Juraat:
2025-01-21@04:57:57 GMT

الیکشن کمیشن نے حکومت کے حق میں جھکا ؤظاہر کیا،سپریم کورٹ

اشاعت کی تاریخ: 21st, January 2025 GMT

الیکشن کمیشن نے حکومت کے حق میں جھکا ؤظاہر کیا،سپریم کورٹ

سپریم کورٹ نے عادل بازئی کیس میں کہا ہے کہ الیکشن کمیشن نے ایک سیاسی جماعت اور حکومت کے حق میں جھکا ؤکو ظاہر کیا، عادل بازئی کبھی بھی ن لیگ کے رکن نہیں رہے مگر الیکشن کمیشن نے صرف ن لیگ کے سربراہ کی بات پر یقین کیا۔ سپریم کورٹ نے عادل بازئی کو ڈی سیٹ کرنے کے خلاف اپیل پر تحریری فیصلہ جاری کردیا جسے جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا ہے ۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ کوئی ممبر پارلیمنٹ منحرف ہوجائے تو اسے شوکاز نوٹس جاری کرنا ضروری ہے ، الیکشن کمیشن یا ٹربیونل پارٹی ہیڈ کے ڈیکلریشن کا جائزہ لے کر اس کی تصدیق کرتا ہے ، پارٹی ہیڈ کے ڈیکلریشن کا تنازعہ ہو تو اسے فریقین سول کورٹ میں طے کر سکتے ہیں، الیکشن کمیشن حقائق کا خود سے جائزہ نہیں لے سکتا۔تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ہم یہ وضاحت کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ اس عدالت کی جانب سے 16 فروری 2024 کے رضا مندی کے حلف نامے کی اصلیت اور قانونی حیثیت کے بارے میں دیا گیا فیصلہ سول عدالت کے حتمی فیصلے سے مشروط ہے ، اپیل کنندہ کی جانب سے جعلی رضا مندی کے حلف نامے کی تیاری اور اس کے استعمال کے حوالے سے جو الزامات محمد شہباز شریف (جو اس وقت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور اب وزیر اعظم پاکستان ہیں) کے خلاف لگائے گئے ہیں، الزمات کی سنگینی کے پیش نظر ہم توقع کرتے ہیں کہ سول عدالت، ان معاملات کا فیصلہ جلد از جلد کریں گی۔جسٹس عائشہ ملک نے اضافی نوٹ میں لکھا کہ آئین واضح طور پر یہ فراہم کرتا ہے کہ حکومت کا اختیار صرف عوام کی مرضی پر مبنی ہے ، یہ مرضی عوام کے اپنے حقِ رائے دہی کے استعمال اور انتخابی و سیاسی عمل میں شرکت کے ذریعے ظاہر ہوتی ہے ، انتخابات بنیادی طریقہ ہیں جس کے ذریعے رجسٹرڈ ووٹر اپنے نمائندے منتخب کرتے ہیں، جو ان کی جانب سے حکومت کریں گے اور حکومت کے اختیارات کا استعمال کریں گے ، اس مقدمے کے حقائق ظاہر کرتے ہیں کہ الیکشن کمیشن عوام کی مرضی کو عملی جامہ پہنانے کی اپنی آئینی ذمہ داری نبھانے میں ناکام رہا۔

.

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: الیکشن کمیشن

پڑھیں:

بینچز اختیارات کیس مقرر نہ ہونے پر سپریم کورٹ کے ججز کا چیف جسٹس کو خط

سپریم کورٹ بینچز کے اختیارات کا کیس مقرر نہ ہونے پر تینوں ججز کی طرف سے چیف جسٹس کو لکھے گئے خط کے متن میں کہا گیا کہ آفس کی جانب سے جوڈیشل آرڈر کو نہ ماننا نہ صرف ادارے کی عزت کو کم کرنے کے مترادف ہے بلکہ قانون سے بھی انحراف ہے، اس عمل سے عدالت کے بینچز کی آزادی کے حوالے سے سنجیدہ تحفظات پیدا ہوئے ہیں۔ خط میں مزید کہا گیا کہ ایسی نافرمانی توہین عدالت کے مترادف ہے اور عدلیہ پر عوام کا اعتماد کم کرتی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ سپریم کورٹ بینچز کے اختیارات کا کیس مقرر نہ ہونے کا معاملہ، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس عقیل عباسی نے چیف جسٹس یحیی آفریدی اور جسٹس امین الدین خان کو خط لکھ دیا۔ تینوں ججز نے اپنے خط میں تحریر کیا کہ 13 جنوری کو جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس عرفان سعادت خان کے بینچ میں کچھ کیسز زیر سماعت تھے۔ خط کے متن کے مطابق ریاست بنام دیوان موٹرز کے کیس کے دوران عدالت کے سامنے ایک اہم سوال اٹھا کہ کیا ریگولر بینچ مذکورہ کیسز کی سماعت کر سکتا ہے۔؟ عدالت نے وکلا سے اس حوالے سے دلائل طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت 16 جنوری تک ملتوی کر دی تھی۔ 16 جنوری کو بینچ دوبارہ تشکیل دیا گیا اور جسٹس عقیل عباسی کو اس بینچ میں شامل کر دیا گیا، جسٹس عقیل عباسی نے بطور جج سندھ ہائیکورٹ اسی کیس کا فیصلہ تحریر کیا تو وہ یہ کیس نہیں سن سکتے تھے۔ خط میں کہا گیا کہ ہم نے آفس کو ہدایت جاری کی کہ 20 جنوری کو کیس پہلے سے موجود بینچ کے سامنے پیش کیا جائے، آج ہمیں بتایا گیا کہ مذکورہ کیسز فکس نہیں ہو سکتے۔

متن کے مطابق پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی نے 17 جنوری کو معاملہ اٹھایا تھا، جسٹس منصور علی شاہ نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ چونکہ انہوں نے آرڈر پاس کر دیا ہے لہٰذا ان کا نقطہ نظر ریکارڈ پر موجود ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ان کے آرڈر کو من و عن تسلیم کیا جائے اور انہیں کمیٹی میں پیش ہونے کی ضرورت نہیں ہے، ہم حیران و پریشان ہیں کہ جوڈیشل آرڈر کے باوجود مذکورہ کیسز آج کسی بھی بینچ کے سامنے پیش نہیں ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کو کوئی ضرورت نہیں تھی کہ اس معاملے کو اٹھاتی۔ آفس کو صرف یہ ہدایت کی گئی تھی کہ کیسز کو دوبارہ پہلے سے قائم بینچ میں فکس کیا جائے، اگر کمیٹی نے یہ مدعا اٹھایا بھی تھا تو وہ دوبارہ پہلے جیسا بینچ قائم کر کے سماعت آج کے لیے مقرر کر سکتی تھی۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کمیٹی جسٹس عقیل عباسی کی بجائے کسی نئے جج کو شامل کر کے ایک نیا بینچ بھی قائم کر سکتی تھی، کسی بھی صورت میں کمیٹی جوڈیشل آرڈر کو نظر انداز نہیں کر سکتی تھی۔ انہوں نے کہا کہ کمیٹی پر لازم تھا کہ وہ آج 20 جنوری کے لیے ان کیسز کو کسی بینچ کے سامنے فکس کرتی، ہمارے بینچ کی تمام ہفتے کی کاز لسٹ کو بغیر کسی آسر کے تبدیل کر دیا گیا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آفس کی جانب سے جوڈیشل آرڈر کو نہ ماننا نہ صرف ادارے کی عزت کو کم کرنے کے مترادف ہے بلکہ قانون سے بھی انحراف ہے، اس عمل سے عدالت کے بینچز کی آزادی کے حوالے سے سنجیدہ تحفظات پیدا ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسی نافرمانی توہین عدالت کے مترادف ہے اور عدلیہ پر عوام کا اعتماد کم کرتی ہے۔ عدالت کی جانب سے 16 جنوری کو پاس کئے گئے آرڈر پر عمل درامد ہونا چاہئے۔ آفس کو ہدایت کی جا سکتی ہے کہ وہ آج ایک بجے مذکورہ کیس کو فکس کرے۔

متعلقہ مضامین

  • بینچز اختیارات کیس مقرر نہ ہونے پر سپریم کورٹ کے ججز کا چیف جسٹس کو خط
  • الیکشن کمیشن نے ایک سیاسی جماعت اور حکومت کے حق میں جھکاؤ ظاہر کیا ،عدالت
  • الیکشن کمیشن کا حکومت کے حق میں جھکاؤ سیاسی نظام کی ساکھ کو نقصان پہنچاتا ہے، سپریم کورٹ
  • الیکشن کمیشن نے ایک سیاسی جماعت اور حکومت کے حق میں جھکاو کو ظاہر کیا، سپریم کورٹ
  • الیکشن کمیشن نے ایک سیاسی جماعت اور حکومت کے حق میں جھکاؤ کو ظاہر کیا، سپریم کورٹ
  • الیکشن کمیشن کو سیاسی مداخلت کا شکار نہیں ہونا چاہیے،سپریم کورٹ کے عادل بازئی کیس میں ریمارکس
  • الیکشن کمیشن کو جمہوریت کا غیرجانبدار محافظ رہنا چاہیے، سپریم کورٹ
  • فوجی عدالتوں میں سویلینز ٹرائل، جسٹس شاہد کی عدم موجودگی پر کیس  2 روز کیلئے ڈی لسٹ
  • سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کا کیس ڈی لسٹ کردیا