Nai Baat:
2025-01-21@07:43:45 GMT

وقت کی اہم ضرورت

اشاعت کی تاریخ: 21st, January 2025 GMT

وقت کی اہم ضرورت

پروفیسر جے پی چودھری ماہر سیاسیات ہونے کے ساتھ ساتھ معاشیات اور امن و امان کی کی صورت حال پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام پر بھی خاصی دسترس کے حامل انسان ہیں وہ ایک جگہ یوں رقمطراز ہیں۔ اِس وقت سرمایہ دارانہ نظام عالمی سامراجیت سے آگے بڑھ کرعالمی ہائپر سامراجیت (GLOBAL HYPER IMPERIALISM)،عالمی بائولی سامراجیت (GLOBAL RABID IMPERIALISM )اورعالمی پاگل سامراجیت (IMPERIALISM (GLOBAL MADکی منزل میں داخل ہوکر اپنی معاشی، اقتصادی، مالی اورمالیاتی سیرا بیت کے آخری نقطہ امتلا( THE LAST POINT OF SATURATION)کو چھو رہا ہے۔اب عالمی ہائپرسامراجیت ( GLOBAL HYPER IMPERIALISM) ،عالمی بائولی سامراجیت (GLOBAL RABID IMPERIALISM )اورعالمی پاگل سامراجیت (( GLOBAL MAD IMPERIALISM اپنے آخری نکتہ عروج پر پہنچ کر اپنے شدید اندرونی معاشی، اقتصادی، مالی و مالیاتی تضادات کے باعث شکست و ریخت سے دوچار ہونے والی ہے۔ اب سائنسی طور پر آگے عالمی انقلاب کا مرحلہ ہے۔ بڑی اور بڑی ہی حیرت کی بات یہ ہے کہ اِس وقت عالمی انقلاب کیلئے سارے معروضی اور موضوعی شرائط اور حالات مکمل ہوچکے ہیں۔ سو اب دنیا کی کوئی طاقت اِس کرہ ارض پر عالمی انقلاب اور خدا کی لاطبقاتی آسمانی بادشاہت کے قیام کو کسی بھی طرح سے نہیں روک سکتی۔

من حیث القوم ہمارے اندر افسر شاہی، پروٹوکول، طبقاتی تقسیم ،ہیپوکریسی اور بیوروکریسی رویے کا ایسا جراثیم جنم لے چکا ہے، جس کا تدارک اس باسی جمہوریت کے دور میں ختم ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا،اور نہ اس جراثیم کے مرنے کی کوئی قوی امید ہے۔ہر خاص و عام کی یہ خواہش ہے کہ انکے پاس بے بہا اختیارات ہوں اور وہ اس کے بے جااستعمال سے اپنے آپ کو منوائے اور اپنے ہونے کا ثبوت دے۔پاکستان کا ہر بیوروکریٹ،ہر سیاستدان،ہر جرنیل اور ہر جج یہ بات بھول چکا ہے کہ اس کے فرائض کیا ہیں؟اور جس مقصد کیلئے اسے جس مسند پر بٹھایا گیا ہے۔اس کا مقصد کیا ہے؟اس کی حدود و قیود کیا ہیں؟اس کے اغراض و مقاصد کیا ہیں؟عوام کے مسائل کیا ہیں اور یہ ملک کس لئے بنایا گیا ہے؟بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ ان لوگوں کواتنا معلوم نہیں کہ ان کا اس کائنات میں ظہور پذیر ہونے کا اور ان عہدوں پر بٹھانے کا مقصد کیا ہے؟ یہ لوگ اس ذوق سے بھی محروم ہو چکے ہیں کہ انہیں روشنی اور تیرگی میں فرق کیا ہے؟پچھتر سال کے طویل عرصہ کی کوئی ایک دہائی اٹھا کر دیکھ لیجیے۔کہیں آپ کو انسانیت سے محبت،ملک سے الفت، فرائض سے آگاہی ،خود سے آگہی،عوام سے رغبت،غلامی سے آزادی کا اور ترقی کا کوئی جذبہ نظر نہیں آئیگا۔ ملک کی دیواروں تک کو چاٹنے کے ہزاروں کیس سامنے آئیں گے۔مگر ایک بات یاد رکھیے گا جب بلب فیوز ہو جائے تو اسے روشنی کی قدر و قیمت کے ساتھ ساتھ اپنی وقعت کا اندازہ بھی اسی وقت ہوتا ہے مگر اس پچھتانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا اور ہر چیز آپ کے ہاتھ سے نکل چکی ہوتی ہے۔

ایک ہائوسنگ سوسائٹی میں رہائش کیلئے ایک بڑا افسر آیا ، جو تازہ تازہ ریٹائر ہوا تھا یہ بوڑھا بڑا ریٹائرڈ افسر حیران اور پریشان ، ہر شام سوسائٹی پارک میں گھومتا ، دوسروں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتا اور کسی سے بات نہیں کرتا تھا۔ ایک دن وہ شام کے وقت ایک بزرگ کے پاس باتیں کرنے کیلئے بیٹھ گیا اور پھر اس کے ساتھ قریباً روزانہ بیٹھنے لگا۔ اس کی گفتگو کا ہمیشہ ایک ہی موضوع رہتا تھا۔ میں اتنا بڑا افسر تھا جس کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا اور نہ پوچھ سکتا ہے ، یہاں میں مجبوری وغیرہ میں آیا ہوں۔ اور وہ بزرگ اس کی باتیں سکون سے سنتے تھے۔

ایک دن جب ریٹائرڈ افسر نے دوسرے ساتھی کے بارے میں کچھ جاننے کی خواہش کی تو اس بزرگ نے بڑی انکساری کے ساتھ اسے جواب دے کر دانشمندی کی بات بتائی۔ اس نے وضاحت کی:ریٹائرمنٹ کے بعد ہم سب فیوز بلب کی طرح ہو جاتے ہیں اس کی اب کوئی اہمیت نہیں رہتی کہ یہ بلب کتنی وولٹیج کا تھا ، کتنی روشنی اور چمک دیتا تھا ، فیوز ہونے کے بعد اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔

انہوں نے جاری رکھتے ہوئے کہا کہ میں گذشتہ 5 سال سے سوسائٹی میں رہ رہا ہوں اور کسی کو یہ نہیں بتایا کہ میں دو بار پارلیمنٹ کا ممبر رہا ہوں۔ یہاں ایک اور صاحب ہیں وہ ریلوے کے جنرل منیجر تھے ، یہاں فلاں صاحب ہیں فوج میں بریگیڈیئر تھے، پھر وہ سامنے والے صاحب ہیں جو ایک کمپنی کے کنٹری ہیڈ تھے ، انہوں نے یہ باتیں کسی کو نہیں بتائیں ، حتی کہ مجھے بھی نہیں ، لیکن ہم سب جانتے ہیں۔فیوز کے تمام بلب اب ایک جیسے ہیں۔ چاہے وہ صفر واٹ ، 40 ، 60 ، 100 واٹ، ہیلوجن ہو یا فلڈ لائٹ کے ہوں ، اب کوئی روشنی نہیں دیتا اور بے فائدہ ہیں۔ اور ہاں اس بات کی آپ کو جس دن سمجھ آجائے گی ، آپ معاشرے میں سکون زندگی گزار سکیں گے۔ ہمارے ہاں طلوع اور غروب آفتاب کو یکساں احترام دیا جاتا ہے ، لیکن اصل زندگی میں ہم طلوع آفتاب کی قدر زیادہ کرتے ہیں جتنی جلدی ہم اس کو سمجھیں گے اتنا جلد ہی ہماری زندگی آسان ہوجائے گی۔

لہٰذا فیوز بلب ہونے سے پہلے جتنی بھی خیر کی زیادہ سے زیادہ روشنی پھیلا سکتے ہو ۔پھیلا دو۔تاکہ کل کو جب اندھیرے کمرے میں جا ئو۔تو یہی روشنی کام آئے۔ ورنہ جانا تو ہے ۔اس سے پہلے کہ آپ جائیں یا آپ فیوز ہو جائیں۔اپنے حقوق کو جانئے۔اپنے فرائض کو پہچانئے ۔اپنے ملک کا حق ادا کیجیے۔اپنے بزرگوں اور پرکھوں کی قربانیوں کی تجدید کیجیے۔اپنے دین کو بچائیے۔اپنی عوام کی فلاح و بہبود کا سوچئے۔حالات کی سنگینی کو جانئے۔اپنے نفس کو پہچانئے اور اپنی خودی کی لاج رکھیے۔یہی ہمارے عہدوں کا نصب العین ہے اور یہی ہماری ذمہ داریوں کا حق بھی ہے۔یہی وقت کی اہم ضرورت ہے۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: کے ساتھ کیا ہیں

پڑھیں:

پاکستان کو موسمیاتی فنڈنگ کے لیے سیکٹورل حکمت عملی کی ضرورت ہے. ویلتھ پاک

اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔20 جنوری ۔2025 )پاکستان کو عالمی موسمیاتی مالیات کو موثر طریقے سے استعمال کرنے کے لیے ایک مضبوط بینک ایبل سیکٹورل حکمت عملی کی ضرورت ہے ایسا کرنے سے ملک کی موسمیاتی لچک کی کوششیں بین الاقوامی فنڈنگ کے مواقع اور مالیاتی اداروں کے ساتھ ہم آہنگ ہو جائیں گی وزارت موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی رابطہ کاری کے ترجمان محمد سلیم نے ویلتھ پاک کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہاکہ آب و ہوا کے اثرات سے سب سے زیادہ خطرے والے 10 ممالک میں شامل پاکستان نے ابھی تک سیکٹر کے لیے مخصوص فنڈنگ کی حکمت عملی نہیں بنائی ہے جو بین الاقوامی موسمیاتی فنانس کے بہاﺅ کو روک رہی ہے کسی بھی ملک کو فنانسنگ، فنڈنگ یا عطیہ کے لیے ایڈجسٹ کرنے کے لیے تمام بین الاقوامی ایجنسیوں کو اچھی طرح سے طے شدہ قابل عمل منصوبوں کی ضرورت ہوتی ہے جو واضح نتائج دکھاتے ہوں.

انہوں نے کہا کہ پیرس معاہدے کے تحت پاکستان کی قومی سطح پر طے شدہ شراکت این ڈی سی گرین ہاﺅس گیس کے اخراج میں کمی کو کم کرتی ہے لیکن تکنیکی صلاحیت اور ادارہ جاتی خامیاں مذکورہ مقاصد کے نتائج پر مبنی منصوبوں میں رکاوٹ ہیں انہوں نے کہاکہ ماحولیاتی موافقت اور تخفیف کی حکمت عملیوں کو لاگو کرنے کے لیے شعبے سے متعلق نقطہ نظر کی اشد ضرورت ہے یہ نقطہ نظر نجی شعبے کی شمولیت، سرکاری اداروں کے فعال کردار اور معاشی استحکام کو یقینی بنانے کے لیے بھی اہم ہیں اس مقصد کے لیے موسمی اثرات سے براہ راست نمٹنے والے مختلف کلیدی شعبوں پر توجہ مرکوز کی جانی چاہیے ان شعبوں میں شہری منصوبہ بندی، آبی وسائل، توانائی اور زراعت شامل ہیں مناسب پالیسی ترغیبات اور رسک شیئرنگ میکانزم کے ساتھ قابل تجدید توانائی کے منصوبے گرین فنانس کو راغب کر سکتے ہیں.

انہوں نے کہا کہ متعلقہ سرکاری اداروں میں سنٹرلائزڈ کلائمیٹ فنانس یونٹ کا قیام ادارہ جاتی صلاحیت کو بڑھانے اور پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کو فروغ دینے کے لیے بہت ضروری ہے اس سے بین الاقوامی عطیہ دہندگان کے ساتھ فنانسنگ کے عمل اور مصروفیات کو ہموار کرنے میں مدد ملے گی انہوں نے کہاکہ جیسے جیسے بین الاقوامی موسمیاتی فنانس پول بڑھ رہا ہے پاکستان فنڈ کے استعمال میں احتساب اور شفافیت کا مظاہرہ کرکے ایک قابل اعتماد مقام کے طور پر اپنی پوزیشن کو محفوظ بنا سکتا ہے اس کے اثرات سے نمٹنے کے لیے نہ صرف ایک موثر آب و ہوا ضروری ہے بلکہ یہ ملک کے لیے ایک اقتصادی موقع بھی ہے اس کام کو پورا کرنے کے لیے ممکنہ معاون مالیاتی اداروں میں گھریلو مالیاتی نظام بین الاقوامی موسمیاتی مالیاتی ایجنسیاں اور نجی شعبے شامل ہو سکتے ہیں پاکستان میں گرین ٹیکنالوجی سے متعلق منصوبے شروع کرنے کے لیے سرمایہ کاری کی ضرورت ہے.

انہوں نے کہاکہ متعلقہ پاکستانی اسٹیک ہولڈرز اور اختراع کاروں کو ان کے عالمی ہم منصبوں کے ساتھ جوڑنا ضروری ہے تاکہ سبز اختراعی منصوبوں اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لیے موسمیاتی مالیات کا فائدہ اٹھایا جا سکے جوقابل ضمانت آب و ہوا کی سمارٹ ٹیکنالوجیز کو بڑھانا ایک سرسبز اقتصادی مستقبل کی تعمیر میں بھی مدد کرے گا. سینٹر فار رورل چینج سندھ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹرمحمد صالح منگریو نے پاکستان میں موسمیاتی مالیات اور دلچسپی رکھنے والے سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے لیے بینک ایبل سیکٹورل حکمت عملیوں کی اہمیت پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان بہت سے بین الاقوامی ذرائع سے مالی مدد حاصل کرنے کے لیے سخت جدوجہد کر رہا ہے متعدد گرانٹس، رعایتی قرضے اور تکنیکی امداد بشمول نقصان کے فنڈز، صفر اثر کے ساتھ اقدامات کے طور پر باقی ہیں اس کی بنیادی وجہ بین الاقوامی سطح پر تکنیکی پیشکش کی کمی ہے انہوں نے کہا کہ اس مسئلے پر قابو پانا موسمیاتی فنانس حاصل کرنے کے لیے بہت ضروری ہے دوسری صورت میںموسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے حکمت عملی سے نمٹنا مشکل ہو جائے گا پاکستان کو ایک شاندار احتساب اور شفافیت کا نظام متعارف کرانے کی ضرورت ہے جس میں فنڈنگ کا صحیح استعمال اور حتمی نتائج دکھائے جائیں.

انہوں نے کہاکہ بینک ایبل کلائمیٹ فنانس مارکیٹ کے مواقع نہ صرف بین الاقوامی مالیاتی اداروں کو اپنی طرف متوجہ کریں گے بلکہ قومی اور بین الاقوامی سطح پر کاربن مارکیٹوں سے متعلق نجی سرمایہ کاروں کی حوصلہ افزائی بھی کریں گے لہذا پالیسی سازوں کو اس نقطہ نظر پر سنجیدگی سے توجہ مرکوز کرنی چاہیے.

متعلقہ مضامین

  • کھوکھلے نظام کے کھوکھلے فیصلے
  • سزا کے بعد احتجاج کیوں نہیں ہوا
  • پاکستان کو موسمیاتی فنڈنگ کے لیے سیکٹورل حکمت عملی کی ضرورت ہے. ویلتھ پاک
  • گرچرن سنگھ اسپتال سے ڈسچارج: ’سر پر بہت قرضے ہیں، دعاوں کی ضرورت ہے‘
  • انسانی سمگلنگ روکنے کیلئے جامع حل کی ضرورت
  • پی ٹی آئی مطمئن تو اپنی کمیٹی کو بتا دے مذاکرات کی ضرورت نہیں: حکومتی رکن
  • سائنس و ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کی ضرورت
  • ضرورت ہے کہ جانوروں کے حقوق پورے کئے جائیں: جسٹس عائشہ ملک
  • این آر او کی ضرورت حکومت کو ہے بانی پی ٹی آئی کو نہیں: شوکت یوسفزئی