’’بار بار پوچھنے پر بہت سے سوالات کے جواب نہیں ملتے‘‘
اشاعت کی تاریخ: 21st, January 2025 GMT
لاہور:
گروپ ایڈیٹر ایکسپریس ایاز خان کا کہنا ہے کہ لاہور والی اور پنڈی والی دونوں چونکہ ان کیمرہ اور آف دی ریکارڈ میٹنگز تھیں تو ظاہر ہے اس حوالے سے کمنٹ بنتا نہیں ہے، میں کر نہیں سکتا صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ بہت سے سوال ایسے ہیں کہ بار بار پوچھنے پر بھی ان کے جواب نہیں ملتے۔
ایکسپریس نیوز کے پروگرام ایکسپرٹس میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ جب یہ خبر چل گئی کہ 9 مئی پر کمیشن نہیں بن رہا تو عرفان صدیقی کو آنا پڑا اور یہ کہنا پڑا کہ ایسی بات نہیں ہے۔
تجزیہ کار فیصل حسین نے کہا کہ عامر صاحب نے بڑا اہم نکتہ اٹھایا کہ بے اختیار لوگوں سے بات کرنے کی کیا ضرورت ہے، میں سمجھتا ہوں کہ یہ نکتہ (ن) لیگ کو اٹھانا چاہیے، حکومت کو اٹھانا چاہیے کہ جب پیچھے مذاکرات ہو رہے ہیں تو ہمیں اتنا گندہ کرنے کی کیا ضرورت ہے؟۔
ہمارے فوٹو سیشن کرانے کی کیا ضرورت ہے؟، یہ سوال تو حکومت کو تحریک انصاف سے پوچھنا چاہیے، یہ سوال تو حکومت کو اسٹیبلشمنٹ سے پوچھنا چاہیے کہ پس پردہ کیا بات چیت ہو رہی ہے؟۔
تجزیہ کار نوید حسین نے کہا کہ شروع سے ایک بات کہتا آ رہا ہوں کہ جو مذاکرات کیمرے کے سامنے ہو رہے ہیں جو ہم سب کے سامنے ہو رہے ہیں، مجھے ان سے کچھ نکلتا دکھائی نہیں دے رہا، جو پس منظر میں ہو رہا ہے اگروہاں پر کچھ طے ہو گیا تو پھر کچھ ہو گا، اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت کے پاس کوئی انسینٹیو نہیں ہے کہ وہ پی ٹی آئی کے مطالبات مانے۔
تجزیہ کار عامر الیاس رانا نے کہا کہ عمران خان اور ان کی ٹیم کو بے اختیاروں کے ساتھ بیٹھنے کی ضرورت کیا تھی؟ وہ کیوں منت ترلہ کر رہے تھے جب انھوں نے کہا کہ ہم نہیں بیٹھتے جب سارے زور ٹوٹ گئے تو پھر پی ٹی آئی منت ترلے پر آ گئی، وہ بادشاہ سلامت ہیں دوسرے بادشاہ سے بات کرتے، وہ بادشاہ بات کرے نہ کرے۔
تجزیہ کار محمد الیاس نے کہا کہ اگر 9 مئی پر جوڈیشل کمیشن نہیں بنتا تو اس کے بعد تو مذاکرات نہیں ہوں گے تو پھر کیا کریں گے؟، بانی پی ٹی آئی نے یہ رکھا ہوا ہے کہ اگر کمیشن نہیں بنتا تو مذاکرات نہیں ہوں گے اس سے مذاکرات کے دروازے بند ہوتے دکھائی دے رہے ہیں کیونکہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت جیسے پہلے کہہ رہے تھے ان کی کسی قسم کی شرائط جیسے جوڈیشل کمیشن نہیں مانے گی کیونکہ وہ یہ دیکھ رہی ہے کہ مذاکرات میں پی ٹی آئی کو بند گلی میں لیکر جانا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کمیشن نہیں پی ٹی ا ئی تجزیہ کار نے کہا کہ رہے ہیں
پڑھیں:
عمران خان اور ’کٹھ پتلی‘ حکومت سے مذاکرات
عمران خان کی مشکلات کم ہونے کی بجائے بڑھتی جا رہی ہیں۔ تحریک انصاف اور حکومتی کمیٹیوں کے مذاکرات عملی طور پر شروع ہونے سے پہلے ہی ’لا حاصل‘ ہوتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ حکومت کا کہنا ہے کہ اِدھر مذاکرات کی بات شروع ہوتی ہے اُدھر خان صاحب کی دھمکی آمیز ٹویٹ آ جاتی ہے۔ مذاکرات کے باقاعدہ آغاز سے قبل ہی عمران خان کی طرف سے وزیراعظم شہباز شریف کو آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے ’کٹھ پتلی اور اردلی‘ قرار دینے پر حکومتی وزرا سیخ پا ہوگئے اور کہنے لگے کہ ایسے حالات میں مذاکرات آگے کیسے بڑھ سکتے ہیں۔
حکومتی کمیٹی کے ارکان کہتے ہیں 2 ملاقاتوں میں تحریک انصاف کی کمیٹی نے ہر اگلی ملاقات کے لیے ہفتے کا وقت مانگ لیا۔ ان کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف شاید 20 جنوری سے پہلے کوئی بات آگے نہیں بڑھانا چاہتی، کیونکہ ان کی نظریں نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حلف برداری پر لگی ہیں کہ شاید وہ حلف اٹھاتے ہی گرین لینڈ خریدنے یا قبضہ کرنے کے بعد وہ فوراً پاکستان کی مقتدرہ کو عمران خان کی رہائی کےاحکامات صادر کردیں گے۔ مگر ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ افغانستان سے اچانک فوجی انخلا کے بعد امریکی مفادات اس خطے میں ختم ہوتے نظر آرہے ہیں۔ اگرچہ چین کے سی پیک منصوبے پر امریکا سنجیدہ تحفظات رکھتا ہے، مگر عین ممکن ہے وہ عمران خان کی رہائی کے بجائے اپنا فوکس سی پیک ہی پر رکھے۔
یہ بھی پڑھیں:سیاستدان اور معیاری تعلیم کا خواب؟
عمران خان کی تند و تیز ٹوئٹس کے پیچھے بہت سے عوامل ہوسکتے ہیں، مگر 2 بہت اہم ہیں۔ پہلا یہ کہ وہ سمجھتے ہیں کہ بیرونی دباؤ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو مجبور کردے گا یوں انہیں رہائی مل جائے گی اور دوسرا شاید ان کے خیال میں موجودہ حکومت سیاسی استحکام کے بغیر معاشی استحکام کا خواب پورا نہیں کر پائے گی، اور انہیں جیل سے نکالے بغیر سیاسی استحکام ممکن نہیں۔ وہ اپنی ہر ٹویٹ کے ذریعے ملک کی سیاست میں ایک ہیجانی صورت حال برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔
اعصاب کی اس جنگ میں جیت کس کی ہوگی کوئی نہیں جانتا۔ حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے عمران خان کے 2 بڑے مطالبات ہیں۔ تحریک انصاف کے تمام سیاسی اسیران کی رہائی اور 9 مئی اور 26 نومبر کے واقعات پر 31 جنوری تک جوڈیشل کمیشن بنانا۔ ایک طرف عمران خان کہتے ہیں کہ وہ تمام مقدمات کا سامنا کریں گے دوسری طرف وہ اپنے سمیت تمام رہنماؤں کی رہائی بھی چاہتے ہیں۔
پچھلے کچھ عرصے سے بیک ڈور رابطوں کا ڈھول پیٹا جا رہا ہے۔ عمران خان کی بہن علیمہ خان سمیت بعض رہنماؤں نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ خفیہ رابطوں کی تصدیق کی ہے، مگر دوسری جانب سے مکمل خاموشی ہے۔ علیمہ خان نے کہا کہ 26 نومبر کو ڈی چوک کی بجائے سنگجانی میں احتجاج کرنے کے بدلے میں عمران خان کی رہائی کی یقین دہانی کرائی گئی۔ مگر بانی پی ٹی آئی نے صاف انکار کر دیا۔ اپنی حالیہ ٹوئٹ میں عمران خان کہا کہ یہ تاثر بالکل غلط ہے کہ سنگجانی کے مقام پر احتجاج کے بدلے میں انہیں رہائی کی آفر کی گئی۔ ان کی اپنی جماعت اور فیملی میں تضادات کی بھرمار ہے۔
بیرون ملک پاکستانیوں سے خان صاحب کی ترسیلات زر کے بائیکاٹ کی اپیل بھی ناکام ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے رواں مالی سال کی پہلی ششماہی (جولائی تو دسمبر) میں ریکارڈ 17 اعشاریہ 845 ارب ڈالر پاکستان بھیجے۔ یعنی ان میں 4 اعشاریہ 4 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا۔
یہ بھی پڑھیں:نیا سال اور نئی سیاسی چالیں
عمران خان کی حکومت گرنے کے بعد بھی یہی تاثر تھا کہ عمران خان کے ساتھ اظہار یکجہتی کے طور پر دنیا بھر میں مقیم پاکستانی ترسیلات زر بھیجنا بند کردیں گے۔ مگر ہر سال لاکھوں کی تعداد میں پاکستانی بیرون ملک جا رہے ہیں اور اسی طرح ترسیلات زر بھیجنے کا سلسلہ جاری ہے اور پاکستان میں حکومت کوئی بھی ہو ان میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔ بیرون ملک مقیم پاکستانی کسی سیاسی لیڈر یا وزیراعظم کو ترسیلات نہیں بھیجتے بلکہ وہ اپنے خاندان کو سپورٹ کرتے ہیں جسے وہ کسی سیاسی لیڈر کے کہنے پر بند نہیں کر سکتے۔
دھواں دھار تقرریں، جلسے، امریکا، اسٹیبلشمنٹ اور تمام سیاسی جماعتوں پر سازش کے زریعے حکومت گرانے کے الزامات، پھر 9 مئی اور 26 نومبر، عمران خان تمام حربے استعمال کرچکے، مگر شنوائی نہیں ہو رہی۔ اب آخری امید امریکی نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ رہ گئے ہیں کہ شاید وہ پاکستان پر دباؤ ڈال کر ان کی رہائی کا بندوبست کردیں۔ چور حکمرانوں کے ساتھ مذاکرات نہ کرنے کے نعرے لگانے والے عمران خان اب حکومت کے ساتھ مشروط مذاکرات کے لیے تیار ہوگئے ہیں۔ مگر حکومت ان مذاکرات کو سنجیدگی سے نہیں لے رہی۔
یہ بھی پڑھیں:نوجوانوں کو بیرون ملک جانے سے کیسے روکیں؟
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تحریک انصاف تنہائی اور اندرونی خلفشار کا شکار ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ موجودہ حالات میں حکومت کی سینیئر قیادت عمران خان کی کسی ڈیل کے نتیجے میں رہائی کے حق میں نہیں ہے۔ اگرچہ عام تاثر یہ ہے کہ عمران خان کی رہائی سے ملک میں سیاسی استحکام آئے گا جس سے ملک میں معاشی استحکام کے امکانات بڑھ سکتے ہیں۔ حکومت سمجھتی ہے کہ اس نے تمام مشکل فیصلے کر لیے اور اب معیشت کی بہتری کے اثرات نظر آنا شروع ہوچکے ہیں۔ اب اسے ڈر ہے کہ عمران خان کی واپسی ان کی مشکلات میں اضافہ کرسکتی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
احمد ولید آرمی چیف حکومت شہبازشریف عمران خان مذاکرات معیشت