کشمیر: امریکی خفیہ دستاویزات نے کیا نئے انکشافات کیے؟
اشاعت کی تاریخ: 21st, January 2025 GMT
جیسا کہ آپ جانتے ہی ہیں کہ امریکی قوانین کے مطابق ہر 30 سال بعد امریکی خفیہ (کلاسیفائیڈ) دستاویزات پبلک (یعنی ڈی کلاسیفائی) کردی جاتی ہیں۔ ان میں مختلف امریکی سفارت کاروں کے خفیہ مراسلے، ٹیلی گرامز وغیرہ بھی شامل ہوتے ہیں۔ منوں، ٹنوں دستاویزات پبلک ہوتی ہیں، ان کی جانچ پڑتال کرنے سے بہت سے انکشافات سامنے آتے ہیں۔
ایسے ہی انکشافات کشمیر تنازع کے حوالے سے امریکی ڈی کلاسیفائی ڈاکیومنٹس سے حال ہی میں سامنے آئے ہیں۔
ان کے مطابق تقسیم کے بعد پہلے سال ڈیڑھ تک امریکا کشمیر میں استصواب رائے کرانے کے حق میں تھا، تب بھارت میں موجود امریکی سفیر بھی واشنگٹن یہی رپورٹیں بھیجتے تھے کہ پاکستان کا کشمیری عوام سے رائے لینے کا مطالبہ جائز اور منصفانہ ہے، تاہم بتدریج اپنی مصلحتوں کی بنا پر امریکا اس سے پیچھے ہٹتا گیا۔ امریکیوں نے تب بھارت کے ساتھ تعلقات کو اہمت دی اور اقوام متحدہ کی قرارداد کو پس پشت ڈال دیا۔
خفیہ دستاویزات کے مطابق امریکی سفارت کار بالکل شروع میں کشمیر پر تھرڈ آپشن یعنی کشمیر کو آزاد الگ ملک کے طور پر بنانے کا سوچتے تھے۔ پھر امریکیوں کو یہ خدشہ محسوس ہوا کہ کہیں ایسا کرنے پر وہاں لیفٹسٹ طاقت نہ پکڑ جائیں اور چین غالب نہ ہوجائے۔ تب امریکا نے کشمیر کو الگ ملک بنانے کی مخالفت شروع کردی۔
1956 میں انڈیا میں امریکی سفیر نے اسٹیٹ آفس کو خط لکھا کہ بھارت کسی بھی صورت میں استصواب رائے نہیں کرائے گا اور اس سے جنگ کے بغیر یہ بات قطعی طور پر نہیں منوائی جا سکتی۔
استصواب رائے کے حوالے سے ایک حیران کن انکشاف پنڈت نہرو کے اپنی بیٹی کے نام خط سے سامنے آیا، اس پر آگے چل کر بات کرتے ہیں، مگر پہلے امریکی ڈی کلاسیفائی ڈاکیومنٹ کے معاملے کو لیتے ہیں۔
یہ ایکسکلوسیو رپورٹ ممتاز کشمیری اخبار کشمیر ٹائمز نے چند دن قبل شائع کی ہے۔ اس میں ’کشمیر، لا اینڈ جسٹس پراجیکٹ‘ کی جانب سے امریکی اسٹیٹ آفس (وزارت خارجہ) کی ڈی کلاسیفائی ڈاکیومنٹس کےمطالعے کے بعد اخذ کردہ نتائج کا حوالہ دیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق ابتدا میں امریکا نے کشمیری عوام کے حق خودارادیت کی حمایت کی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکا انسانی حقوق اور نوآبادیاتی نظام کے خاتمے پر زور دیا کرتا تھا۔ تاہم جیسے جیسے سرد جنگ کا آغاز ہوا، ایشیا میں اس کے اسٹریٹجک مفادات امریکی خارجہ پالیسی پر غالب آنے لگے، جس کے نتیجے میں کشمیر کے معاملے پر اس کے مؤقف میں نمایاں تبدیلی آئی۔
’خودارادیت کے لیے ابتدائی حمایت‘1948 میں امریکا نے کشمیر میں رائے شماری کی بھرپور حمایت کی۔ پاکستان میں امریکی ناظم الامور چارلس ڈبلیو لیوس کی جانب سے کی گئی بات چیت میں پاکستان کی غیر جانبدار انتظامیہ اور بعد میں رائے شماری کی تجویز کو ’منصفانہ اور جائز‘ قرار دیا گیا۔
پھر امریکا نے بھارت کو آزاد جموں و کشمیر کا خیال بھی پیش کیا۔ ایک وقت میں یہ تجویز بھی سامنے آئی کہ استصواب رائے دو مرحلوں میں ہو، پہلے تو کشمیریوں سے پوچھا جائے کہ کیا وہ آزاد رہنا چاہتے ہیں، الگ ملک بنا کر؟ اگر جواب نفی میں ہو تو پھر بھارت یا پاکستان میں شمولیت کے ممکنہ سوال پر استصواب رائے ہو۔ امریکی سفارت کاروں نے یہ تجویز بعض سینیئر بھارتی افسران سے شیئر کی۔
سرد جنگ نے سب کچھ بدل ڈالاجیسے جیسے سرد جنگ کی شدت بڑھی، امریکی خارجہ پالیسی میں سوویت اثرورسوخ کو محدود کرنے کی ترجیح دی جانے لگی، جس نے عالمی تنازعات، بشمول کشمیر پر اس کے مؤقف کو نمایاں طور پر متاثر کیا۔ کشمیر چونکہ چین، بھارت اور پاکستان کے درمیان واقع تھا، اس لیے اس خطے کی اسٹریٹجک اہمیت بڑھ گئی۔
1950 کی دہائی کے اوائل تک امریکی نقطہ نظر میں واضح تبدیلی آچکی تھی۔ امریکی سفارت کاروں اور بھارتی حکام کے درمیان ہونے والی بات چیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ رائے شماری کی حمایت سے بتدریج دوری اختیار کی گئی۔ 1951 میں بھارت میں امریکی سفیر لوئے ہینڈرسن کی خط و کتابت میں بھارت کی رائے شماری کرانے میں ہچکچاہٹ پر امریکی مایوسی کا اظہار کیا گیا، لیکن ساتھ ہی بھارتی اعتراضات کے حوالے سے زیادہ مفاہمتی رویہ بھی اپنایا گیا۔
امریکا کی کشمیر کی آزادی کی مخالفتدستاویزات سے پتا چلتا ہے کہ اقتصادی عوامل نے امریکی پالیسی پر اثر ڈالنا شروع کیا۔ کشمیر کے معدنی وسائل پر بات چیت کے دوران امریکی سفارت کاروں نے ایک آزاد کشمیر کے امکانات پر غور کیا۔ ایک کثیرالقومی ترقیاتی کارپوریشن کی تجاویز سامنے آئیں، جس میں امریکا، برطانیہ، بھارت اور پاکستان شامل ہوں تاکہ کشمیر کے وسائل کا انتظام کیا جا سکے۔ یہ منصوبہ بالآخر ناقابل عمل ثابت ہوا۔
1950 میں سیکریٹری آف اسٹیٹ کو ایک یادداشت میں واضح طور پر کہا گیا کہ اگر کشمیر الگ ملک ہوا تو اس پر کمیونسٹوں کے ذریعے قبضہ کرلیا جائے گا، یوں امریکا کشمیر کی آزادی کا مخالف ہوگیا۔
1950 کی دہائی کے دوران امریکا نے کشمیر کے معاملے پر محتاط مؤقف اختیار کیا، بھارتی اور پاکستانی حساسیتوں کے درمیان توازن برقرار رکھا۔ اندرونی یادداشتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ کشمیر کے مسئلے کے حل کے بارے میں مایوسی کا احساس تھا، اور امریکی سفارت کار اکثر کسی معاہدے کی عملیت کے بارے میں شک کا اظہار کرتے تھے۔
1950 کی دہائی کے وسط تک امریکا نے کشمیر میں فعال طور پر حل تلاش کرنے سے دستبرداری اختیار کرنا شروع کی، جیسا کہ 1956 کے ایک ٹیلیگرام میں کہا گیا کہ ’جنگ کے بغیر کوئی دباؤ بھارتی حکومت کو وادی کشمیر چھوڑنے پر مجبور نہیں کرےگا۔‘ یہ موجودہ صورتحال کو قبول کرنے کی علامت تھی۔
1957 میں ان دستاویزات کا اختتام ہوتا ہے۔ سرد جنگ یعنی کولڈ وار نے نہ صرف امریکی خارجہ پالیسیوں کو تشکیل دیا بلکہ کشمیر جیسے غیر حل شدہ تنازعات کو بھی چھوڑا۔ آخر کار امریکی اسٹریٹجک مفادات غالب آئے اور حق خودارادیت و بین الاقوامی اصول پیچھے رہ گئے۔
پنڈت نہرو کا خط اور دھوکا دہی کا اعترافمئی 1948 میں سونمرگ سے اندرا گاندھی نے اپنے والد وزیراعظم جواہر لال نہرو کو خط لکھا، جس میں انہوں نے ذکر کیاکہ کشمیر میں صرف شیخ عبداللہ صاحب ہی رائے شماری جیتنے کے بارے میں پُراعتماد ہیں۔ ’دراصل اندرا کو خطرہ تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں اگر استصواب رائے ہوا تو کشمیری بھارت کے خلاف رائے دے کر پاکستان کے ساتھ شامل ہوجائیں گے۔‘
پنڈت نہرو نے جواب میں کہاکہ یہ وعدہ بین الاقوامی رائے عامہ کو دھوکہ دینے اور وقت حاصل کرنے کے لیے تھا۔
انہوں نے مزید لکھا ’کشمیری لوگ آسانی سے مطمئن ہونے والے ہیں، وہ اپنی بھوک مٹانے کے لیے اُٹھ کھڑے ہوں گے اور وقت کے ساتھ ساتھ اچھی حکمرانی کے تحت اپنی قسمت پر راضی ہو جائیں گے۔‘ نہرو کا یہ خط ان کے خطوط کے مجموعہ جات میں شامل ہے جو سو جلدوں میں شائع ہوچکے ہیں۔
بھارت کشمیر ایشو پر اقوام متحدہ کیوں گیا تھا؟ہمارے ہاں اکثر یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ جب بھارت نے خود اقوام متحدہ جا کر استصواب رائے کا وعدہ کیا تھا تو اس پر عمل درآمد کیوں نہیں کیا جاتا۔ پنڈت نہرو کے خطوط اور دیگر دستاویزات سے اس کا اندازہ ہوتا ہے کہ بھارت دانستہ طور پر اقوام متحدہ گیا تھا۔
جب بھارت نے اقوامِ متحدہ سے جنگ بندی کی درخواست کی، تو یہ خدشہ تھا کہ اگر بھارت ایسا نہ کرتا تو پاکستان خود اقوامِ متحدہ سے رجوع کرسکتا تھا یا اقوامِ متحدہ کسی ایسے باب کے تحت قرارداد منظور کرسکتا تھا جو عمل درآمد کے طریقہ کار کا تقاضا کرتا۔
بھارت نے اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے باب VI کے تحت درخواست دی، جو پرامن حل پر زور دیتا ہے اور عمل درآمد کے لیے لازمی طریقہ کار فراہم نہیں کرتا۔ چونکہ پاکستان نے رائے شماری پر اتفاق کیا تھا، اس لیے اقوامِ متحدہ نے افغانستان اور عراق جیسے معاملات میں فوجی مداخلت کے برعکس عمل درآمد کا کوئی مخصوص طریقہ کار وضع کرنا ضروری نہیں سمجھا۔
جب مہاراجا ہری سنگھ نے جموں و کشمیر کے بھارت کے ساتھ الحاق کی مبینہ درخواست کی، تو بھارت کے گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے 27 اکتوبر 1947 کو اس الحاق کو قبول کرتے ہوئے مہاراجا کو ایک خط لکھا۔ اس خط میں انہوں نے کہا ’یہ میری حکومت کی خواہش ہے کہ جیسے ہی جموں و کشمیر میں قانون اور نظم بحال ہو جائے اور اس کی سرزمین کو حملہ آوروں سے پاک کردیا جائے، ریاست کے الحاق کا سوال عوام کی رائے سے طے کیا جائے۔‘
یہ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں سے بہت پہلے کی بات ہے۔ لہٰذا اقوامِ متحدہ نے کسی عمل درآمد کے طریقہ کار کو وضع کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔
اب مگر یہ بات سامنے آئی ہے کہ نہرو صرف وقت گزارنے کی کوشش کررہے تھے۔ ان کا رائے شماری کرانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ انہیں صرف کشمیر کی وادی اور جموں چاہیے تھا، جو انہوں نے حاصل کرلیا۔ انہیں باغ، پلندری، میرپور، مظفرآباد وغیرہ کی کوئی خواہش نہیں تھی کیونکہ ان کا خیال تھا کہ شیخ عبداللہ کا ان علاقوں میں کوئی اثرورسوخ نہیں ہے اور ان علاقوں پر قبضہ کرنا ہمیشہ کے لیے مزاحمت اور قومی سلامتی کے لیے خطرہ بن جائےگا۔
کشمیری قوم پرستوں کی غلط فہمیاںجب آزاد جموں و کشمیر کے کچھ نام نہاد قوم پرست دانشور کتابیں لکھنا شروع کرتے ہیں، تو وہ آزاد کشمیر کے آزاد ملک ہونے کا خواب دکھاتے ہیں اور غلط طور پر دعویٰ کرتے ہیں کہ دنیا آزاد کشمیر کو ایک آزاد ملک کے طور پر تسلیم کرنے کے لیے تیار تھی۔
وہ پاکستان کو بھی اس بات کا موردِ الزام ٹھہراتے ہیں کہ اس نے رائے شماری نہیں کروائی۔ یہ انکشافات بتاتے ہیں کہ ان کے یہ دعوے بالکل غلط ہیں۔ امریکی خفیہ دستاویزات صاف بتا رہی ہیں کہ امریکی یہ نہیں چاہتے تھے کہ کشمیر ایک آزاد ملک کے طور پر وجود میں آئے۔
کشمیری قوم پرستوں کی بیان کی گئی کہانیوں کے برعکس یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اگر قبائلیوں اور بعد میں پاکستانی فوج نے مداخلت نہ کی ہوتی تو مہاراجا کے وزیراعظم مہر چند مہاجن اور ان کے نائب رام لال بٹرا میرپور، پونچھ اور مظفرآباد میں مسلمانوں کا قتلِ عام کرنے کے لیے تیار تھے تاکہ مسلمانوں کو ان علاقوں سے نکال کر پاکستان دھکیل دیا جائے، جیسا کہ انہوں نے جموں میں کیا تھا۔
جموں میں کیا سفاکانہ کھیل کھیلا گیا تھا؟جموں میں ہونے والے قتل عام کے بارے میں اگر جاننا چاہتے ہیں تو پھر ممتاز کشمیری صحافی اور کشمیر ٹائمز کے بانی وید بھیسن کی لکھی کتب پڑھنی چاہییں۔ وید بھیسن کے بقول جب وہ بلراج پوری اور اوم صراف جموں میں مہاراجا کی پولیس اور انتظامیہ کی جانب سے مسلمانوں کے سفاکانہ قتل عام پر احتجاج کرنے مہاراجا کے محل پہنچے تو انہیں وزیراعظم مہر چند مہاجن کے پاس لے جایا گیا جس نے انہیں کہاکہ بطور ہندو انہیں ریاست میں اقتدار تک پہنچنے کے راستے ڈھونڈنے ہوں گے۔ جب وید بھیسن اور دیگر نے حیرت سے پوچھا کہ کشمیر تو مسلم اکثریتی علاقہ ہے، یہاں ہندو حکومت کیسے بن سکتی ہے؟ اس پر مہاجن نے کھڑکی سے اشارہ کرتے ہوئے کہاکہ ایسے۔ نیچے کھائیوں میں چند مسلم گجروں کی لاشیں پڑی تھیں جو صبح محل دودھ پہنچانے آئے تھے۔
یہ حقیقت ہے کہ مہاجن کے منصوبے کی وجہ سے جموں کی مسلم اکثریتی آبادی جو 70 فیصد کے قریب تھی، قتل عام کے بعد آدھی رہ گئی۔ یہی سب کچھ مہاجن مظفرآباد، باغ، راولا کوٹ وغیرہ میں کرنا چاہتا تھا، مگر قبائلی دستوں اور پھر پاکستانی فوج کی مداخلت کی وجہ سے آزاد کشمیر کے ان علاقوں کے مسلمانوں کی جانیں بچ گئیں۔ یہ وہ نکتہ ہے جس کا ادراک اور اقرار بیشتر کشمیری قوم پرست نہیں کرتے۔
اس کالم کے لیے تحقیق کرتے ہوئے معروف کشمیری صحافی، مصنف اور کالم نگار جناب افتخار گیلانی کی مشاورت اور رہنمائی بہت کام آئی۔ انہوں نے کشمیر ٹائمز کی اس ایکسکلوسیو رپورٹ کی طرف رہنمائی کی، نہرو کے خط کی تفصیل فراہم کی اور بعض دیگر حقائق بھی آشکار کیے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
عامر خاکوانینیچرل سائنسز میں گریجویشن، قانون کی تعلیم اور پھر کالم لکھنے کا شوق صحافت میں لے آیا۔ میگزین ایڈیٹر، کالم نگار ہونے کے ساتھ ساتھ 4 کتابوں کے مصنف ہیں۔ مختلف پلیٹ فارمز پر اب تک ان گنت تحریریں چھپ چکی ہیں۔
wenews آزادی اقوام متحدہ امریکا بھارت پاک فوج پاکستان خفیہ دستاویزات رائے شماری قبائلی کشمیر کشمیری قوم پرست مہاراجا نہرو وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اقوام متحدہ امریکا بھارت پاک فوج پاکستان قبائلی مہاراجا وی نیوز امریکی سفارت کاروں امریکی سفارت کار امریکا نے کشمیر استصواب رائے اقوام متحدہ کے بارے میں پنڈت نہرو ان علاقوں طریقہ کار کے مطابق کہ کشمیر کشمیر کے انہوں نے بھارت کے کے ساتھ ہوتا ہے ہیں کہ کے لیے کے بعد
پڑھیں:
ایک سو نوے پائونڈ فیصلے میں ڈیل سے متعلق تین بڑے انکشافات سامنے آ گئے
ایک سو نوے پائونڈ فیصلے میں ڈیل سے متعلق تین بڑے انکشافات سامنے آ گئے WhatsAppFacebookTwitter 0 19 January, 2025 سب نیوز
اسلام آباد:سابق وفاقی وزیردفاع پرویزخٹک، اعظم خان اور زبیدہ جلال بیانات بانی پی ٹی آئی کیلیے بم شل ثابت ہوئے ہیں۔
تفتیش میں پرویزخٹک نے بتایا تھا کہ مرزا شہزاد اکبر نے کابینہ کو بتایا لوٹے ہوئے 190 ملین پائونڈ پاکستان واپس آ رہے ہیں، پرویز خٹک نے مزید کہا کہ تمام کابینہ ممبران نے تفصیلات طلب کی تھی لیکن شہزاد اکبرنے کہا ڈیل خفیہ ہے، سب ممبران خاموش ہوگئے اورایجنڈا وزیراعظم کی سربراہی میں پاس ہوگیا تھا۔
انویسٹگیشن افسرنے پرویزخٹک کو بتایا کہ خط میں شہزاد اکبر کے لکھے نوٹ میں لوٹی ہوئی رقم بحریہ ٹائون کے اکاؤنٹ میں منتقل کرنے کا کہا گیا تھا، اسٹیٹ بینک، این سی اے معاہدہ سے لوٹی رقم حکومت پاکستان کوملے گی۔
سابق وفاقی وزیر زبیدہ جلال نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ کابینہ کے اصرار کے باوجود خفیہ ڈیڈ اور معاہدہ پرکابینہ میں بحث نہیں کی گئی، سابق وفاقی وزیرزبیدہ جلال کا بیان مزید بتاتا ہے کہ شہزاد اکبر کے بھرپور اصرار پر کابینہ نے خفیہ معاہدہ پرکوئی بات اوربحث نہیں کی،
تمام پیسہ حکومت پاکستان کو واپس آ رہا ہے، سابق پرنسپل سیکرٹری اعظم خان نے کابینہ میٹنگ میں شرکت نہیں کی، یہ ان کیمرہ میٹنگ تھی، اعظم خان نے اپنے بیان میں مزید بتایا ہے کہ عمران خان اورشہزاد اکبرکے کہنے پرخفیہ ڈیڈ کا معاملہ کابینہ میں رکھا تھا۔