Nai Baat:
2025-04-30@18:18:56 GMT

کہاں گئے وہ لوگ

اشاعت کی تاریخ: 21st, January 2025 GMT

کہاں گئے وہ لوگ

گزشتہ دنوں لاہور جم خانہ میں ایک پرانے بیوروکریٹ دوست سے ملاقات ہو گئی۔ دوران گفتگو ہم جس موضوع پر بحث کر رہے تھے کہ ہمارے ہاں ایک دور ایسا بھی گزرا ہے جب پاکستان میں ایسے بڑے لوگ بھی گزرے جنہوں نے پاکستان کا نام نہ صرف روشن کیا بلکہ وہ اپنے اداروں کے لئے بھی بڑی نیک نامی کا سبب بنے۔ ایک نہیں کئی نام جن کی ایمانداری اور کارکردگی پر کتابیں لکھی جا سکتی ہیں۔ اس ملاقات میں ذکر ہوا ایئرمارشل نور خان (مرحوم) کا جنہوں نے 65ء کی فضائی جنگ میں حصہ لیا وہ 71ء کی جنگ میں بھی ہیرو ٹھہرائے گئے۔ فضائیہ سے ریٹائرمنٹ کے بعد ان کی شاندار صلاحیتوں کے مزید امتحان لئے گئے۔ وہ ہاکی فیڈریشن کے صدر بنے تو پاکستانی ہاکی ٹیم کو ورلڈ کپ جتواا دیا پھر کرکٹ میں آئے تو ٹیم کو میرٹ کے سپرد کرتے ہوئے بہترین ٹیم بنا دیا پھر پی آئی اے کے چیئرمین بنے تو اس کو تباہی سے بچایا۔ نور خان کیسے انسان تھے انہی کے زمانے کا ایک واقعہ میرے سابقہ بیوروکریٹ دوست نے بتایا تو دل بھر آیا کہ آج ایسے لوگوں کی ہمیں شدید ضرورت ہے اور ایسے لوگ ہی نایاب ہیں اگر اچھے لوگ ہیں تو وہ نور نظر نہیں یا وہ اس سوچ کے تحت آگے نہیں آ رہے کہ اچھا کمایا، نام خراب نہ ہو جائے، اچھی کمائی عزت اور گزرا اچھا وقت جو ان کی عمر بھر کی کمائی ہے وہ بے ضمیر معاشرے میں کہیں کھو نہ جائے۔

تم پھر نہ آ سکو گے بتاتا تھا تو مجھے
تم دور جا کے بس گئے میں ڈھونڈتا پھرا
جب نور خان (مرحوم)پی آئی اے کے چیئرمین تھے ایک دن دوران سفر لندن کے دوران انہوں نے محسوس کیا کہ جہاز میں کوئی گڑ بڑ ہے۔ (یہ لندن کا واقعہ ہے) فلائٹ میں گڑبڑ کیا تھی یہ سب جاننے کے لئے نورخان اپنی سیٹ سے اٹھے اور جہاز کے کارپٹ میں دروازہ کھول کر اندر آئے اور جہاز کے کپتان سے پوچھا کہ جہاز میں کچھ غلط ہوا ہے کیونکہ دوران پرواز جہاز میں کچھ آوازیں آئی ہیں تو نورخان کو آگے سے جو جواب ملا وہ پوری فرسٹ کلاس میں بیٹھے مسافروں نے بھی سنا۔
’’آئی ایم ان کمانڈ ایئر کرافٹ پلیز کارپٹ کا وہ دروازہ بند کر دیں اور یہاں سے چلے جائیں۔‘‘

یہ جواب سن کر نورخان بغیر کوئی بات کئے کارپٹ کا دروازہ بند کرکے اپنی سیٹ پر بیٹھ گئے۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب ایک پائلٹ اپنے چیئرمین کو اس طرح کا جواب دے گا یہ بات جانتے ہوئے بھی کہ اس کے ایک حکم سے اس کی نوکری ہمیشہ کے لئے جا سکتی ہے دوسری طرف چیئرمین بھی تو سوچ سکتا تھا کہ اس کے عہدے سے کئی درجے نیچے کا ملازم کس طرح جواب دے رہا ہے مگر ایسا نہیں ہوا۔ نورخان اپنے ہوٹل پہنچے اور پی اے کو کہا کہ پائلٹ کو فون کرو اور اسے کہو کہ آج وہ میرے ساتھ ڈنر کرے۔ میں جہاز والے واقعہ کی اس سے معذرت کرنا چاہتا ہوں تو جواب میں پی اے نے کہا کہ سر اس کی ضرورت نہیں۔ تو نور خان نے کہا نہیں میں نے معذرت کرنی ہے۔ یاد رہے نورخان اپنے زمانے میں وہ آدمی تھا جس سے پورا پاکستان گھبراتا تھا۔ نورخان نے پھر کہا کہ میرے سے غلطی ہوئی ہے میرا کوئی کام نہیں تھا کہ میں کارپٹ میں جاتا لہٰذا اسی رات نورخان نے اپنے پائلٹ کے ساتھ ڈنر کیا، اس سے باقاعدہ معذرت کی۔ کبھی میں یا آپ نے یہ بات سوچی ہے کہ ہمارے ملک کے ساتھ ہی ایسا کیوں ہو رہا ہے کہ اچھے لوگ اچھے لیڈر اچھے نظریات کے ذہین لوگ ہمارے درمیان موجود ہونے کے باوجود سامنے نہیں آتے اور ایسے لوگ واقعی اگر اداروں میں موجود ہیں تو وہ نورخان کیوں نہیں۔ ان کے اندر کیا خوف ہیں جو پہلے لوگوں میں نہیں تھے جبکہ میرا یہ دعویٰ ہے کہ ہمارے درمیان ایک نہیں ہزاروں لوگ ہیں جو ایئرمارشل نورخان مرحوم جیسے لوگوں کے کردار کے مالک ہیں۔ کیوں ایسے حالات پیدا کر دیئے گئے کہ اچھے کردار کے لوگوں کو کام نہیں کرنے دیا جاتا۔

ہمارے زمانے میں جب پی ٹی وی ہمارے گھروں میں اکیلا ہی حکمرانی کرتا تھا تو روزانہ ’’خبرنامہ‘‘ کے بعد فرمان قائدؒ کے ساتھ ساتھ قائداعظمؒ اور ان کی بہن مادر ملت فاطمہ جناح کی تصویر بھی دکھائی جاتی تھی تو بچے اپنے والدین سے پوچھتے کہ قائداعظمؒ کون ہیں تو ان کو بتایا جاتا کہ انہوں نے پاکستان بنایا تھا تو پھر سوال آتا کہ کونسا پاکستان تو ہم جواب دیتے کہ جہاں ہم رہ رہے ہیں پھر سوال آتا کہ قائداعظم کہاں ہیں جواب دیتے کہ وہ اللہ میاں کے پاس ہیں پھر سوال آتا کہ اللہ میاں کہاں ہیں، اللہ میاں سے بولو کہ وہ ہمیں قائداعظمؒ واپس دے دیں وہ ہمیں پاکستان واپس دیں گے جو پہلے بہت بڑا پاکستان تھا اب یہ آدھا پاکستان ہے جو اب پورا پاکستان کہلاتا ہے۔ اب ان بچوں کو کون سمجھائے کہ اب قائداعظمؒ واپس آ سکتے ہیں نہ ٹوٹا پاکستان پھر سے بڑا پاکستان بن سکتا ہے کہ اب وہ لوگ نہیں ہیں وہ لیڈر نہیں ہیں وہ طاقتور نظریئے نہیں ہیں، نہ وہ سیاست دان ہیں جو نظریہ پاکستان کی سیاست کے قائل تھے جو پاکستان کے لئے سیاست کرتے تھے اقتدار ان کا مقصد حیات نہیں تھا۔ جمہوریت انتقام ہے یہ نعرہ صرف بیوقوف بنانے کے لئے لگایا گیا۔ جمہوریت کے نام پر ہم نے کس قدر تباہیاں ہوتے دیکھیں۔ اس کے نام پر کس قدر جھوٹ بول بول کر ہم نے مارشل لاء لگوائے۔ اپنے ہاتھوں ڈکٹیٹرز پیدا کئے۔ اسلام سے عوام تک جمہوریت۔ دوسری طرف یہی جمہوریت سقراط کو زہر کا پیالہ پلاتی ہے، منصور کو سولی پر چڑھاتی ہے، عیسیٰ کا احترام نہیں کرتی۔ اسی جمہوریت کے ناتے کوئی مفکر، امام عالم دین، ولی یا مرد حق برسراقتدار نہیں آ سکتا۔ اسی جمہوریت نے بھٹو کو غلط پھانسی دلوائی، ایسے حالات میں کہاں اچھے لوگ سامنے آئیں گے جو زندگیوں کا رسک لے کر اس ملک و عوام کے لئے کچھ کر جائیں گے۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: ہیں تو ہیں جو کے لئے

پڑھیں:

یہ نہیں ہو سکتا ۔۔۔۔۔

یہ نہیں ہو سکتا کہ بھارت کسی جنگی جنون میں پاکستان پر الزام تراشی کرے، حملے کی گیدڑ بھبکیاں دے، بین الاقوامی دنیا کو پاکستان کے خلاف اکسائے، بھارتی میڈیا کے احمق اینکرز گلا پھاڑ پھاڑ کے پاکستان کے خلاف زہر اگلیں، آر ایس ایس کے غنڈے برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمیشن کی عمارت پر حملہ کریں، عمارت کی کھڑکیوں کے شیشے توڑ دیں، عمارت پر زرد رنگ پھینک دیں (جو آر ایس ایس جیسی دہشتگرد تنظیم کا رنگ ہے ) اور اس سب کو دیکھ کر پاکستان اور پاکستانی خاموش رہیں۔

یہ کیسے ممکن ہے کہ بھارت کی جانب سے جنگ کا جنون سر چڑھ کر بول رہا ہو  اور ایسے میں  اس ملک میں کوئی صوبائی تفرقہ سر اٹھائے۔ ایسا ممکن نہیں ہے۔ جب بھی بھارت کی گیدڑ بھبکیوں کا ذکر آتا ہے ہر تفرقہ خود ختم ہو جاتا ہے، جب بھی بھارت پاکستان کو بری نظر سے دیکھتا ہے تو پھر نہ کوئی سندھی ہوتا ہے نہ بلوچی نہ پٹھان نہ پنجابی۔ سب مل کر اس ارض پاک کے محافظ ہوتے ہیں، سب کے سینوں میں جذبہ شہادت موجیں مار رہا ہوتا ہے، سب کی زبان پر نعرہ تکبیر کا ورد ہوتا ہے۔ پھر کوئی سوچ صوبائی نہیں ہو سکتی، پھر کوئی صوبہ تنہا نہیں ہو سکتا، پھر کوئی قومیت الگ نہیں ہو سکتی۔ سب مل کر ایک دھاگے میں پروئے جاتے ہیں۔ ایک نظریے کے داعی ہو جاتے ہیں۔ ایک رب کے سامنے حاضر ہو جاتے ہیں۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ دشمن ہماری صفوں میں دراڑ ڈالنے کی کوشش کرے اور ہم اس کی چال میں آ جائیں۔ ایسے موقعے پر قومی اتحاد ہمارا شعار ہوتا ہے۔ پاکستان ہمارا نظریہ ہوتا ہے اور اس کا تحفظ آخری سانس تک ہمارا عزم ہوتا ہے۔ ایسے میں ہم سب سیسہ پلائی دیوار بنے ڈٹے ہوتے ہیں۔ ایسے میں کوئی صوبائی اختلاف ہو، یہ نہیں ہو سکتا۔

اس ملک میں بے شمار سیاسی جماعتیں ہیں، سب کے مختلف نظریے ہیں، سب کے ووٹر مختلف ہیں، سب کا منشور مختلف ہے۔ سب سیاسی جماعتوں کی سوچ، طریقہ کار، منصب، علاقہ اور مقام مختلف ہے۔ لیکن ایک بات یاد رکھیں کہ اگر کوئی ایسا وقت آئے کہ ہمارا ازلی دشمن بھارت ہم پر حملہ کرنے کا سوچے، ہماری سالمیت کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرے، رات کی تاریکی میں ہم پر حملہ کرنے کی جسارت کرے تو پھر چشم فلک نے دیکھا ہے کہ سب سیاسی  اختلافات ختم ہو جاتے ہیں، نظریات کے سب فرق مٹ جاتے ہیں، سب کے منشور کا واحد نکتہ پاکستان ہو جاتا ہے، سب کے ووٹرز یک زبان ہو جاتے ہیں۔ ایسے میں کوئی اختلاف، اختلاف نہیں رہ جاتا۔ معاملہ دفاع پاکستان کا ہو تو سب ایک ہو جاتے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ سیاست، سماج، ایوان اس ارض پاکستان کے وجود کے مرہون منت ہیں۔ یہ سب اس زمیں کی عطا ہیں۔ اس کا دفاع ہم سب پر فرض ہے تو یہ نہیں ہو سکتا کہ ایسے میں  سیاسی طور پر ملک میں کوئی تقسیم ہو۔ یہ نہیں ہو سکتا۔

بھارت نے جس قوم کو للکارا ہے جذبہ شہادت اس کے خمیر میں ہے۔ اس ملک کے بچے بچے نے سبق یہی پڑھا ہے کہ اس کی حفاظت کے لیے جان قربان کرنے سے بڑا اعزاز کوئی نہیں۔ اس ملک کی خاطر اپنا خون بہانے سے بڑا اکرام کوئی نہیں۔  وطن کے دفاع کی بات ہو تو یہ ساری قوم سرفروش ہے۔ اس ملک سے عشق کا سودا ان کے سروں میں سمایا ہے۔ اس معاملے میں یہ نہ کسی مصلحت کو دیکھتے ہیں نہ کسی معاملہ فہمی‘ سے کام لیتے ہیں۔ ہم وہ قوم ہیں جس نے اپنے شہیدوں کے گیت گائے ہیں، اپنے غازیوں کو تاج کی طرح ماتھوں پر سجایا ہے۔’ اپنے فوجی جوانوں کی دلیری کی داستانیں ازبر ہیں۔ اپنے شیر دل جوانوں کے قصے اپنے بزرگوں سے سنے ہیں۔ ہماری ساری یادداشت وطن سے محبت کے جذبے میں گندھی ہے۔ ہم ہر قدم ہر تیار ہیں، ہم ہر منزل پر کامران ہیں۔ ہم چوبیس کروڑ اپنی سرحدوں کے محافظ ہیں۔ یہ پورا ملک ہی جاں نثاروں کا ہے۔ یہ قوم ہی شہیدوں اور غازیوں کی ہے۔ اس پر کوئی حملہ آور ہو اور پوری قوم پوری طاقت سے اس دھرتی کا دفاع نہ کرے یہ نہیں ہو سکتا۔ یہ نہیں ہو سکتا۔

بھارت، بلوچستان میں بی ایل اے جیسی دہشتگرد تنظیموں کی پشت پناہی کرے، خیبر پختونخوا میں دہشتگردی کے واقعات میں ملوث ہو۔ مقبوضہ کشمیر میں ظلم کے پہاڑ توڑے، انسانی حقوق کو پامال کر دے، کینڈا میں سکھوں کے لیڈر کو قتل کروا دے، امریکا مں دہشتگردی میں ملوث پایا جائے، یمن کی ابتری میں اس کا مکروہ ہاتھ دکھائی دے اور نفرت کی یہ آگ بھارت کو خود جلا کر بھسم نہ کردے، یہ ممکن ہی نہیں۔

بھارت خو د تقسیم کے دھانے پر کھڑا ہے۔ سکھ علیحدگی پسند اپنے حقوق لینے کے لیے سر توڑ کوشش کر رہے ہیں۔ بھارتی مسلمان مودی سرکار سے بغاوت کرنے پر آمادہ ہیں ۔ چھوٹی ذات کے ہندو ہندوتوا کے متاثرین میں سے ہیں۔ انسانی حقوق کے علمبردار بھارتی چیرہ دستیوں پر شرمندہ ہیں۔ ایسے میں یہ نہیں ہو سکتا کہ بھارت ساری دنیا میں دہشتگردی کرے، ایک عالمی دہشتگرد کہلائے اور اس کے اندر تقسیم نہ ہو۔ آج نہیں تو کل نفرت کے اس بھاری کاروبار کا خمیازہ بھارت کو خود اٹھانا ہے۔ کیونہ یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ دنیا کو تقسیم کرنے چلیں اور خود تقسیم سے بچ جائیں یہ نہیں ہو سکتا۔ یہ نہیں ہو سکتا۔

یہ درست ہے کہ ہمارے اندر بہت سے سیاسی، سماجی، صوبائی اختلافات ہیں لیکن ہمیں تو اپنے ناتجربہ کار دشمن کا شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ اس نے ہمیں للکار کر ہمارے سارے اختلافات ختم کر دیے ، ہم  سب کو متحد کر دیا۔ کیونکہ یہ نہیں ہو سکتا کہ اس دھرتی کو کوئی بری نظر سے دیکھے اور سارا پاکستان اس کی دفاع کے لیے سینہ سپر نہ ہو جائے، یہ نہیں ہو سکتا، یہ نہیں ہو سکتا۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عمار مسعود

عمار مسعود کالم نگار، سیاسی تجزیہ کار، افسانہ نگار اور صحافی۔ کبھی کبھی ملنے پر اچھے آدمی ہیں۔ جمہوریت ان کا محبوب موضوع ہے۔ عوامی مسائل پر گہری نظر اور لہجے میں جدت اور ندرت ہے۔ مزاج میں مزاح اتنا ہے کہ خود کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ تحریر اور لہجے میں بلا کی کاٹ ہے مگر دوست اچھے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • حملہ کہاں ہو گا یہ بھارت کا انتخاب، آگے کہاں جانا ہے یہ ہم بتائیں گے،ڈی جی آئی ایس پی آر
  • پُرامن اور ذمہ دار قوم، جنگ نہیں چاہتے، بیرسٹر علی ظفر
  • مودی جی ہم نے ثبوت رکھ دیے اب آپ بھی لے آیے ثبوت
  • اک مودی ہوتا تھا
  • اعصاب کی جنگ میں پاکستان نے انڈیا کو ناک آؤٹ کردیا
  • پاک بھارت کشیدگی
  • بھارت کو معلوم بھی نہیں ہوگا ہم کہاں سے گھسیں گے اور کہاں پھٹیں گے، فیصل واوڈا
  • کسی نئی جگہ لے جانے کا کہنے پرٹیسلا نے مالک کو کہاں پہنچا دیا؟ ایلون مسک بھی اپنی ہنسی پر قابو نہ رکھ پائے
  • یہ نہیں ہو سکتا ۔۔۔۔۔
  • فکر ناٹ