیئر کیا گیا ہے ۔ اس جواب سے سو فیصد متفق ہونے کی بنا کر استفادہ عام کی خاطر پیش خدمت ہے ۔ ’’صلح ہی کرنی تھی تو جنگ کیوں چھیڑی؟ جیسے غلط اعتراض کا مدلل جواب۔جب سے صلح کی خبریں آنا شروع ہوئی تب سے مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فورمز پر یہ اعتراض کیا جارہا ہے ہے کہ ’’صلح ہی کرنی تھی تو جنگ کیوں چھیڑی؟‘‘ ، تو یہ اعتراض بظاہر معصومانہ لگتا ہے، لیکن اس کے پیچھے کئی غلط فہمیاں اور حقیقت سے انکار موجود ہے۔اس غلط اعتراض کو حماس کی حالیہ جدوجہد کے درست تناظر میں دیکھنا ضروری ہے۔
آئیے! پہلے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ صلح کی پیشکش کہاں کی جاتی ہے؟صلح کی بات تب ہوتی ہے جب دونوں فریق برابری کے اصولوں پر ایک معاہدے کے لیے تیار ہوں۔جب کہ اسرائیل نے کبھی فلسطینیوں کو مساوی حقوق دینے یا ان کی زمینوں اور گھروں پر ناجائز قبضے ختم کرنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔اسرائیل کی پالیسی ہمیشہ جارحیت، زمینوں پر قبضہ، اور انسانی حقوق کی پامالی پر مبنی رہی ہے۔ ایسے میں بظاہر برابری کی بنیاد پر صلح کی بات کرنا صرف ایک دھوکہ ہوتا ہے جب کہ حماس اور اسرائیلی معاہدہ کہیں بھی برابری نہیں۔اسرائیل نے حماس کے آگے گھٹنے ٹیکے ہیں چند قیدیوں کے بدلہ ہزاروں فلسطینی رہا کیے جائیں گے۔
اب ہم اس پر غور کرتے ہیں کہ حماس کی جنگ ناگزیر کیوں تھی؟ اوربے گھر فلسطینیوں کا آخر مقدمہ کیا تھا؟اسرائیل نے لاکھوں فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے نکال کر پناہ گزین بنا دیا۔ یہ مسئلہ صرف حماس کا نہیں بلکہ پوری فلسطینی قوم کا ہے۔بچوں اور عورتوں پر مظالم اسرائیل کے مسلسل حملے، گھروں کی مسماری، اور محاصرے نے فلسطینی عوام کی زندگی کو جہنم بنا ہوا تھا حماس کا اسرائیل پر جوابی حملہ ان مظالم کے خلاف ایک مزاحمت تھی۔
( جاری ہے )

متعلقہ مضامین

  • انگلش پریمئر لیگ ، ایورٹن نے ٹوٹنہم ہاٹ پور کو 3-2سے ہرادیا
  • سزا کے بعد احتجاج کیوں نہیں ہوا
  • خیبرپختونخوا:صوبائی حکومت نے نگراں دور میں بھرتی سرکاری ملازمین کو ہٹانے کیلئے قانون تیار کرلیا
  • دعوت کے باوجود ٹرمپ کی تقریب حلف برداری میں شرکت کیلئے کیوں نہیں گئے؟عارف علوی نے وجہ بتا دی
  • بوم بوم شاہد آفریدی کا پاکستان انٹرنیشنل اسکول (انگلش) میں شانداراستقبال
  • خیبر پختونخوا، خواتین پر تشدد کی روک تھام کیلئے قانون کی منظوری کے 4 سال بعد کمیٹیاں تشکیل
  • صلح ہی کرنی تھی تو جنگ کیوں چھیڑی؟
  • بلاول بھٹو نے پارٹی کے پارلیمانی امور کیلئے قانون سازی کی 10رکنی کمیٹی قائم کردی  
  • کیا ٹرمپ آکر بانی پی ٹی آئی کی رہائی کیلئے دباؤ ڈالیں گے؟ شاہد خاقان عباسی کا اہم بیان آگیا