پاسکو کا ممکنہ خاتمہ: کیا یہ کسانوں کے لیے ایک بری خبر ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 21st, January 2025 GMT
وفاقی حکومت نے گندم کی خریداری، اسٹوریج اور سپلائی چین کو یقینی بنانے والے ادارے پاکستان ایگریکلچر اسٹوریج سروسز پرائیویٹ لمیٹڈ (پاسکو ) کے مکمل خاتمے کا ایک منصوبے پیش کیا ہے، جس کے لیے صوبائی حکومتوں سے تجاویز طلب کی گئی ہیں۔ وزات نیشنل فوڈ سیکیورٹی کی طرف سے کابینہ کی ہدایات پر مراسلہ صوبائی حکومتوں کو بھیجا گیا ہے جس کی سفارش وزیر اعظم کی طرف سے کفایت شعاری اقدامات کے لیے بنائی گئی کمیٹی نے کی ہے۔
وفاقی حکومت پاسکو جیسے اہم ترین ادارے کو کیوں ختم کرنا چاہ رہی ہے؟ اس ادارے کا متبادل کیا ہوگا اور کیا کسانوں کے لیے یہ ایک اچھی خبر ہے یا ان کی مشکلات میں اضافہ ہوگا؟
پاسکو پاکستان کا کرپٹ ترین ادارہ، وزیر اعظم بندش کے خیال کے حامی ہیں
وفاقی وزات خزانہ پاسکو کے خاتمے کے منصوبے کی حامی ہے۔ وزیر خزانہ کے مطابق پاسکو ملک کا بدترین اور کرپٹ ادارہ ہے، اس کا جتنا جلدی خاتمہ کیا جائے پاکستان کے لیے بہتر ہوگا۔ گزشتہ ہفتے اپنے آبائی علاقے کمالیہ میں ایک پریس کانفرنس میں وزیر خزانہ نے کہا کہ یہ صرف میرے ذاتی خیالات نہیں ہیں بلکہ وزیر اعظم بھی اس تجویز کے حامی ہیں۔
وزیر خزانہ کے مطابق لوگ کہتے ہیں فلاں ادارہ کرپٹ ہے، فلاں بدعنوان ہے میں کہتا ہوں سب سے کرپٹ ادارہ پاسکو ہے۔ ترجمان وزات نیشنل فوڈ سیکیورٹی نے وی نیوز کو بتایا کہ پاسکو کے خاتمے کے حوالے سے اقدامات کا آغاز کر دیا گیا ہے اور اس کی ہدایات براہ راست وزیر اعظم آفس سے دی گئی ہیں۔ صوبائی حکومتوں کی طرف سے تجاویز سامنے آنے پر حتمی معاملہ کابینہ کے سامنے رکھا جائے گا۔
پاسکو کی بندش کی وجوہات کیا ہیں؟
پاکستان ایگریکلچر اسٹوریج سروسز پرائیویٹ لمیٹڈ یا پاسکو کے خاتمے کے حوالے سے سامنے آنے والی وجوہات میں کرپشن اور بدعنوانی کو بڑی وجہ قرار دیا گیا ہے مگر پاسکو کے خاتمے کے پیچھے اصل وجہ حکومت کا عالمی مالیاتی ادارے کے ساتھ وہ معاہدہ ہے جو جاری قرض پروگرام کے لیے کیا گیا ہے۔ دستیاب معلومات کے مطابق آئی ایم ایف نے گزشتہ سال قرض پروگرام کے اجراء سے قبل دیگر مطالبات کے ساتھ جو دوسری شرائط رکھی تھیں ان میں گندم کی خریداری، امدادی قیمت کا تقرر اور اسٹوریج کے معاملے سے حکومت کا نکلنا شامل تھا۔
اب اسی معاہدے پر عمل درآمد کیا جا رہا ہے اور حکومت قرض پروگرام کے آئندہ جائزے سے قبل اس شرط پر عمل درآمد کو یقینی بنائے گی۔ حکومت ہر سال گندم کی نئی فصل سے قبل اس کی امدادی قیمت مقرر کرتی ہے اور کسانوں سے اس قیمت پر گندم کی خریداری کو یقینی بنایا جاتا ہے۔ آئی ایم ایف کا مطالبہ ہے کہ گندم کی امدادی قیمت کا تعین ختم کیا جائے اور اس کو حکومت کنٹرول کرنے کے بجائے حکومت مارکیٹ پر چھوڑ دے۔
کسان پاسکو کے خاتمے کی مخالفت کیوں کر رہے ہیں؟
پاکستان بالخصوص پنجاب میں کسانوں کے مسائل کے حوالے سے ایک مؤثر آواز پاکستان کسان اتحاد کے صدر خالد حسین باٹھ پاسکو کے خاتمے کے حکومتی منصوبے کے حامی نہیں ہیں۔ وی نیوز کے ساتھ گفتگو میں انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال پاسکو نے 14لاکھ میٹرک ٹن گندم خریدنی تھی، پنجاب کی جانب سے گندم خریداری نہ کیے جانے پر پاسکو نے وفاقی سطح پر 18لاکھ ٹن کا ہدف مقرر کر دیا جس کی وجہ سے کسانوں کو تھوڑا ریلیف ملا تھا۔
لیکن اب پنجاب نے فوڈ ڈیپارٹمنٹ ختم کردیا، پاسکو کو بھی ختم کر رہے ہیں، کسان سمجھتا ہے کہ یہ اس کے ساتھ دشمنی ہے۔ پہلے کاٹن کی فصل ’بمپر کراپ‘ تھی مگر جب کسان کو ریٹ نہیں ملا تو اس کی کاشت میں نمایاں کمی ہوگئی، اب ہم کروڑوں ڈالر کی کاٹن امپورٹ کر رہے ہیں۔ اب اگر وفاقی اور صوبائی سطح پر گندم کی خریداری کے عمل سے بھی حکومت نکل جائے گی تو اس کا مطلب ہے کہ کسان اب گندم بھی کاشت کرنا چھوڑ دے۔
خالد باٹھ نے رواں سال پنجاب حکومت کی طرف سے گندم کاشت کے اعداد و شمار کو بھی چیلنج کیا، ان کے مطابق 1لاکھ 65ہزار ہیکٹر کے اعدادو شمار غلط ہیں اور اس کی وجہ بھی خریداری کے حوالے سے وفاقی اور صوبائی سطح پر پائی جانے والی بے یقینی ہے۔ اگر حکومت گندم کا ریٹ نہیں دے گی تو یہ ملکی زراعت کی تباہی کا سبب ہوگا۔ پاسکو کے خاتمے کے فیصلے کو کسان کی سپورٹ حاصل نہیں ہے۔
پاسکو کی بندش، حکومت کے پاس متبادل پلان کیا ہے؟
وفاقی حکومت کی جانب سے صوبوں سے مانگی گئی تجاویز کی روشنی میں حتمی فیصلہ کیا جائے گا کہ گندم کی امدادی قیمت کے تعین، اسٹوریج سمیت پاسکو کی زیر نگرانی کی جانے والی سرگرمیوں کا متبادل کیا ہوگا۔ ترجمان وزارت فوڈ سیکیورٹی سعیدہ شکیل کے مطابق حکومت نے پاکستان ایگریکلچرل اسٹوریج اینڈ سروسز کارپوریشن کے حوالے سے ٹریڈ نگ کارپوریشن آف پاکستان کے ساتھ تھرڈ پارٹی اسسمنٹ کرانے کا فیصلہ کیا ہے جس میں اس شعبے کی نجکاری، ایمرجنسی ریزرو کو برقرار رکھنے کے لیے کم سے کم آپریشن، یا اسے ختم کرنے جیسے متبادل منصوبوں کا جائزہ لیا جائے گا۔
حکومت نے ابتدائی طور پر آپریشنز میں 30فیصد کمی کا ہدف رکھا ہے۔ ترجمان کے مطابق یہ تمام اقدامات ابھی زیر غور ہیں، وزات فوڈ سیکیورٹی کوئی بھی فیصلہ تمام اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے کرے گی۔
حکومت کاروبار نہیں فیصلے کرے، یہی پاکستان کے حق میں ہے
ممتاز ماہر معیشت ڈاکٹر فرخ سلیم وزیر اعظم کی طرف سے بنائی گئی کفایت شعاری کمیٹی کے ممبر رہے ہیں۔ انہوں نے پاسکو کے خاتمے کے حکومتی فیصلے کی حمایت کی ہے۔ وی نیوز سے گفتگو میں ڈاکٹر فرخ سلیم نے کہا کہ حکومت یا پاسکو کی جانب سے دی جانے والی گندم کی پالیسی اربوں روپے کے نقصان کا سبب بن چکی ہے۔ حکومت اس شعبے سے جتنا دور رہے گی یہ ملکی فوڈ سیکیورٹی، کسان اور صارف تینوں کے لیےبہتر ہوگا۔ حکومت کو ’پروکیورمنٹ پرائس‘ اور’ایشو پرائس‘ کو طے کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔
صرف یہ 2معاملات اربوں روپے کی کرپشن کا سبب ہیں۔ پاسکو کے خاتمے اور اس کے متبادل کے حوالے سے بلکل آسان اصول اپنانے کی ضرورت ہے جو دیر پا بھی ہے اور پائیدار بھی وہ ہے حکومت کاروبار سے باہر نکلے، ’ایفیشنسی‘ کو بڑھائے جس کے نتیجے میں ایک تو پاکستان کی ’بریڈباسکٹ‘ محفوظ ہوگی۔ صارف کو کم قیمت پر خوراک ملے گی اور کسان زیادہ قیمت وصول کرپائے گا۔
کینٹین اسٹورز ڈیپارٹمنٹ کا ماڈل اپنانے کی ضرورت
ڈاکٹر فرخ سلیم کے مطابق ایک سو گیارہ سال کی تاریخ رکھنے والے کینٹین اسٹور ڈیپارٹمنٹ کی چین ایک بہترین مثال ہے جس پر عمل کیا جانا چاہیے۔ ایک طریل عرصہ ہوچکا یہ اسٹور کامیابی سے کام کر رہے ہیں۔ ان سٹورز کو وزارت دفاع چلاتی ہے اور یہ ملک کی دوسری سب سے بڑی ریٹیل چین ہے۔
CSD کے پاس ایک انتہائی کامیاب اوپن ٹینڈر پالیسی ہے جو براہ راست کسان تک رسائی رکھتی ہے۔ جب مڈل مین درمیان سے نکلے گا تو کسان کو اس کی فصل کا بھرپور فائدہ اٹھانے کا موقع بھی ملے گا۔ دنیا میں ترقی پذیر ممالک کی ایک طویل فہرست ہے جو خوراک کے معاملے میں وفاقی یا مرکزی سطح کی پالیسی کو ختم کرچکے ہیں۔
بنگلہ دیش، بھارت، ایتھوپیا، میانمار، نیپال، نائجر، نائجیریا، پیرو، روانڈا، سینیگال، کمبوڈیا، گھانا، گوئٹے مالا، انگولا، ہونڈوراس، انڈونیشیا، کینیا، لاس، ملاوی، مالی، اور موریطانیہ یہاں تک کہ چین 1990 کی دہائی میں مرکزی منصوبہ بند معیشت سے مارکیٹ پر مبنی معیشت کی طرف منتقل ہوچکا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اویس لطیف پاسکو کسان گندم وفاقی حکومت.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پاسکو وفاقی حکومت پاسکو کے خاتمے کے گندم کی خریداری وفاقی حکومت کے حوالے سے کر رہے ہیں کی طرف سے حکومت کا پاسکو کی کے مطابق کے ساتھ ہے اور گیا ہے کے لیے اور اس
پڑھیں:
بھارت ، بنگلہ دیش کی سرحد پر کسانوں میں جھڑپ
بھارتی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق انڈیا،بنگلہ دیش سرحد پر ہفتے کی صبح دونوں ممالک کے کسانوں کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا اور اس کے بعد جھڑپ ہوئی تاہم پیراملٹری فورس نے بتایا کہ صورت حال پر قابو پالیا گیا ہے ۔دونوں ممالک کے کسانوں کے درمیان جھڑپ سرحد کے اسی مقام پر ہوئی ہے جہاں بھارت باڑ لگا رہا ہے تاہم بی جی بی نے مذکورہ علاقے کو بنگلہ دیش کی حدود قرار دیا ہے ، جس کے بعد 6 جنوری سے کام روک دیا گیا تھا جبکہ مذاکرات کے نتیجے میں اگلے ہی روز باڑ پر کام دوبارہ شروع کردیا گیا۔بی ایس ایف نے بیان میں کہا کہ کسانوں کے درمیان جھڑپ کے بعد بی ایس ایف اور بارڈر گارڈ بنگلہ دیش (بی جی بی) کی مداخلت سے صورت حال کو معمول پر لانے کے لیے یقینی اقدامات کیے گئے ہیں۔بی ایس ایف کے بیان کے مطابق کسانوں میں جھڑپ سکدیوپور سرحد کے قریب صبح 11 بج کر 45 منٹ پر پیش آیا، جب بین الاقوامی سرحد کے قریب کام کرنے والے بھارتی کسانوں نے الزام عائد کیا کہ بنگلہ دیشی کسان فصل چوری کر رہے ہیں۔جھڑپ کے حوالے سے بتایا گیا کہ جملوں کے تبادلہ فوری طور پر جھگڑے میں تبدیل ہوا اور دونوں اطراف کسانوں کی بڑی تعداد جمع ہوگئی اور ایک دوسرے پر پتھراؤ کیا۔بھارتی پیراملٹری فورس نے بتایا کہ بی ایس ایف اور بی جی بی کے عہدیداروں کی بروقت مداخلت سے صورت حال کو قابو کرلیا گیا اور دونوں ممالک کے کسانوں کو منتشر کرکے اپنی اپنی سرحد کی جانب بھیج دیا گیا۔بھارت اور بنگلہ دیش کے کسانوں کی لڑائی میں جانی نقصان یا کسی کے زخمی ہونے کی رپورٹ نہیں دی گئی۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ معاملے رفع دفع ہونے کے بعد دوپہر کو بنگلہ دیش کی طرف سرحد سے 50 سے 75 میٹر دور چند لوگ جمع ہوگئے تھے تاہم بی جی بی نے مزید کشیدگی روکنے کے لیے انہیں منتشر کردیا۔خیال رہے کہ بنگلہ دیش میں سابق وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کی حکومت کے خاتمے کے بعد بننے والی نئی عبوری حکومت کے بھارت کے ساتھ تعلقات ماضی کی طرح مثالی نہیں ہے اور بھارت سے شیخ حسینہ واجد کی واپسی کا مطالبہ بھی کردیا ہے ۔سرحد پر دونوں ممالک کے کسانوں میں جھڑپیں بھارت کی جانب سے باڑ کی تنصیب پر بی جی بی اور بی ایس ایف کے درمیان اختلاف کے دوران ہوئی ہیں۔