آج کا میڈیا تجارتی ڈھانچے میں تبدیل ہو چکا ہے، وائس چانسلر
اشاعت کی تاریخ: 20th, January 2025 GMT
ڈاکٹر سمیر کمار ورما نے کہا کہ اس صورتحال میں درمیانی اور نچلی سطح کے صحافیوں کا کردار اہم ہوگیا ہے، سچ کو سامنے لانے کی ذمہ داری ان ہی کے اوپر ہے۔ اسلام ٹائمز۔ باوقار سندیپ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر سمیر کمار ورما نے میڈیا کو سماجی تبدیلی کا بردار قرار دیتے ہوئے کہا کہ سوشل میڈیا کے آنے سے صحافت کے سامنے چیلنجز ضرور بڑھے ہیں لیکن اس کی مطابقت برقرار ہے۔ وائس سمیر کمار ورما نے معروف صحافی آنجہانی رام گووند پرساد گپتا کی 29ویں برسی کے موقع پر منعقدہ "عصری صحافت کے چیلنجز" کے موضوع پر سیمینار سے بحیثیت مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سوشل میڈیا کے دور میں صحافت کے سامنے چیلنجز بڑھ گئے ہیں، لیکن اس کی مطابقت اب بھی باقی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج کا میڈیا تجارتی ڈھانچے میں تبدیل ہو چکا ہے، کمرشل ازم بڑھ گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس صورتحال میں درمیانی اور نچلی سطح کے صحافیوں کا کردار اہم ہوگیا ہے، سچ کو سامنے لانے کی ذمہ داری ان ہی کے اوپر ہے۔
اس دوران مہمان خصوصی صحافی اور بینی پور کے ایم ایل اے ڈاکٹر ونے کمار چودھری نے کہا کہ صحافیوں کے لئے لکھنا سب سے بڑا چیلنج ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایمانداری سے لکھی گئی خبروں کا اثر آج بھی نظر آتا ہے، اس کے علاوہ یہ صحافت کے وجود کی بھی حفاظت کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ غیر جانبدارانہ صحافت ہی دور جدید کے چیلنجز کا خاتمہ کرے گی، صحافت کل بھی متعلقہ تھی اور آئندہ بھی رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ صحافیوں کو صرف اپنی ذمہ داریاں نبھانی ہوں گی ورنہ سچ پیچھے رہ جائے گا۔ جب تک یہ زندہ رہے گا صحافت زندہ رہے گی۔
نقاد اور ادیب پروفیسر ستیش سنگھ نے کہا کہ مذہبی عدم برداشت کا جو ماحول پیدا ہوا ہے اس پر قابو پانا میڈیا کے لئے سب سے بڑا چیلنج ہے، اس کی تحقیقات کرکے اور سماجی ہم آہنگی قائم کرکے میڈیا اس چیلنج کو ختم کرسکتا ہے، اس سے صحافت کو ایک نئی جہت ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ صحت مند معاشرے کی تشکیل صحافت کی ذمہ داری ہے۔ اس اہم ذمہ داری کو نبھانے سے صحافت کے چیلنجز کم ہوں گے۔ سینیئر صحافی گنگیش مشرا نے کہا کہ صحافت کے سامنے سب سے بڑا چیلنج قاری اور سامع کو جوڑنا ہے، اس کے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ خبروں کو ایسے شعبے سے منسلک کیا جائے جس سے سماجی تبدیلی آسکے، لوگ متاثر ہوں، اس کے لئے ضروری ہے کہ خبر کو آسان اور دلچسپ الفاظ میں پہنچایا جائے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: انہوں نے کہا کہ کے لئے
پڑھیں:
2 دہائیوں میں پاکستان کی ایکسپورٹ میں 20 فیصد تک کمی ہوئی
کراچی:معاشی بحالی کے بعد پاکستان ایک دوراہے پر کھڑا ہے، جہاں کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ گزشتہ 15 سالوں کی صفر ایوریج گروتھ کے بعد بڑھتی ہوئی غربت پر قابو پانے کے لیے ترقی کی رفتار کو تیز ترین کرنا چاہیے۔
جبکہ دیگر ماہرین جو کہ باثر اثر بزنس مین اور وزارت فنانس میں موجود ماہرین ہیں کا کہنا ہے کہ بحالی کا عمل نازک دور سے گزر رہا ہے، اور تیز رفتار ترقی کے نتیجے میں ملک کو ایک بڑے تجارتی خسارے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
درحقیقت پاکستان کی ایکسپورٹ گزشتہ دو دہائیوں کے درمیان مسلسل گراوٹ کا شکار رہی ہے اور اس میں 20 فیصد تک کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔
ورلڈ بینک کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق ایکسپورٹ میں کمی کی بنیادی وجہ تجارتی پالیسی ہے، جہاں دیگر ممالک تجارتی رکاوٹوں کو کم کر رہے ہیں اور علاقائی اور عالمی سطح پر اپنی معیشتوں کو مربوط کر رہے ہیں۔
پاکستان مخالف سمت میں آگے بڑھ رہا ہے، اس وقت پاکستان کے ٹیرف عالمی اوسط سے کم از کم دو گنا اور مشرقی ایشیا کے ممالک کے مقابلے میں تین گنا زیادہ ہیں۔
پاکستان جی ایس پی پلس اسٹیٹس اور سی پیک منصوبوں سے خاطر خواہ فائدہ نہ اٹھا سکا، ڈومیسٹک ریفارمز کے بغیر کسی بھی ملک نے برآمدات کو بڑھانے میں کامیابی حاصل نہیں کی۔