ریاست اور مذہب کو عوام سے بچاؤ
اشاعت کی تاریخ: 20th, January 2025 GMT
دنیا بڑی عجیب رنگوں سے سجی ہے، وقت کی نشیبی کا عالم یہ ہے جہاں مذہب نے ریاست کو استعمال کیا، وہیں وقت کی چکی نے چکر کاٹا تو ریاست نے مذہب کا استعمال کرنا شروع کردیا۔ دنیا کا ہر بادشاہ تلوار لے کر میدان عمل میں اترا اور امن کا خواہاں رہا، لیکن امن قائم نہ ہوسکا۔ مذہب کا استعمال ریاستوں نے کوٹ کوٹ کرکیا اور دنیا پر حکمرانیاں کرتے رہے، لیکن وہی مذہب اب عوام کے ہتھے چڑھ گیا ہے، اور اب ریاستیں اور مذاہب بے بس ہوگئے ہیں۔
3ادوار میں ان کی تقسیم کرتے ہیں، پہلا مذہب نے ریاست کا استعمال کیا، دوسرا ریاست نے مذہب کا استعمال کیا، اور تیسرا ریاست اور مذہب کی علیحدگی پر عوام نے مذہب کا استعمال کرنا شروع کیا۔
پہلے دور میں مذہب ریاست کو کنٹرول کرتا رہا ہے، یورپ میں کیتھولک چرچ نے بادشاہوں پر اپنی مرضی مسلط کی۔ بادشاہوں کو چرچ کی منظوری کے بغیر حکمرانی کی قانونی حیثیت نہیں ملتی تھی، اسلامی تاریخ میں کئی ریاستیں فقہ اسلامی کے اصولوں کے مطابق حکومت کرتی تھیں۔ چرچ نے یورپی بادشاہوں کو مسلمانوں کے خلاف صلیبی جنگوں میں شرکت پر اُکسایا، جس سے سیاسی اور مذہبی مفادات کو بیک وقت حاصل کیا گیا۔ مذہب نے کئی بار جہاد کو جنگی جواز کے طور پر استعمال کیا۔
اسپین میں مذہبی عدالتوں کے ذریعے چرچ نے اپنے نظریات کے خلاف لوگوں کو سزائیں دی، مذہب نے ریاستی تعلیمی نظام کو متاثر کیا، اسلامی مدارس اور عیسائی مشنری اسکولز جو مذہبی تعلیم کو ریاستی پالیسیوں کے مطابق ڈھالتے رہے ہیں۔
دوسرا دور جہاں ریاستیں مذہب کا استعمال کرتی رہی ہیں۔ قدیم دور میں بادشاہ کو خدا کا نمائندہ سمجھا جاتا تھا، شہنشاہوں کو الہامی حیثیت دی گئی اور عیسائیت کو چوتھی صدی میں ریاستی مذہب کے طور پر اپنایا گیا۔ کیتھولک چرچ اور بادشاہوں کے اتحاد نے مذہب کو سیاست کا مرکز بنایا۔ صلیبی جنگیں مذہبی بنیادوں پر شروع کی گئیں۔ اموی، عباسی اور عثمانی ریاستوں نے مذہب کو اپنے سیاسی اقتدار کو تقویت دینے کے لیے استعمال کیا۔
ہندوستان میں برطانوی حکومت نے مذہبی تقسیم کو بڑھاوا دیا، تا کہ عوام کو قابو میں رکھا جا سکے۔ سرکاری مشینری اسکولوں اور چرچز کو مقامی لوگوں کی تعلیم اور سیاست پر اثر ڈالنے کے لیے استعمال ہوتی رہی۔ ایران، پاکستان اور امریکا میں کئی صدارتی انتخابات میں مذہب ایک اہم سیاسی مسئلہ رہا ہے۔
تیسرا اور موجودہ دور جس میں عوام مذہب کا استعمال کر رہی ہے، برطانوی حکمرانی کے خلاف مسلمانوں اور ہندوؤں نے مذہبی بنیادوں پر مزاحمت کی۔ ایران کی عوام نے شاہ کے خلاف مذہب کو بطور سیاسی ہتھیار استعمال کیا اور مذہبی قیادت کے تحت ایک تھیوکریٹک حکومت قائم کی۔
مصر کی اخوان المسلمین جیسی کئی تنظیموں نے اپنی حکومت کے خلاف احتجاج میں مذہبی دلائل استعمال کیے، سویت یونین کے دور میں مذہبی گروہوں نے کمیونسٹ حکومت کے الحادی نظریات کے خلاف مزاحمت کی، چین میں فالون گونگ نے حکومتی جبر کے خلاف اپنی مذہبی شناخت کو احتجاج کے لیے استعمال کیا، تحریک طالبان اور القاعدہ نے مذہب کو استعمال کرتے ہوئے نہ صرف ریاستوں کے خلاف بلکہ عالمی سطح پر ریاستی نظام کو چیلنج کیا، داعش نے خلافت کے قیام کے لیے مختلف ریاستوں کے خلاف مذہبی نظریات کا سہارا لیا۔
ان تینوں اداور میں سے موجودہ دور بہت کریٹیکل ہے، کیونکہ اس میں ہر عام و خاص بندہ مذہب کو بطور ہتھیار استعمال کر رہا ہے، کاروباری بندہ بسم اللہ پڑھ کر سودے بازی میں 2نمبری کر رہا ہے، مذہبی آدمی اپنے ہر مفاد میں مذہب کو بیچ میں لاتا ہے، ہارنے والا شخص اپنی شکست کو چھپانے کے لیے مذہب کا استعمال کر رہا ہے، نکما آدمی محنت کرنے کے بجائے مذہبی آزمائش کا سہارا لے رہا ہے، پڑھانے والا استاد مذہبی ادب کے نام پر ڈنڈی مار رہا ہے۔
صحافی بھولی عوام کی سائیکی کو سمجھ کر بسم اللہ پڑھ کر جھوٹ بول رہا ہے، جج بسم اللہ کے آغاز کے ساتھ بےانصافی کر رہا ہے، بیوروکریٹس نوکری میں ڈنڈی مارتا ہے، جرنیل جہاد کا ٹچ دے کر اپنا مفاد نکال رہا ہے، ڈاکٹر شفاء اللہ دے گا کے نام سے عوام کو لوٹ رہا ہے، وکیل حق گوئی کا نعرہ بلند کرتے ہوئے قاتل و ظالم کو بچا رہا ہے، عام آدمی اپنے ناجائز کام کو مذہب کے ساتھ جائز کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
مزدور محنت کے نام پر چوری چکاری میں مگن ہے، عورت حقوق کے نام پر مرد کو بلیک میل کر رہی ہے، سیاست دان عوام کو اپنے مفاد میں قرآنی آیات سنا رہے ہیں۔ الغرض دنیا کا کوئی شعبہ ایسا نہیں بچا جس میں انسان مذہبی استعمال کو پیش نہیں کر رہا۔ ایسے لاکھوں کروڑوں واقعات موجود ہیں، یہ مسئلہ صرف پاکستان کا نہیں ہے، بلکہ دنیا کا ہر ملک اس کا شکار ہے۔ پاکستان کرکٹ ٹیم میچ ہار گئی، رضوان نے امریکا میں سڑک پر نماز پڑھنا شروع کردی، عوام ہار ہوئی کرکٹ بھول گئی اور سڑک کنارے نماز پڑھنے کے پیچھے لگ گئی۔
عمران خان کی حکومت گئی تو اقتدار کی جنگ کے لیے اسلامک ٹچ شروع کردیا، مسئلہ دنیا کے کسی کونے میں پیش آئے، جماعت اسلامی و تحریک لبیک دھرنے کے لیے دوڑ پڑتی ہیں، مسلم لیگ مشکل وقت میں مدارس میں فنڈنگ شروع کردیتی ہے، جس دن اسحاق ڈار کی پیشی ہوتی ہے وہ کسی مزار پر حاضری کے لیے پیش ہوجاتے ہیں، سوشل میڈیا پر حکومتی کنٹرول ختم ہوا تو حکومت نے وی پی این کو غیر شرعی قرار دے دیا۔
ہر قسم کا کارڈ ہر بندہ کھیلنے میں لگا ہوا ہے، عمران خان کی جیل میں رہائی نہیں ہو رہی تھی، اس کی بیوی میدان میں آئی اور کہا کہ عمران خان کو مسجد نبوی میں ننگے پاؤں چلنے پر سزا دی گئی ہے، جج 190ملین پاونڈ کے بارے میں پوچھتا ہے، جواب آتا ہے ہمیں آپ کے انصاف پر بھروسہ نہیں، اللہ انصاف کرے گا۔
ذاتی جنگ میں لوگوں کو جلا کر کہتے ہیں گستاخ رسول تھا۔ ہم امن چاہتے لیکن بندوق ہمارے ساتھ ہوگی، ریاستی آرمی کو مارنا ہمارا فرض ہے، جنگ کے ماحو ل میں اسلام آباد میں ایک شخص کو نماز کے لیے مسجد نہیں ملی وہ احتجاج روکنے کے لیے رکھے گئے کنٹینرز پرچڑھ کر نماز پڑھنا شروع ہوگیا۔ یہ سب سے مشکل دور ہے اس دور میں امن قائم کرنا محال ہے۔
ریاستوں سے نوجوان قابو نہیں ہو رہے، مذہبی استعمال اس قدر زیادہ ہے حلال و حرام کی تمیز ہی نہیں رہی ریاستیں اس مذہب کے استعمال کو نہ روک سکیں تو پھر اس کے ثمرات بہت بھیانک ہوں گے اور شعور کے بجائے جہالت کا بازار گرم ہوگا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
فرحان ملک ریاست عوام مذہب.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ریاست عوام مذہب کا استعمال کر استعمال کیا کر رہا ہے اور مذہب کے خلاف مذہب کو کے نام کے لیے
پڑھیں:
نوجوان روزگار نہ ملنے پر ’’بھیانک سفر‘‘ کا فیصلہ کرتے ہیں، ریاست مواقع فراہم کرے: فضل الرحمن
اسلام آباد (آئی ا ین پی) جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے نوجوان روزگار نہ ملنے پر بھیانک سفر کا فیصلہ کرتے ہیں۔ جے یو آئی سربراہ مولانا فضل الرحمان نے سپین جانے والے تارکین وطن کی کشتی کو حادثہ پر ردعمل میں کہا اس قسم کے حادثات میں مسلسل اضافہ تشویشناک ہے۔ نوجوان اپنے ملک میں مناسب روزگار کے مواقع میسر نہ ہونے پر اتنے بھیانک سفر کا فیصلہ کرتے ہیں۔ انسانی سمگلنگ کرنے والے عناصر کا سخت احتساب کیا جائے۔ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کے لیے روزگار کے مواقع فراہم کرے تاکہ عوام کو ایسے جان لیوا فیصلوں کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ متاثرہ خاندانوں کو لاشوں کی وطن واپسی سمیت درست معلومات فراہم کی جائیں۔ دعا ہے کہ اللہ کریم کشتی حادثہ میں جاں بحق ہونے والے پاکستانیوں کی مغفرت فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔