جب متھن نے شکتی کپور کو زبردستی کمرے میں لے جا کر انہیں گنجا کیا
اشاعت کی تاریخ: 21st, January 2025 GMT
فلم اینڈ ٹیلی ویژن انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا میں اپنی تعلیم کے دوران، بالی ووڈ کے دو بڑے اداکاروں، متھن چکرورتی اور شکتی کپور کے درمیان کیا ہوا، کس طرح متھن نے ان کے ساتھ برتاؤ کیا ۔
حالیہ انٹرویو میں شکتی کپور نے اپنے ابتدائی دنوں کی یادیں تازہ کیں اور بتایا کہ کس طرح متھن نے ان کے ساتھ ایک انوکھا برتاؤ کیا، جو ایک سبق آموز لمحہ بن گیا۔
اس انٹرویو میں شکتی کپور نے بتایا کہ جب وہ FTII پہنچے تو خود کو ایک ’اسٹار‘ محسوس کر رہے تھے۔ بیئر کے گلاس کے ساتھ، انہوں نے ادارے میں داخل ہوتے ہی متھن چکرورتی سے ملاقات کی، جو ان کے سینئر تھے۔
دھوتی میں ملبوس، سادہ مگر مضبوط جسم متھن نے شکتی کو فوراً مرعوب کر دیا۔ شکتی نے مذاقاً متھن کو بیئر کی پیشکش کی، جسے متھن نے سختی سے مسترد کر دیا اور شکتی کی اس جرات پر سخت ردعمل دیا۔
شکتی کپور نے کہا کہ متھن نے انہیں ان کے رویے پر سزا دینے کا فیصلہ کیا۔
متھن اور ان کے دوستوں نے انہیں ایک کمرے میں لے جا کر زمین پر پھینک دیا۔ بعد ازاں، شکتی کے بالوں کا مذاق اڑایا گیا اور قینچی سے ان کے بال کاٹ دیے گئے۔ متھن نے شکتی کو بتایا کہ ایک سینئر کے ساتھ اس طرح کا برتاؤ ناقابل قبول ہے۔
بال کاٹنے کے بعد، شکتی کو ایک اور آزمائش کا سامنا کرنا پڑا۔ انہیں ٹھنڈے پانی میں 20 منٹ تک تیرنے کا حکم دیا گیا اور 40 لیپس مکمل کرنے کی ہدایت دی گئی۔ شکتی نے بتایا کہ اس وقت وہ شرمندگی اور خوف کے باعث رو پڑے اور اپنے سینئرز کے پاؤں چھو کر معافی مانگی۔
یہ واقعہ شکتی کپور کے لیے ایک سبق آموز لمحہ ثابت ہوا۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ وہ اپنے رویے میں غلط تھے اور انہیں سینئرز کا احترام کرنا چاہیے تھا۔ متھن کی یہ حرکت ایک بہترین سبق کے طور پر یاد کی جاتی ہے، جس نے انکی شخصیت اور رویے کو مثبت انداز میں بدل کے رکھ دیا۔
بالی ووڈ کے ان دونوں سپر اسٹارز کے درمیان یہ واقعہ ان کے دیرینہ تعلقات کی بنیاد بن گیا۔ یہ کہانی نہ صرف ان کے ایف ٹی آئی آئی کے دنوں کی ایک دلچسپ جھلک پیش کرتی ہے بلکہ اس بات کی بھی یاد دہانی ہے کہ احترام اور نظم و ضبط کامیابی کی بنیاد ہے۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
نئی صبح طلوع ہونے کے قریب !
سمجھ نہیں آرہی کہ ملک کا نظم ونسق کیسے چل رہا ہے کیونکہ سویلین ادارے (سارے نہیں ) اپنے فرائض ادا کرنے میں پر جوش نظر نہیں آتے ان میں جوش اس وقت پیدا ہوتا ہے جب انہیں اپنی جیب بھاری ہونے کا یقین ہو لہذا عوام کی خوب درگت بن رہی ہے۔
آپ نے کوئی بھی کام کروانا ہو جب تک رشوت نہیں دیں گے وہ کام نہیں ہو گا۔ سویلین محکموں میں بیٹھے ملازمین چٹے دن اپنی مرضی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔شاید ان کی اوپر تک رسائی ہوتی ہے کیونکہ ان کے خلاف شکایت بھی کی جائے تو وہ کھوہ کھاتے میں چلی جاتی ہے۔
ہم دیکھتے چلے آ رہے ہیں کہ حکومتیں سیاسی معاملات کو تو بڑی گہری نظر سے دیکھتی ہیں اپنے راستے میں کوئی رکاوٹ ہو تو اسے دور بھی کرلیتی ہیں مگر مجال ہے لوگوں کے مسائل کو حل کرنے کی جانب سنجیدگی سے آئیں۔ اس وقت عوام کی بہتری سے متعلق جتنے بھی محکمے ہیں وہ بغیر کسی لالچ کے دوسرے لفظوں میں ’’ غیرسرکاری فیس‘‘ کے اپنے قلم کو جنبش نہیں دے رہے۔ آپ محکمہ پولیس کو دیکھ لیں وہ ڈنکے کی چوٹ پر اپنا خزانہ بھرنے میں مصروف نظر آتا ہے۔ ان سے جائز طریقے سے میٹر لگانا خاصا مشکل ہے مگر جب مٹھی گرم کر دی جائے تو مشکل آسان ہو جا تی ہے۔ اسی طرح پٹوار خانہ ہے اس میں بھی اندھیر مچا ہوا ہے دھڑلے سے ’’فیس‘‘ وصول کی جاتی ہے وگرنہ بندہ ساری عمر رْلتا ہے۔ مزکورہ محکموں کے علاوہ جو دیگر سویلین محکمے ہیں انہوں نے بھی لوگوں کا برا حال کر رکھا ہے۔ ویسے عوام بھی ان کے طرز عمل کے عادی ہو چکے ہیں وہ شور تو مچاتے ہیں مگر قانون کا سہارا نہیں لیتے ہو گا کہ انہیں ضروری سہولتیں دینا ہوں گی تنخواہوں میں اضافہ کرنا ہو گا۔ غریب لوگ تو پیٹ بھر کر کھانا بھی نہیں کھا سکتے ان میں سے تو ایسے بھی ہیں کہ انہیں روزانہ کی بنیاد پر محنت مشقت کرنا پڑتی ہے جو اگر انہیں میسر ہو‘ ضروری نہیں کیونکہ صنعتیں بند ہوتی جا رہی ہیں ملک کے بڑے بڑے سرمایہ کار دوسرے ملکوں میں جا رہے ہیں جس سے ذرائع پیداوار کم پڑ گئے ہیں اور غربت کے پھیلاؤ کا سبب بن رہے ہیں مستقبل قریب میں بھی صنعت کاری کا کوئی امکان نہیں لہذا آنے والے دنوں میں جو ہونے والاہے اس کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے یہی وجہ ہے کہ ہمارا نوجوان طبقہ ملک چھوڑنے کو ترجیح دے رہا ہے کیونکہ اسے موجودہ نظام سے شکوہ ہے ۔
بات ہو رہی تھی سرکاری محکموں کی کہ وہ عوام کو آسانیاں فراہم کرنے کے بجائے تکالیف پہنچانے میں مصروف ہیں اور اپنی خواہشات پوری کر رہے ہیں ان کے نزدیک جب اقتداری لوگ بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں تو اور بار بار دھو رہے ہیں تو پھر وہ کیوں پیچھے رہیں‘ انہیں بھی پیٹ لگا ہوا ہے۔کبھی کبھی حکومت ان کے گرد گھیرا بھی تنگ کرتی ہے تاکہ اْس کی اِس ’’ادا‘‘کو پزیرائی مل سکے۔ بس یہی چکر ہے جو ستتر برس سے جاری ہے اور خوشحالی آنے میں نہیں آرہی۔
حکمران لوگوں کے مسائل ختم نہیں کر سکے۔اب تو چاروں طرف سے ان پر (عوام) الم ومصائب کا سایہ گہرا ہو چکا ہے کیونکہ انہیں جہاں مسائل کا سامنا ہے وہاں وہ ایک جانے انجانے خوف میں بھی مبتلا ہیں کہ انہیں شکوہ و شکایت کی اجازت بھی نہیں حیرانی یہ ہے کہ حکومت با آواز بلند سب اچھا کی گردان الاپے جا رہی ہے اور یہ تاثر دے رہی ہے کہ اگر وہ نہ ہوئی تو ملک کنگال ہو جائے گا ترقی رک جائے گی وغیرہ وغیرہ۔ یعنی اگر عمران خان آگیا تو ان کی یہ حالت بھی ایسی نہیں رہے گی لہذا اس کا ساتھ دیا جائے مگر عوام ہیں کہ اس کی کسی بات کسی دلیل اور کسی منطق کا اثر نہیں لے رہے۔ان کا نقطہ نظر یہ ہے کہ ان کے دن خان کے آنے ہی سے پھریں گے انہیں حقیقی آزادی کا احساس تب ہی ہو گا معیشت ان کے اقتدار میں آنے ہی سے اپنے پاؤں پر کھڑی ہو گی۔
لگتا ہے کہ آنے والے دنوں میں ’’پرندہ‘‘ کھلی فضا میں سانس لے سکے گا ( اگرچہ اسے سزا ہو چکی ہے مگر یہاں دیکھتے ہی دیکھتے منظر بدل جاتے ہیں) کیونکہ یہ بات ہر کسی کو معلوم ہے کہ غالب اکثریت والی سیاسی جماعت ہی ملک کو سیاسی و معاشی استحکام دے سکتی ہے مشکل فیصلے بھی وہی کر سکتی ہے۔
بہر کیف ڈونلڈ ٹرمپ خان کو اپنا ’’بیلی‘‘ سمجھتے ہیں لہٰذا وہ اسے اقتدار میں بھی دیکھنا چاہتے ہیں مگر ان کے سیاسی مخالفین انہیں پسند نہیں کرتے کہ وہ ’’سٹیٹس کو‘‘ کو قائم رکھنا چاہتے ہیں لہٰذا وہ سر توڑ کوشش کر رہے ہیں کہ یہ چمن یونہی رہے مگر انہیں علم ہونا چاہیے کہ غریب عوام کی بس ہو چکی ہے وہ موجودہ نظام کو بدلنا چاہتے ہیں لہٰذا نئی صبح طلوع ہونے کے قریب ہے !