Nai Baat:
2025-04-15@11:26:20 GMT

اسلامی کلچر

اشاعت کی تاریخ: 21st, January 2025 GMT

اسلامی کلچر

کلچر کا تعلق براہِ راست انسانی فکر سے ہے۔ انسان نے اپنے رہن سہن کے لیے جو رنگ ڈھنگ اپنائے، وہ طرزِ زندگی بن کر اس کے معاشرے کا حصہ بن گئے۔ اس میںشک نہیں کہ ہر خطے کا کلچر اپنا اپنا ہے۔ یہ بھی درست کہ اپنے کلچر کی حفاظت انسان اپنی جان کی طرح کرتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان یہ چاہتا ہے کہ اس کا معاشرہ دیگر معاشروں سے زیادہ تازہ، با رونق، امیر اور شاندار دکھائی دے۔ اس کی رسومات دیگر خطوںسے منفرد نظر آئیں۔ اس انفرادیت کے حصول کی خاطر وہ اپنی رسومات کو رواج بنانے کی کوشش میں محو رہتا ہے۔ اس یہی کوششیں اس کے کلچر کو پختہ کرتی چلی جاتی ہیں۔ انسان کو سب سے زیادہ متاثر اس کا عقیدہ کرتا ہے۔ اپنے عقیدے پہ سمجھوتا کرنا ہر دور کے انسان کے لیے مشکل رہا ہے۔ وہ رسومات، رواج اور تمدن میں تو اتنی لچک ضرور رکھتا ہے کہ دوسروں کی اچھی رسومات کو اپنے معاشرے میں اپنے انداز میں ڈھال کر اپنی ثقافتی ترتیب کو کچھ اور بہتر بنا لیتا ہے لیکن مذہب کا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ انسان اپنا مذہب آسانی اپنے ہاتھ سے نکلنے نہیں دیتا خواہ اس کے مذہب میں ایسے عقائد بھی کیوں نہ شامل ہوں جن کا دفاع وہ اپنے مخالفین کے سامنے کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔ کہا جا سکتا ہے کہ انسان خطے کی رسومات کو اپنے کلچر میں شامل کرتا ہے، لیکن اصل کلچر وہی ہوتا ہے جس کو وہ اپنے مذہب سے حاصل کرتا ہے۔ مذہب سے انسانی تعلق جذبات میں ڈھلاہوتا ہے اور وہ اپنے مذہبی افکار کو دوسروں پہ مسلط کر کے اپنی تہذیبی حیثیت کو پختہ کرنا چاہتا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا: ’’اور آپؐ سے یہود اور نصاریٰ اس وقت تک خوش نہ ہوں گے جب تک آپؐ ان کی ملت کی اتباع نہ کر لیں۔‘‘ (البقرہ،۲:۱۲۰)
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اس لیے کہ اسلام نے صرف قوانین ہی نہیں سمجھائے تھے بلکہ ان قوانین کی تشریح جس اعلیٰ طریقے سے کی ہے اس نے زمانے کو ایک نئی راہ دی۔ اسلامی تہذیب نے ایک نئی تہذیبی جہت کو جنم دیا۔ اسلامی تہذیب کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ اس نے انسانی عزت پہ زور دیا۔ اس کے تمام قوانین انسانی
عظمت ہی کے گرد گھومتے اور اسی کے ضامن ہیں۔ عقائدِ اسلام اپنے لحاظ سے منفرد ہیں، اس لیے کہ ایک ایسے رب کی عبادت پہ زور دیا جا رہا تھا، جو ظاہر میں نظر نہیں آ رہا تھا لیکن اس کے ہونے کا احساس ہر دل تک اتارنے کی کوشش کی جا رہی تھی۔ یہ آسان کام نہیں تھا اس لیے کہ انسان کسی بھی ایسی چیز کو کیسے مان سکتا تھا جسے اس کی نگاہ نے دیکھا نہ ہو، مگر اس میں ایک انفرادی پہلو بھی تھا۔ انسان کو یہ احساس دلایا گیا کہ اس کی عظمت اسی حقیقت میں پنہاں ہے کہ وہ ایک اللہ کے سامنے سر کو جھکائے۔ اس کے سامنے جھکنے کے بعد کہیں اور سر جھکانے یا دامن پھیلانے کی اسے ضرورت نہیں۔ اس روایت سے انسان کی حیثیت مسلم ہوئی۔ وحدانیت کا سبق پڑھنے کے بعد انسان کی قدر و قیمت میں اضافہ ہو گیا۔ اسلامی کلچر نے یقین کو پختہ کیا، انسان ان روایات کا امین بنا جن میں ابہام نہیں ہے۔ مضبوط تعلیمات نے جو کلچر عطا کیا وہ صرف اور صرف تفریح ِ طبع ہی کا سبب نہیں تھا بلکہ انسانی افکار کی سر بلندی کی وجہ بھی بنا۔ ایسا نہیں ہے کہ اسلامی تہذیب سے پہلے تہذیب موجود نہیں تھی۔ تہذیب کی ایسی صورت نہیں تھی جو اسلام نے مہیا کی ہے۔ اسلامی تہذیب نے جستجو کا جو پہلو انسانی فکر کو بخشا اس نے انسان کی کھوجی فطرت میں مزید اضطراب پیدا کیا۔ قرآن حکیم جیسی عظیم و مفصل کتاب کا اہلِ اسلام کے لیے وقف ہونا اور اس کی تعلیمات کا ان کے لیے دستور بننا، درحقیقت یہ اسلامی تہذیب کی بڑی برتری ہے۔ پہلی بار کسی مذہب نے علم و ادب اور انسانیت کی بات بغیر کسی تفریق کے کی تھی۔ تہذیب کے رنگ خطے کے اعتبار سے نہیں فکر کے لحاظ سے پھیلے۔ اسلام خطوں کا نہیں افکار کا مذہب ہے، محبت و یگانگت کا مذہب ہے، تحمل و رواداری کا مذہب ہے، برداشت اور بردباری کا مذہب ہے۔ یہ اسلامی تہذیب ہی تھی کہ مکہ میں محمدﷺ فاتح کی حیثیت سے داخل ہوئے لیکن ان کے لہجے میں کوئی للکار نہیں تھی بلکہ عاجزی سے داخل ہونے کے بعد عام معافی کا اعلان کر کے انسانی سوچ کو عملی تہذیب سے دعوتِ ملاقات دی۔ بتوں کو گرایا اور تمام غیر انسانی رسومات کو ختم کر کے انسان کو اس سے متعارف ہونے کا موقع دیا۔ اگر تہذیب انسانی فکر سے تعلق رکھتی ہے تو پھر تہذیب کے جو اصول اسلامی تہذیب نے مہیا کیے ہیں ان سے انکار ممکن نہیں ہے۔ آپﷺ نے مساوات، جمہوریت، رواداری، تحمل، برداشت اور بردباری کے جو اصول وضع کیے ہیں آج کی جدید دنیا اسی فکر سے سلیقہ حاصل کر کے زمانے پہ حاکمیت کے لیے کوشاں ہے۔ اسلامی تہذیب نے انسان کو تشبیہی عبادات سے نکال کر، تنزیہی عبادات کی طرف راغب کیا۔ انسان تصورات کے لیے نہیں بنایا گیا۔ اسے اس دنیا میں نیابتِ الٰہی کا جو تاج عطا کیا گیا ہے اسلامی تہذیب اسے اسی بلندی کا احساس قدم قدم پہ دلاتی ہے۔ وہ پتھروںکی پرستش یا سورج کے سامنے سر جھکانے کے لیے نہیں تھا، اس کا مقصدِ تخلیق کچھ اور تھا وہ اس خالق کے کمالات کے اظہار کے لیے اس زمین پہ اتارا گیا تھا۔ اسے حقِ نیابت ادا کرنے کے لیے انبیا کی صورت میں معلم اور معلمین کے ذریعے ایسا آئین بھیجا جو معاشرتی، معاشی، سیاسی اور سماجی ہر لحاظ سے انسانی فطرت کی تسکین کے عین مطابق تھا۔ اسلامی کلچر نے انسان کے تفریحی ذہن کے لیے ایسے تہوار بھی مہیا کیے جن میں ادب و احترام بھی ہے اور ایک امت ہونے کا احساس بھی ہے۔ اسلامی تہذیب نے انسان کے اندر ایک جذبہ ابھارا جسے ایثار کہا جاتا ہے۔ ایثار نے انسان کی فطرت کو اس قدر بدلا کہ وہی لوگ جو ایک دوسرے کو قتل کرنے کے در پے تھے، وہی لوگ ایسے مذہبی رنگ میں رنگے گئے کہ ان کے رویوں سے جو محبت کی کونپلیں پھوٹیں، انہوں نے زمانے کو مہکا دیا۔ ایک دوسرے کی جان کے دشمن ایک دوسرے کے محافظ بن گئے۔

تہذیب کے پکے رنگوں نے اپنا کمال دکھایا اور صحرا نشین عرب نے تخت نشین ہو کر آئین و جمہوریت کی نئی روایات مہیا کیں۔ رنگ و نسل، زبان و لہجے سے بالاتر ہو کر ایک قرآن، ایک قبلہ، ایک اللہ اور ایک رسولﷺ پہ ایمان لا کر انسان نے ایک ایسی تہذیب کی پیروی کی جس نے ایک نہ مٹنے والے دستور کو جنم دیا۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر جمیل جالبی کی رائے ملاحظہ فرمائیں۔ ’’تاریخی شعور عوام و خواص کی تفریق مٹا کر نا انصافیوں کو دور اور سب کے لیے یکساں مواقع و مساوات کو مرکز ِفکر بنانے میں ہماری دست گیری کر سکتا ہے۔ یہی روح اسلام ہے اور اسی کے نتیجے میں ایک متوازن و متجانس قوم وجود میں آ سکتی ہے ورنہ ہم اسی طرح مستقبل اور اپنے ’’وفاقی وجود‘‘ کی طرف سے بے یقینی کے بحران میں مبتلا رہیںگے‘‘۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: اسلامی تہذیب نے کا مذہب ہے رسومات کو کہ انسان کے سامنے انسان کو تہذیب کی انسان کی کرتا ہے کے لیے

پڑھیں:

جماعت اسلامی کا حافظ نعیم الرحمٰن کی زیر قیادت کراچی میں عظیم الشان ”یکجہتی غزہ مارچ“

اسلام ٹائمز: یکجہتی غزہ مارچ سے حافظ نعیم الرحمٰن، شیخ مروان ابو العاص، ڈاکٹر زوہیر ناجی، علامہ سید حسن ظفر نقوی، کاشف سعید شیخ، منعم ظفر خان، سیف الدین ایڈوکیٹ، توفیق الدین صدیقی، آبش صدیقی، یونس سوہن ایڈوکیٹ و دیگر نے خطاب کیا۔ خصوصی رپورٹ

جماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی امیر حافظ نعیم الرحمٰن کی زیر قیادت کراچی کی شاہراہ فیصل پر عظیم الشان ”یکجہتی غزہ مارچ“ کا انعقاد کیا گیا، لاکھوں کی تعداد میں کراچی کے عوام، علماء، وکلاء، ڈاکٹرز، انجینئرز، طلبہ، تاجر، مزدور سمیت سول سوسائٹی و تمام طبقات اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ مرد و خواتین ایمانی جذبے اور بھرپور جوش و خروش کے ساتھ اپنی فیملی کے ہمراہ جوق درجوق ”یکجہتی غزہ مارچ“ میں شر یک ہوئے۔ یکجہتی غزہ مارچ میں مرکزی خطاب حافظ نعیم الرحمٰن نے کیا، جبکہ چیئرمین القدس اتحاد المسلمین شیخ مروان ابو العاص، حماس کے ترجمان و غزہ کے رہائشی ڈاکٹر زوہیر ناجی، امیر جماعت اسلامی سندھ کاشف سعید شیخ، امیر کراچی منعم ظفر خان، نائب امیر کراچی سیف الدین ایڈوکیٹ، سکریٹری کراچی توفیق الدین صدیقی، مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی رہنما علامہ سید حسن ظفر نقوی، اسلامی جمعیت طلبہ کراچی کے ناظم آبش صدیقی، جماعت اسلامی کراچی اقلیتی ونگ کے رہنما یونس سوہن ایڈوکیٹ و دیگر نے بھی خطاب کیا۔

مرکزی امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمٰن نے شاہراہ فیصل پر ”یکجہتی غزہ مارچ“ کے لاکھوں شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکمرانوں نے اہل غزہ و فلسطین کیلئے عملی کردار ادا نہ کیا تو تاریخ انہیں کبھی معاف نہیں کرے گی، حکومتِ پاکستان لیڈنگ رول ادا کرے، وزیراعظم شہباز شریف اور فوجی قیادت آگے بڑھیں، عالم اسلام کے حکمرانوں اور فوجی سپہ سالاروں کا اجلاس بلائیں اور اسرائیل کو مشترکہ طور پر واضح پیغام دیں کہ اگر فلسطینیوں کی نسل کشی بند نہ کی گئی تو ہم پیش قدمی کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ حماس کی تحریک کبھی بھی ختم نہیں ہو سکتی، حماس محبت، خدمت، مزاحمت، مقاومت اور سامراج کے خلاف جہاد و قتال کا عنوان ہے، اہل غزہ و حماس سے اظہار یکجہتی کیلئے 22 اپریل کو پورے ملک میں شٹر ڈاؤن ہڑتال ہوگی، اسلامی ممالک کے حکمرانوں کو خطوط ارسال کر چکے ہیں، فلسطینی قیادت سے توثیق لے چکے ہیں، عالم اسلام کی تحریکوں سے رابطہ کیا جا رہا ہے، 22 اپریل کی ہڑتال کو گلوبل ہڑتال بنائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ طاغوت کے ہتھیار سے طاغوت کا مقابلہ کریں گے، طاغوت کی تجارت نہیں چلنے دیں گے، صیہونی مصنوعات کی بائیکاٹ کی مہم مزید تیز کریں گے، پاکستان کے علمائے کرام نے جہاد کا فتویٰ دیا اور اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کی اپیل کی تو اس پر امریکا و اسرائیل کے غلاموں اور یہودی ایجنٹوں کو کیوں تکلیف ہو رہی ہے۔

حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ پیپلز پارٹی، نواز لیگ اور پی ٹی آئی امریکا و اسرائیل کی مذمت اور ان دہشتگرد ریاستوں کے خلاف بات کیوں نہیں کرتیں، تمام جماعیتں امریکا سے آشیرباد وصول کرنے کیلئے لائن بنا کر کھڑی ہیں، امریکا و اسرائیل نے اقوام متحدہ کا چارٹر پھاڑ کر رکھ دیا ہے، امریکا و اسرائیل کے غلام اپنی سازشوں سے امت کے جذبہ جہاد کو کم نہیں کر سکتے۔ انہوں نے کہا کہ آج شہر کراچی نے ایک مرتبہ پھر ثابت کیا ہے کہ یہ شہر عالم اسلام کا سب سے بڑا شہر ہے، اہل کراچی کا لاکھوں کی تعداد میں شرکت کا جذبہ ضرور رنگ لائے گا، آج کا یکجہتی غزہ مارچ اختتام نہیں بلکہ آغاز ہے، اہل فلسطین سے اظہار یکجہتی کی تحریک جاری رہے گی، بچوں کا بھی مارچ ہوگا، 18 اپریل کو ملتان اور 20 کو اسلام آباد میں پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا مارچ ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ اہل غزہ جس مصیبت میں ہیں وہ بیان سے باہر ہے، 70 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، طاقتور کی حکمرانی ہے، استعمار اور سامراج فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہا ہے، 7 اکتوبر 2023ء کو اسرائیل شکست کھا چکا ہے، اسرائیل کی ٹیکنالوجی کو دریا برد کر دیا ہے، اسرائیل غزہ کو جیل بنا رہا ہے اور رفح بارڈر پر قبضہ کر رہا ہے، آج بھی اسرائیل القسام کا مقابلہ نہیں کر سکتا، اہل غزہ کے مسلمان کہہ رہے ہیں کہ پوری مسلم دنیا کے میزائل و ایٹم بم سامنے کیوں نہیں آتے، دنیا بھر کے باضمیر انسان تو سڑکوں پر احتجاج کرنے پر مجبور ہیں، لیکن مغرب کا سامراجی ذہن سب کے سامنے بے نقاب ہوگیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اہل غزہ اہل کراچی سے جذبہ حاصل کر رہے ہیں، ڈیڑھ سال سے مقابلہ کر رہے ہیں، خلیل الحیہ مزاحمت و مقاومت کے محاز میں ڈٹے ہوئے ہیں، آج ان کے پوتے کو شہید کر دیا ہے، شہادتوں کا قافلہ اور عزیمتوں کی داستاں کو طاقت سے نہیں کچلا جا سکتا، ان شاء اللہ فلسطینیوں کو آزادی ضرور ملے گی، بچوں کے خون کی برکت سے سامراج سے نجات ملے گی۔

شیخ مروان ابو العاص نے اپنے آڈیو خطاب میں کہا کہ ہم فلسطینی بھائیوں کی طرف سے پاکستانی بھائیوں کو سلام عقیدت پیش کرتے ہیں، آپ سب جانتے ہیں کہ غزہ میں ظلم و بربریت جاری ہے، ہمارے گھروں، مساجدوں اور اسپتالوں کو تباہ و برباد کر دیا ہے، اہل غزہ کے مسلمان امت کے مسلمانوں سے مدد طلب کر رہے ہیں، ہمارے بچوں اور عورتوں پر بمباری کی جا رہی ہے، میرے پاکستانی بھائیو، ہم بیت المقدس اور اہل غزہ کی آزادی کیلئے ڈٹے رہیں گے، اہل غزہ و فلسطین کے مسلمانوں نے اپنے دوستوں اور دشمنوں کو پہچان لیا ہے، غزہ کے بچوں اور خواتین کے حقوق کی بات کرنے والے صرف باتیں ہی کرتے ہیں، عملاً کچھ نہیں کیا جا رہا، مسجد اقصیٰ کو مکمل ہیکل سلیمانی میں تبدیل کرنے میں کوشاں ہیں، ان شاء اللہ وہ وقت دور نہیں مسجد اقصیٰ کی آزادی کے بعد مسجد اقصیٰ میں نماز شکرانہ ادا کریں گے۔

ڈاکٹر زوہیر ناجی نے کہا کہ جماعت اسلامی اور اہل کراچی کے شکر گزار ہیں کہ جنہوں نے لاکھوں کی تعداد میں گھروں سے نکل کر مارچ میں  شرکت کرکے فلسطینی بھائیوں سے اظہار یکجہتی کیا، پاکستان کے عوام اول روز سے ایک غزہ و فلسطین کے ساتھ کھڑے ہیں، ہمارے دشمن صیہونی نے ہزاروں کی تعداد میں فلسطینیوں کو شہید کیا ہے، صیہونی ہمارا دشمن ہے اور وہ اپنی طاقت سے ہمیں شکست نہیں دے سکتا، ہم صیہونیوں کے سامنے ایمان قوت سے ڈٹے ہوئے ہیں، غزہ کی جنگ صرف غزہ کی نہیں بلکہ پوری امت مسلمہ کی جنگ ہے، ہم نے ایک دن کیلئے بھی صیہونیوں کے سامنے شکست تسلیم نہیں کی۔ کاشف سعید شیخ نے کہا کہ اہل کراچی کو اہل غزہ و فلسطین کے مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کیلئے سلام پیش کرتا ہوں، اہل غزہ امت مسلمہ کے حکمرانوں کو مدد کیلئے پکار رہے ہیں، عالم اسلام کے حکمرانوں سن لو، اب تقریر اور تحریر سے نہیں بلکہ اب عصا اٹھانا پڑے گا، اہل ایمان کی رمق اور جہاد فی سبیل اللہ کا عنوان بننے کی ضرورت ہے، معصوم بچوں اور خواتین پر بمباری کرکے اسلام کو ختم نہیں کر سکتے، گزشتہ ڈیڑھ سال سے اسرائیل غزہ پر بمباری کر رہا ہے، لیکن اہل غزہ استقامت کے ساتھ ڈٹے ہوئے ہیں، اہل غزہ نے پیغام دیا ہے کہ ہم مٹ تو سکتے ہیں، لیکن اسرائیل کو قبول نہیں کر سکتے۔

منعم ظفر خان نے کہا کہ اہل کراچی کو مبارکباد اور شکریہ ادا کرتا ہوں کہ جنہوں نے ثابت کر دیا کہ اہل کراچی کا دل مظلوموں کے ساتھ دھڑکتا ہے، جب بھی اہل غزہ نے پکارا ہے، اہل کراچی نے ثابت کر دیا کہ ہم کل بھی اہل غزہ کے ساتھ تھے اور آج بھی اہل غزہ کے ساتھ ہیں، گزشتہ ڈیڑھ سال سے ایک غزہ پر ظلم کی انتہا کر دی گئی، لاکھوں لوگوں کو شہید و زخمی کر دیا گیا، اہل غزہ ایمانی قوت اور اللہ پہ بھروسہ کرکے استقامت کا استعارہ بنے ہوئے ہیں، حماس اور اہل فلسطین نے اپنے عزم کے ذریعے ثابت کر دکھایا اور مسلم امہ کے حکمرانوں کو ثابت کر دیا ہے کہ وہ ایمانی جذبے اور ایمانی قوت سے سرشار ہیں، حماس اور اہل غزہ کے مسلمان امت مسلمہ کے حکمرانوں سے سوال کرتے ہیں کہ تم بیت المقدس کی حفاظت کیلئے کیوں نہیں بولتے، امت مسلمہ کے حکمران خاموش رہ کر امریکا و اسرائیل کا ساتھ دے رہے ہیں، شہادت مسلمانوں کیلئے امید کا پیغام ہے، جدوجہد و مزاحمت میں کوئی مایوسی اور ناامیدی نہیں ہے، عالمی دنیا کے نقاب اتر گئے جو انسانی حقوق اور حقوق نسواں، جانور کے حقوق کی بات کرنے والوں کو فلسطین میں ظلم کیوں نظر نہیں آ رہا، کہاں ہے او آئی سی اور کہاں ہے عرب لیگ، انہیں فلسطین میں جاری ظلم کیوں نظر نہیں آتا، ہم اہل غزہ و فلسطین کے مسلمانوں سے اظہار یکجہتی جاری رکھیں گے اور امت مسلمہ کے حکمرانوں کو جھنجھوڑتے رہیں گے۔

علامہ سید حسن ظفر نقوی نے کہا کہ معصوم بچوں کے خون نے عالم اسلام کے مسلمانوں میں یکجہتی پیدا کی ہے، سامراج کی کوشش ہے کہ امت مسلمہ کی یکجہتی میں دراڑ ڈالی جائے، دنیا کی کوئی طاقت امت مسلمہ میں انتشار پیدا نہیں کر سکتی، جماعت اسلامی وہ جماعت ہے، جو اول روز سے بیت المقدس اور اہل غزہ کے ساتھ ہے، ہمارا فلسطینی بھائیوں سے ایمانی رشتہ ہے۔ سیف الدین ایڈوکیٹ نے کہا کہ اہل غزہ و فلسطین میں رہنے والوں سے اظہار یکجہتی ہم سب پر واجب ہے، اہل غزہ کے مظلوم و نہتے فلسطینی مسلمان ایمان کی بدولت صیہونیوں سے مقابلہ کر رہے ہیں، ایمانی قوت سے سامراجی قوت کو پسپا کرنے پر مجبور کر رہی ہے، ہمیں اپنا دشمن صاف نظر آ رہا ہے، ایسا دشمن جو انسانی حقوق کے ساتھ ساتھ جانوروں کے حقوق کی بھی بات کرتا ہے، جان لیجیے کہ امریکا کبھی بھی ہمارا دوست نہیں بن سکتا، ہمیں اپنا حق ادا کرنا ہے۔ یونس سوہن ایڈوکیٹ نے کہا کہ سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے فلسطین میں جاری ظلم کے بارے میں دکھایا جا رہا ہے، مسلم امہ کے حکمرانوں نے خاموشی اختیار کی ہوئی ہے، او آئی سی اور اقوام متحدہ کے ذمہ داران کو فلسطین میں جاری ظلم کیوں نظر نہیں آ رہا، کراچی میں بسنے والے مسیحی برادری اہل غزہ و فلسطین کے مسلمان کے ساتھ ہے، ہم فلسطینی بھائیوں کو یقین دلاتے ہیں کہ پاکستانی مسیحی برادری آپ کے ساتھ ہیں، ہم امریکا اور اسرائیل کے ویزے پر لعنت بھیجتے ہیں۔

آبش صدیقی نے کہا کہ ہم پاکستان کے علمائے کرام سے کہنا چاہتے ہیں کہ امت کا ایک ایک بچہ واقف ہے کہ امت پر جہاد فرض ہو چکا ہے، صرف اعلان نہیں بلکہ آرمی چیف کا نام لے کر کہا جائے کہ آپ حافظ تو ہیں اب مجاہد بن کر جہاد کا اعلان بھی کریں، اہلیان کراچی بائیکاٹ مہم جاری رکھیں، جو لکھ سکتا ہے وہ لکھے اور جو بائیکاٹ کر سکتا ہے، وہ بائیکاٹ کرے اور جو فنڈ جمع کر سکتا ہے وہ فنڈ جمع کرے۔ ”یکجہتی غزہ مارچ“میں ناظمہ کراچی جاوداں فہیم، نائب قیمہ پاکستان عطیہ نثار، ناظمہ صوبہ سندھ رخشندہ منیب، نائب ناظمہ صوبہ سندھ عذرا جمیل، نائب ناظمہ کراچی فرح عمران، شیبا طاہر، سمیہ عاصم، ندیمہ تسنیم، ہاجرہ عرفان، سیکریٹری اطلاعات کراچی ثمرین احمد اور دیگر خواتین ذمہ داران بھی موجود تھیں۔

متعلقہ مضامین

  • تمام سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے نیا تھیٹر ایکٹ لانا چاہتے ہیں: عظمیٰ بخاری
  • 22 اپریل کو ملک بھر میں شٹر ڈاؤن ہڑتال کا اعلان
  • ملک میں گیر شٹر ڈاؤن ہڑتال کا اعلان ،ٹریفک پلان بھی جاری
  • آئی جی پنجاب کا پولیس کلچر ڈے پر ثقافت و روایات کے تحفظ کا عزم
  • آزادئ مذہب اور آزادئ رائے کا مغربی فلسفہ
  • کراچی میں ’غزہ ملین مارچ:‘ جماعت اسلامی کا اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کا اعلان
  • جماعت اسلامی کا حافظ نعیم الرحمٰن کی زیر قیادت کراچی میں عظیم الشان ”یکجہتی غزہ مارچ“
  • معافی اور توبہ
  • مطالعہ کیوں اورکیسے کریں؟
  • ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا (آخری حصہ)