اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 20 جنوری 2025ء) اقوام متحدہ اور شراکتی ادارے غزہ میں جنگ بندی کے بعد انسانی امداد کی مقدار بڑھانے کے اقدامات کر رہے ہیں۔ عالمی پروگرام برائے خوراک (ڈبلیو ایف پی) نے کہا ہے کہ اس مقصد کے لیے سرحدی راستے کھلے رہنے چاہئیں اور موثر و قابل بھروسہ نقل و حرکت کی ضمانت ملنی چاہیے۔

'ڈبلیو ایف پی' نے بتایا ہے کہ جنگ بندی معاہدہ نافذ ہونے کے بعد اس کا پہلا امدادی قافلہ کیریم شالوم کے سرحدی راستے سے غزہ میں داخل ہو گیا ہے۔

ادارہ ایک ماہ میں 10 لاکھ لوگوں کے لیے 30 ہزار ٹن خوراک بھیجنےکی صلاحیت رکھتا ہے۔ Tweet URL

مقبوضہ فلسطینی علاقوں کے لیے عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے ترجمان ڈاکٹر رک پیپرکورن کا کہنا ہے کہ جنگ بندی کے بعد علاقے میں روزانہ امدادی سامان کے 500 تا 600 ٹرک بھیجنے کا ہدف طے کیا گیا ہے۔

(جاری ہے)

گزشتہ مہینوں میں روزانہ 40 تا 50 ٹرک ہی امداد لے کر آ رہے تھے۔

اقوام متحدہ کے ادارے اور سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش جنگ کے آغاز سے ہی غزہ میں فوری جنگ بندی، تمام یرغمالیوں کی بلاتاخیر اور غیرمشروط رہائی اور علاقے میں بڑے پیمانے پر انسانی امداد فراہم کرنے کا مطالبہ کرتے چلے آئے ہیں۔ جنگ میں بہت سے مسائل کے باوجود فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے امدادی ادارے (انروا) کے زیرقیادت لوگوں کو ہرممکن مدد پہنچائی جاتی رہی ہے۔

کھنڈر بنے گھروں کو واپسی

وسطی غزہ کے علاقے نصیرت سے نقل مکانی پر مجبور ہونے والے شادی جُمہ اپنے گھر کو دیکھنے واپس آئے ہیں لیکن اب اس جگہ گھر جیسی کوئی شے دکھائی نہیں دیتی۔ جنگ سے پہلے انہوں نے کڑی محنت کر کے اپنے ہاتھوں سے یہ گھر تعمیر کیا تھا جو بمباری سے ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے۔

جنگ بندی کا معاہدہ ہونے کے بعد شادی کی طرح نقل مکانی کرنے والے بہت لوگ اپنے گھروں کا جائزہ لینے پہنچے ہیں لیکن علاقے میں شاید ہی کوئی گھر سلامت رہا ہے۔

شادی نے غزہ میں یو این نیوز کے نماندےکو بتایا کہ اگرچہ انہیں اپنے گھر کی تباہی کا افسوس ہے لیکن وہ بہت خوش ہیں کہ اب جنگ بندی ہو رہی ہے۔ وہ جان بچ جانے پر خدا کا شکر ادا کرتے ہیں تاہم اس کے نتیجے میں ہونے والی تباہی کا ذکر کرتے ہوئے افسردہ ہو جاتے ہیں۔

خوشی کے آنسو

اتوار کو جنگ بندی کا نفاذ شروع ہونے کے بعد غزہ بھر میں لوگوں نے خوشی منائی۔

ان میں نصیرت کیمپ کی رہائشی مریم حبوب بھی شامل ہیں۔

انہوں نے یو این نیوز کو بتایا کہ یہ ان کے لیے یہ خوشی ناقابل بیان ہے اور جنگ بندی کی خبر سنتے ہی ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے تھے۔ خدا کرے کہ معاہدے پر عملدرآمد ہو، لوگ اپنے گھروں کو واپس جا سکیں اور بچوں کو تحفظ ملے۔

نصیرت ہی میں رہنے والے سلیمان الرواغ بھی اپنے گھر کو دیکھنے آئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ علاقے میں بمباری کی آوازیں سننا اور تباہی دیکھنا ہولناک عمل تھا۔ وہ خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ انہیں اپنے علاقے میں آنے کا موقع ملا ہے۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے علاقے میں اپنے گھر کے بعد کے لیے

پڑھیں:

کیا وہ واقعی پاگل تھا؟

ایک پاگل تھا، پاگل ہی تھا کیوں کہ وہ جو کچھ کرتا تھا، بولتا تھا ، وہ پاگل ہی کرتے ، دانا، ہوشیار اورعقل مند نہیں کرتے۔ وہ نہ جانے کہاں سے آیا تھا ، گاؤں کے کنارے قبرستان کے پاس جوتے گانٹھنے کا اڈہ لگائے ہوئے تھا، جوتے بڑے کمال کے گانٹھتا تھا اورپیسے بھی بہت کم لیتا تھا، اس لیے لوگ اچھی تعداد میں آتے تھے۔

ایک دن گاؤں کے کچھ شریر لڑکوں نے سوچا کہ یہ بہت کماتا ہے، اس کے پاس بہت مال ہوگا لیکن اڈے کی تلاشی لی تو کچھ بھی نہ ملا چنانچہ غصے میں اس کے سارے آوزار لے جاکر کہیں دبادیے۔ بیچارے کے پاس آوزار نہ رہے تو مزدوری کرنے لگا لیکن یہاں سارے مزدور اس کے دشمن ہوگئے کہ وہ ان کی طرح کام چوری نہیں کرتا تھا، جی جان لگا کر کام کرتا تھا۔ مزدوروں نے اسے اپنے ڈھب پر لانا چاہا لیکن اس نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ میں حق حلال روزی کماؤں گا ۔

آخر مزدوروں نے جب دیکھا کہ وہ پورا کام کرکے مالکوں کوخوش کرتا ہے اورہمارے بارے میں بدظن کررہا ہے تو ایک دن اس کی جھونپڑی میں گھس کر اسے خوب مارا پیٹا اورجو کچھ ہاتھ لگا، وہ بھی لے گئے لیکن اسپتال میں اس نے کسی پر الزام نہیں لگایا، تشدد کرنے والے مطمئن ہوگئے کہ ہماری نقاب پوشی کی وجہ سے اس نے ہمیں پہچانا نہیں ہے لیکن جب وہ دکھاوے کی عیادت کے لیے گئے تو اس نے کہا، میں نے تم سب کو پہچانا ہے اورمعاف بھی کردیا ہے لیکن استدعاکرتا ہوں کہ راہ راست پر آجاؤ، حرام کی مت کماؤ ،حلال میں برکت ہوتی ہے ۔

وہ متعجب ہوکر بولے، جب تم نے ہمیں پہچان لیا تھا تو پولیس کے سامنے ہمارا نام کیوں نہیں لیا۔ جواب میں اس نے کہا ، پولیس والے تمہیں لے جاتے تو پیچھے تمہارے بچے پریشان ہوجاتے ، بھوک کاشکار بھی ہوجاتے، اس لیے ۔وہ لوگ اتنے ممنون اورمتاثر ہوگئے کہ انھوں نے بھی ایمانداری سے کام شروع کر دیا۔ وہ لڑکے جو اس کے اوزار لے گئے تھے، برے نہیں تھے، صرف بگڑے بچے تھے اوران ہی لوگوں کے تھے، انھوں نے بھی ایک دن چپکے سے اوزار اس کی چھونپڑی میں رکھ دیے ۔

اسپتال سے فارغ ہوکر اس نے پھر اپنا کام شروع کردیا، لوگوں کو اس بات پر حیرانی تھی کہ وہ پیسے کما کر لے جاتا کہاں ہے؟ اپنے اوپر تو ایک پیسہ بھی خرچ نہیں کرتا، پھر لوگوں کو آہستہ آہستہ پتہ چل گیا کہ وہ چپکے چپکے سے گاؤں کے غریبوں ، بیواؤں ، یتیموں اورمعذوروں پر اپنی کمائی خرچ کرتا ہے ۔ایک اورکام وہ یہ بھی کرتا تھا کہ گاؤں میں جہاں جہاں وہ راستے خراب دیکھتا، اسے ٹھیک کردیتا تھا، کوڑا کرکٹ بھی صاف کرتا تھا، کسی کے ہاں میت ہوتی، قبرکھودنے بھی لگ جاتا ، قبرستان کی شکستہ قبریں بھی ٹھیک کرتا تھا اوراس میں درخت بھی لگاتا تھا ،تھوڑے ہی عرصے میں قبرستان سایہ دار درختوں سے بھر گیا اورتجہیز و تکفین کو آنے والے جو پہلے دھوپ میں جلتے تھے ،اب سائے میں آرام سے رہتے۔ اپنے اڈے کے قریب قبرستان میں اس نے ایک کنواں بھی کھدوایا ، لوگ اب وہاں آسانی سے وضو بھی کرتے اورپانی بھی پیتے ۔ آہستہ آہستہ خاموشی سے لوگ اس سے متاثر ہونے لگے اوراسی کی طرح بننے کی کوشش کرنے لگے۔ لڑائی جھگڑے، حرام خوری کم ہوگئی۔ لوگ جو پہلے ایک دوسرے سے لڑتے تھے، حسد کرتے تھے، نفرت کرتے تھے، آپس میں شیر وشکر ہوگئے حالانکہ وہ کسی کو کچھ کہتا نہیں تھا ، لوگ خود بخود اس کے جیسے ہوتے گئے ۔ لیکن لوگوں کو اس بات سے بڑی حیرت ہوتی تھی کہ ایک تو وہ داڑھی نہیں رکھتا تھا، دوسرے نماز بھی نہیں پڑھتا تھا اور روزے بھی نہیں رکھتا تھا ۔

آخر ایک دن کچھ لوگ اس کے پاس گئے اورکہا کہ تم اتنے اچھے ہو،کبھی کوئی برا کام نہیں کرتے ہو، اتنا لوگوں کے کام آتے ہو، لوگوں کی مدد کرتے ہو یعنی ہرلحاظ سے اچھے ہو تو داڑھی کیوں نہیں رکھتے؟ نماز کیوں نہیں پڑھتے؟ اورروزے کیوں نہیں رکھتے؟ تھوڑی دیر تک وہ چپ رہا، سکون سے سب کچھ سن رہا تھا، پھر آہستہ آہستہ بولنے لگا ۔داڑھی میں اس لیے نہیں رکھتا کہ یہ میرے محبوب نبیﷺ کی پیاری سنت ہے اوراگر میں اسے اپنے اورگناہگارچہرے پر رکھ لوں اورپھر بھی گناہ کروں گا تو یہ میرے نبیﷺ کی اوران کی اس پاک محترم اور بابرکت سنت کی توہین ہوگی، تضحیک ہوگی، بے حرمتی ہوگی، لہٰذا کوشش کرتا ہوں خود کو اوراپنے چہرے کو اس کے لائق بناؤں اوراگر بن سکا تو پھر محبت، احترام اورفخر سے اپنے چہرے کی زینت بنالوں گا۔

 اور نماز؟ لوگوں نے پوچھا ۔ہاں نماز۔۔۔ ؟ میرا خیال ہے کہ یہ نہایت بے شرمی اور ڈھٹائی نہیں ہوگی کہ میں نمازی بن کر بھی ناجائز منافع خوری کروں، جھوٹ بولوں، اس کے احکام کی خلاف ورزی کروں، پیٹ میں حرام رکھوں ۔ اورہاں روزے؟ روزہ بھی صرف منہ کا نہیں ہوتا ، آنکھوں، زبان ،کانوں، ہاتھوں، پیروں اورذہن ودل کابھی ہوتا ہے اورخدا کو عملی طور پر یہ ثبوت دینا ہوتا ہے کہ ’’تمہارے حکم ‘‘پر میں جائزحلال چیزیں بھی استعمال کرنا بند کرسکتا ہوں تو ناجائز، ناروا اورحرام چیزیں کیوں نہیں چھوڑوںگا۔

میں ان محترم چیزوں کامنکر نہیں اورجب بھی خود کو ان کے قابل بناسکا، شروع کردوں گا ۔جب تک میں خود کو سدھار نہیں لیتا، دوسروں کو سدھرنے کے لیے کسے کہہ سکتا ہوں۔

 کیا وہ واقعی پاگل تھا؟

متعلقہ مضامین

  • گلگت، چینی امدادی سامان کرپشن کیس میں محکمہ اینٹی کرپشن کے چار افسران کیخلاف تحقیقات کا حکم
  • ماحولیات تحفظ اسکواڈ دیکھ کر خوشی ہو رہی ہے، مریم نواز
  • کیا وہ واقعی پاگل تھا؟
  • لبنان: اسرائیلی حملوں میں شہریوں کے ہلاک و زخمی ہونے پر تشویش
  • یورپی یونین کا فلسطینیوں کے لیے ایک ارب 80 کروڑ ڈالر کا نیا امدادی پیکج
  • کرک، کنٹینر مسافر کوچ پر گر گیا، 10 افراد جاں بحق، ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ
  • اپنی چھت اپنا گھر پر وگرام : ٹارگٹ پورا کرنے کیلئے پر عزم ‘ ماضہ میں صرف وعدے ہوئے : مریم نواز 
  • ترسیلات زر میں اضافہ، خواجہ آصف کی بائیکاٹ مہم چلانے والی پی ٹی آئی پر تنقید
  • USAID بند کرانے والے ٹرمپ کے اہم عہدیدار پیٹ ماروکو نے وزارت خارجہ چھوڑ دی
  • ملائشیا میں خوفناک آتشزدگی سے درجنوں لوگوں کو بچانے والے 5 پاکستانی ہیروز کو خراج تحسین