ممبئی : ٹرپتی ڈمری، جو فلموں “لیلا مجنوں” اور “اینمل” میں شاندار اداکاری کے لیے مشہور ہیں، حالیہ دنوں میں تنازعات کا شکار رہی ہیں۔

رپورٹس کے مطابق، انہیں فلم “عاشقی 3” سے مبینہ طور پر نکال دیا گیا، جس میں کارتک آریان مرکزی کردار ادا کر رہے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ ان کے “بولڈ سینز” اور مبینہ طور پر “معصومیت کی کمی” کے باعث یہ فیصلہ کیا گیا۔

تنقید کے باوجود، ٹرپتی نے اپنے انسٹاگرام اسٹوری کے ذریعے نفرت کا سامنا کرنے والوں کو کرارا جواب دیا۔

انہوں نے ایک ویڈیو شیئر کی، جس پر لکھا تھا: “کبھی کبھی لگتا ہے کہ دنیا میں صرف نفرت ہے، لیکن یہاں محبت کہیں زیادہ ہے جتنا آپ تصور کر سکتے ہیں۔”

دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ کبھی تصدیق نہیں ہوئی کہ ٹرپتی ڈمری فلم “عاشقی 3” کا حصہ تھیں۔ ہدایتکار انو راگ باسو نے ان افواہوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ انہیں فلم سے نکالنے کی خبروں میں کوئی صداقت نہیں۔

ٹرپتی ڈمری کے مداحوں نے ان پر ہونے والی تنقید کے خلاف ان کی بھرپور حمایت کی ہے۔ مداحوں کا کہنا ہے کہ یہ سب ایک منظم مہم کا حصہ لگتا ہے۔

ٹرپتی ڈمری کی حالیہ فلموں میں “بھول بھلیاں 3” شامل ہے، جس میں ان کے ساتھ کارتک آریان، ودیا بالن، اور مادھوری ڈکشٹ نے کام کیا۔ اس کے علاوہ، وہ “بیڈ نیوز” اور “وکی ودیا کا وہ والا ویڈیو” میں بھی نظر آئیں۔ ان کی آنے والی فلمیں “دھڑک 2” (سدھانت چترویدی کے ساتھ) اور “ارجن اُسترا” (شاہد کپور کے ساتھ) شامل ہیں۔

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: ٹرپتی ڈمری

پڑھیں:

ابوجہل کی یاد اور سورة کوثر کا تحفہ

مسجد نبوی میں بیٹھا تھا سرکار کریم کا روضہ اقدس سامنے تھا تو حیرت کی بات ہے مجھے ابو جہل کی یاد آ گئی ایسے ہی یاد آ گیا اور ویسے بھی کربلا کا ذکر ہو حسینؓ کی یاد آئے اور یزید لعنتی یاد نہ آئے ممکن نہیں۔ دنیا داری کی مثال ہی لے لیں وطن عزیز کی سیاست میں گریٹ بھٹو یاد آئے اور ضیا یاد نہ آئے ممکن نہیں، بہر حال یہ جملہ خواہ مخواہ آ گیا۔ آقا کریم کے در اقدس پر تھا ابو جہل یاد آ گیا۔ یہ 2012ءکی بات ہے میں نے سوچا کہ کتنا پریشان تھا، مکہ میں داخل ہونے والوں کو کتنا روکتا تھا۔ کبھی گڑھے کھودتا، کبھی گھر کا گھیراو¿ کرتا، کبھی سوشل بائیکاٹ کرتا، کبھی شعب ابی طالب (شعب بنو ہاشم) میں تین سال سے زائد عرصہ سرکار کے خاندان کو تنہائی کی قید میں رہنے پر مجبور کرتا، کبھی اونٹ کی اوجھڑی سجدے میں سرکار کے اوپر رکھوا دیتا، کبھی بلالؓ پر گلیوں میں تشدد کر کے ظلم کی تاریخ رقم کرتا، کبھی عمارؓ کی والدہ جناب حضرت سمیعہؓ اور خاندان کو عبرت بناتا، دن رات سرکار کے لیے ان کے ساتھیوں کے لیے مشکلات میں اضافے کا سوچتا اور عمل کرتا رہتا، یہاں تک کہ ہجرت کے دوران موذی، مدینہ کی طرف پیچھا کرتا ہوا آیا، بالآخرغزوہ بدر میں ہی اپنے انجام کو پہنچا۔ ابو جہل کی نجس اور پلید زندگی اس کی سرکار دشمن سازشیں آنکھوں میں گھوم گئیں۔ جب سرکار نے اس کو اس کے ساتھیوں سمیت ہلاکت کے بعد گڑھے میں پھینکا اور فرمایا کہ تم لوگ اپنے انجام کو پہنچے۔ اس پر حضرت عمرؓ بولے کہ وہ تو مردہ ہیں۔ میرے آقا نے فرمایا تم سے زیادہ سنتے ہیں۔ آقا کریم کی آواز تو دو جہاں سنتے ہیں، کیا مردے اور کیا زندہ۔ بہرحال ابو جہل کی یاد آئی تو میں نے سوچا کہ میں گوجرانوالہ میں پیدا ہونے والا باغبانپورہ میں، سیٹلائٹ ٹاو¿ن میں جوان ہونے والا کسٹم میں نوکری کرنے والا سکول کالج یونیورسٹیاں، امریکہ گھومنے والا پتا نہیں پیدا پہلے ہوا تھا یا سرکار کے در پر حاضری کی خواہش پہلے پیدا ہوئی تھی کیا ابو جہل تو روک سکا تیری ایسی کی تیسی …. کاش میں سرکار کے وقت میں روح وجود کا رشتہ اور زندگی پاتا پہلے تیرا سر قلم کرتا پھر مجھے سورة کوثر کی یاد آئی کہ سرکار نے جب یہ لوگوں تک پہنچائی ہو گی جب اس کو تلاوت بخشی ہو گی جب یہ سرکار کی زبان اقدس سے نکل کر آواز کی صورت فضاو¿ں کو معطر کرتی ہوئی لوگوں کے کانوں کو سنائی دی ہو گی تو ان حالات میں کون یقین کرتا، سوائے صحابہ اجمعینؓ کے کیونکہ کفار تو گھڑیاں گن رہے تھے سرکار دو جہاں سرکار کائنات کی زندگی کا خاتمہ چاہتے اور کوشاں بھی تھے۔ ایسے میں دشمن کو نامراد اور سرکار کو کوثر عطا ہونے کی بات ہوئی۔ اللہ اللہ۔ آج ابو جہل کے گھر بیت الخلا میں تبدیل ہوئے کوئی اس کی نسل میں سے ہونے کا دعویدار نہ بچا اور میرے سرکار کا خادم آقا کی ناقہ قصویٰ کے پاو¿ں کی مٹی جناب حاجی عنایت اللہ شہزادہ صاحب غلام زہرہ بی بی کا بیٹا گوجرانوالہ اور لاہور کا گناہ گار سرکار کے در پہ حاضر ہے اور مجھ جیسے کئی اور ان گنت ہیں جو خواہشیں لیے ہیں میری روح نے سوال کیا ابو جہل کدھر گئے تیرے ارادے، تیری سازشیں آصف تو ادھر بیٹھا ہے اور چودہ سو سال بعد اور قیامت تک کئی آصف آئیں گے اور سب یہاں آ کر سلام کرنے کی خواہش کریں گے۔
دراصل سرکار کے در پر عطا کے بے پناہ طریقے ہیں۔ ان عطاو¿ں میں مجھے سورة کوثر بھی نئے انداز سے عطا ہوئی جسے اس کے بعد میں اپنی کسی نہ کسی یا تقریباً اکثر نمازوں میں تلاوت کرتا ہوں اس دوران میری روح میرے وجود سے نکل کر مسجد نبوی ریاض الجنة یا باب جبریل کی طرف کھڑی ہو جایا کرتی ہے اور جب الم نشرح سورة کی تلاوت کرتا ہوں تو بھی قدمین شریف میرا مقدر ہوتے ہیں۔
ابو لہب کے لیے اس کے ہاتھ ٹوٹنے اور غرق ہونے کی نوید قرآن عظیم میں سنائی گئی اس کی بیوی کو بھی عبرت بنانے کی بات کی گئی مگر اس سے اتنا نہ ہو سکا کہ منافقین کی طرح ہی اسلام قبول کر کے سورة اللہب کو چیلنج ہی کر سکتا کہ لو اب میں نے اسلام قبول کر لیا۔ نعوذ باللہ …. کدھر گیا قرآن کیا ہوا جو سورة الہب میں نازل ہوا مگر کیسے ہوتا کون توفیق پا سکتا تھا۔ اسی طرح سورة الکوثر اس وقت تو لوگوں نے بکواس کی ہو گی جو میری سرکار کی جان کے در پے تھے کہ آج نہیں تو کل مگر نامراد رہے سب کے سب اور بامراد ہوئے میرے آقا جن کو کوثر عطا ہوئی جن کا ذکر بلند ہوا ایسا کہ سوچ، سیاہی اور تحریریں ختم ہو جائیں، الفاظ ختم ہو جائیں مگر ذکر کی بلندی ختم نہ ہو۔ اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے رہتے ہیں اور ان لوگوں کو جو ایمان لائے بھی حکم ہوا کہ تم بھی درود و سلام بھیجو اور خوب بھیجو سبحان اللہ سبحان اللہ۔ میں سوچتا حضرت حلیمہ سعدیہ کے نصیب کو انہوں نے تو پالا دیکھ بھال کی، مجھے تو طائف کے سفر میں زخمی سرکار کریم کو انگوروں کا خوشہ پیش کرنے والے عداس کی بہت یاد آئی کہ کیا نصیب پایا تم نے کس حالت میں میرے سرکار کی خدمت میں انگور پیش کیے تم نے۔

متعلقہ مضامین

  • عامر خان نے سلمان خان کیساتھ کبھی کام نہ کرنے کا عہد کیوں کیا؟
  • نیوگوادر انٹرنیشنل ایئرپورٹ کا افتتاح، کراچی سے جانے والی پہلی پرواز لینڈ کرگئی
  • کبریٰ خان کی شادی سے متعلق خبروں پر لب کشائی
  • حماس کی جانب سے رہا کی جانے والی تین اسرائیلی خواتین قیدی کون ہیں؟
  • عدالتی فیصلہ کے مثبت اثرات
  • خود کو کبھی سیلف میڈ نہ کہیں
  • کیا بھارتی وکٹ کیپر رشبھ پنت کو کپتانی دی جانے والی ہے؟
  • ابوجہل کی یاد اور سورة کوثر کا تحفہ
  • آذربائیجان کی دوطرفہ تجارتی سامان لے جانے والی رجسٹرڈ گاڑیوں کو پاکستان میں داخلے کی اجازت