عاشقی 3 سے نکالے جانے کی خبروں پر ٹرپتی ڈمری کی خاموشی ٹوٹ گئی
اشاعت کی تاریخ: 20th, January 2025 GMT
ممبئی : ٹرپتی ڈمری، جو فلموں “لیلا مجنوں” اور “اینمل” میں شاندار اداکاری کے لیے مشہور ہیں، حالیہ دنوں میں تنازعات کا شکار رہی ہیں۔
رپورٹس کے مطابق، انہیں فلم “عاشقی 3” سے مبینہ طور پر نکال دیا گیا، جس میں کارتک آریان مرکزی کردار ادا کر رہے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ ان کے “بولڈ سینز” اور مبینہ طور پر “معصومیت کی کمی” کے باعث یہ فیصلہ کیا گیا۔
تنقید کے باوجود، ٹرپتی نے اپنے انسٹاگرام اسٹوری کے ذریعے نفرت کا سامنا کرنے والوں کو کرارا جواب دیا۔
انہوں نے ایک ویڈیو شیئر کی، جس پر لکھا تھا: “کبھی کبھی لگتا ہے کہ دنیا میں صرف نفرت ہے، لیکن یہاں محبت کہیں زیادہ ہے جتنا آپ تصور کر سکتے ہیں۔”
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ کبھی تصدیق نہیں ہوئی کہ ٹرپتی ڈمری فلم “عاشقی 3” کا حصہ تھیں۔ ہدایتکار انو راگ باسو نے ان افواہوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ انہیں فلم سے نکالنے کی خبروں میں کوئی صداقت نہیں۔
ٹرپتی ڈمری کے مداحوں نے ان پر ہونے والی تنقید کے خلاف ان کی بھرپور حمایت کی ہے۔ مداحوں کا کہنا ہے کہ یہ سب ایک منظم مہم کا حصہ لگتا ہے۔
ٹرپتی ڈمری کی حالیہ فلموں میں “بھول بھلیاں 3” شامل ہے، جس میں ان کے ساتھ کارتک آریان، ودیا بالن، اور مادھوری ڈکشٹ نے کام کیا۔ اس کے علاوہ، وہ “بیڈ نیوز” اور “وکی ودیا کا وہ والا ویڈیو” میں بھی نظر آئیں۔ ان کی آنے والی فلمیں “دھڑک 2” (سدھانت چترویدی کے ساتھ) اور “ارجن اُسترا” (شاہد کپور کے ساتھ) شامل ہیں۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: ٹرپتی ڈمری
پڑھیں:
جھوٹی یاد داشتیں اور ان کا منفی اثر
یاد داشت ایک عجیب چیز ہے۔ کبھی کبھی ایسا لگتا ہے جیسے ماضی کی تصویریں ذہن میں صاف اور مکمل محفوظ ہیں، مگر پھرکوئی ایک لمحہ، ایک جملہ، ایک خوشبو سب کچھ بدل کر رکھ دیتی ہے۔کبھی کچھ یاد آتا ہے، پھر شک ہوتا ہے کہ یہ واقعی ہوا تھا یا محض میرا گمان تھا؟
مجھے یہ بات اس وقت زیادہ شدت سے سمجھ آئی جب میں نے ایک مطالعے کے دوران پڑھا کہ بعض اوقات انسان کو وہ چیزیں بھی یاد رہتی ہیں جوکبھی وقوع پذیر نہیں ہوتیں۔ ابتدا میں مجھے یہ بات ناقابلِ یقین لگی۔کیا واقعی ایسا ممکن ہے؟ کیا دماغ اتنی بڑی غلطی کرسکتا ہے؟ لیکن جوں جوں میں نے اس موضوع پر پڑھا، تو میرے سامنے حیران کن حقیقتیں کھلتی چلی گئیں۔
انسانی یاد داشت پتھر پر لکیر نہیں ہوتی۔ یہ تو پانی پر بنتی لکیروں جیسی ہے، جوکبھی واضح ہوتی ہیں،کبھی دھندلی اورکبھی بالکل ہی غائب۔ بعض اوقات ہمیں ایسے واقعات یاد آتے ہیں جو ہمارے ساتھ پیش ہی نہیں آئے ہوتے۔ ہم ان پر یقین بھی کرتے ہیں، ان کی تفصیل بھی بتاتے ہیں۔
حتیٰ کہ ان سے جذباتی وابستگی بھی محسوس کرتے ہیں۔ یاد داشت انسانی ذہن کا ایک بنیادی اور پیچیدہ عمل ہے۔ ہماری یادیں ماضی کے تجربات کو محفوظ کرنے اور مستقبل کے فیصلوں میں مدد دینے کا ذریعہ ہوتی ہیں۔ تاہم،کبھی کبھی انسان ایسی باتیں بھی یاد رکھتا ہے جو درحقیقت کبھی نہیں ہوتیں۔ ایسی یاد داشتوں کو نفسیات کی اصطلاح میں False Memories یا ’’ جھوٹی یادیں‘‘ کہا جاتا ہے۔
جھوٹی یاد داشت ایسی یاد ہوتی ہے جو انسان کو حقیقت لگتی ہے، لیکن وہ دراصل یا تو غلط ہوتی ہے یا مکمل طور پر خیالی۔ ان یادوں میں کبھی چھوٹے جزئیات بدلے ہوئے ہوتے ہیں اورکبھی پورا واقعہ ہی من گھڑت ہوتا ہے۔ انسان ان جھوٹی یادوں پر اس قدر یقین کر لیتا ہے کہ ان کا انکارکرنا ممکن نہیں رہتا۔
جھوٹی یاد داشتوں کے تصور پر سب سے زیادہ تحقیق ایلزبتھ لوفسٹس نے کی۔ وہ ایک امریکی ماہر نفسیات اور محققہ ہیں، جنھوں نے انسانی یاد داشت، بالخصوص گواہیوں اور جھوٹی یادوں کے حوالے سے انقلابی کام کیا۔ ''False Memory Theory'' دراصل یہ بتاتی ہے کہ انسانی یاد داشت پختہ اور ناقابلِ تغیر نہیں ہوتی بلکہ مختلف اثرات جیسے سوالات کا انداز، جذبات یا دوسروں کے بیانات، یادوں کو تبدیل یا حتیٰ کہ پیدا بھی کرسکتے ہیں۔
لوفسٹس نے 1970 اور 1980 کی دہائی میں ایسے تجربات کیے جن میں انھوں نے ثابت کیا کہ اگرکسی فرد کو بار بار ایک واقعے کا ذکرکیا جائے اگر وہ واقعہ کبھی ہوا ہی نہ ہو تو وہ فرد کچھ عرصے بعد اس واقعے کو ’’ اپنی‘‘ یاد داشت کے طور پر قبول کرلیتا ہے، اگرکسی انسان کو بار بار بتایا جائے کہ اس کے ساتھ کوئی مخصوص واقعہ پیش آیا تھا، تو وہ کچھ عرصے بعد اس جھوٹی بات کو اپنی یاد کا حصہ سمجھنے لگتا ہے۔ جیسے کہ ایک بچہ مال میں گم ہوگیا تھا، حالانکہ حقیقت میں ایسا کچھ نہیں ہوا ہوتا۔
فالس میمریز مختلف طریقوں سے بنتی ہیں۔ سماجی دباؤ اور توقعات، بار بار دہرائی گئی باتیں اور بااثر شخصیات کی باتوں کا اثر، یہ سب ہمارے ذہن پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔ سوالات کا انداز،غلط معلومات کا دیا جانا، خوابوں کا اثر اور تصورکی طاقت بھی جھوٹی یاد داشتوں کی تشکیل میں کردار ادا کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، اگرکسی کو بچپن میں کہا جائے کہ وہ بہت شرارتی تھا اور اس نے کوئی چیز توڑ دی تھی، تو وہ بچہ آخرکار اس بات کو سچ ماننے لگتا ہے، چاہے اسے اصل واقعہ یاد نہ ہو۔
ایسے جھوٹے تجربات خاندانی قصوں، اجتماعی یاد داشت، تعلیمی نصاب یا مذہبی واقعات کی شکل میں بھی سامنے آسکتے ہیں۔ اس کا اثر صرف انفرادی سطح پر نہیں بلکہ معاشرتی، قانونی اور نفسیاتی سطح پر بھی گہرا ہوتا ہے۔ عدالتوں میں جھوٹی گواہیاں، رشتوں میں بے بنیاد الزامات اور فرد کی اپنی ذات کے بارے میں گمراہ کن یقین وغیرہ۔
یہ سب فالس میمریزکے اثرات میں شامل ہیں۔ سائنسدانوں نے ان یادوں کو روکنے یا پرکھنے کے لیے تحقیق کی ہے۔ ثبوتوں پر زور، تنقیدی سوچ کی تربیت اور ماہرینِ نفسیات سے مشورہ ان کے سدباب کے اہم طریقے ہیں۔ یہ بات بہت اہم ہے کہ ہم ہر یاد پر آنکھ بند کرکے یقین نہ کریں، بلکہ اس پر سوال اٹھانا سیکھیں۔ کیا یہ واقعی ہوا تھا؟ یا یہ صرف ایک خیال تھا؟
میری زندگی میں بھی ایسے لمحے آئے جب کسی دوست نے ماضی کا واقعہ سنایا جو مجھے یاد ہی نہیں تھا۔ پھر میں سوچ میں پڑگئی،کیا واقعی ایسا ہوا تھا؟ یا یہ اس کی یاد داشت کا وہ حصہ ہے جس میں، میں کبھی شامل ہی نہیں تھی؟ زندگی میں کئی بار ہمیں یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ کوئی واقعہ خواب تھا یا حقیقت اورکبھی خواب اتنے واضح ہوتے ہیں کہ ہم انھیں سچ مان لیتے ہیں۔
اس موضوع پر فلمیں ہیں جیسے میمینٹو فلم میں ایک شخص اپنی یاد داشت کھونے کے بعد ایک قتل کی گتھی سلجھانے کی کوشش کرتا ہے، اس کی یاد داشت کی الجھنیں ناظرین کو مسلسل چکر میں ڈالتی ہیں۔
اس موضوع پر فلمیں بنی ہیں جیسے انسپشن فلم جس کا کردار خوابوں میں داخل ہو کر خیالات چرانے اور یادوں کے ذریعے تصور قائم کرتا ہے جس سے جھوٹی حقیقتیں پیدا ہوتی ہیں۔
دی بٹر فلائی ایفیکٹ ایک نوجوان اپنی پرانی یادوں کو بدل کر حال کو تبدیل کرنے کی کوشش کرتا ہے، مگر ہر بارکچھ نیا اور الجھا ہوا سامنے آتا ہے۔
شٹر آئی لینڈ ایک امریکی مارشل جب ایک پاگل خانے کی تفتیش کے لیے جاتا ہے تو حقیقت اور جھوٹ میں فرق کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ اس کے اپنے ماضی کی یاد داشتوں پر بھی سوال اٹھتے ہیں۔ فلم ’’ ٹوٹل ریکال‘‘ میں ایک شخص ایک خفیہ مشن پر ہے لیکن وہ خود نہیں جانتا کہ اصل کیا ہے اور خیالی کیا۔
اب آتے ہیں حل کی طرف کہ کس طرح جھوٹی یاد داشت کے حصار سے باہر نکلا جاسکتا ہے۔ ثبوت پر انحصارکریں یاد داشت پر اندھا یقین کرنے کے بجائے، تحریری یا تصویری ثبوت پر توجہ دی جائے۔
ذہنی تربیت کی جائے خاص طور پر تنقیدی سوچ کو فروغ دینا اور خود کو بار بار سوال کرنا کہ ’’ کیا یہ واقعہ واقعی ہوا تھا؟‘‘ اس حوالے سے مددگار ہو سکتا ہے۔ ماہر نفسیات کی مدد حاصل کی جاسکتی ہے، اگرکسی کو لگے کہ اس کی یاد داشتوں میں تضاد ہے، تو ماہر نفسیات سے رجوع کرنا بہتر ہے۔ یہ ایک نہایت دلچسپ اور پیچیدہ نفسیاتی مظہر ہے جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ انسان کی یاد داشت ہرگزکامل نہیں۔ ایلزبتھ لوفسٹس نے یہ ثابت کر کے نفسیات کی دنیا میں انقلاب برپا کردیا کہ ہماری یادیں حقیقت سے زیادہ ہمارے ذہنی عمل، تجربات اور بیرونی اثرات کی پیداوار ہوتی ہیں۔
اس نظریے نے نہ صرف نفسیات، بلکہ قانون، تعلیم، میڈیا اور روزمرہ زندگی میں انسانی رویے کو سمجھنے کے طریقے کو بھی بدل دیا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی یادوں کو ہمیشہ شک کی نگاہ سے بھی دیکھیں،کیونکہ ضروری نہیں جو ہمیں یاد ہو وہ حقیقت بھی ہو۔