فارم 45 اور 47 میں اگر فرق ہے تو کوئی ایک صحیح ہوگا، انکوائری کرنا ہوگی، سپریم کورٹ
اشاعت کی تاریخ: 20th, January 2025 GMT
سپریم کورٹ میں آئینی بینچ کے رکن جسٹس جمال مندوخیل نے کہا ہے کہ فارم 45 یا 47 دونوں میں اگر فرق ہے تو کوئی ایک صحیح ہوگا، فارم کو جانچنے کے لیے پوری انکوائری کرنا ہوگی۔
جسٹس جمال مندوخیل نے یہ ریمارکس بانی پی ٹی آئی عمران خان کی جانب سے دائر کردہ انتخابی دھاندلی کے خلاف درخواست پر سماعت کے دوران دیے۔ عدالت نے بانی پی ٹی آئی کے وکیل کو رجسٹرار آفس کے اعتراضات پر تیاری کے لیے وقت دیتے ہوئے کیس کی سماعت غیرمعینہ مدت تک ملتوی کردی دی۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 6 رکنی آئینی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔عمران کے وکیل حامد خان عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ آرٹیکل 184(3) میں دائرہ اختیار دیا گیا ہے یا نہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے حامد خان سے کہا کہ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ الیکشن کمیشن جانبدار ہے تو متعلقہ فارم پر جانا چاہیے تھا، ہر امیدوار کے نوٹیفکیشن کے لیے عدالت کو آپ کو بتانا ہو گا، فارم 45 یا 47 دونوں میں اگر فرق ہے تو کوئی ایک صحیح ہوگا، فارم کو جانچنے کے لیے پوری انکوائری کرنا ہوگی۔
جسٹس محمد علی مظہر بولے کہ حامد صاحب آپ آئندہ سماعت پر تیاری کے ساتھ آئیں۔ وکیل حامد خان بولے کہ میں صرف اعتراضات دور کرنے آیا تھا، آپ میرٹ پر بات کررہے ہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا خیبرپختونخوا سے بلوچستان تک سارا الیکشن ہی غلط تھا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ہر حلقے کی علیحدگی انکوائری ہوگی، ہر امیدوار اپنے حلقہ کے الزامات کا بتائے گا، پہلے بھی انتخابات دھاندلی کا ایشو اٹھا تھا، انکوائری کے لیے آرڈیننس لانا پڑا تھا، کارروائی کا اختیار ہمارے پاس نہیں تھا اس لیے آرڈیننس بنانا پڑا، 184 کے تحت دائرہ اختیار عدالت کا نہیں ہے۔
بانی پی ٹی آئی عمران خان کے وکیل حامد خان نے کہا کہ یہ اس عدالت کی کمزوری ہے کہ ابھی تک ازخود نوٹس نہیں لے سکی۔ جسٹس جمال مندوخیل نے حامد خان کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ آپ سینیئر وکیل ہیں الفاظ کا چناؤ دیکھ کر کریں۔
جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ اعتراضات آپ کی استدعا کو دیکھ کر ہی ختم کریں گے۔ حامد خان نے کہا کہ جو 8 فروری کو ہوا تھا ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل بولے کہ معاملے پر ڈپٹی اسپیکر نے بھی ایک کمیٹی بنائی ہے، جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ہمارا اس کمیٹی سے کوئی سروکار نہیں۔
بعدازاں، عدالت نے عمران خان کے وکیل حامد خان کو مزید تیاری کے لیے مہلت دیتے ہوئے کیس کی سماعت غیرمعینہ مدت کے لیے ملتوی کردی۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: جسٹس جمال مندوخیل نے وکیل حامد خان نے کہا کہ کے وکیل کے لیے
پڑھیں:
جسٹس علی باقر نجفی کو سپریم کورٹ میں جج تعینات کرنے کی منظوری دے دی گئی
جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں جسٹس علی باقر نجفی کو سپریم کورٹ میں جج تعینات کرنے کی منظوری دے دی گئی جبکہ لاہور ہائیکورٹ کے 2 ججز سے متعلق 2 جولائی 2024 کے ریمارکس حذف کیے گئے۔
چیف جسٹس پاکستان یحییٰ آفریدی کی زیر صدارت جوڈیشل کمیشن اجلاس ڈھائی گھنٹے تک جاری رہا جس میں سپریم کورٹ میں 2 ججز تعینات کرنے کے لیے غور کیا گیا جبکہ لاہور ہائیکورٹ کے 5 سینیئر ججز کے ناموں پر بھی غور ہوا، ان میں چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس عالیہ نیلم، جسٹس شجاعت علی خان، جسٹس عابد عزیز شیخ، جسٹس علی باقر نجفی اور جسٹس صداقت حسین شامل تھے۔
ذرائع نے بتایا کہ اجلاس میں خاص طور پر جسٹس علی باقر نجفی اور جسٹس صداقت حسین کے ناموں پر بھی سنجیدگی سے غور کیا گیا جبکہ جوڈیشل کمیشن نے لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس علی باقر نجفی کے نام کی منظوری دے دی، جسٹس علی باقر نجفی کی سپریم کورٹ میں تعیناتی کی منظوری اکثریت کی بنیاد پر کی گئی۔
ذرائع نے بتایا کہ اجلاس میں لاہور ہائیکورٹ کے لیے صرف ایک جج کے نام پر اکثریتی ووٹ سے فیصلہ ہوا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے 2 ممبران نے جسٹس علی باقر نجفی کی تقرری کی حمایت میں ووٹ دیا۔ذرائع کے مطابق جوڈیشل کمیشن نے جسٹس شجاعت علی خان سے متعلق ریمارکس حذف کرنے کی منظوری دے دی۔ پی ٹی آئی ممبران نے جسٹس شجاعت علی خان سے متعلق ریمارکس حذف کرنے بھی حمایت کی۔
ذرائع نے بتایا کہ قائم مقام چیف جسٹس کی جگہ جوڈیشل کمیشن کے نئے ممبران کے تقرر کا فیصلہ کیا گیا جبکہ اجلاس میں چار ریٹائرڈ ججز کو بطور رکن جوڈیشل کمیشن تعینات کرنےکی متفقہ طور پر منظوری دی گئی۔ذرائع کے مطابق جسٹس ریٹائرڈ مقبول باقر کو سندھ سے ممبر جوڈیشل کمیشن تعینات کر دیا گیا جبکہ بلوچستان ہائیکورٹ سے جسٹس ریٹائرڈ نذیر لانگو کو جوڈیشل کمیشن کا ممبر تعینات کرنے کی منظوری دی گئی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اسلام ہائیکورٹ سے جسٹس ریٹائرڈ شوکت عزیز صدیقی اور پشاور ہائیکورٹ سے جسٹس ریٹائرڈ شاکر اللہ جان ممبر جوڈیشل کمیشن تعینات کرنے کی منظوری دے دی گئی۔جوڈیشل کمیشن اجلاس کا اعلامیہ جاری کردیا گیا جس کے مطابق کثرت رائے سے جسٹس علی باقر نجفی کو سپریم کورٹ جج بنانے کی سفارش کی گئی جبکہ لاہور ہائیکورٹ کے 2 ججز سے متعلق 2 جولائی 2024 کے ریمارکس حذف کردیے گئے جبکہ ججز کا عوامی تاثر درست نہ ہونے کے ریمارکس کثرت رائے سے حذف کیے گئے۔