Jasarat News:
2025-04-15@09:40:04 GMT

حماس اسرائیل معاہدہ: غزہ کے بہادر عوام کو سلام

اشاعت کی تاریخ: 21st, January 2025 GMT

حماس اسرائیل معاہدہ: غزہ کے بہادر عوام کو سلام

(آخری حصہ)

سوال یہ ہے کہ 15 ماہ تک اسرائیل کو جنگ میں جھونکے رکھنے، بدترین معاشی حالات سے دوچار کرنے، اسلام، مسلمانوں، اہل غزہ اور حماس کے بارے میں اس قدر متشدد اور وحشیانہ فکر وعمل کے حامل ٹرمپ اور نیتن یاہو اور ان کی کابینہ جو حماس کے خاتمے اور غزہ اور اہل غزہ کو مکمل طور پر ختم اور ملیا میٹ کرنے سے کم کسی بات پر تیار نہیں تھی، وہ یہ معاہدہ کرنے پر کیوں مجبور ہوئی؟ 7 اکتوبر 2023 کے بعد نہتے شہریوں کی نسل کشی اور غزہ کی سرزمین کو ملیا میٹ کرتے ہوئے اسرائیل تواتر کے ساتھ تین بنیادی اہداف بیان کررہا تھا۔

اول: یر غمالیوں کی رہائی۔ اسرائیلی حکام بڑے تکبر سے کہا کرتے تھے کہ اس وقت تک جنگ جاری رہے گی جب تک حماس یرغمالیوں کی رہائی پر مجبور نہیں ہوجاتی۔ دوم: حماس کا خاتمہ، فضائی بمباری، پیدل فوج کی پیش قدمی اور حماس کی قیادت کو چن چن کر شہید کرنے کے دوران اسرائیل ہمیشہ یہی دعویٰ کرتا تھا کہ غزہ سے حماس کے مکمل خاتمے تک جنگ بندی ممکن نہیں۔ سوم: غزہ کو عربوں سے مکمل طور پر خالی کرانا تاکہ مستقبل میں ایسے کسی خطرے کا دوبارہ امکان نہ رہے۔

یہ جہاد کی طاقت تھی جس نے اسرائیل کے ان عزائم کو اس طرح تحلیل کیا کہ 2023 میں حماس کے خاتمے تک چین سے نہ بیٹھنے والے نیتن یاہو 15 جنوری 2025 کو معاہدے کی تکمیل کے لیے اپنے دفتر میں بیٹھے حماس کے جواب کا انتظار کررہے تھے اس بے چینی کے ساتھ کہ ’’ابھی تک حماس نے معاہدے کے متن میں دی گئی تجاویزکا جواب نہیں دیا ہے‘‘۔ تمام تر نقصانات کے باوجود حماس کے جہاد مسلسل نے اسرائیلی فوج کے ترجمان ریئر ایڈمرل ڈینیئل ہگاری کو یہ کہنے پر مجبور کردیا کہ ’’حماس ایک نظریہ ہے، اسے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ یہ کہنا کہ ہم حماس کو مٹانے جا رہے ہیں۔ لوگوں کی آنکھوں میں ریت جھونکنے کے مترادف ہے۔ اگر ہم کوئی متبادل پیش نہ کر سکے تو حماس پھر سے ہمارے ساتھ ہی موجود ہو گی‘‘۔ حالیہ معاہدہ اسرائیل اور امریکاکی اس شکست خوردہ سوچ اور حقیقت کا عکاس ہے۔

جس بے حد وحساب تباہی، بربادی، ہلاکتوں، زخموں، قحط اور بدترین حالات کا اہل غزہ نے مقابلہ کیا ہے وہ کسی کی بھی کمر توڑنے، پسپائی اور شکست تسلیم کرنے کے لیے کافی سے بھی کہیں زیادہ تھا لیکن یہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ پر کامل یقین کا ثمرہ تھا کہ مجاہدین نے ایک دن بھی جہاد کے مومینٹم کو ختم کرنا تو درکنار سست نہیں ہونے دیا اور ہر حال میں جہاد کو جاری رکھا اور گھریلو ساختہ اسلحے کے ساتھ 15 ماہ میں اسرائیل، امریکا اور پورے مغرب کو پسپائی کی سوچ تک پہنچنے پر مجبور کردیا۔ وحشیانہ بمباری اور اہل غزہ کی نسل کشی کی ہر تدبیر کرنے کے باوجود اسرائیل کسی ہدف کے حصول میں کامیابی حاصل نہ کرسکا۔ گلوبل اینڈ ریجنل اسٹرٹیجیز ان دی مڈل ایسٹ سے منسلک مصنفہ ڈاکٹر لیلا نکولس کہتی ہیں کہ ’’اسرائیل کے پاس کوئی واضح پلان نہیں کہ وہ غزہ میں کیا کرنا چاہتا ہے‘‘۔

فضائی حملوں سے روزانہ کی بنیاد پر سیکڑوں شہریوں کی ہلاکتوں کو بے نتیجہ دیکھ کر اور اہل غزہ کی بے خوفی اور دلیری سے ان پر تھکن اور پژمردگی غالب آنے لگی۔ دوسری طرف شمالی غزہ میں شہید یحییٰ سنوار کے بھائی کی قیادت میں حماس اپنی پوری مزاحمتی صلاحیتوں کے ساتھ اسرائیل کے مقابل کھڑی تھی۔ گزشتہ برس 2024 کے ابتدائی مہینوں میں ہی امریکا کے فوجی اور سفارتی اہلکار کہنے لگے تھے کہ ’’اسرائیل کے لیے یہ جنگ جاری رکھنا ممکن نہیں‘‘۔ اسی لیے وہ اسرائیل کو اس جنگ کو پھیلانے سے روکتے رہے۔ اس سلسلے میں اوّل وہ اسرائیل کو رفح پر حملے کرنے سے روکتے رہے جوکہ غزہ میں امداد پہنچانے اور جنگ سے جان بچاکر نکلنے والوں کے لیے واحدراستہ بچا تھا۔ دوم: حزب اللہ کے خاتمے کے باوجود جنگ کو لبنان میں وسعت اختیار نہ کرنے دی۔ سوم: جو بائیڈن انتظامیہ غزہ میں اسرائیل کو فتح یاب دیکھنے کی کوششوں کے ساتھ، دنیا بھر میں اس کی سفارتی مدد کے ہمراہ اپنے طور پر جنگ بندی کے فارمولے تلاش کرتی رہی۔

اسرائیلی اور مغربی میڈیا غزہ میں شہادتوں کی تعداد 46 ہزار کے لگ بھگ بیان کرتا رہا ہے جب کہ اب یہ تعداد چالیس فی صد زیادہ بتائی جارہی ہے جب کہ غزہ کی وزارت صحت اس جنگ کے پہلے نوماہ میںیہ تعداد 55298 سے لے کر 78525 کے درمیان بیان کرتی ہے حقیقت یہ ہے کہ پندرہ ماہ میں غزہ کے شہداء کی تعداد اس سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ شہداء کی یہ بڑی تعداد اہل غزہ اور مسلمانوں کے لیے کم حوصلگی کا نہیں فخر اور تقلید کا مقام ہے۔ ہر مسلمان ان شہداء کی راہ پر چلنا خوش نصیبی سمجھتا ہے جو جہاد کے لیے نکلے اور زندہ جاوید ہو گئے۔ یہ اسرائیلی اور امریکی ہیں جو خوف زدہ ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن کا یہ خیال اسی خوف کا اظہار ہے کہ ’’اگر یہ درست ہے کہ ’حماس کے جتنے لوگ مارے گئے اس نے اتنے ہی مزید بھرتی کر لیے ہیں،‘ تو یہ اسرائیل کے لیے پہلے سے خطرناک بات ہو گی‘‘۔

غزہ جیسی زیر محاصرہ پٹی میں حماس جیسی چھوٹی سی ملیشیا کے مقابل اسرائیل کے پاس اس جنگ میں باقاعدہ فوج تھی، جدید ٹیکنالوجی کے حامل جنگی طیارے، ہیلی کاپٹر، ٹینک، میزائل، ڈرونز اور بے حد وحساب گولہ بارود اور اسلحہ تھا۔ اسے یکطرفہ بمباری کرنے کی آزادی تھی، ازلی اتحادی امریکا اور پورا مغرب اس کے ساتھ تھا۔ حزب اللہ اور ایران نے بھی حماس کا ساتھ نہ دیا، کوئی مسلم ملک اس کی مدد کو نہ آیا لیکن ان سب کے باوجود حماس کو شکست نہ دی جا سکی۔ وہ قوتیں جو حماس کا ساتھ دینے سے گریز کرتی رہیں، اسرائیل کے ہاتھوں پٹ کر شکست خوردہ اور بے اثر ہوگئیں لیکن وہ حماس جو کوئی قابل ذکر قوت نہ تھی حتیٰ کہ ابراہیم اکارڈ میں فلسطینیوں کا ذکر تک موجود نہ تھا آج فاتح اور کامیاب ہے، اتنی کہ امریکا اور اسرائیل اسے تسلیم کرنے اور اس سے معاہدہ کرنے پر مجبور ہوگئے۔ اس نے مزید عرب ممالک کو اسرائیل کے قریب جانے اور اسے تسلیم کرنے سے روک دیا۔ مسئلہ فلسطین کو یورپ اور امریکا کی یونی ورسٹیوں، شاہراہوں اور میڈیا میں زندہ کردیا اور عالمی برادری کا موضوع بنادیا۔

اس معاہدے کا مستقبل جو بھی ہو لیکن آج غزہ فتح یاب ہے اور مستقبل بھی اسی کا ہے۔ غزہ کے بہادر لوگوں کو دل کی گہرائیوں سے سلام جو شہید وزخمی ہوئے، خوف ناک ترین مصائب کا سامنا کیا لیکن پہاڑوں کی طرح ڈٹ کر کھڑے رہے۔ آج غزہ کامیاب ہے اور وہ حکومتیں، حکمران، افواج اور علماء جو اس کی حمایت سے گریزاں رہے شکست خوردہ ہیں۔ وہ ایک لاکھ سے زائد اہل غزہ جو شہید اور زخمی ہوئے ان کا بدلہ لینا مسلم افواج کی گردنوں پر ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے دعا ہے کہ اہل غزہ اور مجاہدین کی روح، عزم، ایمان مضبوطی اور استقامت پوری امت میں عام ہو، غلامی کی زنجیریںٹوٹیں، مغرب کی ایجنٹ کرپٹ مسلم حکومتیں گریں، امت اپنے فیصلے خود کرے، جہاد کو پوری طاقت سے جاری کرے، مسجد اقصیٰ کو آزاد، مغضوب قوم کو ختم، اسلام کو فاتح اور اس سے ہدایت لینے والی سلطنت اور ریاست کو بحال کرے۔ معاہدے کے بعد غزہ کے مسلمانوں کی نسل کشی تو رک جائے گی لیکن جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی بلکہ یہودی وجود کے خلاف اصل جنگ تو ابھی شروع بھی نہیں ہوئی۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: اسرائیل کو اسرائیل کے کے باوجود کے ساتھ حماس کے اہل غزہ غزہ اور کے لیے غزہ کے غزہ کی اور اس

پڑھیں:

بارود سے فلسطینیوں کی آواز دبائی نہیں جاسکتی : وفاقی وزیرقانون

اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن )وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ غزہ میں اسرائیل فلسطینیوں کی نسل کشی کررہا ہے، پاکستان نے ہمیشہ مظلوم فلسطینی بہن بھائیوں کیلئے آواز اٹھائی ہے اور پاکستان اور اس کے عوام آج بھی ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔
ڈان نیوز کے مطابق قومی اسمبلی کے اجلاس میں اظہارخیال کرتے ہوئے وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ اسرائیل نے فلسطین پر جنگ مسلط کرکے جدید تاریخ میں ظلم و بربریت کی نئی تاریخ رقم کی ہے۔انہوں نے کہا کہ اسرائیل اب تک بچوں اور خواتین سمیت 65 ہزار فلسطینیوں کو شہید کرچکا ہے جبکہ ڈیڑھ لاکھ فلسطینی زخمی ہوئے ہیں اور 15 ہزار کے قریب وہ لوگ ہیں جن کی بدترین اسرائیلی بمباری کی وجہ سے باقیات تک نہیں ملیں۔
وفاقی وزیرقانون نے کہا کہ اسرائیل فلسطینیوں کی نسل کشی کررہا ہے اور بچوں اور خواتین سمیت عام شہریوں کو بلاتخصیص نشانہ بنایا جارہا ہے، اس بربریت میں دن بہ دن اضافہ ہورہا ہے، جس میں بے گناہ مسلمان شہید ہورہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اسرائیل امدادی سرگرمیوں کی راہ میں بھی رکاوٹ بن گیا ہے اور اسرائیلی حملوں سے ہسپتال، ایمبولینسیں، امدادی اداروں کے رضاکار ، پناہ گاہیں تک محفوظ نہیں، اس کی جتنی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔
وفاقی وزیر قانون نے مزید کہا کہ اسرائیل کے اس وحشیانہ اقدام کے خلاف اور فلسطین میں ظلم و ستم پر عالمی برادری کی خاموشی افسوسناک ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت پاکستان روزاول سے مسئلہ فلسطین پر اپنا ایک نقطہ نظر رکھتی ہے اور ہم آج بھی سمجھتے ہیں کہ دنیا بھر میں آج بھی جہاں جہاں لوگ اپنے حق خودارادیت کی جدوجہد میں مصروف ہیں ان کی آواز آپ ڈائیلاگ سے تو روک سکتے ہیں لیکن بارود سے ان کی آواز کو نہیں دبایا جاسکتا چاہے وہ فلسطین ہو یا کشمیر ہو۔انہوں نے کہا کہ ان خطوں کے عوام کے حقوق کو سامنے رکھتے ہوئے ان کی تقدیر کا فیصلہ عالمی قوانین اور اقوام متحدہ کے فیصلوں کے مطابق ہونا چاہئے۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ حکومت پاکستان نے ہمیشہ مسئلہ فلسطین کو اجاگر کیا ہے، نہ صرف اس جنگ کے دوران بلکہ اس سے قبل بھی، اور ماضی قریب میں بھی وزیراعظم میاں شہباز شریف نے اقوام متحدہ، او آئی سی اور دیگر عالمی فورمز پر پاکستان کے 25 کروڑ عوام کی نمائندگی کرتے ہوئے اس مسئلے پر دو ٹوک خیالات کا اظہار کیا اور اسرائیل کے اس وحشیانہ اقدام کی بھرپور مذمت کی ہے۔
وفاقی وزیر قانون نے کہا کہ حکومت پاکستان اور عوام سمجھتے ہیں کہ اس ظلم و بربریت کو فی الفور رکنا چاہئے اور فلسطین کے مظلوم عوام کو نہ صرف اس مشکل گھڑی میں اقوام عالم کی بھرپور مدد کی ضروررت ہے بلکہ اس مسئلے کے حل کے لئے بھی سب کو سر جوڑ کر بیٹھنا ہے تاکہ ظلم کی یہ داستان دوبارہ نہ دہرائی جاسکے۔
قبل ازیں وفاقی وزیرقانون نے وقفہ سوالات معطل کرکے فلسطین کے مسئلے پر بحث کی تحریک پیش کی جسے منظور کرلیا گیا۔

مصطفیٰ عامر قتل کیس، ارمغان کے لیپ ٹاپ سے بین الاقوامی فراڈ گروپ کے شواہد مل گئے

مزید :

متعلقہ مضامین

  • اسرائیل حماس جنگ بندی کیلئے ہونیوالے مذاکرات بغیر کسی پیشرفت کے ختم
  • مصری تجویز مسترد: حماس کا جنگ بندی معاہدے کے لیے غیر مسلح ہونے سے انکار
  • غزہ جنگ بند کرنے کی ضمانت دیں تو تمام یرغمالیوں کی رہا کردیں گے؛ حماس کی پیشکش
  • بارود سے فلسطینیوں کی آواز دبائی نہیں جاسکتی : وفاقی وزیرقانون
  • فلسطینی عوام یمن کے باوقار موقف کو کبھی فراموش نہیں کرینگے، ابوعبیدہ
  • اسرائیل طاقت کے ذریعے قیدیوں کو نہیں چھڑا سکتا، حماس
  • سعودی عرب اور امریکا کے مابین بڑی پیشرفت، سعودی-امریکی نیوکلیئر معاہدہ جلد متوقع
  • خون کے آخری قطرے تک فلسطین کے عوام کے ساتھ رہیں گے،فضل الرحمان
  • اسرائیل حماس سے شکست کھا چکا، مسلم حکمران غیرت کا مظاہرہ کرکے خاموشی توڑیں، حافظ نعیم الرحمان
  • حماس کی جانب سے صہیونی قیدیوں کی رہائی کے لیے شرائط