اسلام آباد اور بلوچستان ہائیکورٹ کے ایڈیشنل ججز نے حلف اٹھا لیا
اشاعت کی تاریخ: 21st, January 2025 GMT
اسلام آباد (وقائع نگار+ نوائے وقت پورٹ) اسلام آباد ہائیکورٹ کے دو نئے ایڈیشنل ججز جسٹس راجہ انعام امین منہاس اور جسٹس محمد اعظم خان نے حلف اٹھا لیا۔ ججز کا نیا ڈیوٹی روسٹر بھی جاری کر دیا گیا۔ گذشتہ روز منعقدہ تقریب میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے دونوں نئے ججز سے حلف لیا، اس موقع پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز، جوڈیشل افسران، اسلام آباد بار کونسل، اسلام آباد ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن، ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن، سینئر وکلاء اور دیگر نے شرکت کی۔ حلف اٹھانے کے بعد دونوں نئے ججز جسٹس راجہ انعام امین منہاس اور جسٹس محمد اعظم خان نے باقاعدہ طور پر اپنے اپنے فرائض کی ادائیگی شروع کر دی اور کیسز کی سماعت بھی کی۔ ادھر نئے ججز کی حلف برداری کے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ رجسٹرار آفس نے نیا ڈیوٹی روسٹر بھی جاری کر دیا، چیف جسٹس عامر فاروق کی منظوری کے بعد جاری ججز ڈیوٹی روسٹر کے مطابق رواں ہفتہ منگل سے جمعہ تک 5 ڈویژن بنچز اور 10 سنگل بنچز موجود ہوں گے، نئے روسٹر کے مطابق ڈویژن بنچ نمبر 1 میں چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس انعام امین منہاس، ڈویژن بنچ نمبر 2 میں جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان، ڈویژن بنچ نمبر 3 جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز، ڈویژن بنچ نمبر 4 میں جسٹس طارق جہانگیری اور جسٹس اعظم خان جبکہ ڈویژن بنچ نمبر 5 میں جسٹس بابر ستار اور جسٹس ارباب محمد طاہر شامل ہوں گے۔ دو ایڈیشنل ججز کی تقرری کے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز کی تعداد 10 ہو گئی ہے۔ دوسری جانب بلوچستان ہائیکورٹ میں بھی ایڈیشنل ججز کی تقریب حلف برداری منعقد کی گئی جس میں تین ججز نے اپنے عہدے کا حلف اٹھایا۔ چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ جسٹس محمد ہاشم خان کاکڑ نے ایڈیشنل ججز سے عہدے کا حلف لیا۔ حلف اٹھانے والے ججز میں آصف ریکی، ایوب ترین اور نجم الدین مینگل شامل ہیں۔ ایڈیشنل ججز کی تقرری کے بعد بلوچستان ہائیکورٹ میں ججز کی تعداد 14 ہو گئی ہے۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: بلوچستان ہائیکورٹ ڈویژن بنچ نمبر باد ہائیکورٹ ایڈیشنل ججز اسلام ا باد اور جسٹس چیف جسٹس کے بعد ججز کی
پڑھیں:
صدر مملکت کے پاس ججز کے تبادلوں کا اختیار ہے، جسٹس محمد علی مظہر کے ریمارکس
اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججوں کے تبادلوں کیخلاف کیس کی سماعت جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں 5 رکنی آئینی بینچ نے کی، جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس شاہد بلال اور جسٹس صلاح الدین پنہور سمیت جسٹس شکیل احمد بھی آئینی بینچ میں شامل تھے۔
جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ عدالت کے سامنے 7 مختلف درخواستیں موجود ہیں، سنیارٹی کیس میں 5 ججوں نے بھی درخواستیں دیں، کیوں نہ ہم ججز کی درخواست کو ہی پہلے سنیں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججوں کے وکیل منیر اے ملک اور بیرسٹر صلاح الدین عدالت میں پیش ہوئے، جسٹس محمد علی مظہر نے بتایا کہ اس کیس میں دو اہم نکات ہیں، ایک نکتہ یہ ہے کہ ججز کا تبادلہ ہوا، دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ ججز کی سینیارٹی کیا ہو گی۔
یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد: قائم مقام چیف جسٹس اور ججز کے درمیان نیا تنازع کھڑا ہوگیا
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ ایک بات واضح ہے کہ سول سروس ملازمین کے سنیارٹی رولز یہاں اپلائی نہیں ہوں گے، دیکھنا یہ ہے کیا سینیارٹی پرانی ہائیکورٹ والی چلے گی۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ دوسرا سوال ہے کیا تبادلے کے بعد نئی ہائیکورٹ سے سینیارٹی شروع ہو گی، انہوں نے ججوں کے وکلا سے دریافت کیا کہ ان کا اعتراض تبادلے پر ہے یا سینیارٹی میں تبدیلی پر، جس پر منیر اے ملک بولے؛ ہمارا اعتراض دونوں معاملات پر ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ جج کا تبادلہ آرٹیکل 200 کے تحت ہوا وہ پڑھ دیں، منیر اے ملک نے عدالتی ہدایت پر آرٹیکل 200 پڑھ کر سنایا۔
مزید پڑھیں: عمران خان نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں 3 ججوں کا تبادلہ چیلنج کردیا
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آئین کے مطابق جس جج کا تبادلہ ہو اس کی رضامندی ضروری ہے، دونوں متعلہ ہائیکورٹس کے چیف جسٹس کی رضامندی بھی لازمی ہے، اس کے علاوہ چیف جسٹس آف پاکستان کی رضامندی بھی لازم قرار دی گئی ہے۔
منیر اے ملک کا موقف تھا کہ جج کا تبادلہ صرف عارضی طور پرہو سکتا ہے، جس پر جسٹس محمد علی مظہر بولے؛ ایسا ہوتا تو آئین میں لکھا جاتا وہاں تو عارضی یامستقل کا ذکر ہی نہیں، آئین میں صرف اتنا لکھا ہے کہ صدر پاکستان جج کا تبادلہ کرسکتے ہیں۔
منیر اے ملک نے موقف اختیار کیا کہ صدر مملکت کے پاس ججز تبادلوں کا لامحدود اختیار نہیں، ججز تبادلوں کے آرٹیکل 200 کو ججز تقرری کے آرٹیکل 175 اے کیساتھ ملا کر پڑھنا ہوگا، آئین کے مطابق تمام ججز کے ساتھ یکساں سلوک کیا جانا چاہیے۔
مزید پڑھیں: ایک اور بحران؟ دوسری ہائیکورٹ سے جج لاکر چیف جسٹس نہ بنایا جائے، اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کا یحییٰ آفریدی کو خط
جسٹس محمد علی مظہر کے مطابق صدر مملکت کے پاس ججز کے تبادلوں کا اختیار ہے، اگر ججز کے تبادلوں میں اضافی مراعات ہوتیں تو اعتراض بنتا تھا اسی طرح خود سے صدر ججز کے تبادلے کر دے تو سوال اٹھے گا۔
جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس پاکستان کی سفارش پر تبادلے آئین کے مطابق ہیں، آپ کی درخواست میں کام کرنے سے روکنے کی استدعا ہی نہیں، آپ زبانی استدعا کر رہے ہیں جبکہ آپ کی درخواست میں کام سے روکنے کی استدعا شامل نہیں۔
اس موقع پر کراچی بار ایسوسی ایشن کے وکیل فیصل چوہدری نے عدالت کو بتایا کہ کراچی بار ایسوسی ایشن کی درخواست میں کام روکنے کی استدعا کی گئی ہے، منیر ملک نے کہا کہ جوڈیشل کمیشن کا اجلاس 18 اپریل کو ہے لہذا سماعت 18 اپریل سے پہلے مقرر کی جائے۔
عدالت نے کیس کی سماعت 17 اپریل تک ملتوی کردی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آرٹیکل 175 آرٹیکل 200 اسلام آباد ہائیکورٹ ججز تبادلہ کیس جسٹس محمد علی مظہر جوڈیشل کمیشن رضامندی سپریم کورٹ سینیارٹی صدر مملکت کراچی ہائیکورٹ بار