محرابپور،عدالتی حکم پر ہالانی مندر کی اراضی پر قبضے کامقدمہ درج
اشاعت کی تاریخ: 21st, January 2025 GMT
محراب پور(جسارت نیوز)ہائی کورٹ احکامات پر ہالانی مندر کی اراضی پر قبضے کا مقدمہ پی پی پی رکن قومی اسمبلی کے کمدار پر درج، ہالانی پولیس ذرائع کے مطابق سندھ ہائی کورٹ سکھر بینچ کے جج جسٹس ذولفقار علی خان کے احکامات پر ایس ایس پی نوشہرو فیروز سینگار علی ملک کی تحقیقات کے بعد ہالانی سے منتخب پی پی پی ایم این اے سید علی شاہ کے کمدار مرید حسین سولنگی پر ہالانی مندر کے ٹرسٹی (Trustee) جیٹانند بجاج کی مدعیت میں مقدمہ نمبر 8 سال 2024ء درج کیا گیا ہے، مقدمہ میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ ہالانی مندر کی 1 ایکٹر 32 گھونٹے زرعی اراضی پر عدالتی احکامات کے باوجود مرید سولنگی نے مندر کے مقرر کردہ کسان غلام محمد آرائیں کی لگائی گئی فصل ختم کرکے گندم کی فصل لگا کر قبضہ کرلیا ہے۔ یاد رہے کہ زمین پر قبضے کیخلاف ہالانی مندر کے ٹرسٹی (Trustee) جیٹانند بجاج کی آئینی درخواست (Petition) ہائی کورٹ سکھر میں دائر تھیں۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
بھارت کی وکلا تنظیم نے وقف ایکٹ کو متعصبانہ قانون قرار دے دیا
وکلاء تنظیم نے کہا کہ ترمیم کو ایک سوچے سمجھے ایجنڈے کاحصہ کہا جا سکتا ہے تاکہ طریقہ کار میں رکاوٹوں، جانبدارانہ تحقیقات اور اکثریتی برادری کی طرف سے زمینوں پر قبضے کو قانونی حیثیت دی جا سکے۔ اسلام ٹائمز۔ آل انڈیا لائرز ایسوسی ایشن فار جسٹس (AILAJ) نے وقف قانون میں حالیہ ترامیم کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے متعصبانہ قانون قرار دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق گزشتہ ہفتے نافذ ہونے والے اس قانون سے بھارت بھر میں بالخصوص مسلمانوں کی طرف سے بڑے پیمانے پر احتجاج شروع ہوا ہے۔ وکلاء تنظیم نے ایک بیان میں حکومت کی جانب سے وقف املاک پر ممکنہ قبضے سمیت اس قانون کے کئی اہم پہلوئوں کو اجاگر کیا ہے۔ تنظیم نے کہا کہ کہ یہ قانون پانچ سال تک اسلام پر عمل کرنے والے مسلمانوں کے وقف املاک پر پابندی لگاتا ہے جسے غیر مسلموں اور اس معیار پر پورا نہ اترنے والے مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ تنظیم نے کہا کہ قانون ضلع کلکٹر میں اختیارات کو مرکوز کرنے کی کوشش ہے جس سے متنازعہ زمینوں پر بغیر کسی کارروائی کے ریاستی قبضے کو ممکن بنایا گیا ہے۔ نیا قانون وقف بورڈ میں غیر مسلموں کی نمائندگی کو لازمی قرار دیتا ہے جو ادارہ جاتی خودمختاری کو کمزور کرتا ہے اور جبری قبضے کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ اس ترمیم کے دور رس اثرات مرتب ہو سکتے ہیں اور مسلمانوں کے خلاف منظم امتیاز، ریاست کی سرپرستی میں اراضی پر قبضے اور مسلمانوں کے دعوئوں کو خارج کرنے کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ یہ قانون آئین کے آرٹیکل 25 اور 300A کی خلاف ورزی ہے جو مذہب کی آزادی اور جائیداد کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے۔ وکلاء تنظیم نے کہا کہ ترمیم کو ایک سوچے سمجھے ایجنڈے کاحصہ کہا جا سکتا ہے تاکہ طریقہ کار میں رکاوٹوں، جانبدارانہ تحقیقات اور اکثریتی برادری کی طرف سے زمینوں پر قبضے کو قانونی حیثیت دی جا سکے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ وقف ترمیمی قانون 2025ء مسلمانوں کو ظلم و جبر کا نشانہ بنانے اور پسماندگی کی طرف دھکیلنے کی حکومت کی کوششوں کا تسلسل ہے۔