تعلیمی اداروں میں طلبہ یونینز کی بحالی کا معاملہ، سپریم کورٹ کا تمام صوبوں کو نوٹس
اشاعت کی تاریخ: 20th, January 2025 GMT
اسلام آباد:سپریم کورٹ آف پاکستان کے آئینی بینچ نے تعلیمی اداروں میں طلبہ یونینز کی بحالی کے معاملے پر اٹارنی جنرل آف پاکستان، تمام صوبوں اور اسلام آباد کے ایڈووکیٹ جنرلز اور متعلقہ فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیاجبکہ بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیئے ہیں کہ اگر ریگولیٹری قانون نہیں ہوگا تو پھر مسئلہ ہوگا۔
طلباء یونین ایک نرسری ہے انہی لوگوں نے مستقبل میں ملک کی باگ ڈور سنبھالنا ہوتی ہےجبکہ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے ہیں کہ طلبہ یونیز پر پابندی نہیں بلکہ انتخابات پرپابندی ہے۔1983میں توآئین بھی معطل تھاتو طلباء یونینز کومعطل کرنے کے لئے نوٹیفیکیشن کی کیاضرورت تھی۔
کیا تعلیمی اداروں میں پولیکل سائنس کے مضامین پڑھانے پر پابندی لگادیں۔جبکہ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے ہیں کہ کیا تعلیمی ادارے سیاست کے لئے بنے ہیں اسی لئے توگڑبڑشروع ہوئی ہے، بچے اپنی فلاح وبہبود کے لئے یونین بناتے ہیں سیاست کے لئے نہیں، تعلیمی اداروں میں سیاست کاکیا کام ہے۔
کراچی یونیورسٹی میں سیاسی ونگ بنے ہوئے تھے جس کی وجہ سے جھگڑے ہوتے تھے اورقتل وغارت ہوتی تھی۔تشددکی وجہ سے کراچی یونیورسٹی میں گزشتہ 30،35سال سے رینجرز تعینات ہے اوروہی حالات کوکنٹرول کرتی ہے اگر رینجرز کوہٹادیا جائے تودوبارہ لڑائی جھگڑے شروع ہوجائیں گے جبکہ جسٹس سید حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیئے ہیں لڑائی جھگڑے صرف سندھ میں ہی نہیں بلکہ پنجاب میں بھی ہوتے ہیں۔
ایک بہت بڑے لیڈر جوبعد میں ملک کے وزیر اعظم بھی بنے انہیں پنجاب یونیورسٹی میں اغوا کر لیا گیاتھا،بعد ازاںطلباء سے چھڑوایا گیاجبکہ جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے ہیں کہ بچوں کو پڑھنے دیں انہیں سیاست میں کیوں ڈال رہے ہیں ، جوسیاستدان بننا چاہے گابن جائے گا،ہمارے ملک میں سیاست جارحانہ ہے، کراچی یونیورسٹی میں رینجرز تعینات کرنا پڑی۔ سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس سید حسن اظہررضوی، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس نعیم اخترافغان پر مشتمل 6رکنی آئینی بینچ نے سوموار کے روز طلبہ یونینز کی بحالی کیلئے حمزہ محمد خواجہ ، محمد عثمان عامر اوردیگرکی جانب سے دائر 2درخواستوں پر سماعت کی۔ درخواست گزاروں کی جانب سے محمد عمر اعجاز گیلانی اور بیرسٹر ظفراللہ خان اوردیگر بطور وکیل پیش ہوئے جبکہ وفاقی حکومت کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل چوہدری عامر رحمان پیش ہوئے۔
ایڈیشل اٹارنی جنرل کاکہنا تھا کہ دلائل کے لئے کچھ وقت دے دیں۔دوران سماعت جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ قائد اعظم یونیورسٹی میں سٹوڈنٹس یونین کے الیکشن کا شیڈول جاری ہو ا، انتخابات کے لئے وفاقی حکومت کی مدد کی ضرورت ہے،کوئی امن وامان کاواقعہ نہ پیش آجائے، قائد اعظم یونیورسٹی میں سٹوڈنٹس یونین الیکشن کو پائلٹ پراجیکٹ کے طور پر دیکھا جائے۔جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کیا سٹوڈنٹس یونینز پر پابندی ہے؟
اسٹوڈنٹس یونینز پر کب پابندی لگائی گئی؟اس پر چوہدری عامر رحمان کاکہنا تھا کہ پابندی ہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ طلبہ یونیز پر پابندی نہیں بلکہ انتخابات پرپابندی ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ کیا طلباء یونین کوریگولیٹ کرنے کے حوالہ سے کوئی قانون ہے، قانون کیسے معطل ہوا ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ 1983میں توآئین بھی معطل تھاتو طلباء یونینز کومعطل کرنے کے لئے نوٹیفیکیشن کی کیاضرورت تھی۔جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ کیا تعلیمی ادارے سیاست کے لئے بنے ہیں اسی لئے توگڑبڑشروع ہوئی ہے، بچے اپنی فلاح وبہبود کے لئے یونین بناتے ہیں سیاست کے لئے نہیں، تعلیمی اداروں میں سیاست کاکیا کام ہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ کیا تعلیمی اداروں میں پولیکل سائنس کے مضامین پڑھانے پر پابندی لگادیں۔
جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ جب پابندی ہوتی ہے تودوسری چیز داخل ہوجاتی ہے۔جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ اگر ریگولیٹری قانون نہیں ہوگا تو پھر مسئلہ ہوگا۔جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ کیا پابندی کاکوئی نوٹیفیکیشن ہے، 18ویں ترمیم کے بعد صوبے بھی قانون سازی کرسکتے ہیں، اٹارنی جنرل کوبھی جواب دینا ہوگا، تمام صوبوں سے بھی پوچھ لیں، سیاست کسی ادارے میں ہونی چاہیئے یانہیں ہونی چاہیئے، کراچی یونیورسٹی میں سیاسی ونگ بنے ہوئے تھے جس کی وجہ سے جھگڑے ہوتے تھے اورقتل وغارت ہوتی تھی۔
جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ طلباء نے مسائل انتظامیہ سے حل کروانا ہیں، اسلام آباد میں ہر طلباء یونین کامنتخب رکن اداروں کی سینیٹ، سنڈیکیٹ اور بورڈ کارکن ہوگا جو طلباء کے مسائل سے انتظامیہ کوآگاہ کرے گا، تشددکی وجہ سے کراچی یونیورسٹی میں گزشتہ 30،35سال سے رینجرز تعینات ہے اوروہی حالات کوکنٹرول کرتی ہے اگر رینجرز کوہٹادیا جائے تودوبارہ لڑائی جھگڑے شروع ہوجائیں گے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ بار کے الیکشن میں سیاست آ گئی ہے، سیاسی پارٹیز نے تعلیمی اداروں میں بھی اپنے سیاسی ونگز بنالیے ہیں۔جسٹس سید حسن اظہر رضوی کا کہنا تھا کہ کراچی یونیورسٹی میںجب لسانی اور مذہبی جماعتوں کے لوگ آئے تولڑائی جھگڑے شروع ہوئے۔اس پر جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ طلباء یونین کا مطلب سٹوڈنٹس کی فلاح بہبود ہے،طلباء یونین کا مطلب سیاست نہیں۔جسٹس سید حسن اظہر رضوی کاکہنا تھا کہ لڑائی جھگڑے صرف سندھ میں ہی نہیں بلکہ پنجاب میں بھی ہوتے ہیں، ایک بہت بڑے لیڈر جوبعد میں ملک کے وزیر اعظم بھی بنے انہیں پنجاب یونیورسٹی میں اغوا کر لیا گیاتھا،بعد ازاںطلباء سے چھڑوایا گیا۔جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ اسلام آباد کی حدتک بہترین قانون بنا ہوا ہے اس پر عمل کروائیں، سندھ کابھی 2022کاایکٹ ہے اس میں بھی اچھی باتیں لکھی ہیں۔ جسٹس ا مین الدین خان کاکہنا تھا کہ طلباء یونین ایک نرسری ہے انہی لوگوں نے مستقبل میں ملک کی باگ ڈور سنبھالنا ہوتی ہے۔اس پر جسٹس سید حسن اظہر رضوی کاکہنا تھا کہ اچھے طلباء کیساتھ بیٹھ کر مسئلہ حل کیا جائے، بھتہ خور کو مسئلے کے حل کیلئے ساتھ نہ بٹھائیں۔جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ بچوں کو پڑھنے دیں انہیں سیاست میں کیوں ڈال رہے ہیں ، جوسیاستدان بننا چاہے گابن جائے گا،ہمارے ملک میں سیاست جارحانہ ہے، کراچی یونیورسٹی میں رینجرز تعینات کرنا پڑی۔ جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ ماضی میں کلاس مانیٹر اور کلاس کے نمائندے کانظام موجود تھا۔ چوہدری عامررحمان کاکہنا تھا کہ مجھے پنجاب یونیورسٹی سے نکالا گیا اور پھر مجھے ملتان یونیورسٹی سے ایل ایل بی کرنا پڑی۔اس پر جسٹس مسرت ہلالی کاچوہدری عامررحمان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کچھ نہ کچھ توآپ نے کیاہوگاکیاکیاتھا؟ اس پر چوہدری عامررحمان کاکہنا تھا میں ایم ایس ایف کارکن تھا۔ جسٹس امین الدین خان کاحکم لکھواتے ہوئے کہنا تھا کہ ہم نے اسلام آباد کے تعلیمی اداروں میں طلباء یونینز کے حوالہ سے 7اگست 2023کو پاس کیا گیا بل دیکھا ہے۔ اٹارنی جنرل، تمام صوبوں اور اسلام آباد کے ایڈووکیٹ جنرلز اور مدعاعلیہان درخواستوں پر جواب جمع کروائیں۔ بتایا جائے کہ طلباء یونینز کے حوالہ سے کوئی قانون سازی کی گئی ہے کہ نہیں۔ عدالت نے فریقین سے 3ہفتے مین جواب طلب کرتے ہوئے درخواستوں پر سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: جسٹس سید حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیئے ہیں کہ جسٹس محمد علی مظہر کا کراچی یونیورسٹی میں جسٹس امین الدین خان تعلیمی اداروں میں جسٹس مسرت ہلالی رینجرز تعینات سٹوڈنٹس یونین طلباء یونینز سیاست کے لئے اٹارنی جنرل طلباء یونین اسلام آباد کیا تعلیمی میں سیاست پر پابندی نہیں بلکہ ہیں سیاست پابندی ہے کی وجہ سے کہ طلباء میں ملک میں بھی
پڑھیں:
سپریم کورٹ میں ملٹری کورٹ ٹرائل کے بارے میںکیس ڈی لسٹ کردیا گیا
اسلام آباد(مانیٹر نگ ڈ یسک ) سپریم کورٹ میں ملٹری کورٹ ٹرائل بارے کیس ڈی لسٹ کردیا گیا۔رجسٹرار آفس نے 20 اور 21 جنوری کو کیسز کی سماعت بارے ڈی لسٹنگ کا نوٹس جاری کردیا۔نوٹس میں بتایا گیا ہے کہ سات رکنی لارجر بینچ کی عدم دستیابی کے باعث ملٹری کورٹ کیس ڈی لسٹ کیا گیا۔