امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عہدے کا حلف لینے کے موقع پر بائبل پر بایاں ہاتھ نہیں رکھا۔

روایت کے تحت صدر اپنا ایک ہاتھ بائبل پر رکھتا ہے تاہم ڈونلڈ ٹرمپ نے ایسا نہیں کیا۔

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جان ربراٹس نے ان سے عہدے کا حلف لیا۔ اس موقع پر صدر کی اہلیہ میلانیا ٹرمپ دو بائبل تھامے رہیں۔

یہ دونوں بائبل وہ نہیں تھیں جو ٹرمپ بائبل کہلاتی ہیں اور جو ساٹھ ڈالر میں بیچی جارہی ہیں۔

ان میں سے ایک بائبل وہ تھی جو صدر ٹرمپ کی والدہ نے 1955 میں بیٹے کو اس وقت دی تھی جب ٹرمپ نے فرسٹ Presbyterian چرچ میں پرائمری اسکول گریجویشن مکمل کی تھی۔ جبکہ دوسری بائبل لنکن بائبل تھی۔ جس پر 1861میں امریکا کے 16 ویں صدر نے عہدے کا حلف لیا تھا۔

ان میں سے ایک بائبل خود ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی پہلے دور صدارت کا حلف لینے کے لیے بھی استعمال کی تھی۔

بائبل پر ہاتھ نہ رکھنے سے سوال پیدا ہوئے کہ ٹرمپ نے ایسا جان بوجھ کر کیا یا وہ بائبل پر ہاتھ رکھنا ہی بھول گئے اور یہ بھی کہ کسی نے انہیں ٹوکا کیوں نہیں؟

صدیوں سے امریکا میں یہ روایت رہی ہے کہ صدر اپنے عہدے کا حلف لیتے ہوئے اپنا ایک ہاتھ بائبل پر ضرور رکھتا ہے۔ جس کا مقصد اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ وہ امریکی آئین کے تحت سچائی اور انصاف قائم کرنے کے عزم پر کاربند رہے گا۔ تاہم ڈونلڈ ٹرمپ نے بائبل پر ہاتھ رکھے بغیر ہی پورا حلف لے لیا۔

امریکی آئین میں نومنتخب صدر کو اس بات کا پابند نہیں کیا گیا کہ وہ اپنا ایک ہاتھ بائبل پر رکھے۔

جارج واشنگٹن نے سب سے پہلے بائبل پر ہاتھ کر عہدے کا حلف لیا تھا، جان کوئنسی ایڈمز نے قانون کی کتاب کا انتخاب کیا جبکہ روز ویلٹ نے کسی کتاب کے بغیر ہی حلف لیا۔

اس لیے ٹرمپ کی حلف برداری میں آئینی لحاظ سے جھول نہیں تاہم اہم روایت توڑنے کے سبب ڈونلڈ ٹرمپ کے مخالفین کو ان کے خلاف اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کا موقع مل گیا ہے۔

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: ڈونلڈ ٹرمپ نے بائبل پر ہاتھ عہدے کا حلف حلف لیا

پڑھیں:

نواز شریف بلوچستان آکر کیا کریں گے، ان کے ہاتھ میں ہے کیا؟ سردار اختر مینگل

کوئٹہ (ڈیلی پاکستان آن لائن )بلوچستان نیشنل پارٹی(مینگل) کے سربراہ سردار اختر مینگل نے کہا ہے کہ نواز شریف یہاں آکر کیا کریں گے، ان کے ہاتھ میں کیا ہے۔ کیا ان کے پاس اختیارات ہیں۔
نجی سوشل میڈیا ویب سائٹ وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے سربراہ سردار اختر مینگل نے کہا کہ ابتداءمیں حکومت کے 2 وفود آئے تھے جن میں صوبائی وزراء شامل تھے۔ دونوں وفود نے ہمارے مطالبات سنے اور اقرار کیا کہ غلط ہو رہا ہے لیکن پھر وہ اپنی بے بسی کا رونا روتے رہے اور کہا کہ ہمارے ہاتھ میں کچھ نہیں۔ جس کے بعد حکومت سے ہماری کوئی بات نہیں ہوئی۔
ایک سوال کے جواب میں سردار اختر مینگل نے ترجمان بلوچستان حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اگر یہ ترجمان منتخب ہوتا تو اس کی باتوں کا جواب ضرور دیتا۔ کرایے پر لائے ہوئے ترجمانوں کو ہم ترجمان نہیں گردانتے۔ آج یہ حکومت انہیں تنخواہ دے رہی ہے تو ان کی ترجمانی کر رہے ہیں کل کسی اور کی ترجمانی کریں گے۔
’جہاں تک بات ہے شاہوانی سٹیڈیم کی اجازت کی تو وہاں انہوں نے جلسہ کرنے کی اجازت دی تھی۔ ہم جب سے وڈھ سے نکلے ہیں جلسے کررہے ہیں۔ روزانہ لکپاس پر 2 جلسے کرتے ہیں۔ ہم جلسہ کرنے نہیں بلکہ احتجاج ریکارڈ کروانے آئے ہیں۔ چاہے آپ ہمارے مطالبات مانیں یا نہ مانیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ہمیں کہا جارہا ہے، آپ کو اس لئے احتجاج نہیں کرنے دیا جارہا کیونکہ سکیورٹی کا مسئلہ ہے۔ ہم شاہوانی سٹیڈیم نہیں گئے اور وہاں سے انہوں نے بم برآمد کر لیا۔ ہم کوئٹہ نہیں گئے لیکن کیا وہاں تخریب کاری رکی ہے۔ دراصل حکومت ایکسپوز ہوچکی ہے اور خوف زدہ ہے۔ حکومت جانتی ہے کہ اگر ہم کوئٹہ آگئے تو ان کے کارناموں کا بھانڈا پھوڑیں گے اسی لئے انہوں نے ہمارے لئے رکاوٹیں کھڑی کردی ہیں۔
سردار اختر مینگل نے کہا کہ وہ حکومت جسے خود سیاست کا پتا نہیں، جنہوں نے سیاست 4 نمبر دروازے سے کی ہو، ایسے لوگ ہمیں سیاست کا درس نہ دیں۔ ہم نے اپنی تمام عمر لوگوں کے لئے عوامی سیاست کی ہے۔ اگر ہمیں سیاست کرنا ہوتی تو اس وقت کرتے جب دھاندلی کرکے فارم۔47 والوں کو ہماری نشستیں دی جارہی تھیں لیکن اس مسئلے پر کوئی بھی غیرت مند خاموش نہیں رہتا۔
ایک سوال کے جواب میں سردار اختر مینگل نے کہا کہ پارلیمان کو اس لئے خیر باد کہا کیونکہ وہاں ہماری بات نہیں سنی جارہی تھی۔’مجھے اس بات کی فکر نہیں کہ پارلیمان میں ہماری بات سنی جارہی ہے یا نہیں، مجھے ان لوگوں کی فکر تھی جنہوں نے ہمیں اپنا ووٹ دیا تھا۔ جن لوگوں نے ہم پر اعتماد کیا ہم انہیں یہ بتانا چاہتے تھے کہ ہم آپ کے مسائل پر خاموش نہیں۔‘سرفراز بگٹی کے دور حکومت سے متعلق ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے سردار اختر مینگل نے کہا کہ دنیا جب ترقی کرتی ہے تو مثبت پہلو سامنے آتے ہیں۔ یہ واحد ملک ہے جہاں وقت کے بہاو¿ کے ساتھ ساتھ پالیسیوں میں منفی تبدیلی دکھائی دیتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سرفراز بگٹی کا دور ماضی کی منفی پالیسیوں کی عکاسی کرتا ہے۔
سردار اختر مینگل نے کہا کہ ریاست کے مائنڈ سیٹ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ حکومتیں تبدیل ہوئیں، نام نہاد جمہوری لوگ آئے، مارشل لا لگائے گئے لیکن بلوچستان کے حالات اس لئے نہیں بدل رہے کیونکہ ایک مائنڈ سیٹ نہیں بدل رہا۔ جب تک اس مائنڈ سیٹ کو تبدیل نہیں کیا جائے گا تب تک حالات تبدیل نہیں ہوں گے۔ اور مائنڈ سیٹ یہ ہے کہ بلوچستان کو صوبہ نہیں ایک کالونی تصور کیا جاتا ہے۔ جب اس سوچ کے تحت حکومت ہوگی تو حالات بگڑیں گے۔سردار اختر مینگل نے کہا کہ نواز شریف یہاں آکر کیا کریں گے ان کے ہاتھ میں کیا ہے۔ کیا ان کے پاس اختیارات ہیں۔ نواز شریف صاحب کو اگر کچھ کرنا تھا تو جس وقت الیکشن سے قبل میں نے انہیں خط لکھا تھا تو وہ تب کچھ نہیں کر سکے، جب وہ کبھی نشستیں حاصل کرنے کی امید سے تھے، اب جب وہ نہ وزیراعظم ہیں اور نہ انتخابات میں انہیں کچھ ملا۔ ہاں! نواز شریف نے اپنے اصولوں کو بلی چڑھایا جس کے نتیجے میں ان کا بھائی وزیر اعظم بنا اور بیٹی وزیر اعلیٰ بنی لیکن انہیں کچھ حاصل نہیں ہوا۔

فاسٹ بولر احسان اللہ پی ایس ایل میں کس ٹیم کی طرف سے کھیلیں گے ؟

مزید :

متعلقہ مضامین

  • کیا ڈونلڈ ٹرمپ ذہنی طور پر صحت مند ہیں؟ رپورٹ جاری
  • چیئر مین پبلک سروس کمیشن آزاد کشمیر نے عہدے سے استعفیٰ دیدیا
  • ’سب کرکے دیکھ لیا آپ مان کیوں نہیں لیتے کہ جس کا کام اسی کو ساجھے‘ میاں اسلم قبال کا مقتدرہ کو مشورہ
  • ڈونلڈ ٹرمپ کا دل اور دماغ کے ٹیسٹ کرانے کا انکشاف
  • کیا ڈونلڈ ٹرمپ کا دماغ ٹھکانے پہ ہے؟ رپورٹ کل آجائے گی
  • ڈونلڈ ٹرمپ کی دل اور دماغ کے ٹیسٹ کرانے کا انکشاف
  • قدم زمین پر ، ہاتھ آسمان پر
  • نواز شریف بلوچستان آکر کیا کریں گے، ان کے ہاتھ میں ہے کیا؟   اختر مینگل
  • نواز شریف بلوچستان آکر کیا کریں گے، ان کے ہاتھ میں ہے کیا؟ سردار اختر مینگل
  • امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بالآخر چین کے ساتھ معاہدے پر آمادہ