Express News:
2025-04-16@18:43:43 GMT

تین حکومتوں میں تین سردیاں

اشاعت کی تاریخ: 21st, January 2025 GMT

اپریل 2022 میں پی ٹی آئی کی حکومت کے خاتمے کے بعد پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی کی مشترکہ حکومت میں میاں شہباز شریف وزیر اعظم منتخب کیے گئے تھے اور تمام اتحادی پارٹیوں کو وزارتیں دی گئی تھیں۔

جے یو آئی کو بھی چوتھے نمبر کی نشستوں پر پانچ وزارتیں ملی تھیں اور مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی سب نے ہی حکومت میں وزیروں کے علاوہ مشیروں اور معاونین خصوصی شامل کرا کر اپنے اپنے لوگ بھر دیے تھے اور پیپلز پارٹی نے اکٹھے بارہ معاونین خصوصی شامل کرا کر اپنے لوگوں کو نوازنے کا ریکارڈ قائم کیا تھا اور کسی اتحادی پارٹی نے یہ احساس نہیں کیا تھا کہ ملک کی معاشی حالت نہایت ابتر تھی جس کا ذمے دار وہ پی ٹی آئی حکومت کو قرار دیتے تھے اور کہا جاتا تھا کہ حکومت قرضے لے کر اپنے افسروں اور ملازمین کو تنخواہ دینے پر مجبور ہے۔

 

ملک کی معیشت تباہی کا شکار اور ملک دیوالیہ ہونے کے قریب تھا اس بری حالت میں بھی تمام اتحادی پارٹیوں نے اپنے لوگ حکومت میں داخل کرا کر حکومتی اخراجات بڑھائے تھے۔

 وزیر اعظم شہباز شریف نے امداد اور قرضوں کے لیے دوست ممالک کے دورے شروع کیے تھے اور بلاول بھٹو زرداری نے بھی 16 ماہ میں ریکارڈ غیر ملکی دوروں کا ریکارڈ بنایا تھا اور اپنے طور پر دنیا میں پاکستان کو اہمیت دلائی تھی جب کہ موجودہ وزیر خارجہ جنھیں صرف وزارت خزانہ سے دلچسپی ہوتی ہے انھوں نے برائے نام ہی غیر ملکی دورے کیے ہیں البتہ بلاول بھٹو نے بطور وزیر خارجہ زیادہ وقت غیر ملکی دوروں میں گزارا تھا اور مفتاح اسماعیل کو 6 ماہ بعد ہٹا کر میاں نواز شریف کے سمدھی کو بلا کر وزارت خزانہ سونپی گئی تھی۔

 مگر ایک سال سے زائد عرصہ وزیر اعظم کے قریب رہ کر انھوں نے ملکی معیشت کی بہتری کے لیے کوئی قابل ذکر کارکردگی نہیں دکھائی تھی مگر پی ٹی آئی حکومت میں اپنے خلاف کی جانے والی کارروائیاں ختم کرا کر اپنی جائیدادیں اور منجمد اثاثے ضرور بحال کرا لیے تھے ۔پی ڈی ایم حکومت میں مصدق ملک ہی وزیر توانائی بنائے گئے تھے اور حکومت کے 6 ماہ بعد جب سردیوں میں سوئی گیس کا بحران شروع ہوا تو انھوں نے ملک میں گیس نہ ہونے اور بروقت قطر سے این ایل جی نہ خریدنے کا الزام لگا کر وجوہات یہ پیش کی تھیں کہ سابق حکومت نے بروقت گیس نہیں خریدی اور پی ڈی ایم حکومت کو دنیا میں مہنگے داموں بھی گیس نہیں مل رہی تھی جس جواز کو تسلیم کرکے عوام نے سردیوں بڑی مشکل سے سوئی گیس کے بغیر اذیت میں حکومتی وزیر کی باتوں پر یقین کرکے گزاری تھی۔

بڑے دعوؤں کے ساتھ سوئی گیس کی فراہمی کے جو دعوے کیے گئے تھے وہ پورے نہیں ہوئے اور گیس فراہمی کا جو شیڈول دیا گیا تھا اس شیڈول پر بھی گھروں میں سوئی گیس نہیں ہوتی تھی اور لوگوں نے دیے گئے شیڈول میں اپنے گھروں میں گیس دیکھی ہی نہیں تھی۔

 

حکومتی شیڈول صرف دکھاوے کا تھا جس پر محکمہ عمل کرانے میں ناکام رہا تھا اور گرمیوں میں گیس کی کھپت کم اور بجلی کی زیادہ ہوتی ہے مگر اتحادی حکومت میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ جاری رہی جب کہ حکومتی دعوؤں کے مطابق بجلی بہت مہنگی ضرور ہے مگر بجلی کی کمی نہیں ہے۔

اگست 2023 تک اتحادی حکومت کے بعد نگراں حکومت آئی تھی جو نوے روز کے بجائے 6 ماہ فروری 2024 تک قائم تھی جس کے دور میں بھی سردی آئی تھی اور نگراں وزیر اعظم کہیں سے گیس خریدنے کے بجائے غیر ملکی دوروں میں مصروف رہے اور ان کے دور کے وزیر توانائی نے بھی ملک کے عوام کو سردیوں میں گیس فراہم کرنے کو ضروری نہیں سمجھا۔

لوگ نگراں دور کی سردیوں میں ٹھٹھرتے رہے گیزروں اور ہیٹروں کو تو کیا لوگوں کو اپنے گھروں کے چولہوں کے لیے گیس دستیاب نہیں تھی اور اتحادی حکومت کے بعد نگراں حکومت کا زور بھی بجلی و گیس کے نرخ بڑھانے پر رہا۔

انھیں گیس فراہمی کا انتظام کرنے کے بجائے مہنگائی کا ریکارڈ بنایا۔ عوام کی پریشانیاں مزید بڑھائیں ، گیس کا بحران اور نرخ بڑھے اور نگران دور کی سردیاں بھی عوام نے گیس کے بغیر بازاروں سے مہنگے سلنڈر اور مہنگی گیس خرید کر گزارا کیا اور 8 فروری کے الیکشن کے بعد پی پی نے پھر ملک میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت قائم کرائی آئینی عہدے لے کر (ن) لیگی حکومت کو عوام کی ناراضی کے لیے چھوڑ دیا جس نے پھر مصدق ملک کو وہی پرانی ذمے داری دی مگر پھر بھی کسی بیرونی ملک سے ضرورت کے مطابق گیس خریدنے پر توجہ نہیں دی گئی۔

روس سے گیس کی خریداری کی باتیں عوام کو سنائی جاتی رہیں کہیں باہر سے گیس خریدی گئی نہ ملک میں دستیاب گیس کی فراہمی کو بہتر بنانے پر توجہ دی گئی مگر ملک میں گرمیوں میں بھی گیس عوام کو فراہم نہیں کی گئی۔

(ن) لیگی حکومت نے گرمیوں میں لوڈشیڈنگ بجلی کی برقرار رکھی اور نومبر میں تیسری حکومت میں تیسری سردیاں آگئیں مگر اس بار حکومت نے عوام کو گیس فراہمی کا کوئی شیڈول شاید اس لیے نہیں دیا کہ اتحادی حکومت میں دیے گئے سوئی گیس فراہمی کے سرکاری شیڈول پر پہلے ہی عمل نہیں ہوا تھا صرف میڈیا پر اشتہار چلے تھے مگر شیڈول کے مطابق ملک بھر میں اس بار بھی سوئی گیس دستیاب نہیں حالانکہ سردیوں کی شدت دسمبر میں بڑھی ہے۔

لاہور اور کراچی میں رات 9 بجے گیس چلے جانا اور رات گزار کر صبح6 بجے گیس آ جانا تو معمول تھا ہی مگر جنوری میں دوپہر کو گھروں کو سوئی گیس دستیاب نہیں اور گرمیوں میں بجلی کی طرح گیس کی آنکھ مچولی جاری ہے۔

پی ٹی آئی حکومت کے بعد ان کے مخالفین کی تیسری حکومت اور تیسری سردیاں ہیں مگر لوگوں کو گھروں میں چولہوں کے لیے اب بھی سوئی گیس دستیاب نہیں مگر حکومت کو گیس کے نرخ بڑھانا یاد رہا۔ اس بار بھی قطر، روس کہیں سے گیس ملک کے عوام کے لیے حاصل نہیں کی گئی اور ڈیڑھ دو ماہ بعد پھر گرمیوں نے آنا ہے مگر گھروں میں گیس ضرورت کے مطابق میسر نہیں ہوگی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اتحادی حکومت گیس فراہمی گرمیوں میں گھروں میں حکومت میں پی ٹی آئی کے مطابق حکومت کے حکومت کو غیر ملکی سوئی گیس میں گیس عوام کو بجلی کی تھے اور تھا اور ملک میں گیس کے گیس کی اور پی کے لیے سے گیس

پڑھیں:

اتحادیوں کی مشاورت سے فیصلے!

وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ہم تمام فیصلے اتحادیوں کی مشاورت سے کرتے ہیں۔ اتحادی حکومت میں باہمی اعتماد سازی کی فضا خوش آیند ہے اور حکومت ملک کی ترقی و خوشحالی کے لیے یکسوئی سے کام کر رہی ہے۔

دریائے سندھ سے 6نہریں نکالنے کے اہم مسئلے پر سندھ میں برسر اقتدار پیپلز پارٹی بھی اپنے سیاسی مخالفین کے بعد خود بھی اس صوبائی احتجاج میں بھرپور طور پر شریک ہو چکی ہے۔

صدر مملکت پارلیمنٹ میں 6 کینالز نکالنے کی مکمل طور پر مخالفت کر چکے ہیں جب کہ وفاق اور سندھ کے اس تنازع میں صورتحال مزید کشیدہ ہو چکی ہے جب کہ اس معاملے میں پنجاب کو خود کو دور رکھنا چاہیے تھا تاکہ صدر مملکت اور وزیر اعظم اس مسئلے کو خود حل کرنے کی کوشش کرتے، اس معاملے میں سندھ اور پنجاب کی حکومتوں کے وزرائے اطلاعات بھی خاموش نہیں رہے اور دونوں نے اس سلسلے میں بیان بازی کی۔

وزیر اطلاعات پنجاب کا کہنا ہے کہ کینالز منصوبہ صدر مملکت کی منظوری کے بعد اعلان ہوا جس کے ثبوت موجود ہیں جب کہ وزیر اطلاعات سندھ نے اس سلسلے کے میٹنگ منٹس کو من گھڑت قرار دیا ہے اور دونوں ایک دوسرے کو آئین پڑھنے کا مشورہ بھی دے رہے ہیں جس سے صورت حال مزید پیچیدہ ہو گئی ہے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری بھی کینالز منصوبے کو نامنظور کرکے عوام کے ساتھ کھڑے رہنے کا اعلان کر چکے ہیں جس کے بعد پنجاب حکومت نے جواب دینا نہ جانے کیوں ضروری سمجھا جس کا جواب سندھ نے دیا۔

اگر صدر مملکت آصف زرداری نے کسی وجہ سے کینالز منصوبے کی منظوری دی تھی جس کے بعد سندھ میں ان کے سیاسی مخالفین نے اس کی نہ صرف مخالفت شروع کی بلکہ صدر مملکت کو بھی اس میں شریک قرار دیا اور سندھ میں احتجاج پر وفاقی حکومت خاموش رہی اور بڑھتی مخالفت کے بعد پیپلز پارٹی کو بھی کینالز پر اپنی سیاست متاثر ہوتی نظر آئی تو اس نے بھی یوٹرن لیا اور اس طرح وہ بھی دریائے سندھ سے کینالز نکالنے کی مخالف ہوگئی اور احتجاج میں شریک ہوگئی اور یہ سلسلہ سندھ میں دونوں طرف سے احتجاج بڑھاتا رہا اور اب یہ مسئلہ انتہا پر پہنچ چکا ہے اگر اتحادی حکومت کے فیصلے اتحادیوں کے مشوروں سے ہوتے تو نوبت یہاں تک نہ پہنچتی اور کینالز منصوبے کا انجام بھی کالاباغ ڈیم جیسا نہ ہوتا۔

کالاباغ ڈیم کا پنجاب حامی اور باقی صوبے مخالف تھے اس لیے کالا باغ ڈیم سیاست کی نذر ہو گیا اور اب کینالز منصوبے پر صرف سندھ مخالف ہے کیونکہ پانی نہ ملنے سے سندھ ہی متاثر ہوگا اور فائدہ پنجاب کا ہونا ہے اس لیے وفاق کے منصوبے کی وجہ سے سندھ اور پنجاب سامنے آگئے جس کے بعد حکومت کے مخالفین جن میں پی ٹی آئی پنجاب بھی شامل ہے پنجاب کی مخالفت میں سامنے آگئی اور ملک کے تمام قوم پرستوں اور علیحدگی پسندوں کو پنجاب کی مخالفت کا موقعہ مل گیا ہے۔

سندھ میں پی پی کے مخالفین کی مخالفت کے بعد اگر صدر مملکت اور وزیر اعظم باہمی مشاورت سے کوئی فیصلہ کر لیتے تو سندھ اور پنجاب حکومتوں کی طرف سے ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی نہ ہوتی۔اتحادی حکومت سے مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس نہ بلانے پر پیپلز پارٹی شکایت کرتی آ رہی ہے جس کے بعد ایم کیو ایم دوسری وزارت ملنے پر بھی نہ خوش ہے اور حکومت کی حمایت ترک کرنے کی دھمکی بھی دے چکی ہے تو وزیر اعظم کیسے کہہ رہے ہیں کہ ہم تمام فیصلے اپنے اتحادیوں کی مشاورت سے کرتے ہیں؟ کہنے کو حکومت مسلم لیگ (ن) کی ہے جو پیپلز پارٹی کے ساتھ عہدوں کی تقسیم سے بنائی گئی تھی جس میں تیسری بڑی پارٹی ایم کیو ایم ہے اور دونوں کو شکایت ہے کہ اتحادی حکومت اہم فیصلوں میں بھی ہمیں اعتماد میں نہیں لیتی اور فیصلے پہلے اپنے طور کر لیتی ہے اور مشاورت کرنا بھی ضروری نہیں سمجھتی۔

مسلم لیگ (ن) کی حکومتوں سے پہلے بھی اس کے اتحادیوں کو مشاورت نہ کرنے کی شکایت ماضی میں بھی رہی ہے جب کہ اس وقت وہ صرف چھوٹے اتحادی تھے جن کے الگ ہونے سے (ن) لیگی حکومت قائم رہی تھی مگر اب صورت حال 2008 جیسی نہیں جب (ن) لیگ، پی پی حکومت سے الگ ہوئی تھی اور پی پی حکومت نے نئے اتحادی ملا کر اپنی مدت پوری کر لی تھی اب وہ صورتحال نہیں اور پیپلز پارٹی جب چاہے (ن) لیگی حکومت سے اتحاد ختم کرکے حکومت ختم کراسکتی ہے اور (ن) لیگ پی پی کو ملے ہوئے آئینی عہدے ختم نہیں کرا سکتی اور پی پی پی، پی ٹی آئی کو نیا اتحادی بنا سکتی ہے۔ اتحادیوں کو نظرانداز کرکے یکطرفہ فیصلے کرنا درست نہیں۔

ماضی میں پی ٹی آئی حکومت کی حمایت اختر مینگل نے ختم کی تھی کیونکہ ان سے کیے گئے وعدے پورے نہیں ہوئے تھے۔ آصف زرداری میں اپنے چھوٹے اتحادیوں کو ساتھ لے کر چلنے کی صلاحیت ضرور ہے وہ اپنی قرار دی گئی قاتل لیگ کو نائب وزیر اعظم بنا دیتے تھے مگر (ن) لیگ کسی اتحادی عہدہ دینے سے کتراتی ہے اور وہ ماضی میں آصف زرداری کو ناراض کرکے اپنی بلوچستان حکومت ختم کرا چکی ہے۔

حکومت بنانے کے لیے وعدے کرکے اپنے اتحادی بڑھانا اورحکمران بن کر اتحادیوں سے کیے گئے وعدے بھول جانا ماضی میں بھی ہوتا رہا اور اب  بھی ہو رہا ہے اور دعویٰ ہے کہ ہم اتحادیوں کی مشاورت سے فیصلے کرتے ہیں۔ اتحادی حکومت سے پی پی مطمئن ہے نہ ایم کیو ایم مگر کوئی مجبوری ضرور ہے کہ یہ ایک سال بعد بھی حکومت کے اتحادی ہیں مگر اب سندھ میں پی پی کی سیاست واقعی خطرے میں ہے اور لگتا ہے کہ پنجاب حکومت بھی کچھ مختلف چاہتی ہے، اس لیے کینالز کے تنازعے میں ایک دوسرے کے خلاف بیانات دے کر معاملہ سلجھانے کے بجائے مزید الجھایا جا رہا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • حکومت عوام کے ووٹ سے آئی ہو تو بجٹ عوام دوست ہو گا، مفتاح
  • افغانستان سے ناراضی کچھ اور ہے غصہ مہاجرین پر اتارا جا رہا ہے، فضل الرحمان
  • امریکا کی ٹریڈ وار نے برطانیہ اور چین کو قریب کردیا؟
  • حکومت کی کوشش ہے کہ گرینڈ اپوزیشن الائنس نہ بن سکے
  • بارود کا ڈھیر
  • حکومت 9 مئی واقات کے ذمہ داروں سے صلح نہیں کریگی، اسحق ڈار
  • اتحادیوں کی مشاورت سے فیصلے!
  • جنہوں نے 9 مئی کے واقعات کئے وہ قیمت ادا کر رہے ہیں: اسحاق ڈار
  • فتنے سے کوئی ڈیل ممکن نہیں: اسحاق ڈار
  • حکومت اصول پر کمپرومائز نہیں کرے گی، اسحاق ڈار