فرینکفرٹ میں پاکستان زندہ باد ریلی کا انعقاد کیا گیا، جس میں اوورسیز پاکستانیوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق جرمنی کے شہر فرینکفرٹ میں ’’پاکستان زندہ باد، پاک فوج زندہ باد‘‘ کے عنوان سے پانچویں اور سب سے بڑی ریلی کا انعقاد کیا گیا۔ ای یو پاک فرینڈشپ فیڈریشن یورپ اور اوورسیز پاکستانی کمیونٹی جرمنی کی مشترکہ کاوش سے منعقد یہ ریلی ایک بہت بڑا پاور شو تھا۔

ریلی میں اوور سیز پاکستانیوں کی بڑی تعداد نے یک زبان ہو کر پاک فوج کے ساتھ کھڑے رہنے کا عزم ظاہر کیا۔

شرکائے ریلی نے اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ترسیلات زر میں اضافہ کر کے ہم ملک کو بحرانوں سے بچائیں گے۔ ہم سول نافرمانی کو مسترد کرتے ہیں۔ ریلی میں خواتین کی کثیر تعداد نے شرکت کی اور پاکستان و پاک فوج کے ساتھ اپنی بھر پور حمایت کا اعادہ کیا۔

ریلی میں سبز ہلالی پرچم تھامے غیور پاکستانیوں نے ’’نکلو سپہ سالار کی خاطر، تیرا ضمیر میرا ضمیر عاصم منیر عاصم منیر‘‘ کے نعرے لگا کر پاک فوج کے ساتھ اپنی محبت کا اظہار کیا۔ اس موقع پر مقررین کا کہنا تھا کہ جو پاک فوج کا دشمن ہے، وہ ریاست کا دشمن ہے۔ پاک فوج ہی ہماری سرحدوں کےاصل محافظ ہے۔

اوورسیز پاکستانیوں نے پاک فوج کی قیادت کے ساتھ جم کر کھڑے رہنے اور پاک فوج کے خلاف ہر فتنے کو شکست دینے کا عزم ظاہر کیا۔

 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پاک فوج کے ریلی میں کے ساتھ

پڑھیں:

ادھوری کہانی

یہ کہانی وفا، قربانی اور امید کی ہے، مگر آج بھی انصاف کی منتظر ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں ایسے بے شمار المیے دفن ہیں جو وقت گزرنے کے ساتھ ماضی کا حصہ بن گئے، مگر کچھ کہانیاں ایسی بھی ہیں جو وقت کے دھارے میں بہنے کے باوجود اپنی تکمیل کے لیے زندہ رہتی ہیں۔ پاکستان کی کہانی بھی ایسی ہی ایک کہانی ہے، جس کا ایک اہم باب آج بھی مکمل ہونے کا منتظر ہے۔ یہ باب بنگلا دیش میں محصور پاکستانیوں کا ہے، وہ لوگ جنہوں نے پاکستان کی سالمیت کے لیے اپنی جان، مال، عزت اور سب کچھ قربان کر دیا، مگر بدقسمتی سے آج بھی وہ انصاف کی دہلیز پر کھڑے ہیں۔ ان کی داستان سلیم منصور خالد کی کتاب ’’البدر‘‘ میں محفوظ ہے۔ آج جب البدر اور الشمس کی قربانیوں کے بارے میں خواجہ آصف جیسے ان پڑھ لوگ بات کرتے ہیں تو دل پریشان ہو جاتا ہے اور اس وجہ سے سہارا ملتا ہے کہ جو بندہ ہمارے برصغیر کے ہیرو کو ڈاکو سمجھتا ہیں تو ان کی عقل پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔

یہ کہانی صرف ظلم اور محرومی کی نہیں، بلکہ یہ ان لوگوں کی وفا اور قربانی کی گواہی بھی دیتی ہے جنہوں نے 1971 میں پاکستان کے وقار کی حفاظت کی۔ وہ لوگ جو مکتی باہنی اور بھارتی جارحیت کے سامنے سینہ سپر رہے اور اپنے عزم سے یہ ثابت کیا کہ وہ پاکستان سے محبت کرنے والے حقیقی محب وطن ہیں۔ لیکن آج وہی لوگ بنگلا دیش کے مختلف کیمپوں میں کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں، اور یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیا ان کی قربانیاں بے وقعت تھیں؟

پاکستان کی فوج اور ریاست کی ذمے داری ہے کہ وہ ان محصور پاکستانیوں کو واپس لائے اور انہیں اس وطن کی آغوش میں لے، جس کے لیے انہوں نے اپنا سب کچھ قربان کر دیا۔ 1971 کے المیے کے بعد، یہ لوگ بنگلا دیش میں بے یار و مددگار رہ گئے اور آج تک پاکستان کی ریاست کی جانب سے عملی اقدامات کے منتظر ہیں۔ پاکستان کے آئین اور قومی ضمیر کا تقاضا ہے کہ ان محصور پاکستانیوں کو ان کا جائز حق دیا جائے۔ یہ نہ صرف ان کی قربانیوں کا اعتراف ہوگا بلکہ ہمارے قومی وجود کے لیے بھی ضروری ہے۔ سعودی عرب میں، کمیونٹی کے پلیٹ فارمز کے ذریعے ہم نے ان محصور پاکستانیوں کے حق میں آواز بلند کی۔ احتشام نظامی کی قیادت میں انجینئر احسان الحق، مسرت خلیل، اور حامد خان جیسے دوستوں کے ساتھ مل کر ہم نے ان کی حالت زار کو اُجاگر کیا۔ سعودی عرب میں کئی تقریبات اور کانفرنسوں کا انعقاد کیا گیا، جن میں پاکستان کی سالمیت اور ان محصور پاکستانیوں کی واپسی پر زور دیا گیا۔

پاکستان کے معروف صحافی الطاف حسن قریشی صاحب کی خدمات اس حوالے سے ناقابل فراموش ہیں۔ ان کی کتاب ’’میں نے آئین بنتے دیکھا‘‘ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک خزانہ ہے۔ جدہ میں ان سے ملاقات کی یادیں آج بھی تازہ ہیں۔ ان کی رہنمائی ہمیشہ اس بات کی یاد دلاتی ہے کہ ایک صحافی کا اصل کام حقائق کو اُجاگر کرنا اور قوم کی رہنمائی کرنا ہے۔ پاکستان کی کہانی اس وقت تک مکمل نہیں ہوگی جب تک بنگلا دیش میں محصور پاکستانیوں کو ان کے گھروں میں واپس نہیں لایا جاتا۔ یہ ایک قومی فریضہ ہے جو ریاست، حکومت، اور عوام سب کو مل کر ادا کرنا ہوگا۔’’یہ کہانی ادھوری ہے، مگر ہمیں یقین ہے کہ ایک دن یہ مکمل ہوگی‘‘۔ اور الطاف حسن قریشی کی کتاب جلد میں منظر عام پر آتے دیکھ رہا ہوں جس کا عنوان ہوگا ’’میں نے آئین کا مذاق اُڑتے دیکھا‘‘، اگر ہم نے انصاف کیا ہوتا تو 1970 کے نتائج کو تسلیم کر لیا ہوتا تو شاید پاکستان بچ جاتا میں آج بھی سمجھنے سے قاصر ہوں کہ لوگ صرف مجیب الرحمن کو غدار کہتے ہیں لیکن یحییٰ خان اور بھٹو کو کسی صورت مورد الزام نہیں ٹھیراتے حالانکہ یہ ٹرائیکا اگر نہ ہوتی تو پاکستان کبھی بھی نہ ٹوٹتا شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔

چوبیس برس کی فرد عمل
ہر گھر زخمی ہر گھر مقتل ہے
ارض وطن تیرے غم کی قسم
تیرے دشمن ہم تیرے قاتل ہم

جناب الطاف حسن قریشی کے وہ نہار فرزند انجینئر کامران کے نام اس درخواست کے ساتھ کہ قریشی صاحب کی نئے آنے والی کتاب کا جو میں نے عنوان تجویز کیا ہے وہ کتاب مکمل کرائیں اور یہ آج کا دن بھی ایک چیف جسٹس نے پاکستان تحریک انصاف سے بیٹ چھین لیا تھا 71 میں کی گئی غلطیاں جن کی سزا ہمیں مشرقی پاکستان میں ملی اللہ نہ کرے کہ یہ جو جرم عدلیہ اسٹیبلشمنٹ اور فارم 47 پہ جیتنے والے لوگ کر رہے ہیں اللہ نہ کرے اسی طرح کی سزا ہمیں ملے ابھی بھی وقت ہے کہ بنگلا دیش میں محصور پاکستانیوں کو پاکستان لایا جائے اور چودھری رحمت علی کے جسد خاکی کو پاکستان لا کر غلطیوں کی تلافی کی جائے۔

متعلقہ مضامین

  • موریطانیہ کشتی حادثہ: چہرے پر ہتھوڑے مارے، 21 پاکستانیوں کو تاوان لے کر زندہ چھوڑا، تحقیقات میں انکشاف
  • فرینکفرٹ میں ’’پاکستان زندہ باد‘‘ ریلی، پاک فوج کے ساتھ کھڑے رہنے کا عزم
  • ’آپ باضابطہ طور پر دوبارہ زندہ ہو گئی ہیں‘، خاتون کے ساتھ پیشے آنے والا دلچسپ واقعہ
  • نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی واشنگٹن میں ریلی، لاکھوں کی تعداد میں تارکین وطن کو نکالنے کے لیے اقدامات کر نے کا عزم ظاہر کیا
  • وحید حیدر شاہ کی یوم تشکر ریلی میں شرکت
  • مراکش کشتی حادثہ؛ 21 پاکستانیوں کے زندہ بچنے کی تصدیق، دفتر خارجہ نے نام جاری کردیئے
  • ادھوری کہانی
  • پاکستان زندہ باد کرکٹ ٹورنامنٹ پیراڈائز کلب نے جیت لیا
  • بلجئیم میں “پاکستان زندہ باد” ریلی کا انعقاد