کراچی انٹر بورڈ میں غنڈہ عناصر سرگرم، طلبا سے رقم لیکر کام کرانے لگے، ملازمین پر تشدد کے واقعات
اشاعت کی تاریخ: 20th, January 2025 GMT
کراچی:
اعلی ثانوی تعلیمی بورڈ میں امن و امان کی صورتحال انتہائی دگرگوں اور سیکیورٹی مذاق بن گئی ہے، اسی علاقے سے تعلق رکھنے والے ایک مخصوص گروپ نے بورڈ کو یرغمال بنالیا ہے جو فیسوں کے علاوہ اضافی رقم کے عوض وہاں آنے والے طلبہ کے کام ملازمین سے زور زبردستی اور دھونس دھمکی کی بنیاد پر کراتا ہے۔
اگر ملازمین کی جانب سے رقم کے عوض کرائے جانے والے ان کاموں میں کسی تعطل یا تاخیر کا مظاہرہ کیا جاتا ہے تو ملازمین کو باقاعدہ زردوکوب کیا جاتا ہے جبکہ بورڈ انتظامیہ اس ساری صورتحال پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔
پیر کو بھی انٹر بورڈ کراچی میں ملازمین کو دھمکیاں دے کر کام کرانے کے دوران کام سے انکار پر انھیں زرد و کوب کرنے کے دو واقعات رپورٹ ہوئے ہیں، پہلا واقعہ بورڈ کے اکاؤنٹ سیکشن میں ویریفیکیشن کاؤنٹر پر اس وقت پیش آیا جب شرجیل نامی جونیئر کلرک نے گزشتہ سال کی دستاویزات کی تصدیق کے لیے کچھ وقت مانگا تاہم وہاں موجود مخصوص مافیا کے افراد نے جونیئر کلرک پر چائے پھینک دی، اس کی میز الٹ دی اور میز پر موجود دستاویزات کو پھینک دیا،اس واقعے کی اطلاع اسسٹنٹ سیکریٹری فرحان افتخار کی جانب سے انٹر بورڈ کے قائم مقام سیکریٹری امیر حسین قادری کو دی گئی۔
ایک علیحدہ واقعے میں خواتین کے لیے قائم فیسیلیٹیشن سینٹر پر جب اسکروٹنی فارم جمع ہورہے تھے تو اس موقع پر ایک شخص نے قطار توڑ کرزبردستی فارم جمع کرانے کوشش کی اور وہاں موجود احسن عالم نامی جونیئر کلرک کی جانب سے انکار پر اسے میز پر رکھا ہوا اسٹیپلر مار دیا جو اس کے چہرے پر لگا۔
بتایا جارہا ہے کہ اس واقعے کی اطلاع بھی ناظم امتحانات کی جانب سے سیکریٹری بورڈ کی دی گئی، ان دونوں واقعات سے بورڈ میں خوف و یراس پھیل گیا، ملازمین میں سراسیمگی پائی جاتی ہے اور بورڈ کے ملازمین اور وہاں آنے والے طلبہ خود کو غیر محفوظ سمجھ رہے ہیں۔
بورڈ کے ایک ملازم کے مطابق اگر جائز کام فوری کرانا ہے تو اس گروہ کے افراد طلبہ سے فیس کے علاوہ 2 سے 5 ہزار روپے اضافی لیتے ہیں اور اگر کوئی غیر رسمی کام کروانا ہو تو اس کے لیے اضافی رقم کی کوئی حد نہیں۔
ادھر سیکریٹری بورڈ امیر حسین قادری نے پیر کو پیش آنے والے ان دونوں واقعات کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ ہم اس واقعے کی ایف آئی آر درج کروارہے ہیں جبکہ معاملے پر متعلقہ تھانے کے ایس ایچ او سے بھی بات کی ہے جس کے بعد انھوں نے پولیس موبائل بھجوائی تاہم مذکورہ افراد موقع سے فرار ہوگئے۔
سیکریٹری بورڈ کا کہنا تھا کہ ہم طلبہ اور ملازمین کی سیکیورٹی یقینی بنائیں گے۔ یاد رہے کہ ماضی میں انٹر بورڈ کی پبلک ڈیلنگ شہر کے دیگر علاقوں میں منتقل کرنے اور بورڈ کا سب آفس قائم کرنے کی تجویز بھی سامنے آئی تھی تاہم اس پر عملدرآمد نہیں ہوسکا جس کے بعد وہاں موجود بیرونی مافیا نے اپنے پنجے گاڑ لیے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کی جانب سے بورڈ کے
پڑھیں:
کراچی اسٹیڈیم کی خالی کرسیاں: ارسلان نصیر نے انوکھا حل پیش کردیا
کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں ہونے والے پی ایس ایل کے میچوں میں خالی کرسیاں اب ایک معمول بن چکی ہیں۔ حالیہ کراچی کنگز اور ملتان سلطانز کے درمیان کھیلے گئے ہائی وولٹیج میچ میں بھی یہی منظر دیکھنے کو ملا۔
سوال یہ ہے کہ آخر کراچی کے تین کروڑ شہری اپنی ہی ٹیم کے میچ دیکھنے اسٹیڈیم کیوں نہیں آتے؟
معروف کانٹینٹ کری ایٹر ارسلان نصیر نے اس مسئلے کا ایک انوکھا حل پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’اگر اسٹیڈیم میں ’جیتو پاکستان‘ کی طرز پر تین موٹرسائیکلیں رکھ دی جائیں، تو گراؤنڈ کھچاکھچ بھرجائے گا۔‘‘ یہ بات انہوں نے اپنے مخصوص طنزیہ انداز میں کہی، لیکن اس میں ایک کڑوا سچ بھی چھپا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ کراچی والے انعامات والے شوز کےلیے تو قطار میں لگ جاتے ہیں، لیکن اپنی ٹیم کو سپورٹ کرنے اسٹیڈیم نہیں آتے۔ حالانکہ اس بار چیمپئنز ٹرافی کے دوران روڈ بند کرنے کی پابندی ختم کردی گئی تھی اور پارکنگ کی بھی مناسب سہولت فراہم کی گئی تھی، مگر یہ سب کچھ بے سود ثابت ہوا۔
ارسلان نصیر کی یہ تجویز دراصل کراچی کے کرکٹ شائقین کے رویے پر ایک طنز ہے۔ کیا واقعی ہمیں اپنی ٹیم کو سپورٹ کرنے کے لیے موٹرسائیکل جیتنے کا لالچ چاہیے؟ یا پھر ہمیں اپنے اس رویے پر نظرثانی کرنی چاہیے؟ فی الحال تو صورتحال یہی ہے کہ کراچی والے گھر بیٹھے چھوٹی اسکرین پر میچ دیکھنا ہی ترجیح دیتے ہیں، چاہے اسٹیڈیم میں ان کی اپنی ٹیم کھیل رہی ہو!