خیبرپی کے ، بلوچستان کت طلبہ کو سکالر شپ دینے کی خواہش ہم 28مئی والے ، ملک کی عزت کت رکھوالے : مریم نواز
اشاعت کی تاریخ: 21st, January 2025 GMT
لاہور (نوائے وقت رپورٹ) وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف نے خیبر پی کے اور بلوچستان کے طلبہ کو بھی ہونہار سکالرشپ دینے کی خواہش کا اظہارکیا ہے۔ مریم نواز نے غازی یونیورسٹی ڈیرہ غازی خان میں انکوبیشن سینٹر قائم کرنے کا اعلان کیا اورغازی یونیورسٹی کے طلبہ کی ضروری تعلیمی ضروریات پوری کرنے کی ہدایت کی ہے۔ وزیراعلیٰ نے ڈی جی خان میں ہونہار سکالر شپ کی تقریب سے خطاب میں کہا ہے کہ اہل، محنتی اور میرٹ پر آنے والا بچہ، فیس نہ ہونے کی وجہ سے اعلیٰ تعلیمی ادارے کی تعلیم سے محروم نہیں رہے گا۔ ہم نو مئی والے نہیں ہیں 28مئی والے ہیں، پاکستان والے ہیں اور پاکستان کی عزت کے رکھوالے ہیں۔ ہماری زبان تذلیل کی نہیں تدریس کی ہے۔ ہم ڈنڈا بردار نہیں ہم علم، امن اور ترقی کے علمبردار ہیں۔ بچے اپنے والدین سے دعائیں لیں، غصہ آبھی جائے تو جواب نہ دیں۔ میرے بیٹے اور بیٹیو بڑوں کا لحاظ کرو، بدتمیزی نہ کرو اور لائن کراس مت کرو۔ کبھی نہیں چاہوں گی کہ آپ کسی کو گالی دو، ماں اپنے بچوں کو ترغیب نہیں دے سکتی۔ پاکستان کو جہاں پر اور مسائل کا سامنا ہے وہاں پر فیک نیوز کا بھی سامنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بچے بغیر تحقیق کے سوشل میڈیا کی پوسٹ پر یقین نہ کیا کریں۔ سچ ابھی تسمے باندھ رہا ہوتا ہے، جھوٹ پوری دنیا کا چکر لگا کر آجاتا ہے۔ انہوں نے چار سال کام کچھ نہیں کیا، اختتام پر یہی کہا یہ چور وہ چور، اسے پکڑ لو، آگ لگا دو۔ بچے کوئی بھی فیصلہ کرتے وقت پاکستان کو سامنے رکھیں۔ پاکستان ہماری ماں ہے اور ماں کے ساتھ وفاداری کی جاتی ہے غداری نہیں۔ میری حکومت ہو نہ ہو لیکن پاکستان میرا ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ میری حکومت نہ ہو تو پاکستان کو جلا دوں، اس ملک کو ماں کی مانند سمجھنا ہے۔ نوجوانوں آپ کا ہر فیصلہ ہونہار سکالر شپ کی طرح 100 فیصد میرٹ پر ہونا چاہیے۔ نوجوانوں کے ہاتھ میں فیصلے کی قوت ہے، نوجوان ہی میری ہمت ہیں، اکیلے کچھ نہیں کر سکتی۔ گالی گلوچ، پگڑیاں اْچھالنے اپنے ملک کے خلاف قدم اٹھانے والا آپ کا دوست نہیں ہے۔ پاکستان ہماری ریڈ لائن ہے۔ شہداء، رینجرز اور پولیس ہمارے اپنے ہیں۔ ہونہار سکالر شپ کے حوالے سے پروپیگنڈا وہ کر رہے ہیں جنہوں نے سکالر شپ کی بجائے بچوں کے ہاتھ میں پٹرول بم دیا۔ بچوں کی طرف جو رسپانس مل رہا ہے، مخالفین کو سمجھ نہیں آرہی کہ یہ کیا ہوگیا ہے۔ مخالفین کوئی وجہ تلاش کر رہے ہیں، بچوں کے ساتھ جو رشتہ قائم ہوگیا ہے اس کا کیا کریں۔ مخالفین ہونہار سکالر شپ کو ڈرامہ کہتے ہیں ان کوپتہ ہی نہیں کہ سچی محبتیں کیا ہوتی ہیں۔ جھوٹ میں آنکھ کھولی، جھوٹ میں پلنے والوں کیا پتہ پیار اور اعتماد کا رشتہ کیا ہوتا ہے۔ بہت عاجزی اور بچوں کی گواہی کے ساتھ کہتی ہوں کہ 30ہزار سکالر شپ میں سے ایک بھی کسی سفارش پر نہیں دیا گیا۔ ہر بچہ یہ گواہی دے سکتا ہے کہ ایک بھی سکالر شپ میرٹ کی خلاف ورزی پر نہیں دیا گیا۔ اگر کو کہہ دے کہ کسی ایک بچے کو کسی منسٹر، ایم این اے یا ایم پی اے کی سفارش پر سکالر شپ ملا ہے تو استعفیٰ دے کر گھر چلی جاؤں گی۔ اللہ تعالیٰ کا شکر اور احسان ہے کہ بچوں کا ان کاحق دینے کی توفیق دی۔ اگلے چند سالوں میں یہی یوتھ پاکستان کو لیڈ کرے گی۔ کوئی بچہ اپنے آپ کو چھوٹا یا بڑے نہ سمجھے بلکہ آپ ہی پاکستان ہو، بہت جلد سیکنڈ اور تھرڈ ایئر بچوں کے لئے بھی سکالر شپ لیکر آ رہے ہیں۔ کے پی کے بچوں کی طرف سے بھی درخواستیں آرہی ہے ہمیں بھی سکالر شپ دیئے جائیں۔ چاہتی ہوں کہ خیبر پی کے اور بلوچستان کے بچوں کو سکالر شپ دوں۔ ہونہار سکالرشپ کے بدلے میں مریم نواز کچھ نہیں مانگتی بلکہ یہ کہتی ہوں کہ اپنے والدین کا فخر بنو۔ پنجاب سے تعلق لیکن پنجابی سے پہلے پاکستانی ہوں، جیسے ہم پر ماں باپ کے فرض لازم ہیں ایسے ہی پاکستان کے لازم ہیں۔ میں کبھی نہیں کہوں گی کہ میٹرو بس اور موٹرویز جلاؤ دو۔ محمد نوازشریف نے پاکستان کو جوڑنے کے لئے موٹرویز بنائی، انہوں نے پنجاب پر کے پی کے سے حملہ کرنے کے لئے استعمال کیں۔ میٹرو بس کو آگ لگادی میں میٹرو بس میں نہیں بیٹھتی، عوام بیٹھتے ہیں۔ انتشار پھیلانے والوں نے نوجوانوں کو ورغلاکر جیل میں پہنچا دیا اب ان کو کوئی پرسان حال نہیں۔ انتشاریوں نے پاکستان کے بچوں کا مستقبل تباہ کر دیا اور ان کے بچے ملک سے باہر بیٹھے ہیں۔ بدترین مخالف کی حکومت رہی جیل میں ماں کی وفات اور باپ کی بیماری کی خبر سنی لیکن کسی کو نہیں کہا جا کر ملک جلا دو۔ ایک طرف ہم ہیں چاہتے ہیں کہ بچے پڑھیں، ترقی کریں اور دوسری جانب انتشاری بچوں کو جیل بھجوانے کے منتظر ہیں۔ اپنے بچوں کو یورپ رکھنے والے اور ملک کے بچوں کو جیل بھجوانے والے ہمدرد نہیں ہیں۔ چار سال پہلے 38 فیصد مہنگائی تھی آج وہی مہنگائی 4 فیصد پر آگئی ہے۔ روٹی کی قیمت چیک کرکے سوتی ہوں۔ ایک طرف دہشت گردی پھیلانے والے ہیں دوسری طرف امن وامان اور ترقی لانے والے ہیں، بچوں امن کا راستہ چننا۔ وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف نے کہا کہ ایک طرف مدینہ منورہ میں قوم کی بیٹیوں پر آوازیں کسنے والے اور دوسری طرف اخلاقیات درس دینے والی ماں ہے۔ اپنے بیٹوں کو نصیحت کرتی ہوں کہ قوم کی خواتین کی عزت کی حفاظت آپ کی ذمہ داری ہے۔ قبل ازیں ہونہار سکالرشپ پروگرام کا پہلا فیز مکمل ہوگیا۔ غازی یونیورسٹی ڈیرہ غازیخان میں نویں تقریب میں وزیراعلیٰ مریم نواز نے چیک تقسیم کر کے باقاعدہ آغاز کیا اور طلبہ کے لئے نئے جدید لیپ ٹاپ کی رونمائی کی۔ طالب علم شاعرہ نے وزیراعلیٰ کو ان الفاظ میں منظوم خراج تحسین پیش کیا۔ ’’او سب دی ماں آگئی اے‘ کر اپنا فرض اداگئی اے‘‘ ’’کر مریم اپنی وفا گئی اے ’’او غریب دا بوجھ ونڈا گئی اے‘‘ وزیراعلیٰ مریم کو شیشہ کاری سے مزین روایتی شال اور بلوچی لباس کا تحفہ پیش کیا گیا۔ نواز شریف اور دیگر پورٹریٹ بھی پیش کئے۔ روایتی بلوچی لباس میں ملبوس کوہ سلیمان کی طالبہ نے بلوچی زبان میں خوش آمدید کہا۔ وزیراعلیٰ نے جامی کی لغت کی سعادت حاصل کرنے والی طالبہ کو از راہ شفقت گلے لگا لیا۔ نفرتوں کے دروازے بند رکھیں گے۔ یہ پرچم سربلند رکھیں گے ملی نغمے کے مصرعے پر پنڈال تالیوں سے گونج اٹھا۔ وزیر اعلیٰ مریم نواز کی آمد پر طلبہ نے جوش و خروش کا اظہار کیا۔ وزیراعلیٰ نے ا رکان اسمبلی کی نشستوں پر جا کر خیریت دریافت کی۔ وزیراعلیٰ نشست طالبات کے درمیان تھی۔ انہوں نے بچیوں سے بات چیت کی۔ وزیراعلیٰ مریم نواز کی ہدایت پر طلبہ کو گارڈ آف آنر پیش کیا گیا۔ وزیراعلیٰ نے طلبہ کیساتھ مل کر سیلفیاں بنوائیں۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: ہونہار سکالر شپ پاکستان کو مریم نواز والے ہیں انہوں نے بچوں کو کے بچوں ہوں کہ کے لئے ہیں کہ
پڑھیں:
بلوچستان کے ممسائل ،حکمرانوں اور اسٹیبلمنٹ کو اپنی پالیسی تبدیل اور عوام کو ان کے حقوق دینے ہوں گے،حافظ نعیم الرحمن
امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن ، امیر صوبہ بلوچستان ورکن صوبائی اسمبلی مولانا ہدایت الرحمن، مرکزی ڈپٹی سیکرٹری سید فراست شاہ، بلوچستان شعبہ سیاسی امور کے نگراں زاہد اختر بلوچ، بلوچستان یونین آف جرنلسٹ کے چودھری امتیاز کراچی پریس میں ’’ بلوچستان کے سلگتے ہوئے مسائل اور ان کا حل‘‘ کے عنوان سے منعقدہ سیمینار سے خطاب کررہے ہیںکراچی( اسٹاف رپورٹر) امیرجماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے جماعت اسلامی صوبہ بلوچستان کے تحت کراچی پریس کلب میں ’’بلوچستان کے سلگتے ہوئے مسائل اور ان کا حل ‘‘کے عنوان سے سیمینار سے صدارتی خطاب کرتے ہوئے کہاکہ حکمرانوں اوراسٹیبلشمنٹ کو بلوچستان کے حوالے سے اپنی پالیسی تبدیل اور بلوچستان کے عوام کو ان کے حقوق دینے ہوں گے۔ بلوچستان کے عوام کو عزت اور ان کے حقوق دیے جائیں تو یہ اور زیادہ محب وطن ثابت ہوں گے۔ بلوچستان کے مسائل کے حل کے لیے فارم47 والوں کے بجائے بلوچستان کی حقیقی قیادت سے بات کرنا ہوگی۔ بلوچستان کی اسمبلی میں بیٹھے ہوئے فارم 47 کی پیداوار عوام کے نمائندے نہیں ہیں۔ لاپتا افراد کے کمیشن کو فعال کیا جائے ،طاقت کا استعمال بند اورلاپتا افراد کو بازیاب کروایا جائے۔ اگر کوئی دہشت گرد یا مجرم ہے تو اس کا آئین اور قانون کے مطابق اور عدالتوں کے ذریعے فیصلہ کیا جائے۔ کسی بھی آئین میں یہ موجود نہیں ہے کہ لوگوں کو پکڑ کر لاپتا کردو ۔بلوچ قیادت کا ہم کراچی پریس کلب میں خیر مقدم کرتے ہیں،جماعت اسلامی بلوچستان کے حقوق کے لیے پورے ملک میں آواز اٹھائے گی ،لاہور مینار پاکستان پرتاریخی جلسہ ،پشاور اسلام آباد میں بھی مقدمہ لڑے گی۔سیمینارسے امیر جماعت اسلامی صوبہ بلوچستان و رکن بلوچستان اسمبلی مولانا ہدایت الرحمن ،مرکزی ڈپٹی سیکرٹری سید فراست شاہ ،صوبہ بلوچستان کے شعبہ سیاسی امور کے نگراں زاہد اختر بلوچ ،بلوچستان یونین آف جرنلسٹ کے چودھری امتیاز و دیگر نے بھی خطاب کیا جبکہ نظامت کے فرائض سیکرٹری صوبہ بلوچستان مرتضیٰ کاکٹر نے انجام دیے ۔حافظ نعیم الرحمن نے مزید کہاکہ ہم آئین اور قانون کی بالادستی چاہتے ہیں ،حکومت عدالت ، فوج سب کو آئین و قانون پر عمل کرنا ہوگا۔ وہاں کے مسائل حل ہو جائیں تو 3 ماہ میں خود بلوچستان کے عوام اپنے صوبے کا دفاع کریں گے اور ملک ترقی کرے گا۔ بلوچستان کے عوام کوضروریات زندگی کی سہولیات فراہم کی جائیں۔سی پیک میں بلوچستان کا حصہ اور عوام کوگیس مہیا کی جائے۔ بلوچستان واحد صوبہ ہے جو پورے ملک کے لیے سولر انرجی کا انتظام کرسکتا ہے۔ بلوچستان میں موجود منرلز کو چند سرداروں کے حوالے کردیا گیا ہے جس سے حکمران فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ انہوں نے مزیدکہاکہ بلوچستان میں بے شمار قدرتی وسائل ،معدنیات اور خزانے موجود ہیں لیکن حکمرانوں کی نظر خزانوں پر تو ہے عوام کو عزت اورحقوق نہیں دیتے۔ بلوچستان سے ملنے والے منرلز میں سے 20 فیصد حصہ بلوچستان کے عوام کو دیدیا جائے تو صوبہ بھی ترقی کرے گا اور پاکستان بھی۔ بلوچستان اور سندھ کے حکمرانوں میں کرپشن کی دوڑ اور مقابلہ چل رہا ہے۔پہلے صرف سندھ میں سسٹم کام کررہا تھا اور اب سسٹم کو اسلام آباد میں جاکر بٹھادیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ کوئٹہ سے کراچی تک موٹر وے موجود نہیں جس کے باعث سالانہ 8 ہزار لوگ حادثات کا شکار ہوکر اپنی جان گنوادیتے ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ جماعت اسلامی کی حق دو بلوچستان تحریک جاری ہے ،امیر صوبہ بلوچستان مولانا ہدایت الرحمن تحریک کے قائد ہیں۔جماعت اسلامی بلوچستان کے عوام کے ساتھ ہے، بلوچستان کے عوام اس تحریک کا حصہ بنیں۔مولانا ہدایت الرحمن نے بھرپور جدوجہد کی اسی وجہ سے انہیں عوام نے منتخب کیا۔ جعفرآباد سے عبد المجید بادینی کو بھی عوام نے بھاری مینڈیٹ دے کر کامیاب کیا ہے۔ عوام کے مینڈیٹ کو تسلیم کیا جائے ۔مولانا ہدایت الرحمن نے کہاکہ جنرل ایوب خان کے دور سے لے کرآج تک بلوچستان میں جبر و ظلم کا نظام قائم ہے۔ بلوچستان کا میڈیا بھی آزاد نہیں ہے جس کے باعث بلوچستان کے مسائل اور گمنام اموات کا پتا تک نہیں ہے۔ بلوچستان کے عوام کے بارے میں پورے پاکستان میں غلط تاثر پھیلایا گیا ہے۔ قائد اعظم کے سر پر جناح کیپ کسی اور نے نہیں وہ صوبے بلوچستان کے عوام نے پہنایا تھا۔ بانی پاکستان قائد اعظم کو بلوچستان کے عوام نے سونے میں تولہ اور انہیں عزت دی۔ جنرل ایوب نے اپنی طاقت کے زور پر بلوچستان کے عوام کو شرپسند قراردیا۔پرویز مشرف نے بھی مکا لہراتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں چند سرداروں کا مسئلہ ہے اور وہاں آگ اور خون سے کھیلا گیا۔حکمران مختلف بہانے سے بلوچستان کے عوام کو دھوکا دیتے رہے‘ آج کے حکمران بھی کہتے ہیں کہ ایک ایس ایچ او کی مار ہے ‘ تکبر اور غرور کرنے والوں نے بہت ساری ماؤں کو بیوہ کیا اور بچوں کو یتیم کیا‘ آج بلوچستان جل رہا ہے۔ ایف سی کے اہلکار گھروں میں آکر ماؤں کی عزت نہیں کرتے جس کے باعث نوجوان پہاڑوں پر جاکر مسلح جدوجہد کر رہے ہیں‘ ہم نے مسلح جدوجہد کے بجائے جمہوری راستہ اختیار کیا ہے ‘ کراچی میں بھی بلوچستان کے حوالے سے احتجاج کرنے والی ماؤں بہنوں کو پکڑ کر جیلوں میں ڈال دیا گیا‘ صوبہ بلوچستان کو لینڈ مافیا ،کرپٹ بیوروکریسی اور ظالم جاگیرداروں و سرداروں کے حوالے کردیا گیا ہے۔ ہم صوبہ بلوچستان میں دن میں 5 دفعہ اپنی شناخت کرواتے ہیں کہ ہم پاکستانی ہیں۔ پاکستان اس وقت تک مستحکم نہیں ہوگا جب تک چادر اورچار دیواری کاتقدس پامال کرنے کا سلسلہ بند نہ ہوگا۔اسلام آباد کے حکمران بلوچستان کے ساتھ وہی رویے رکھتے ہیں جو مشرقی پاکستان کے عوام کے ساتھ رکھا گیا تھا۔ بلوچستان کا سونا ، چاندی ،سوئی گیس ، کوئلہ اور بلوچستان کے عوام کو ملنا چاہیئے۔ بلوچستان کے عوام چاہتے ہیں کہ ہماری ماؤں کو عزت کا تقدس رکھا جائے، نوجوانوں کو بازیاب کروایا جائے۔بلوچستان کی مائیں پکار رہی ہیں کہ ہمیں ہمارے بچے دے دیں ۔ حکمران سن لیں بندوق اور طاقت کے زور پر ملک میں استحکام چاہتے ہیں تو ہمیشہ طاقت کو شکست ہوئی ہے۔ بلوچستان ہمارا ہے، بندوق والوں کا نہیں ہے، بلوچستان کو ہم خود سنبھالیں گے۔سید فراست شاہ نے کہاکہ ہمارا سب سے بڑا اثاثہ بلوچستان کے عوام اور نوجوان ہیں جو پاکستان کے لیے بھی بہت اہم ہے۔بلوچستان کے نوجوان بہت ہی ہنر مند اور پڑھے لکھے ہیں۔بد قسمتی سے باصلاحیت بلوچستان کے عوام کو اوپر کی سطح پر نہیں لایا جاتا۔ہمارے ملک کا گلہ سڑا نظام ہے جس کے باعث بلوچستان کے پڑھے لکھے لوگوں کو ضائع کیا جارہا ہے۔ یہی حال سیاست اور نوکریوں کا بھی ہے باصلاحیت لوگوں کو آگے نہیں آنے دیا جاتا۔ پاکستان ایسے خطے میں واقع ہے جہاں منرلز کا ہونا لازمی ہے۔ اس حوالے سے بلوچستان کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ بلوچستان میں منرل ڈویلپمنٹ کے حوالے سے بہت سارے مواقع موجود ہیں لیکن حکومتی سرپرستی میں کام نہیں کرنے دیا جاتا۔ 1950 میں بلوچستان کے صوبے میں گیس برآمد ہوئی جو تمام صوبہ جات میں تقسیم ہوتی ہے لیکن خود بلوچستان کے عوام کو گیس فراہم نہیں کی جاتی۔اگر پائپ لائن کے ذریعے گیس کی فراہمی مشکل ہے ، اب نئی ٹیکنالوجی کے بعد تو ٹرکوں کے ذریعے ایل پی جی گیس فراہم کی جاسکتی ہے لیکن اس پر کوئی عمل نہیں کرتا۔ پاکستان کے ڈویلپمنٹ کا ایک بڑا حصہ صوبہ بلوچستان میں خرچ ہونا چاہیے۔ورلڈ بنک کی رپورٹ کے مطابق بلوچستان پاکستان کا وہ صوبہ ہے جہاں سے سولر انرجی پیدا ہوسکتی ہے۔زاہد اختر بلوچ نے کہاکہ بلوچستان ایسا صوبہ ہے جس کے زیر زمین بے شمار مسائل ہیںاور برسر زمین عوام بے شمار مسائل کا شکار ہیں۔صوبہ بلوچستان 40 فیصد پاکستان ہے اور دیگر صوبوں کے لوگوں کا فرض ہے کہ وہ ایک بلوچستان کی آواز بنیں۔ صوبہ بلوچستان پورے پاکستان کو گیس فراہم کررہا ہے۔ اور سونے کے ذخائر موجود ہیں۔بد قسمتی سے بلوچستان کے عوام پر ظلم و تشدد کیا جارہا ہے، عدالتوں میں بلوچستان کے لوگوں کے لیے دروازے بند ہیں۔ بلوچستان کے عوام کو بغیر ایف آئی آر کے کئی سال تک جیلوں میں قید کردیا جاتا ہے۔ اگر پاکستان اور بلوچستان کو بچانا ہے تو فارم 47 نہیں بلکہ فارم 45 والوں کو قبول کرنا ہوگا۔چوہدری امتیاز طارق نے کہاکہ بلوچستان میں عوام کے ساتھ ساتھ صحافی بھی پریشانی کا شکار ہیں۔ موجودہ حکومت نے کئی بار کوئٹہ پریس کلب کو بھی بند کرنے کی کوشش کی ہے۔ بلوچستان کے صورتحال یہ ہے کہ پریس کانفرنس یا سیمینار کرنے کے لیے بھی ڈی سی سے اجازت لینی پڑتی ہے ۔بلوچستان کے مسائل کے حوالے سے آج کراچی پریس کلب سے تحریک شروع کی ہے۔ ہم صحافی بھی اس تحریک کا حصہ بنیں گے۔