190 ملین پائونڈ کیس کا فیصلہ سیاسی انتقام پر مبنی ہے،جرمن میڈیا
اشاعت کی تاریخ: 21st, January 2025 GMT
اسلام آباد ( مانیٹرنگ ڈیسک ) سلمان اکرم راجا نے انکشاف کیا ہے کہ برطانوی کرائم ایجنسی کی درخواست پر عمران خان کابینہ نے معاہدہ خفیہ رکھا، وفاقی کابینہ کی جانب سے معاہدے کی توثیق کیے جانے سے قبل ہی برطانیہ سے رقم سپریم کورٹ کے اکائونٹ میں موصول ہو چکی تھی۔ تفصیلات کے مطابق تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل سلمان اکرم راجا کی جانب سے 190 ملین پائونڈ کیس کے حوالے سے اہم انکشاف کیا گیا ہے۔نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے
ہوئے سلمان اکرم راجا نے انکشاف کیا ہے کہ ڈھنڈورا پیٹا گیا کابینہ نے کچھ ایسا کیا جس سے رقم ریاست کی بجائے سپریم کورٹ چلی گئی جبکہ کابینہ نے بس برطانوی کرائم ایجنسی کی درخواست پر معاہدہ کانفیڈیشنل رکھا، اس معاہدے کی توثیق کابینہ نے 3 دسمبر کو کی جبکہ اس سے قبل 100 ملین پاؤنڈ 29 نومبر کو سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں آگئے تھے جبکہ عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے خلاف دیے گئے 190 ملین پائونڈ کیس کے فیصلے پر جرمن خبر رساں ادارے “ڈی ڈبلیو” کی رپورٹ سامنے آئی ہے۔ ڈی ڈبلیو کی رپورٹ کے مطابق ماہرین کا ماننا ہے کہ سیاسی فیصلے ملک میں قانون کی عملداری اور جمہوری روایات کے فروغ میں بہت بڑی رکاوٹ ہیں اور حالیہ فیصلہ بھی سیاسی انتقام پر مبنی ہے، کیونکہ اس وقت حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات چل رہے ہیں۔اس کا مقصد یہ ہے کہ جو فیصلہ تین دفعہ مؤخر کرنے کے بعد سنایا گیا ہے صرف اور صرف پی ٹی آئی کو مذاکرات کی میز پر جھکانے کے لیے کیا گیا ہے۔ ماہرین کا یہ بھی ماننا ہے کہ ملک کی ملٹری اسٹبلشمنٹ کا اس فیصلے کے پیچھے خاص کردار ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ فیصلہ قانونی تقاضے پورے نہیں کرتا کیونکہ یہ ایک کرمنل کیس نہیں تھا اسے ایک بڑے جرم کے طورپر ڈیل کیا گیا ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
فیصلہ عمران کیلئے نئی مشکل،سیاسی اثرات ہوںگے
اسلام آباد(طارق محمودسمیر)احتساب عدالت اسلام آباد نے 190ملین پاؤنڈکیس کافیصلہ بالآخر سنا دیا،بانی پی ٹی آئی عمران خان کو 14 سال قید اور 10 لاکھ روپے
جرمانے جب کہ ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو 7سال قید اور 5 لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی گی ہے ،اسی طرح القادر یونیورسٹی کو سرکاری تحویل میں لینے کا بھی حکم دیاگیاہے ، کیس کے فیصلے کی تاریخ میں تین بارتبدیلی کی گئی جس سے مختلف شکوک وشبہات پیداہوئے اور قیاس آرائیاں شروع ہوگئی تھیں،بانی پی ٹی آئی عمران خان اور بشریٰ بی بی کے خلاف 190ملین پاونڈ یا القادر ٹرسٹ کیس اس 450 کنال سے زیادہ زمین کے عطیے سے متعلق تھا جو نجی ہاؤسنگ سوسائٹی کی جانب سے القادر یونیورسٹی کیلئے دی گئی تھی۔ عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی القادر یونیورسٹی کے ٹرسٹیز میں شامل ہیں، یہ معاملہ اُس وقت سامنے آیا تھاجب 2019میں سابق وفاقی وزیر فیصل واوڈا سے منسوب ایک بیان میڈیا کی زینت بنا تھاکہ کابینہ کے اجلاس میں ایک ایسے معاملے کی منظوری لی گئی جس کے بارے میںکابینہ کے ارکان کو پہلے آگاہ نہیںکیا گیا تھا اور ایک بند لفافے میں برطانوی ادارے نیشنل کرائم ایجنسی اور حکومت پاکستان کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے بارے میں اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کے مشیر شہزاد اکبر نے کابینہ کے ارکان کو زبانی طور پر آگاہ کیا تھا،سابق وزیراعظم پر الزام تھا کہ انہوں نے شہزاد اکبر کے ساتھ مل کر 190 ملین پاؤنڈ کی رقم جو کہ حکومتِ پاکستان کی ملکیت تھی اسے کابینہ کوگمراہ کرکے غلط مد میں ایڈجسٹ کیا اور اس کے عوض 458کنال اراضی اور رقم اور دیگر فوائد حاصل کئے ۔190ملین پاؤنڈ کیس کے فیصلے کے بعدبانی پی ٹی آئی اور ان کی جماعت کے لیے کی مشکلات میں ہی مزیداضافہ نہیںہوابلکہ اس فیصلے کے ملکی سیاست پر بھی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں ،بظاہر حکمران اتحادکی جانب سے عدالتی فیصلے کی بنیاد پر بانی پی ٹی آئی کی کرپشن کا بیانیہ بنانا شروع کر دیا گیاہے ۔اسی طرح پی ٹی آئی قیادت کی طرف سے فیصلے کی بنیادپر عدلیہ کی ساکھ پرسوالات اٹھائے جارہے ہیں، عدالت کی طرف سے کیس کا فیصلہ ایک ایسے وقت میں سنایاگیا جب حکومت اورپی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات کاسلسلہ چل رہاہے اور دونوں جانب کی مذاکراتی کمیٹیوں کے درمیان تین سیشن بھی ہوچکے ہیں،چنانچہ عدالتی فیصلے او ر اس پر حکومتی ردعمل کے بعد سیاسی جماعتوں کے درمیان مذاکراتی عمل،جسے ملک کے لیے خوش آئند کیاجا رہا تھا،اس کے مستقبل کے حوالے سے بھی خدشات لاحق ہوگئے ہیں،حقیقت یہ ہے کہ بانی پی ٹی آئی او ر ان کی اہلیہ کو 190 ملین پاؤنڈ کیس میں دفاع کا مکمل موقع ملا، ٹرائل ایک سال سے زائد عرصہ تک چلا، مجموعی طور پر 35 گواہان کو پیش کیا گیا جن میں سابق وزیراعظم کی کابینہ میں شامل دو وفاقی وزراء بھی شامل تھے، لہٰذا فیصلے کے میرٹس پر تنقید کی جا سکتی ہے لیکن کسی بھی طور پر قانونی تقاضے پورے نہ ہونے کا تاثر نہیں دیا جا سکتا، علاوہ ازیں عدالتی فیصلے کو کسی فتح یا شکست بھی نہیں سمجھنا چاہیے نہ ہی اس بنیاد پر عدلیہ پر الزامات یا اس کی ساکھ پر سوالات اٹھائے جانے چاہئیں۔اس کیس کے فیصلے سے یہ تاثربھی زائل ہوگیاہے کہ پی ٹی آئی کے ساتھ ڈیل ہورہی ہے یامقتدرہ کے ساتھ اس کے کوئی رابطے ہیں۔