WE News:
2025-01-20@14:43:18 GMT

ہتھکڑی کی ایجاد، طوق سے ہینڈکف تک کا سفر

اشاعت کی تاریخ: 20th, January 2025 GMT

ہتھکڑی کی ایجاد، طوق سے ہینڈکف تک کا سفر

جرم کی دنیا بڑی گہری ہے، انسانی تاریخ کے آغاز سے ہی جرائم کے آثار ملتے ہیں، مگر مجرم کو انصاف کی گرفت میں لانے کا نظام یعنی قانون نافذ کرنے والے ادارے قدیم چین کی تاریخ میں قائم ہوتے نظر آتے ہیں۔

انسانی تاریخ کے قدیم دور سے قدیم چین میں ‘پریفیکٹس’، بابل میں ‘پاقودوس’، رومن سلطنت میں ‘ویجیلس’ اور قدیم مصر میں ‘مدجائے’ جیسے قانون نافذ کرنے والے ادارے اور نظام ملتے ہیں۔ یہ تاریخ کے وہ ادوار ہیں جن میں بحث یہ نہیں تھی کہ نظام ٹھیک ہے یا غلط، بلکہ بحث یہ تھی کہ نظام ہے یا کہ نہیں۔

مندرجہ بالا نظاموں نے جرائم اور مجرم کی تعریف بیان کی اور جرم کو قابل سزا عمل قرار دیا۔ اس سے قبل تاریخ کے اوراق میں ہمیں جرم اور سزا کا تصور نہیں ملتا۔

قدیم مصر میں استعمال ہونے والی شیکلز

انسانوں کو جکڑنے کا رجحان ‘نیولیتھک دور’ سے ملنا شروع ہوجاتا ہے۔ انسان نے جکڑنے اور قابو میں کرنے کا طریقہ ‘پری ہسٹورک دور’ یعنی پتھر کے زمانے میں جانوروں کو قابو کرنے کے تجربات سے سیکھا اور پھر اگلی ہی صدی میں انسانوں پر بھی یہ آزمانا شروع کر دیا۔

10,000 قبل مسیح اور اس سے پہلے لوگ جانوروں کو اپنے استعمال کے لیے باندھنا سیکھ چکے تھے اور یہ معمول کی زندگی کا حصہ بن چکا تھا۔ جانوروں کو ‘درخت کی ٹہنی یا جلد’ کی رسی سے باندھنے اور ایک مخصوص جگہ پر باڑ بنا کر نقل و حرکت محدود کرنے کے آثار بھی ملتے ہیں۔

 10,000 سے 4,500 قبل مسیح کے دوران انسانوں کو باندھنے یا جکڑنے کی تاریخ شروع ہوتی ہے، یہ آثار اس دور میں ہونے والی قبائلی جنگوں سے ملتے ہیں جہاں دوسرے قبائل کے لوگوں کو بھاگنے سے روکنے کے لیے یا پھر تذلیل کے مقصد سے جانوروں کی مشابہت دی جاتی تھی۔

قدیم چائنہ میں لکڑی کے کلانچے

لیکن ایک منظم طریقے سے کسی نظام یا اصول کے مطابق انسانوں کو ہتھکڑیاں اور بیڑیاں پہنانے کا تصور 3,000 قبل مسیح کے بعد ملتا ہے۔ انسان اور معاشرے نے جب یہ تسلیم کر لیا کہ انسان کو قابو کرنا معاشرے کو معتدل اور نظم و ضبط کے ساتھ قائم رکھنے یا پھر دوسرے گروہ پر دبدبا بنا کے رکھنے کے لیے ناگزیر ہے، تو انسان نے اس کی تراکیب لگانی شروع کردی۔

قدیم چین نے کلانچے اور لکڑی کے طوق ایجاد کیے، ان کا استعمال ‘پریفیکٹس’ نظام کے باغیوں، مجرموں یا پھر غلاموں کو قابو میں رکھنے کے لیے استعمال کرتے تھے۔ یہ لکڑی سے بنا ایک ڈھانچہ ہوتا تھا۔ اس کی مختلف صورتیں ہوتی تھیں۔ عموماً یہ لکڑی کا مستطیل یا مربع میں انتہائی وزنی لکڑی کا ٹکڑا ہوتا تھا جس کو انسان کے گلے میں پہنا دیا جاتا تھا۔ اس کے درمیان میں انسانی گردن کے لیے ایک سوراخ ہوتا تھا۔

بنیادی طور پر طوق لکڑی کے 2ٹکڑوں کو جوڑ کر بنایا جاتا تھا، جس کو انسان کے گلے میں ڈالنے کے بعد مستقل طور پر جوڑ دیا جاتا تھا۔

قدیم چین کی ایجاد لکڑی کا طوق ایک کرسی نما ڈھانچے کے ساتھ ہوتا تھا۔ مجرم یا غلام کو اس پر بٹھا کر طوق پہنا دیا جاتا تھا، جس کے بعد نہ ہی وہ کھڑا ہو سکتا تھا اور نہ ہی چل سکتا تھا۔ کلانچے پاؤں اور ہاتھوں کو جکڑنے کے لیے استعمال ہوتے تھے۔ کلانچے بھی لکڑی سے بنا ڈھانچہ رکھتے تھے جس میں پاؤں اور ہاتھوں کے لیے سوراخ بنائے گئے ہوتے تھے۔

قدیم مصر میں چمڑے کی ہتھکڑی

قدیم مصر نے اسی دور میں ‘شیکلز’ کی ایجاد کی، جسکو بعد میں بیڑیاں بنا کر استعمال کیا گیا۔ شیکلز لوہے سے بنا U شیپ کا ڈھانچہ ہوتا تھا، جس کے دونوں سِروں پر سوراخ ہوتے تھے۔ شیکلز ہاتھوں پر پہنا کر ان سِروں سے ایک اسکریو یا سَنگّل گزار کر لاک کر دیا جاتا تھا۔

قدیم مصر میں اس سے قبل چمڑے سے ہتھکڑی بنائی گئی تھی۔ چمڑے کی ہتھکڑی آنکھ جیسا ڈھانچہ رکھتی تھی، جس کے درمیان سے ہاتھوں کو ‘کراس’ کرکے گزارا جاتا تھا اور ایک سِرے سے گردن میں باندھ دیا جاتا تھا۔

ہتھکڑیوں اور بیڑیوں میں اب تک کی جدت اور ان کا استعمال بتا رہا ہے کہ انسانی سوچ نے تکبر، اَنا، لالچ، ظلم اور بے شرمی کی بیڑیاں اور ہتھکڑیاں پہن لیں تھیں۔ انسانوں کو غلام بنانے اور ان کی خرید و فروخت کرنے کی تحریر شدہ نشانیاں نیولیتھک دور سے ملتی ہیں۔ یہ 11,000 سال پرانا وہ وقت تھا جب زرعی انقلاب برپا ہوچکا تھا۔ مالی اعتبار سے طاقتور یا پھر آبادی کے حوالے سے بڑے قبائل چھوٹے اور غریب قبائل کے لوگوں کو غلام بناتے اور ان سے زرعی کام کرواتے۔

تاریخ کے اوراق پر ایک جملہ لکھا نظر آتا ہے ‘معاشی سرپلس اور کثیر آبادی وہ عوامل تھے جنہوں نے بڑے پیمانے پر غلامی کو قابل عمل بنایا’۔ غلامی کے آثار قدیم تہذیبوں میں تاریخی چشمے سے واضح دکھائی دیتے ہیں، جن میں قدیم مصر، قدیم چین، اَکّدی سلطنت، آشوریہ، بابل، فارس، قدیم اسرائیل، قدیم یونان، قدیم ہندوستان، رومن سلطنت، عرب اسلامی خلافتیں اور سلطنتیں، نوبیا، ذیلی صحارائی افریقہ کی نوآبادیاتی دور سے پہلے کی سلطنتیں، اور امریکا کی نوآبادیاتی دور سے پہلے کی تہذیبیں شامل ہیں۔

قدیم چین میں لکڑی کا طوق

قدیم غلامی میں قرض کی غلامی، جرم کی سزا، جنگی قیدی، بچوں کو ترک کرنا اور غلاموں کے ہاں پیدا ہونے والے بچے شامل تھے۔ کسی بھی لین دین میں گارنٹی کے طور پر انسانوں کی غلامی رکھی جاتی تھی۔

ہتھکڑی آج جس صورت میں ہمیں نظر آتی ہے، اس کی بنیاد 1862 سے ملتی ہے۔ ڈبلیو وی ایڈمز نے 1862 میں پہلی ایڈجسٹ ایبل ریچیٹ ہتھکڑی کو متعارف کیا۔ یہ ہتھکڑی کلائی کے حساب سے ایڈجسٹ کی جا سکتی تھی۔ آج استعمال ہونے والی ہتھکڑی کا ڈھانچہ اسی ریچیٹ ہتھکڑی کے مطابق بنایا گیا ہے۔

بنیادی طور پر اس ڈھانچے میں ایک گراری کا استعمال کیا گیا تھا، جس کے ذریعے ہتھکڑی کو کلائی کے حساب سے ایڈجسٹ کرنا ممکن ہوا۔ 1800 عیسوی کے آخری حصے میں ‘ڈاربے ہتھکڑی’ متعارف ہوئی، جس میں اسکریو چابی کی خصوصیت شامل کی گئی۔

 1912 میں جارج اے کارنی نے ‘سونگ تھرو ہینڈکف’ کا نیا ڈیزائن متعارف کیا۔ اس ڈیزائن میں ہتھکڑی کا ایک حصہ کلائی کے گرد گھومتا تھا اور کلائی کے برابر آتے ہی خود لاک ہو جاتا تھا۔ اس ڈیزائن کی بنیادی انجنیئرنگ ریچیٹ ہتھکڑی والی ہی تھی مگر اس میں مزید جدت اور نئی خصوصیات شامل کرکے مزید محفوظ بنا دیا گیا۔

آج جو ہتھکڑی استعمال ہوتی ہے وہ اسی ماڈل یا ڈیزائن کے مطابق ہے۔ 1900 عیسوی میں ‘ڈبل کی’ کا فیچر شامل کیا گیا اور دونوں ہاتھوں کی ہتھکڑیوں کے درمیان زنجیر کا فاصلہ کم کر کے 2 رنگز کر دیا گیا۔

 1980 میں پلاسٹک کی ہتھکڑی یا زِپ ٹائی متعارف ہوئی۔ اس کو ڈسپوزیبل ہتھکڑی بھی کہا جاتا ہے۔ اس ہتھکڑی کو بنانے کا بنیادی مقصد بڑی تعداد میں لوگوں کو گرفتار کرنا ممکن اور آسان بنانا تھا۔ بیسویں صدی میں متعارف ہونے والی اسٹین لیس اسٹیل کی ہتھکڑیاں اتنی تعداد میں موجود نہیں ہوتی تھیں کہ ایک بڑے گروہ یا جتھے کو گرفتار کرنے کے لیے ہتھکڑیاں پہنائی جاسکیں۔

انسانی معاشرے نے انسانوں کو قابو اور گرفت میں کرنے کے نت نئے طریقے اور آلات متعارف کروائے، مگر انسان نے نہ ہی جرم سے پچنا سیکھا، نہ تکبر کی رو میں بہنے سے بچا، نہ ظلم کے پہاڑ گرانے سے تھکا اور نہ ہی رحم دلی کا پودا سرسبز رہا۔ انسان نے ایڈوینچر کے لیے نت نئے جرائم سیکھے، اور انہیں جرائم پہ قابو پانے کے لیے ریاست نے ہھتکڑی یا قید و بند کا موثر نظام بنایا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

شاہزیب نجی

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: دیا جاتا تھا انسانوں کو ہونے والی نے کے لیے تاریخ کے قدیم چین کلائی کے ہوتا تھا کرنے کے کو قابو اور ان

پڑھیں:

کھانسی کے سیرپ کا استعمال ، عوام کو خبردار کردیا گیا

صفدرآباد (نیوز ڈیسک) پاکستان میں کھانسی کے علاج کے لیے استعمال ہونے والے ایک مشتبہ جعلی سیرپ کا انکشاف ہوا ہے، جس کے استعمال سے صحت کے سنگین خطرات پیدا ہو سکتے ہیں۔

پنجاب کے ضلع شیخوپورہ کی تحصیل صفدرآباد میں سعید نگر میں سیکیورٹی اداروں اور پولیس نے مشترکہ آپریشن کیا، جس میں جعلی شربت بنانے والی فیکٹری پکڑی گئی۔

مشترکہ آپریشن کے دوران جعلی سیرپ کی 25ہزاربوتلیں، مضرصحت خام مال شربت کے 6 ڈرم برآمد کرلیے۔

پولیس کا کہنا تھا کہ ملزم اسلم نے گھر میں فیکٹری کھول رکھی تھی تاہم موقع سے فرار ہوگیا ہے، ملزم اسلم جعلی سیرپ مقامی میڈیکل اسٹور پر فروخت کرتا تھا۔
حکام نے فوری تحقیقات کا آغاز کرتے ہوئے عوام کو مستند فارمیسیز سے دوا خریدنے کی تاکید کی ہے۔

یاد رہے گذشتہ سال کھانسی کے دو سیرپ کو مضر صحت قرار دیا گیا تھا، ٹوزن ڈی سسپنشن اور ارپس پاؤڈر کا ایک بیچ غیر معیاری ہے.

میٹروان سیرپ اور این ول انجکشن کا ایک بیچ غیر معیاری قرار دیا گیا جبکہ ٹوراکس اور زونڈ سیرپ کے سات بیچز مضر صحت قراردیئے گئے۔

اس سے قبل رواں ماہ پشاور کی فارماسیوٹیکل کمپنی کے کھانسی کے شربت میں زہریلے اجزا کا انکشاف ہوا تھا، جس کے بعد ڈریپ نے ایم کے بی نامی کمپنی کے تمام سیرپ واپس منگوا لیے ہیں۔
مزیدپڑھیں:گاڑی مالکان کے لیے اہم خبر آگئی

متعلقہ مضامین

  • کھانسی کے سیرپ کا استعمال ، عوام کو خبردار کردیا گیا
  • ریاست اور مذہب کو عوام سے بچاؤ
  • پختون کلچر کا آلہ موسیقی کہاں بنتا ہے، کیسے بنتا ہے اس کے شائقین کون ہیں؟
  • جنگلی ڈرائی فروٹ جو صرف بلوچستان میں کھایا جاتا ہے
  • زیتون
  • عمران نیب کے کالے قانون کا شکار ہوئے،  این آر او دیتے تو آج انہیں بھی مل جاتا، شاہد خاقان
  • کمالیہ میں وسیع پیمانے پر سرسوں کی فصل کاشت
  • قانون ایک لیکن ہرکیس کی نوعیت مختلف ہوتی ہے:جسٹس اطہر من اللہ
  • معاشی کامیابیاں اور کچھ رکاوٹیں