اسلام آباد ہائی کورٹ نے استفسار کیا ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کیسے ٹریبونل کے جج کو تبدیل کر سکتا ہے؟ 

اسلام آباد ہائی کورٹ میں اسلام آباد کے تین حلقوں کا الیکشن ٹریبیونل تبدیل کرنے کے الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف کیس کی سماعت ہوئی، چیف جسٹس عامر فاروق نے کیس کی سماعت کی، ایڈووکیٹ فیصل چوہدری اور شعیب شاہین اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش ہوئے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ نے ریٹائرڈ جج کے نئے ٹریبیونل کو کارروائی آگے بڑھانے سے روکنے کے حکم میں 6 فروری تک توسیع کردی، عدالت نے کہا کہ الیکشن کمیشن کیسے ٹریبونل کے جج کو تبدیل کر سکتا ہے؟ 

 وکیل الیکشن کمیشن  نے کہا کہ  الیکشن کمیشن کیسے ٹریبونل کے جج کو تبدیل کر سکتا ہے اسکا جواب ہم دیں گے، الیکشن کمیشن و دیگر فریقین نے جواب جمع کروانے کے لیے وقت مانگ لیا۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے الیکشن کمیشن و دیگر فریقین کو جواب جمع کروانے کے لئیے وقت دے دیا،  چیف جسٹس   نے کہا کہ آج آپکی دو درخواستوں پر سماعت مقرر تھی تیسری کل مقرر یے۔

 شعیب شاہین  نے کہا کہ ہم نے کچھ وائریز ( قانون کی کچھ شقوں) کو بھی چیلنج کر رکھا ہے ،چیف جسٹس نے کہا کہ کل والی درخواست اور وائریز  کو بھی انھی درخواستوں کے ساتھ 6 فروری کو سن لینگے۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے نئے الیکشن ٹریبونل کو کاروائی سے روکنے کے حکم میں 6 فروری تک توسیع کردی، پی ٹی آئی امیدواروں کی درخواستوں پر سماعت 6 فروری تک ملتوی کر دی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: الیکشن کمیشن اسلام آباد نے کہا کہ چیف جسٹس

پڑھیں:

الیکشن کمیشن نے حکومت کے حق میں جھکا ؤظاہر کیا،سپریم کورٹ

سپریم کورٹ نے عادل بازئی کیس میں کہا ہے کہ الیکشن کمیشن نے ایک سیاسی جماعت اور حکومت کے حق میں جھکا ؤکو ظاہر کیا، عادل بازئی کبھی بھی ن لیگ کے رکن نہیں رہے مگر الیکشن کمیشن نے صرف ن لیگ کے سربراہ کی بات پر یقین کیا۔ سپریم کورٹ نے عادل بازئی کو ڈی سیٹ کرنے کے خلاف اپیل پر تحریری فیصلہ جاری کردیا جسے جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا ہے ۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ کوئی ممبر پارلیمنٹ منحرف ہوجائے تو اسے شوکاز نوٹس جاری کرنا ضروری ہے ، الیکشن کمیشن یا ٹربیونل پارٹی ہیڈ کے ڈیکلریشن کا جائزہ لے کر اس کی تصدیق کرتا ہے ، پارٹی ہیڈ کے ڈیکلریشن کا تنازعہ ہو تو اسے فریقین سول کورٹ میں طے کر سکتے ہیں، الیکشن کمیشن حقائق کا خود سے جائزہ نہیں لے سکتا۔تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ہم یہ وضاحت کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ اس عدالت کی جانب سے 16 فروری 2024 کے رضا مندی کے حلف نامے کی اصلیت اور قانونی حیثیت کے بارے میں دیا گیا فیصلہ سول عدالت کے حتمی فیصلے سے مشروط ہے ، اپیل کنندہ کی جانب سے جعلی رضا مندی کے حلف نامے کی تیاری اور اس کے استعمال کے حوالے سے جو الزامات محمد شہباز شریف (جو اس وقت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور اب وزیر اعظم پاکستان ہیں) کے خلاف لگائے گئے ہیں، الزمات کی سنگینی کے پیش نظر ہم توقع کرتے ہیں کہ سول عدالت، ان معاملات کا فیصلہ جلد از جلد کریں گی۔جسٹس عائشہ ملک نے اضافی نوٹ میں لکھا کہ آئین واضح طور پر یہ فراہم کرتا ہے کہ حکومت کا اختیار صرف عوام کی مرضی پر مبنی ہے ، یہ مرضی عوام کے اپنے حقِ رائے دہی کے استعمال اور انتخابی و سیاسی عمل میں شرکت کے ذریعے ظاہر ہوتی ہے ، انتخابات بنیادی طریقہ ہیں جس کے ذریعے رجسٹرڈ ووٹر اپنے نمائندے منتخب کرتے ہیں، جو ان کی جانب سے حکومت کریں گے اور حکومت کے اختیارات کا استعمال کریں گے ، اس مقدمے کے حقائق ظاہر کرتے ہیں کہ الیکشن کمیشن عوام کی مرضی کو عملی جامہ پہنانے کی اپنی آئینی ذمہ داری نبھانے میں ناکام رہا۔

متعلقہ مضامین

  • الیکشن کمیشن کیسے ٹریبونل کے جج کو تبدیل کر سکتا ہے؟ اسلام آباد ہائیکورٹ کا استفسار
  • الیکشن کمیشن کیسے ٹریبونل کے جج کو تبدیل کر سکتا ہے؟ عدالت نے سوال اٹھا دیا  
  • انٹرا پارٹی الیکشن کیس: پی ٹی آئی نے آج بھی جواب جمع نہیں کرایا
  • انٹراپارٹی الیکشن کیس؛ الیکشن کمیشن کی پی ٹی آئی کو آئندہ سماعت تک جواب جمع کرانے کی ہدایت
  • سہولتوں کی فراہمی‘ بانی پی ٹی آئی کی اسلام آباد ہائیکورٹ میں متفرق درخواست
  • الیکشن کمیشن نے حکومت کے حق میں جھکا ؤظاہر کیا،سپریم کورٹ
  • الیکشن کمیشن نے ایک سیاسی جماعت اور حکومت کے حق میں جھکاؤ ظاہر کیا ،عدالت
  • ’’منی ٹریل کا ثبوت تو جسٹس قاضی فائز عیسٰی بھی پیش نہیں کر سکے تھے‘‘اسلام آباد ہائیکورٹ
  • اسد قیصر کی عبوری ضمانت میں 14 فروری تک توسیع