Express News:
2025-04-15@09:48:25 GMT

سزا کے بعد احتجاج کیوں نہیں ہوا

اشاعت کی تاریخ: 21st, January 2025 GMT

بانی تحریک انصاف کو 190ملین پاؤنڈ میں سزا کوئی حیرانی کی بات نہیں تھی۔ فیصلے کے بار بار ملتوی ہونے اور مذاکرات نے ایک ماحول ضرور بنایا تھا کہ کچھ طے ہو رہا ہے ۔ اس لیے فیصلے ملتوی کیے جا رہے ہیں۔پھر بیرسٹر گوہر کی آرمی چیف سے ملاقات ہوگئی۔

اس ملاقات کو بانی تحریک انصاف نے خوش آیند قرار دیا ۔ ایک ماحول بن گیا کہ بات ہو گئی ہے۔ بیک چینل مذاکرات کی بھی بہت بات چل رہی تھی۔ پھر حکومت سے بھی بات چل رہی تھی۔ ایسے میں ایک ماحول بنایا گیا کہ شاید سزا نہ ہو تاہم دوسری طرف یہ بات بھی تھی کہ سزا پکی ہے۔ کیس میں بہت جان ہے، اس لیے سزا ہو ہی جانی ہے۔

تا ہم میری رائے یہی تھی کہ سزا ہوگی۔ مجھے بیک چینل بھی ایک فاؤل ہی لگ رہا تھا۔ مجھے لگ رہا تھا کہ سزا ہوگی۔ مجھے مذاکرات کی کامیابی کی کوئی امید نہیں تھی۔ مجھے اندازہ تھا کہ ابھی مفاہمت کا کوئی ماحول نہیں ہے۔ تحریک انصاف کا چارٹر آف ڈیمانڈ دیکھ کر بھی لگ رہا تھا کہ کوئی بڑا بریک تھرو ممکن نہیں۔ مجھے ڈیڈ لاک ہی نظر آرہا تھا۔ شاید بیرسٹر گوہر کی ملاقات کو بھی غلط رنگ دیا گیا۔ اس ملاقات کے ذریعے اسٹبلشمنٹ سے بریک تھرو کا ماحول بنایا گیا جو غلط تھا۔

سزا ہو گئی مجھے اندازہ تھا کہ سزا کے بعد تناؤ اور کشیدگی بڑھے گی۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ سزا کے بعد ملک میں کوئی احتجاج نہیں ہوا۔ احتجاج کی کوئی کال بھی نہیں دی گئی۔ مذاکرات کے خاتمہ کا کوئی باقاعدہ اعلان نہیں کیا گیا ہے۔ لیکن بہر حال کشیدگی بڑھی ہے۔ یہ درست ہے کہ پورے ملک میں کوئی احتجاج نہیں ہوا ہے۔

لیکن میرا موقف ہے کہ جب ملک کے اتنے مقبول لیڈر کو چودہ سال سزا ہو جائے تو احتجاج کی کوئی کال دینے کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے۔ لوگوں کو خود ہی نکلنا چاہیے تھا۔ عوامی غصہ کسی کال کا محتاج نہیں ہوتا۔ لوگ اپنے طورپر خود ہی اپنے غصہ کا اظہار کرتے ہیں۔

اگر تحریک انصاف کا موقف ہے کہ نو مئی کی گرفتاری پر لوگوں نے خود ہی اپنے طور پر غصہ کا اظہار کیا تھا۔ ایسی کوئی کال نہیں تھی تو پھر چودہ سال سزا کے بعد بھی عوامی غصہ نظر آنا چاہیے۔ ملک میں کہیں کسی ایک جگہ کوئی چھوٹا بڑا احتجاج ہونا چاہیے تھا۔

چلیں پنجاب میں سختی کی وجہ سے لوگ نہیں نکلتے۔ کے پی میں بھی کوئی عوامی احتجاج نظر نہیں آیا، کے پی میں تو احتجاج کی کھلی اجازت ہے۔ کوئی نہیں روکتا۔ کوئی گرفتاری نہیں ہوتی۔پھر کے پی میں بھی کوئی نہیں نکلا۔ سزا کے بعد اس قدر خاموشی اور امن یقیناً کوئی نیا پیغام دے رہا ہے۔ کیا تحریک انصاف کے اندر سے احتجاجی سیاست کا خاتمہ ہوگیا ہے، لوگ اب احتجاج کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

تحریک انصاف کی جانب سے اسلام آباد پر چڑھائی کی جو متعدد کال دی گئی ہیں، ان سب کے بارے میں تحریک انصاف کے سیاسی مخالفین کی یہی رائے رہی کہ یہ سب احتجاج کے پی کی حکومت کی طاقت پر کیے جاتے ہیں۔ اسلام آباد پر چڑھائی کے پی کی حکومت کی طاقت سے کیا جاتا ہے۔ لوگ خود اسلام آباد پر چڑھائی کے لیے نہیں آتے ، لائے جاتے ہیں۔

اسلام آباد پر چڑھائی کروائی جاتی ہے، ہوتی نہیں ہے۔اب سزا والے دن حکومت کا اعتماد بھی چیک کریں۔کہیں کوئی گرفتاری نہیں کی گئی، کہیں کوئی کنٹینر نہیں لگایا گیا، کوئی راستہ نہیں بند کیا گیا، کوئی سڑک نہیں بند کی گئی، کوئی دفعہ 144نہیں لگائی گئی۔ شاید حکومت کو بھی اندازہ تھا کہ کوئی احتجاج نہیں ہوگا۔ لوگ سزا پر کوئی عوامی رد عمل نہیں دیں گے، سب پر امن رہے گا اور سب پر امن رہا۔

اس کو کیا سمجھا جائے۔ کیا یہ تحریک انصاف کے سیاسی مخالفین اور حکومت کے موقف کی توثیق نہیں کہ لوگ نہیں نکلتے انھیں کے پی حکومت کے سر پر نکالا جاتا ہے۔ پنجاب میں امن تو قابل دید تھا ہی ۔ لیکن کے پی کا امن تو قابل دید سے بھی آگے کی کوئی چیز تھا۔ کراچی بھی پر امن رہا، وہاں بھی تحریک انصاف مقبولیت کی دعویدار ہے۔ لیکن وہاں بھی کوئی نہیں نکلا سب پر امن رہا۔

ویسے تو سننے میں آیا ہے کہ سزا کے دو دن بعد جو کور کمیٹی کا اجلاس ہوا ہے۔اس میں بھی اس بات پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے کہ احتجاج کیوں نہیں ہوا۔ کور کمیٹی کے ممبران ایک دوسرے سے سوال کرتے رہے کہ احتجاج کیوں نہیں ہوا۔ ایک دوسرے پر ذمے داری ڈالی گئی کہ آپ کی وجہ سے احتجاج نہیں ہوا۔ سب احتجاج نہ ہونے پر پریشان ہوئے۔ تاہم کور کمیٹی کے لوگوں کے پاس احتجاج نہ ہونے کی کوئی معقول وجہ نہیں تھی۔ بس سوال موجود تھا کہ احتجاج کیوں نہیں ہوا۔

لیکن اس سب کے بعد آٹھ فروری کو یوم سیاہ منانے کا اعلا ن بھی موجود ہے۔ اب آٹھ فروری کو پشاور میں جلسہ کا اعلان کیا گیا۔ بانی تحریک انصاف نے اپنے ٹوئٹ میں کہا ہے کہ کے پی سے تمام قافلے آٹھ فروری کو پشاور پہنچیں ۔ میرے لیے یہ بھی حیرانگی کی بات ہے کہ آٹھ فروری کو پشاور میں جلسہ کی ہدائت کی گئی ہے۔ اسلام آباد کی کال نہیں دے گئی پورے ملک سے قافلوں کو نہیں بلایا گیا۔ صرف کے پی سے قافلوں کو پشاور آنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ اب آٹھ فروری کو پشاور میں جلسہ کے اعلان کو بھی سیاسی طورپر کمزور اعلان ہی تصور کیا جا رہا ہے۔ یہ سوال موجود ہے۔

کیا اسلام آباد کی کال نہ دینا کمزوری کی نشانی ہے۔ یا اس میں کوئی مفاہمت کا پیغام ہے۔ کیا بیک چینل چل رہا ہے۔ اس لیے اسلام آباد پر چڑھائی کی کوئی کال نہیں دی گئی یا آخری فائنل کال کے نتائج کے بعد اسلام آباد کال نہیں دی گئی۔

سزا کے بعد وزیر اعلیٰ گنڈا پور کی بانی تحریک انصاف سے طویل ملاقات ہوئی۔ یقیناً ان سے آٹھ فروری کے یوم سیاہ پر مشاورت ہوئی ہوگی۔ ایک اندازہ ہے کہ گنڈا پور اب اسلام آباد پر مزید چڑھائی کے حق میں نہیں ہیں، اس لیے اسلام آباد کی کال نہیں دی گئی۔ جہاں تک پشاور میں جلسہ کی بات ہے وہاں احتجاج کی کوئی سیاسی اہمیت نہیں، یہ مفاہمت کا احتجاج سمجھا جائے۔

بہر حال ایک رائے یہ بھی ہے کہ ابھی ٹرمپ نے اقتدار سنبھالا ہے۔ جب تک امریکا سے اشارہ نہیں آئے گا۔ پاکستان میں حالات خراب نہیں کیے جائیں گے۔ سزا کے بعد امریکا سے بھی کوئی خاص رد عمل نہیں آیا۔ رچرڈ گرنیل کا بھی کوئی ٹوئٹ نہیں آیا۔ اس لیے رائے یہی ہے کہ جب تک امریکا سے اشارہ نہیں آئے گا، اسلام آباد پر چڑھائی کا اعلان نہیں کیا جائے گا۔ اس لیے آٹھ فروری کو اعلان نہیں کیا گیا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: احتجاج کیوں نہیں ہوا بانی تحریک انصاف پشاور میں جلسہ احتجاج نہیں نہیں دی گئی سزا کے بعد احتجاج کی بھی کوئی نہیں تھی کال نہیں کوئی کال کے بعد ا کیا گیا نہیں کی کی کوئی رہا تھا ہے کہ ا کہ سزا تھا کہ اس لیے سزا ہو کی گئی رہا ہے کال نہ نہیں ا

پڑھیں:

نواز شریف کی ہدایت کے باوجود  حمزہ شہباز پارٹی امور میں دلچسپی کیوں نہیں لے رہے؟

مسلم لیگ ن کے نائب صدر حمزہ شہباز تقریباً 82 دن تک وزیر اعلیٰ پنجاب رہے۔ وہ پنجاب کی عوام کے لیے کچھ زیادہ تو نہ کر سکے لیکن وزرات عالیہ چھن جانے کے بعد وہ پارٹی امور میں زیادہ سرگرم نہیں رہے ہیں یہاں تک کہ اپوزیشن لیڈر بننے پر بھی ان کی کارکردگی کچھ قابل ذکر نہیں رہی۔

یہ بھی پڑھیں: سابق وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز گمنامی میں چلے گئے ہیں؟

جب وفاق میں پی ڈی ایم کی حکومت اور وزیراعظم ان کے والد شہباز شریف تھے تو حمزہ شہباز تھوڑا بہت میڈیا سے رابطہ کرتے رہتے تھے لیکن پارٹی معاملات میں ویسے دکھائی نہیں دیے جیسے پہلے پارٹی اجلاسوں میں شرکت کے موقعے پر نظر آتا تھا۔

لیگی ذرائع کے مطابق حمزہ شہباز شریف کی خاموشی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ان کے پاس عوام کو بتانے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ حالات واضح نہیں ہیں کہ کیا ہونے جارہا ہے  جس کی وجہ سے وہ خاموش ہوگئے ہیں۔ وزرات اعلیٰ چھن جانے کے بعد وہ پارٹی معاملات میں اب مداخلت بہت کم کرتے ہیں۔ پارٹی سیکریٹریٹ آتے ضرور ہیں لیکن  دلچسپی نہیں لیتے۔

مسلم لیگ ن کے ایک سینیئر رہنما نے بتایا کہ حمزہ شہاز شریف پارٹی کے نائب صدر ہیں اور ان کی پارٹی میں عدم دلچپسی   سمجھ سے بالاتر ہے وہ پارٹی اجلاسوں میں شرکت کرتے ہیں لیکن کوئی تجویز نہیں دیتے ہیں ملتے سب سے ہیں لیکن ان کی دلچسپی نہ لینے سے پارٹی کو نقصان  ہورہا ہے۔

مزید پڑھیے: رمضان شوگر ملز ریفرنس: عدالت نے شہباز شریف اور حمزہ شہباز کو بری کردیا

سینیئر رہنما نے بتایا کہ 8 فروری کے الیکشن میں حمزہ شہباز زیادہ ایکٹو دیکھائی نہیں دیے جس کی وجہ سے الیکشن میں پارٹی کو کافی نقصان اٹھانا پڑا۔

وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز سے حمزہ شہباز کی ناراضگی ہے؟

مسلم لیگ ن کے سنئیر رہنما نے وی نیوز کو بتایا کہ حمزہ شہباز شریف نے اس بات کا اظہار تو نہیں کیا کہ انہیں وزیر اعلیٰ کیوں نہیں بنایا گیا اور نہ ہی یہ سامنے آنے دیا ہے کہ وہ وزیر اعلی نہ بنے کی وجہ سے ناراض ہیں لیکن ہو سکتا ہے انہوں نے اپنے والد شہباز شریف سے کچھ اظہار کیا ہو مگر پارٹی کے لوگوں کے سامنے ایسا کچھ نہیں کہا اور کبھی اس بات کا تذکرہ بھی نہیں کیا۔

سینیئر رہنما نے بتایا کہ اب ان کے دل میں کیا بات ہے یہ تو وہ ہی بتا سکتے ہیں لیکن انہوں نے پارٹی معاملات میں دلچسپی لینی بند کر دی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ مسلم لیگ ن کے صدر نواز شریف نے بھی حمزہ شہباز شریف کو ایک 2 مرتبہ دریافت کیا ہے کہ کہیں وہ ناراض تو نہیں ہیں جس پر حمزہ شہباز شریف نے بتایا کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے وہ بس اپنی ذاتی مصروفیات کی وجہ سے پارٹی کو زیادہ وقت نہیں دے پا رہے۔

مزید پڑھیں: حمزہ شہباز زندگی سے ناامید کب ہوئے تھے؟ وی نیوز سے گفتگو میں سابق وزیراعلیٰ پنجاب نے تفصیل بتادی

لیگی رہنما نے بتایا کہ حمزہ شہباز اس وقت ایکٹیو تھے جب پاکستان میں شریف خاندان کا کوئی فرد بھی موجود نہیں تھا۔ سابق آرمی چیف پرویز مشرف کے دور میں انہوں نے جیل کاٹی لیکن پارٹی کے لیے کام کرتے رہے لیکن اب وہ سیکرٹریٹ تک محدود ہوگئے ہیں اور کوئی ملنے آجائے تو مل لیتے ہیں ویسے کہیں نہیں جاتے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

حمزہ شریف ناراض حمزہ شہباز شریف میاں نواز شریف ن لیگ

متعلقہ مضامین

  • 26 نومبر احتجاج کیس میں بشریٰ بی بی کو شامل تفتیش کیا جائے، عدالت کا تفتیشی افسر کو حکم
  • 26 نومبر احتجاج‘ پی ٹی آئی کے 86 کارکنوں کی ضمانت درخواستیں مسترد  عمران کی 8 مقدمات میں ضمانت کیلئے استدعا
  • پی ٹی آئی والے 26 نومبر کی ٹھکائی کے بعد اب اسلام آباد نہیں آئیں گے، طلال چوہدری
  • نواز شریف کی ہدایت کے باوجود  حمزہ شہباز پارٹی امور میں دلچسپی کیوں نہیں لے رہے؟
  • 26 نومبر کا احتجاج: پی ٹی آئی کے 86 کارکنوں کی ضمانت کی درخواستیں خارج
  • ڈی چوک احتجاج، 86 پی ٹی آئی کارکنان کی درخواستِ ضمانت پر فیصلہ محفوظ
  • عوام ریلیف سے محروم کیوں؟
  • قومیں کیوں ناکام ہوتی ہیں؟
  • مطالعہ کیوں اورکیسے کریں؟
  •  وزیراعلی پنجاب خاتون ہیں، انھیں احتجاج کرنے والی خواتین کا کیوں خیال نہیں؟ حافظ نعیم الرحمن