Jang News:
2025-01-20@10:37:23 GMT

آئینی اور ریگولر بینچز کے اختیارات کا کیس مقرر نہ ہو سکا

اشاعت کی تاریخ: 20th, January 2025 GMT

آئینی اور ریگولر بینچز کے اختیارات کا کیس مقرر نہ ہو سکا

  —فائل فوٹو

سپریم کورٹ کے آئینی اور ریگولر بینچز کے اختیارات کے کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے ایڈیشنل جوڈیشل رجسٹرار نذر عباس کو توہینِ عدالت کا نوٹس جاری کر دیا۔

عدالت نے حکم نامے میں کہا ہے کہ 16 جنوری کو عدالت نے ہدایت کی تھی کہ 20 جنوری کو ایک بجے کیس مقرر کیا جائے، ہم نے حکم نامے میں کہا تھا کہ اسی بینچ کے سامنے کیس سماعت کے لیے مقرر کیا جائے، مگر آج کیس کی کاز لسٹ جاری نہیں کی گئی۔

ایڈیشنل رجسٹرار خرابیٔ صحت کے باعث آج عدالت نہیں آئے۔

سپریم کورٹ آفس نے بتایا کہ ججز کمیٹی نے مذکورہ کیس 27 جنوری کو آئینی بینچ میں مقرر کیا ہے، ججز کمیٹی کے جس اجلاس میں یہ فیصلہ ہوا اس کے تاحال میٹنگ منٹس موصول نہیں ہوئے۔

حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ 16 جنوری کے جوڈیشل آرڈر کی موجودگی میں عدالتی حکم کو نظر انداز کیسے کیا جا سکتا ہے؟ یہ بھی بتایا گیا کہ اس بینچ کے سامنے ٹیکس سے متعلق تمام مقدمات بھی منسوخ کر دیے گئے۔

جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ کیا اب ایک ریسرچ افسر طے کرے گا کہ کون سے مقدمات آئینی بینچ میں جائیں گے؟ ججز کمیٹی نے جوڈیشل آرڈر کو نظر انداز کیا۔

سپریم کورٹ آئینی بینچ کی نظر ثانی شدہ کاز لسٹ آگئی

سپریم کورٹ آف پاکستان (ایس سی پی) نے آئینی بینچ کی نظر ثانی شدہ کاز لسٹ جاری کردی۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ یہ کیس انتظامی کمیٹی کے پاس چلا گیا، اگر جسٹس عرفان سعادت مصروف ہیں تو کوئی اور صاحب بینچ میں آ جائیں، کمیٹی کے پاس ایسا کوئی اختیار نہیں ہے کہ وہ کیس ہی نہ لگائے۔

جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ کمیٹی کے پاس ایسا کوئی اختیار نہیں کہ وہ کیس ہی ٹرانسفر کر دے، 26 ویں ترمیم کے تحت یہ بینچ آئینی بینچ میں جائے گا، یہ بحث ہماری عدالت میں بھی ہو سکتی تھی۔

بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ ایک صحافیوں والا کیس بھی ہوا تھا جس پر ازخود نوٹس لیا گیا تھا، ازخود نوٹس پر طے ہوا تھا کہ کوئی بینچ چیف جسٹس کو معاملہ بھیجتا ہے تو وہی اسے دیکھیں گے۔

جسٹس عائشہ نے کہا کہ مجھے سمجھ نہیں آ رہی دو یا تین ذہنوں کے مقابلے میں ایک چیف جسٹس کیسے بہتر ہو سکتے ہیں؟

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ یہ کیس ہماری عدالت میں رکھنے کے علاوہ کسی دوسری عدالت میں بھی نہیں رکھا گیا، یہ تو پورا کیس ہی غائب کر دیا گیا۔

عدالت نے آئینی اور ریگولر بینچز کے اختیارات سے متعلق کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی۔

سپریم کورٹ نے ہدایت کی ہے کہ ایڈیشنل رجسٹرار جوڈیشل ذاتی حیثیت میں پیش ہو کر وضاحت دیں، کیس کی سماعت کل ساڑھے 9 بجے پہلے نمبر پر کریں گے۔

.

ذریعہ: Jang News

پڑھیں:

عدالت نے 9 مئی جرم پر کلین چیٹ نہیں دی ،سوال یہ ہے ٹرائل کہاں ہوگا؟ آئینی بینچ

اسلام آباد ( آن لائن)سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ 9 مئی کا جرم تو ہوا ہے، عدالتی فیصلے میں 9 مئی جرم پر کلین چٹ نہیں دی گئی، سوال ٹرائل کا ہے کہ ٹرائل کہاں پر ہوگا۔ 21ویں ترمیم کے بغیر دہشت گردوں کے خلاف ملٹری ٹرائل نہیں ہو سکتا تھا۔ پارلیمنٹ پر حملہ ہوا تو ملٹری ٹرائل کیوں نہ ہوا، پارلیمنٹ سب سے سپریم ہے‘ کیا پارلیمنٹ خود پر حملے کو توہین نہیں سمجھتی؟۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ جرائم قانون کی کتاب میں لکھے ہیں، اگر جرم آرمی ایکٹ میں فٹ ہوگا تو ٹرائل ملٹری کورٹ میں ہوگا۔9 مئی واقعات کے ملزمان کو ملٹری ٹرائل میں سزا پر اپیل کا حق دینے سے حکومت نے انکار کیا۔ جسٹس امین الدین کی سربراہی میں جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس شاہد بلال حسن پر مشتمل سپریم کورٹ کے7 رکنی آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کی۔وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل پیش کرتے ہوئے کہا کہ آرمی ایکٹ اور رولز میں فیئر ٹرائل کا مکمل پروسیجر فراہم کیا گیا ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے ان سے پوچھا کہ جسٹس منیب، جسٹس عائشہ اور جسٹس آفریدی کے الگ الگ فیصلے ہیں، آپ ملٹری ٹرائل کے کس فیصلے سے اتفاق کرتے ہیں، جس پر خواجہ حارث نے جواب دیا کہ میں کسی فیصلے کے ساتھ اتفاق نہیں کرتا۔خواجہ حارث نے کہا کہ جسٹس عائشہ ملک نے سیکشن 2 ون ڈی ون کو فئیر ٹرائل کے منافی قرار دیا، جسٹس یحییٰ آفریدی نے قانونی سیکشنز پر رائے نہیں دی، جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ قانونی سیکشنز پر لارجر بینچز کے فیصلوں کا پابند ہوں۔جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ 21 ویں ترمیم میں فیصلہ کی اکثرت کیا تھی، جس پر وزارت دفاع کے وکیل نے کہا کہ اکثریت 9 ججز سے بنی تھی،21 ویں ترمیم کا اکثریتی فیصلہ 8 ججز کا ہے، 21 ویں ترمیم کو اکثریت ججز نے اپنے اپنے انداز سے ترمیم کو برقرار رکھا۔جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ 21 ویں ترمیم کو 8 سے زیادہ ججز نے درست قرار دیا، خواجہ حارث نے کہا کہ خصوصی ٹرائل سے متعلق سپریم کورٹ کا لیاقت حسین کیس کا فیصلہ 9 ججز کا ہے، لیاقت حسین کیس میں ایف بی علی کیس کی توثیق ہوئی۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ 21 ویں ترمیم کیس میں اکثریت ججز نے ایف بی علی کیس کو تسلیم کیا ہے۔ وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ کسی جج نے نہیں کہا کہ ایف بی علی فیصلہ کا جوڈیشل ریویو ہونا چاہیے، احتجاج اور حملہ میں فرق ہے۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ فیصلے میں اٹارنی جنرل کے حوالے سے لکھا ہے کہ کیس کو 9 مئی کے تناظر میں دیکھا جائے۔جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ 21 جولائی 2023 کے آرڈر میں صرف 9 مئی کی بات کی گئی ہے۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ 9 مئی واقعات کے ملزمان کو ملٹری ٹرائل میں سزا پر اپیل کا حق دینے سے حکومت نے انکار کیا۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ 21ویں آئینی ترمیم میں کہا گیا کہ سیاسی جماعتوں کے مقدمات فوجی عدالت میں نہیں چلیں گے۔خواجہ حارث نے اپنے دلائل میں مزید کہا کہ سیاسی سرگرمی کی ایک حد ہوتی ہے، ریاستی املاک پر حملہ کرکے ریاست کی سیکورٹی توڑنا سیاسی سرگرمی نہیں۔جسٹس اظہر حسن رضوی نے ریمارکس دیے کہ پولیس اہلکار کی وردی پھاڑنا جرم ہے، یہاں کور کمانڈر لاہور کا گھر جلایا گیا، ایک دن ایک ہی وقت مختلف جگہوں پر حملے ہوئے، عسکری کیمپ آفسز پر حملے ہوئے، پشاور میں ریڈیو پاکستان کی عمارت کو جلایا گیا، ماضی میں لوگ شراب خانوں یا گورنر ہاؤس پر احتجاج کرتے تھے، پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ مختلف شہروں میں ایک ہی وقت حملے ہوئے، جرم سے انکار نہیں ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ یہ تو عجیب بات ہے، پہلے کہا گیا آرمی ایکٹ کی شقوں پر بات نہ کریں، پھر شقوں کو کالعدم بھی قرار دے دیا گیا۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایڈووکیٹ فیصل صدیقی نے تو عدالت میں کھڑے ہو کر کہا تھا ہم نے آرمی ایکٹ کی شقوں کو چیلنج ہی نہیں کیا۔جسٹس محمد علی مظہر نے ویڈیو لنک پر موجود ایڈووکیٹ فیصل صدیقی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ نے یہ بات سن لی ہے، جس پر ایڈووکیٹ فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ جی میں نے کہا تھا کیس کو آرمی ایکٹ کے بجائے آئین کے تحت دیکھا جائے، 9 مئی واقعات کے خلاف دیگر درخواستیں دائر کی گئیں جن میں آرمی ایکٹ کی شقوں کو چیلنج کیا گیا تھا۔ عدالت نے بعدازاں سماعت پیر تک کے لیے ملتوی کردی۔

متعلقہ مضامین

  • بنچز کے اختیارات کا کیس مقرر نہ ہونے کا معاملہ،جسٹس منصور علی شاہ نے ایڈیشنل رجسٹرار کو ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا
  • ججز کمیٹی کا ممبر ہوں لیکن مجھے بھی اجلاس کا پتا نہیں چلا، جسٹس منصور
  • میں کمیٹی کا ممبر ،مجھے بھی ججز کمیٹی اجلاس کا نہیں پتہ:جسٹس منصور علی شاہ
  • بنچز کے اختیارات کا کیس مقرر نہ ہونے کا معاملہ، ایڈیشنل رجسٹرار کو شوکاز نوٹس
  • ججز کمیٹی کا ممبر ہونے کے باوجود مجھے کمیٹی کے اجلاس کا نہیں بتایاگیا، جسٹس منصور علی شاہ
  • ججز کمیٹی کا رکن ہوں مگر مجھے علم ہی نہیں آئینی ترمیم کیس کی سماعت مقرر کردی گئی ہے، جسٹس منصور
  • سپریم کورٹ آئینی بینچ میں اہم مقدمات سماعت کیلئے مقرر
  • عدالت نے 9 مئی جرم پر کلین چیٹ نہیں دی ،سوال یہ ہے ٹرائل کہاں ہوگا؟ آئینی بینچ
  • عدالت نے 9 مئی جرم پر کلین چیٹ نہیں دی، سوال یہ ہے کہ ٹرائل کہاں ہوگا؟ آئینی بینچ