لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 21 جنوری2025ء)سابق سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے پہلے خطاب میں منافقت کی بجائے سچی باتیں کیں،نومنتخب صدر پہلے 100 دنوں میں چین کا دورہ بھی کریں گے،پاکستان کودانشمندی کے ساتھ امریکہ کے سامنے اپنا موقف پیش کرنا ہوگا، بانی پی ٹی آئی کا نمبربھی آئے گا، ڈونلڈ ٹرمپ بھی عمران خان والے پراسس سے گزرا ہے، نومنتخب امریکی صدر کو عمران خان سے ضرور ہمدردی ہوگی۔

(جاری ہے)

ایک انٹر ویو میں مشاہد حسین سید نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ کے سسٹم پرانگلیاں اٹھائیں، انہوں نے جرات کے ساتھ سسٹم کی خرابیوں کی نشاندہی کی،امریکی سسٹم کافی کرپٹ ہوگیا تھا،امریکہ جیسے ملک میں آزادی رائے کوسلب کیا گیا، نومنتخب صدر پہلے 100 دنوں میں چین کا دورہ بھی کریں گے، جوبائیڈن بڑا جعلی سا صدر تھا، ڈونلڈ ٹرمپ نے منافقت کے بجائے سچی باتیں کیں۔انہوںنے کہاکہ نیتن یاہوجیسے بدمعاش کو ڈونلڈ ٹرمپ نے لگام ڈالی، غزہ میں جنگ بندی ان کی وجہ سے ہوئی۔انہوں نے تجویز دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کودانشمندی کے ساتھ امریکہ کے سامنے اپنا موقف پیش کرنا ہوگا۔مشاہد حسین سید نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا صدربننا عالمی امن کے لئے بھی بڑا اچھا ہوگا۔.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے مشاہد حسین سید ڈونلڈ ٹرمپ نے نے کہا

پڑھیں:

ڈونلڈ ٹرمپ کے چار سال

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد اپنے دفتر پہنچ گئے ہیں جہاں سے اب معمول کی سرگرمیوں کا آغاز ہو جائے گا۔ امریکہ میں وقت ضائع کرنے کا رواج نہیں ہے۔ ہر کام کو کل پر ڈالنے کا چلن بھی نہیں ہے، پس اہم کام حلف اٹھانے سے قبل ہی شروع ہو چکے تھے۔ اب تو بیشتر کا رسمی اعلان سامنے آئے گا۔ انتخابی نتائج سامنے کے فوراً روابط شروع ہو چکے تھے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی ایک موثر ٹیم پہلے ہی سے موجود تھی۔ اس میں کچھ ترمیم اضافے کے بعد آج ان کی تعیناتیوں کے حوالے سے فیصلے کا اعلان ہو جائے گا۔ امریکہ کے صدر کو ہمارے صدر اور وزیراعظم کی نسبتاً فیصلے کرنے میں بعض سہولتیں حامل ہیں۔ امریکہ میں کوئی جٹ صاحب بٹ نہیں ہوتے وہاں آرائیں اور کشمیری کی تقسیم بھی نہیں ہے۔ وہاں بااثر گدی نشین نہیں ہیں جن کے فون پر صدر امریکہ بے بس ہو جائے اور ان کے منظور نظر کو اپنی کابینہ میں شامل کر لے۔ صدر امریکہ کو کسی غیرملک سے کسی سربراہ کا یہ فون بھی نہیں آتا کہ فلاں میرا ہم مسلک ہے، اس نے اپنے مسلک کیلئے بے پناہ کام کیا ہے یا قربانیاں دی ہیں لہٰذا اسے تو آپ اپنا معاون خصوصی ضرور مقرر کریں ورنہ ہم ناراض ہو سکتے ہیں۔ امریکی صدر کو دنیا بھر میں کسی سربراہ مملکت کی ناراضی کی فکر نہیں ہوتی بلکہ دنیا بھر کے سربراہان مملکت اور حکومتوں کو امریکی صدر کی ناراضی کی فکر راتوں کو ڈھنگ سے سونے نہیں دیتی۔ کسی شخص کو وزیر بنوانے کیلئے کوئی تصور نہیں کر سکتا کہ وہ فون کرنے کی جرأت کرے اور امریکی صدر کے سیکرٹری یا پی اے سے کہے کہ جناب یہ مہربانی تو ضرور کرا دیں بندہ تا عمر تابعدار رہے گا اور خرچہ حربہ اٹھائے گا۔ پوپ پال بھی اس قسم کی سفارش نہیں کرتے۔ وہاں خوبصورت بیگمات بھی سر دھڑ تن من کی قوت صرف کر دیں جب بھی وہ اپنے شوہر داماد یا بیٹے کو وزیر مشیر نہیں بنوا سکتیں، قابلیت، تجربہ اور اخلاص کی کسوٹی پر ہر شخص پرکھا جاتا ہے۔ مخالف پارٹی کو چھوڑ کر آنے والے کی عزت ضرور کی جاتی ہے لیکن وزارت اس کے بھی قدموں میں نہیں ڈالی جاتی وہاں بھی پرکھ اسی معیار پر کی جاتی ہے جو سب کے لئے ہوتا ہے۔ امریکہ میں کوٹا سسٹم بھی نہیں ہے کہ دس ممبران آئیں اور دو وزارتیں لے جائیں۔ آزاد امیدوار کا تصور بھی نہیں ہے۔ وہاں کوئی ایسا علاقہ کوئی ایسی ریاست بھی نہیں ہے جو ہر حکومت کے بننے پر اپنے احساس محرومی کی المیہ غزل چھیڑ کر بیٹھ جائے۔ پس اس اعتبار سے امریکی صدر کو کوئی فکر نہیں ہوتی، ہم جس تیز رفتاری سے دنیا کی بیشتر چیزوں کو اپنی زندگیوں اور اپنے نظام کا حصہ بنا رہے ہیں ہم ان خوبیوں کو اپنی زندگیوں اور سیاسی نظام میں جگہ دیں تو درجنوں مشکلات کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ یعنی میرٹ اور صرف میرٹ کی پابندی اپوزیشن کو کچلنے کا رویہ بھی ترک کرنا ہو گا۔ ڈونلڈ ٹرمپ امریکی ڈیپ سٹیٹ اور سی آئی اے کو شکست دے کر اقتدار میں آئے ہیں۔ دونوں ہی منہ زور گھوڑے ہیں۔ امریکی صدر کو بیک وقت دونوں پر سواری کرتے ہوئے بیحد محتاط رہنا ہو گا۔ ان گھوڑوں نے سابق امریکی صدر ابراہام لنکن اور جان ایف کینیڈی کو اپنے اوپر کاٹھی ڈالنے کی اجازت تو دی لیکن جونہی دونوں صدور نے ان کی باگیں کھینچیں دونوں گھوڑوں نے اپنے اپنے سواروں کو بیچ میدان کے پٹخ دیا، وہ ایسے گرے کہ پھر اٹھ نہ سکے۔ دنیا سے ہی رخصت ہو گئے، یہی حال اپوزیشن رہنما اور سیاہ فاموں کے حقوق کیلئے جدوجہد کرنے والے عظیم رہنما مارٹن لوتھر کنگ کا ہوا لیکن میڈیا پر پابندیاں کبھی نہ لگیں۔ اختلاف رائے کا حق موجود رہا۔ صدر ٹرمپ نے انتخابات جیتنے کے فوراً بعد اپنے معتمد ساتھیوں سے مشورے شروع کر دیئے اور فیصلے کر لئے کہ اہم اداروں کے سربراہ کون ہونگے، ان کی ٹیم کن افراد پر مشتمل ہو گی۔ امریکہ کے نکتہ نظر سے اہم ممالک میں کون کہاں سفیر ہو گا۔

انہوںنے مختلف محکموں سے بریفنگ بھی لیں اور ان کی بنیاد پر اپنی ترجیحات طے کر لیں۔ اس تمام ہوم ورک کا فائدہ یہ ہو گا کہ روز اول سے ان کے احکامات اور پالیسی پر عملدرآمد شروع ہو جائے گا۔
اندازہ کیجئے کہ اپنے ممالک کو ترقی یافتہ ممالک میں ممتاز مقام پر لے جانے والے کس طرح کام کرتے ہیں۔ امریکی عدالت چینی ٹک ٹاک پر پابندی کا فیصلہ کر چکی ہے۔ انہی ایام میں چینی صدر نے ڈونلڈ ٹرمپ سے اس معاملے میں بات کی ہے اور انہیں پابندی کو ہٹانے کا کہا ہے۔ خیال کیا جا رہا ہے یہ پابندی ہٹا لی جائے گی۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ بڑھک بازی پر یقین رکھتے ہیں۔ وہ اپنے مخالفین کو ڈر میں مبتلا رکھنا چاہتے ہیں لیکن ان سے کوئی بڑی لڑائی نہیں لڑیں گے، وہ چین پر پابندیوں کی بہت بات کرتے رہے ہیں لیکن وہ خوب جانتے ہیں امریکہ دنیا میں سب سے زیادہ مقروض چین کا ہی ہے اور چین اب وہ طاقت حاصل کر چکا ہے کہ امریکی معیشت پر کاری ضرب لگا سکے۔ آج امریکہ میں استعمال ہونے والی تمام کنزیومر گڈز چین کی تیار کردہ ہیں۔ امریکہ، برطانیہ، جرمنی اور فرانس کی معیشت اگر کمزور ہوئی ہے تو اس کی بڑی وجہ چین کی معاشی و اقتصادی ترقی ہے، جس نے آدھی دنیا کی مارکیٹ پر قبضہ کرتے ہوئے جھاڑو پھیر دیا ہے۔ چین کی تیارکردہ گاڑیوں نے جاپان، برطانیہ اور جرمنی کی آٹوموبیل صنعت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا ہے یہی کامیابی اس نے آئی ٹی کے میدان میں حاصل کی ہے۔ چین لڑاکا اور بمبار طیارے بنا کر دنیا کے ہر ملک کو دینے کیلئے تیار ہے یہی حال اس کے دیگر اسلحے کا ہے۔ ان معاملات میں اسے پاکستان اور روس کی معاونت حاصل ہے۔ اسرائیل فلسطین جنگ کے حوالے سے صدر ٹرمپ نے جنگیں ختم کرنے کی بات کی تو بائیڈن انتظامیہ نے یہ کریڈٹ لینے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا اور جنگ بندی کی تاریخ ٹرمپ کے حلف اٹھانے سے ایک روز قبل کی رکھی لیکن بائیڈن نے جو ناکامیاں سمیٹی ہیں وہ ایک جنگ بند کرنے کے معاہدے کے پیچھے نہ چھپ سکیں گی۔ انہوں نے بے تحاشا نفرت کمائی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ حکومت اپنے گزشتہ دور سے زیادہ مضبوط ہو گی، اسے دونوں ایوانوں میں اکثریت حاصل ہے۔ انہیں زیادہ ریاستوں کے ووٹ ملے، اعلیٰ عدالت نے انہیں 5/4 کی اکثریت سے سزا بنائی لیکن وہ انہیں صدر بننے سے نہ روک سکے۔ گمان ہے اس مرتبہ ٹرمپ کا ایک مختلف روپ سامنے آئے گا۔ انہوں نے بھی تجربات سے بہت کچھ سیکھا ہے، وہ پرانی غلطیاں نہیں دوہرائیں گے۔
2025ء میں مڈل ایسٹ کا نقشہ بدل سکتا ہے۔ نیٹو کے خلاف فیصلے پر عملدرآمد ہو گا یا اس کا مالیاتی بوجھ دیگر ممالک پر ڈالا جائے گا۔ یہ اہم سوال ہے۔ قریباً پچیس ہزار عہدوں پر اکھاڑ پچھاڑ کے بعد سامنے آنے والی ٹیم دیکھ کر اندازہ ہو جائے گا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے وہ عزائم کیا ہیں جن کی طرف انہوں نے ابھی تک اشارہ نہیں کیا لیکن ایک بات واضح ہے کہ وہ سر پرمنڈلاتے ہوئے معاشی مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کریں گے تاکہ امریکہ اپنے قدموں پر کھڑا رہے، ڈگمگا نہ جائے، صرف اسلحہ بیچ کر ملک کو چلانا ممکن نہیں ہے نہ ہی اب دوسروں کے وسائل پر قبضہ آسان رہا ہے۔ مجموعی طور پر ٹرمپ کا چار سالہ اقتدار دلچسپ رہے گا۔

متعلقہ مضامین

  • ڈونلڈ ٹرمپ نے پہلے خطاب میں منافقت نہیں سچی باتیں کیں، مشاہد حسین
  • صدر آصف زرداری اور وزیراعظم شہباز شریف کی ڈونلڈ ٹرمپ کو عہدہ صدارت سنبھالنے پر مبارکباد
  • نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، نائب صدر جے ڈی وینس نے عہدے کا حلف اٹھالیا
  • نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی واشنگٹن میں ریلی، لاکھوں کی تعداد میں تارکین وطن کو نکالنے کے لیے اقدامات کر نے کا عزم ظاہر کیا
  • نومنتخب امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ آج حلف اٹھائیں گے، تیاریاں مکمل کرلی گئیں
  • ٹرمپ کا ٹک ٹاک سے متعلق بڑا اعلان، امریکی صارفین خوش
  • ڈونلڈ ٹرمپ کے چار سال
  • نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حلف برداری کی تقریب آج ہوگی
  • چینی صدر شی جن پھنگ اور نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹیلی فون پر گفتگو