سپریم کورٹ میں بینچز کے اختیارات کا کیس مقرر نہ کرنے پر توہین عدالت کیس کی سماعت جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے کی۔ عدالت نے سینیئر وکیل منیر اے ملک اور حامد خان کو عدالتی معاون مقرر کرتے ہوئے کہا کہ یہ اہم معاملہ ہے کہ ججز کمیٹی بینچ سے کیس واپس لے سکتی ہے یا نہیں؟ کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔

رجسٹرار سپریم کورٹ عدالت کے سامنے پیش ہوئے تو عدالت نے استفسار کیا کہ بتائیں عدالتی حکم کے باوجود کیس مقرر کیوں نہ ہوا؟ رجسٹرار نے بتایا کہ یہ کیس آئینی بینچ کا تھا غلطی سے ریگولر بینچ میں لگ گیا تھا۔ جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ اگر یہ غلطی تھی تو عرصے سے جاری تھی اب ادراک کیسے ہوا؟ معذرت کیساتھ غلطی صرف اس بینچ میں مجھے شامل کرنا تھی، میں اس کیس کو ہائیکورٹ میں سن چکا تھا۔ پتا نہیں مجھے اس بینچ میں شامل کرنا غلطی تھی کیا تھا؟

مزید پڑھیں: بینچز اختیارات کا کیس مقرر نہ ہونا توہین عدالت ہے، 3 ججز کا چیف جسٹس کو خط

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کا اس معاملے پر اجلاس کیسے ہوا؟ کیا کمیٹی نے خود اجلاس بلایا یا آپ نے درخواست کی؟ رجسٹرار نے بتایا کہ ہم نے کمیٹی کو نوٹ لکھا تھا۔ جسٹس منصور نے کہا کہ جب جوڈیشل آرڈر موجود تھا تو نوٹ کیوں لکھا گیا؟ ہمارا آرڈر بہت واضح تھا کہ کیس کس بینچ میں لگنا ہے، ہمیں وہ نوٹ دکھائیں جو آپ نے کمیٹی کو بھیجا تھا۔

رجسٹرار نے کمیٹی کو بھیجا گیا نوٹ پیش کیا، رجسٹرار آفس کو نوٹ رجسٹرار کے مؤقف سے متضاد نکلا۔ جسٹس منصور نے کہا کہ اس نوٹ میں غلطی کا ادراک تو نہیں کیا گیا، اس میں آپ لکھ رہے ہیں کہ 16 جنوری کو ایک آرڈر جاری ہوا ہے، آپ اس آرڈر کی بنیاد پر نیا بینچ بنانے کا کہہ رہے ہیں؟ آرڈر میں تو ہم نے دیا تھا کہ کیس کس بینچ میں لگنا ہے۔

مزید پڑھیں: شیشپر گلیشیئر سرکنے سے انسانی آبادی کو خطرہ لاحق، ماہرین نے وارننگ جاری کردی

رجسٹرار سپریم کورٹ نے جواب دیا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی نے کیس آئینی بینچ کی کمیٹی کو بھجوایا، آئینی بینچز کی کمیٹی نے آئینی ترمیم سے متعلقہ مقدمات 27 جنوری کو مقرر کیے ہیں، ترمیم کے بعد جائزہ لیا تھا کہ کون سے مقدمات بینچ میں مقرر ہو سکتے ہیں کونسے نہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ یہ کیس شاید آپ سے غلطی سے رہ گیا لیکن بینچ میں آ گیا تو کمیٹی کا کام ختم، کمیٹی چلتے ہوئے کیسز واپس لے تو عدلیہ کی آزادی تو ختم ہو گئی۔ جہاں محسوس ہو فیصلہ حکومت کیخلاف ہو سکتا تو کیس ہی بینچ سے واپس لے لیا جائے، یہ کیس آپ سے رہ گیا اور ہمارے سامنے آ گیا، آخر اللہ تعالی نے بھی کوئی منصوبہ ڈیزائن کیا ہی ہوتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

جسٹس عقیل عباسی جسٹس منصور علی شاہ سپریم کورٹ.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: جسٹس عقیل عباسی جسٹس منصور علی شاہ سپریم کورٹ جسٹس منصور علی شاہ سپریم کورٹ نے کہا کہ کمیٹی کو واپس لے

پڑھیں:

محسوس ہو فیصلہ حکومت کے خلاف ہے تو چلتا ہوا کیس بینچ سے واپس لے لیا جائے، عدلیہ کی آزادی ختم ہوگئی: جسٹس منصور علی شاہ

اسلام آباد: سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اگر کسی کیس میں یہ محسوس ہو کہ فیصلہ حکومت کے خلاف جا سکتا ہے تو کمیٹی کو کیا یہ حق ہے کہ وہ کیس کو عدالتی بینچ سے واپس لے لے؟ 

سپریم کورٹ میں بینچز کے اختیارات سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ کی زیر قیادت دو رکنی بینچ نے توہین عدالت کے کیس کی سماعت کی۔ 

رجسٹرار سپریم کورٹ عدالت کے سامنے پیش ہوئے، سماعت کے آغاز میں ججز نے رجسٹرار سے سوال کیا کہ عدالتی حکم کے باوجود کیس کی سماعت کیوں نہیں کی گئی؟

 جس پر رجسٹرار نے بتایا کہ یہ کیس آئینی بینچ کے دائرہ اختیار میں آتا تھا لیکن غلطی سے اسے معمول کے بینچ میں شامل کر لیا گیا۔

اس پر جسٹس عقیل عباسی نے سوال اٹھایا کہ اگر یہ غلطی تھی تو یہ اتنی دیر سے کیوں محسوس کی گئی؟ کیا اب تک اس غلطی کا ادراک کیسے ہوا؟ 

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اگر کمیٹی نے اس معاملے پر اجلاس بلایا تھا تو یہ کیسے ہوا؟ کیا کمیٹی نے خود اجلاس منعقد کیا یا آپ نے درخواست کی؟ 

رجسٹرار نے بتایا کہ ہم نے کمیٹی کو نوٹ لکھا تھا، جس پر جسٹس منصور نے کہا کہ جب جوڈیشل آرڈر موجود تھا تو نوٹ لکھنے کی ضرورت کیا تھی؟ ہم نے واضح طور پر حکم دیا تھا کہ کیس کس بینچ کے سامنے آنا ہے۔

جسٹس منصور نے رجسٹرار سے کہا کہ وہ وہ نوٹ عدالت میں پیش کریں جو کمیٹی کو بھیجا گیا تھا۔ رجسٹرار نے نوٹ پیش کیا، جس میں رجسٹرار کے مؤقف سے تضاد پایا گیا۔ 

جسٹس منصور نے کہا کہ اس نوٹ میں کسی غلطی کا ذکر نہیں کیا گیا اور آپ نے 16 جنوری کے آرڈر کی بنیاد پر نیا بینچ بنانے کی تجویز دی تھی، حالانکہ اس آرڈر میں واضح طور پر کہا گیا تھا کہ کیس کس بینچ میں لگنا ہے۔

رجسٹرار نے عدالت کو بتایا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی نے کیس کو آئینی بینچ کی کمیٹی کو بھیجا تھا اور آئینی ترمیم سے متعلق مقدمات 27 جنوری کو مقرر کیے گئے ہیں۔

جسٹس منصور نے کہا کہ اگر یہ کیس کمیٹی کی غلطی سے رہ گیا تھا تو اب چونکہ یہ ہمارے سامنے آ گیا ہے، اس کا فیصلہ کرنا کمیٹی کا کام نہیں ہے۔ اگر کمیٹی اس کیس کو واپس لے لے تو عدلیہ کی آزادی پر سوال اٹھ سکتا ہے، کیونکہ اگر حکومت کے خلاف فیصلہ ہونے کا امکان ہو تو کمیٹی کیس واپس لے سکتی ہے۔

جسٹس عقیل نے کہا کہ کم از کم آئینی ترمیم کے کیس کی سماعت تو شروع ہوئی، جس پر پہلے اتنا شور مچایا گیا تھا۔ لیکن جب ٹیکس کے کیس میں آئینی ترمیم کا جائزہ لیا جانا تھا تو وہ مقدمہ کیوں واپس لے لیا گیا؟ ایک کیس کی سماعت سے کیوں اتنی پریشانی ہوئی کہ اسے بینچ سے ہی نکال لیا گیا؟

جسٹس منصور نے مزید کہا کہ 17 جنوری کو ججز کمیٹی کے دو اجلاس ہوئے اور مجھے ایک اجلاس میں مدعو کیا گیا تھا، جس میں میں نے جواب دیا کہ چونکہ یہ جوڈیشل آرڈر کے تحت کیس تھا، اس لیے کمیٹی میں شرکت کرنا مناسب نہیں، ایک عدالتی حکم کو انتظامی سطح پر کیسے ختم کیا جا سکتا ہے؟ اسی دن آئینی بینچ کی کمیٹی کا اجلاس بھی ہوا، جس دوران یہ کیس عدالتی بینچ میں تھا،اگر کمیٹی نے ایسا کیا تو یہ عدلیہ کی آزادی کے لیے خطرہ بن جائے گا۔

جسٹس منصور نے کہا کہ جس پر جوڈیشل آرڈر ہو چکا ہو، اسے واپس لینا ممکن نہیں ہے۔ اگر ججز کمیٹی نے ایسا کوئی حکم دیا ہے تو وہ پیش کریں، کیونکہ کمیٹی کو عدالتی بینچ سے کیس واپس لینے کا اختیار نہیں ہے۔

آخرکار سپریم کورٹ نے حامد خان اور منیر اے ملک کو عدالتی معاون مقرر کرتے ہوئے رائے طلب کی کہ کیا ججز کمیٹی جوڈیشل آرڈر کے باوجود بینچ تبدیل کر سکتی ہے؟ اس موقع پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ توہین عدالت کی کارروائی کے دائرہ اختیار میں عدالت ایسا سوال نہیں اٹھا سکتی۔ جس پر جسٹس منصور نے کہا کہ ہم آپ کی رائے سنیں گے۔

عدالت نے بینچز کے اختیارات کے کیس کی مزید سماعت کل تک ملتوی کر دی۔

متعلقہ مضامین

  • محسوس ہو فیصلہ حکومت کے خلاف ہے تو چلتا ہوا کیس بینچ سے واپس لے لیا جائے، عدلیہ کی آزادی ختم ہوگئی: جسٹس منصور
  • محسوس ہو فیصلہ حکومت کے خلاف ہے تو چلتا ہوا کیس بینچ سے واپس لے لیا جائے، عدلیہ کی آزادی ختم ہوگئی: جسٹس منصور علی شاہ
  • محسوس ہو فیصلہ حکومت کے خلاف ہے تو چلتا ہوا کیس بینچ سے واپس لے لیا جائے، عدلیہ کی آزادی ختم ہوگئی، جسٹس منصور علی شاہ
  • بینچز کے اختیارات کا کیس: رجسٹرار سپریم کورٹ پیش
  • بینچز اختیارات کیس مقرر کیوں نہ ہوا؟ سپریم کورٹ، غلطی سے ریگولر بینچ میں لگ گیا تھا، رجسٹرار
  • محسوس ہو فیصلہ حکومت کیخلاف ہے تو چلتا ہوا کیس بینچ سے واپس لے لیا جائے، عدلیہ کی آزادی ختم ہوگئی، جسٹس منصور علی شاہ
  • پنجز کے اختیارات کا کیس مقررنہ ہونے کا معاملہ ، ایڈیشنل رجسٹرار کو شوکا ر نوٹس 
  • میں کمیٹی کا ممبر ،مجھے بھی ججز کمیٹی اجلاس کا نہیں پتہ:جسٹس منصور علی شاہ
  • ججز کمیٹی کا رکن ہوں مگر مجھے علم ہی نہیں آئینی ترمیم کیس کی سماعت مقرر کردی گئی ہے، جسٹس منصور