حماس اسرائیل معاہدہ: غزہ کے بہادر عوام کو سلام
اشاعت کی تاریخ: 21st, January 2025 GMT
(آخری حصہ)
سوال یہ ہے کہ 15 ماہ تک اسرائیل کو جنگ میں جھونکے رکھنے، بدترین معاشی حالات سے دوچار کرنے، اسلام، مسلمانوں، اہل غزہ اور حماس کے بارے میں اس قدر متشدد اور وحشیانہ فکر وعمل کے حامل ٹرمپ اور نیتن یاہو اور ان کی کابینہ جو حماس کے خاتمے اور غزہ اور اہل غزہ کو مکمل طور پر ختم اور ملیا میٹ کرنے سے کم کسی بات پر تیار نہیں تھی، وہ یہ معاہدہ کرنے پر کیوں مجبور ہوئی؟ 7 اکتوبر 2023 کے بعد نہتے شہریوں کی نسل کشی اور غزہ کی سرزمین کو ملیا میٹ کرتے ہوئے اسرائیل تواتر کے ساتھ تین بنیادی اہداف بیان کررہا تھا۔
اول: یر غمالیوں کی رہائی۔ اسرائیلی حکام بڑے تکبر سے کہا کرتے تھے کہ اس وقت تک جنگ جاری رہے گی جب تک حماس یرغمالیوں کی رہائی پر مجبور نہیں ہوجاتی۔ دوم: حماس کا خاتمہ، فضائی بمباری، پیدل فوج کی پیش قدمی اور حماس کی قیادت کو چن چن کر شہید کرنے کے دوران اسرائیل ہمیشہ یہی دعویٰ کرتا تھا کہ غزہ سے حماس کے مکمل خاتمے تک جنگ بندی ممکن نہیں۔ سوم: غزہ کو عربوں سے مکمل طور پر خالی کرانا تاکہ مستقبل میں ایسے کسی خطرے کا دوبارہ امکان نہ رہے۔
یہ جہاد کی طاقت تھی جس نے اسرائیل کے ان عزائم کو اس طرح تحلیل کیا کہ 2023 میں حماس کے خاتمے تک چین سے نہ بیٹھنے والے نیتن یاہو 15 جنوری 2025 کو معاہدے کی تکمیل کے لیے اپنے دفتر میں بیٹھے حماس کے جواب کا انتظار کررہے تھے اس بے چینی کے ساتھ کہ ’’ابھی تک حماس نے معاہدے کے متن میں دی گئی تجاویزکا جواب نہیں دیا ہے‘‘۔ تمام تر نقصانات کے باوجود حماس کے جہاد مسلسل نے اسرائیلی فوج کے ترجمان ریئر ایڈمرل ڈینیئل ہگاری کو یہ کہنے پر مجبور کردیا کہ ’’حماس ایک نظریہ ہے، اسے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ یہ کہنا کہ ہم حماس کو مٹانے جا رہے ہیں۔ لوگوں کی آنکھوں میں ریت جھونکنے کے مترادف ہے۔ اگر ہم کوئی متبادل پیش نہ کر سکے تو حماس پھر سے ہمارے ساتھ ہی موجود ہو گی‘‘۔ حالیہ معاہدہ اسرائیل اور امریکاکی اس شکست خوردہ سوچ اور حقیقت کا عکاس ہے۔
جس بے حد وحساب تباہی، بربادی، ہلاکتوں، زخموں، قحط اور بدترین حالات کا اہل غزہ نے مقابلہ کیا ہے وہ کسی کی بھی کمر توڑنے، پسپائی اور شکست تسلیم کرنے کے لیے کافی سے بھی کہیں زیادہ تھا لیکن یہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ پر کامل یقین کا ثمرہ تھا کہ مجاہدین نے ایک دن بھی جہاد کے مومینٹم کو ختم کرنا تو درکنار سست نہیں ہونے دیا اور ہر حال میں جہاد کو جاری رکھا اور گھریلو ساختہ اسلحے کے ساتھ 15 ماہ میں اسرائیل، امریکا اور پورے مغرب کو پسپائی کی سوچ تک پہنچنے پر مجبور کردیا۔ وحشیانہ بمباری اور اہل غزہ کی نسل کشی کی ہر تدبیر کرنے کے باوجود اسرائیل کسی ہدف کے حصول میں کامیابی حاصل نہ کرسکا۔ گلوبل اینڈ ریجنل اسٹرٹیجیز ان دی مڈل ایسٹ سے منسلک مصنفہ ڈاکٹر لیلا نکولس کہتی ہیں کہ ’’اسرائیل کے پاس کوئی واضح پلان نہیں کہ وہ غزہ میں کیا کرنا چاہتا ہے‘‘۔
فضائی حملوں سے روزانہ کی بنیاد پر سیکڑوں شہریوں کی ہلاکتوں کو بے نتیجہ دیکھ کر اور اہل غزہ کی بے خوفی اور دلیری سے ان پر تھکن اور پژمردگی غالب آنے لگی۔ دوسری طرف شمالی غزہ میں شہید یحییٰ سنوار کے بھائی کی قیادت میں حماس اپنی پوری مزاحمتی صلاحیتوں کے ساتھ اسرائیل کے مقابل کھڑی تھی۔ گزشتہ برس 2024 کے ابتدائی مہینوں میں ہی امریکا کے فوجی اور سفارتی اہلکار کہنے لگے تھے کہ ’’اسرائیل کے لیے یہ جنگ جاری رکھنا ممکن نہیں‘‘۔ اسی لیے وہ اسرائیل کو اس جنگ کو پھیلانے سے روکتے رہے۔ اس سلسلے میں اوّل وہ اسرائیل کو رفح پر حملے کرنے سے روکتے رہے جوکہ غزہ میں امداد پہنچانے اور جنگ سے جان بچاکر نکلنے والوں کے لیے واحدراستہ بچا تھا۔ دوم: حزب اللہ کے خاتمے کے باوجود جنگ کو لبنان میں وسعت اختیار نہ کرنے دی۔ سوم: جو بائیڈن انتظامیہ غزہ میں اسرائیل کو فتح یاب دیکھنے کی کوششوں کے ساتھ، دنیا بھر میں اس کی سفارتی مدد کے ہمراہ اپنے طور پر جنگ بندی کے فارمولے تلاش کرتی رہی۔
اسرائیلی اور مغربی میڈیا غزہ میں شہادتوں کی تعداد 46 ہزار کے لگ بھگ بیان کرتا رہا ہے جب کہ اب یہ تعداد چالیس فی صد زیادہ بتائی جارہی ہے جب کہ غزہ کی وزارت صحت اس جنگ کے پہلے نوماہ میںیہ تعداد 55298 سے لے کر 78525 کے درمیان بیان کرتی ہے حقیقت یہ ہے کہ پندرہ ماہ میں غزہ کے شہداء کی تعداد اس سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ شہداء کی یہ بڑی تعداد اہل غزہ اور مسلمانوں کے لیے کم حوصلگی کا نہیں فخر اور تقلید کا مقام ہے۔ ہر مسلمان ان شہداء کی راہ پر چلنا خوش نصیبی سمجھتا ہے جو جہاد کے لیے نکلے اور زندہ جاوید ہو گئے۔ یہ اسرائیلی اور امریکی ہیں جو خوف زدہ ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن کا یہ خیال اسی خوف کا اظہار ہے کہ ’’اگر یہ درست ہے کہ ’حماس کے جتنے لوگ مارے گئے اس نے اتنے ہی مزید بھرتی کر لیے ہیں،‘ تو یہ اسرائیل کے لیے پہلے سے خطرناک بات ہو گی‘‘۔
غزہ جیسی زیر محاصرہ پٹی میں حماس جیسی چھوٹی سی ملیشیا کے مقابل اسرائیل کے پاس اس جنگ میں باقاعدہ فوج تھی، جدید ٹیکنالوجی کے حامل جنگی طیارے، ہیلی کاپٹر، ٹینک، میزائل، ڈرونز اور بے حد وحساب گولہ بارود اور اسلحہ تھا۔ اسے یکطرفہ بمباری کرنے کی آزادی تھی، ازلی اتحادی امریکا اور پورا مغرب اس کے ساتھ تھا۔ حزب اللہ اور ایران نے بھی حماس کا ساتھ نہ دیا، کوئی مسلم ملک اس کی مدد کو نہ آیا لیکن ان سب کے باوجود حماس کو شکست نہ دی جا سکی۔ وہ قوتیں جو حماس کا ساتھ دینے سے گریز کرتی رہیں، اسرائیل کے ہاتھوں پٹ کر شکست خوردہ اور بے اثر ہوگئیں لیکن وہ حماس جو کوئی قابل ذکر قوت نہ تھی حتیٰ کہ ابراہیم اکارڈ میں فلسطینیوں کا ذکر تک موجود نہ تھا آج فاتح اور کامیاب ہے، اتنی کہ امریکا اور اسرائیل اسے تسلیم کرنے اور اس سے معاہدہ کرنے پر مجبور ہوگئے۔ اس نے مزید عرب ممالک کو اسرائیل کے قریب جانے اور اسے تسلیم کرنے سے روک دیا۔ مسئلہ فلسطین کو یورپ اور امریکا کی یونی ورسٹیوں، شاہراہوں اور میڈیا میں زندہ کردیا اور عالمی برادری کا موضوع بنادیا۔
اس معاہدے کا مستقبل جو بھی ہو لیکن آج غزہ فتح یاب ہے اور مستقبل بھی اسی کا ہے۔ غزہ کے بہادر لوگوں کو دل کی گہرائیوں سے سلام جو شہید وزخمی ہوئے، خوف ناک ترین مصائب کا سامنا کیا لیکن پہاڑوں کی طرح ڈٹ کر کھڑے رہے۔ آج غزہ کامیاب ہے اور وہ حکومتیں، حکمران، افواج اور علماء جو اس کی حمایت سے گریزاں رہے شکست خوردہ ہیں۔ وہ ایک لاکھ سے زائد اہل غزہ جو شہید اور زخمی ہوئے ان کا بدلہ لینا مسلم افواج کی گردنوں پر ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے دعا ہے کہ اہل غزہ اور مجاہدین کی روح، عزم، ایمان مضبوطی اور استقامت پوری امت میں عام ہو، غلامی کی زنجیریںٹوٹیں، مغرب کی ایجنٹ کرپٹ مسلم حکومتیں گریں، امت اپنے فیصلے خود کرے، جہاد کو پوری طاقت سے جاری کرے، مسجد اقصیٰ کو آزاد، مغضوب قوم کو ختم، اسلام کو فاتح اور اس سے ہدایت لینے والی سلطنت اور ریاست کو بحال کرے۔ معاہدے کے بعد غزہ کے مسلمانوں کی نسل کشی تو رک جائے گی لیکن جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی بلکہ یہودی وجود کے خلاف اصل جنگ تو ابھی شروع بھی نہیں ہوئی۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: اسرائیل کو اسرائیل کے کے باوجود کے ساتھ حماس کے اہل غزہ غزہ اور کے لیے غزہ کے غزہ کی اور اس
پڑھیں:
ایک اور آئی پی پی کے ساتھ معاہدہ ختم کردیاگیا
حکومت اور انڈپنڈنٹ پاور کمپنیوں کی جانب سے تصفیوں کے ساتھ معاہدے ختم کرنے کا سلسلہ جاری ہے، حکومت کے ساتھ ایک اور آئی پی پی نے سیٹلمنٹ ایگریمنٹ کے تحت پاور معاہدہ ختم کردیا ۔
میسرز روش پاکستان پاور لمیٹڈ نے حکومت سے پاور پرچیز معاہدہ ختم کرنے کی اطلاع سے پاکستان اسٹاک ایکس چینج کی انتظامیہ کو آگاہ کردیا ہے۔
پی ایس ایکس کو بھیجے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ میسرز روش پاکستان پاور کمپنی، آلٹرن انرجی لمیٹڈ کے ماتحت کام کرتی ہے۔
خط کے مطابق حکومت اور صدر پاکستان کی فراہم کردہ گارنٹی پر کمپنی نے معاہدہ ختم کیا ہے۔
خط میں کہا گیا کہ حکومت کی سینٹرل پاور پرجیزنگ ایجنسی سے تمام واجبات کمپنی نے وصول کرلیے ہیں، پاور کمپلیکس کو حکومت کے زیر انتظام نیشنل پاور پارکس مینجمنٹ کمپنی کے حوالے کردیا گیا ۔