اسرائیل اور حماس عالمی قانون کے احترام میں تشدد ترک کریں، یو این ماہر
اشاعت کی تاریخ: 21st, January 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 21 جنوری 2025ء) تشدد اور دیگر ظالمانہ، غیرانسانی اور توہین آمیز سلوک یا سزا کے خلاف اقوام متحدہ کی خصوصی اطلاع کار ایلس جِل ایڈورڈز نے اسرائیل اور حماس کے مابین جنگ بندی کا خیرمقدم کرتے ہوئے فریقین سے کہا ہے کہ وہ عالمی قانون کا احترام کرتے ہوئے تشدد کے ارتکاب سے گریز کریں۔
ان کا کہنا ہے کہ جنگ بندی کے نتیجے میں غزہ سے اسرائیل اور دیگر ممالک کے یرغمالیوں کی رہائی ممکن ہوئی ہے اور علاقے پر 15 ماہ سے جاری اسرائیل کی بمباری اور زمینی حملے بند ہونے کا موقع ملا ہے جن میں بڑے پیمانے پر ہلاکتیں ہوئی اور لاکھوں لوگ بے گھر ہو گئے۔
اس موقع پر غزہ میں ضرورت مند لوگوں کو انسانی امداد کی بلارکاوٹ فراہمی یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔(جاری ہے)
Tweet URLخصوصی اطلاع کار نے کہا ہے کہ جنگ بندی کے پہلے مرحلے میں غزہ کے لوگ اپنے گھروں کو واپس جا سکیں گے اور انہیں ہنگامی ضرورت کی امداد بڑے پیمانے پر میسر آئے گی جو بہت اہم پیش رفت ہے اور اس سے پائیدار امن و انصاف یقینی بنانے میں مدد ملے گی۔
جرائم کی تحقیقات کا مطالبہانہوں نے تنازع کے فریقین پر زور دیا ہے کہ وہ مزید بین الاقوامی جرائم اور خاص طور پر تشدد و دیگر بدسلوکی سے پرہیز کریں۔ اس جنگ میں ہونے والے ایسے تمام جرائم کی آزادانہ و غیرجانبدارانہ تحقیقات ہونا چاہئیں۔
انہوں نے کہا ہے کہ آئندہ ایام میں یرغمالیوں کے خاندان امید و بیم میں ہوں گے کیونکہ ان میں بہت سے لوگوں کو اپنے عزیزوں کے بارے میں ایسی کوئی اطلاع نہیں کہ آیا وہ اب بھی زندہ ہیں۔
جنگ بندی کے پہلے مرحلے میں اسرائیل کے 33 یرغمالیوں کو آزاد کیا جانا ہے۔ اگر اس طے شدہ اقدام پر مکمل طور سے عملدرآمد ہوا تو یہ پائیدار و منصفانہ امن کی جانب پیش رفت کا آغاز ہو سکتا ہے۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ لوگوں کو یرغمال بنانا بین الاقوامی قانون کے خلاف اور تشدد کے مترادف ہے۔
فلسطینی قیدیوں پر تشدد کا مسئلہایلس جِل ایڈورڈز نے اسرائیل کی قید میں فلسطینیوں کی حالت پر نظر رکھنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان قیدیوں سے بھی انسانی سلوک ہونا چاہیے اور ان کا وقار قائم رکھنا ضروری ہے۔
جن لوگوں کو ناجائز حراست میں رکھا گیا ہے انہیں فوری رہا کیا جانا چاہیے۔ان کا کہنا ہے کہ وہ بعض قیدیوں پر مبینہ تشدد اور ان سے بدسلوکی کے الزامات پر اسرائیل کے حکام سے بھی بات کریں گی جس میں قیدخانوں کا جائزہ لینے کی درخواست بھی کی جائے گی۔ ریڈ کراس کی بین الاقوامی کمیٹی کے نمائندوں کو تمام یرغمالیوں اور فلسطینی قیدیوں تک رسائی ملنی چاہیے اور ان پر مبینہ تشدد کا ارتکاب کرنے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے اور متاثرین کو بحالی میں مدد دینے کے اقدامات اٹھائے جانے چاہئیں۔
ان کا کہنا ہے وہ اس معاملے پر اطلاعات حاصل کرنے کے لیے تمام متعلقہ لوگوں، اداروں اور متاثرین سے رابطے میں رہیں گی۔ اس حوالے سے تمام معلومات اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق (او ایچ سی ایچ آر) کی ویب سائٹ پر موجود ہیں۔
غیر جانبدار ماہرین و اطلاع کارغیرجانبدار ماہرین یا خصوصی اطلاع کار اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے خصوصی طریقہ کار کے تحت مقرر کیے جاتے ہیں جو اقوام متحدہ کے عملے کا حصہ نہیں ہوتے اور اپنے کام کا معاوضہ بھی وصول نہیں کرتے۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے اطلاع کار کہا ہے کہ لوگوں کو کہنا ہے اور ان
پڑھیں:
صیہونی قیدیوں کی ایک مرحلے میں رہائی کیلئے حماس کی شرائط
الجزیرہ سے اپنی ایک گفتگو میں سامی ابو زھری کا کہنا تھا کہ نتین یاہو ناقابل عمل شرائط پیش کر رہا ہے تاکہ جنگبندی کے معاہدے کو سبوتاژ کر سکے۔ اسلام ٹائمز۔حماس کے فلسطین سے باہر پولیٹیکل سربراہ "سامی ابو زھری" نے کہا کہ ہماری تحریک ہر اُس تجویز کا خیر مقدم کرے گی جس سے ہماری عوام کی مشکلات میں کمی آئے۔ لیکن صیہونی وزیراعظم "نتین یاہو" ہم سے ہماری شکست کے ہروانے پر دستخط کروانا چاہتا ہے۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار الجزیرہ سے گفتگو میں کیا۔ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ نتین یاہو ناقابل عمل شرائط پیش کر رہا ہے تاکہ جنگ بندی کے معاہدے کو سبوتاژ کر سکے۔ انہوں نے کہا کہ مقاومت کو غیر مسلح کرنے کی شرط پر بات نہیں ہو سکتی اور نہ ہی یہ شرط پوری کی جا سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے ہتھیاروں کا تعلق صیہونیوں کے قبضے سے جڑا ہوا ہے۔ یہ ہتھیار ہمارے لوگوں اور اُن کے قومی مفاد کے تحفظ کے لئے ہیں۔ دوسری جانب المیادین نے خبر دی کہ اسرائیل نے اپنی تجاویز، جنگ بندی کے معاہدے میں موجود ثالثین کے حوالے کر دی ہے۔ ان تجاویز کے مطابق، جنگ بندی کے پہلے روز، مقاومتی فورسز، امریکی نژاد "الیگزینڈر ایڈن" کو رہا کریں گی۔ لیکن اس میں اہم بات یہ ہے کہ اس تجویز میں غزہ کی پٹی میں مقاومت کو غیر مسلح کرنے کا مطالبہ شامل ہے۔ جس پر فلسطین کے مقاومتی گروہوں نے کہا کہ ہم ایسے مطالبات کو بارہا مسترد کر چکے ہیں۔
واضح رہے کہ 45 روزہ عارضی جنگ بندی کے فریم ورک کے تحت عسکری کارروائیاں بند کی جائیں گی، انسانی امداد غزہ پہنچ سکے گی اور قیدیوں کا تبادلہ ہو گا۔ اسرائیل کی تجویز کے مطابق، جنگ بندی کے دوسرے روز حماس، مقاومت سے تعلق رکھنے والے عمر قید کے 66 اور غزہ کے 611 قیدیوں کی رہائی کے بدلے 5 زندہ اسرائیلی قیدیوں کو رہا کرے گی۔ تاہم صیہونیوں کا کہنا ہے کہ قیدیوں کے تبادلے کا یہ عمل کسی تقریب کی صورت میں نہ ہو۔ 5 صیہونیوں کی رہائی کے بعد غزہ کی پٹی میں بے گھر افراد کے لئے ضروریات زندگی سے تعلق رکھنے والے امدادی سامان کو داخلے کی اجازت ہو گی جب کہ اسرائیلی فوج، رفح اور شمالی غزہ کی پٹی میں اپنی دوبارہ تعیناتی شروع کر دے گی۔ جنگ بندی کی ان تجاویز پر ردعمل دیتے ہوئے سامی ابو زھری نے کہا کہ اسرائیل نے ان تجاویز میں کہیں بھی جنگ کے مکمل خاتمے کا ذکر نہیں کیا۔ اسرائیل صرف اپنے قیدیوں کی رہائی چاہتا ہے۔ بہرحال ہم بھی یک مرحلہ تبادلے کے لئے تیار ہیں۔جس کے بدلے میں جنگ کا خاتمہ ہو اور اسرائیلی فوج غزہ کی پٹی سے باہر نکلے۔ حماس کے ان رہنماء نے کہا کہ اسرائیل کے ان تمام جرائم میں امریکہ برابر شریک ہے۔ آخر میں انہوں نے کہا کہ ہم اس وقت امریکی حکومت سے مستقیماََ کسی رابطے میں نہیں ہیں۔