’’تانگہ آ گیا کچہریوں خالی تے سجناں نُوں قید بول گئی‘‘ جب سے 190 ملین پائونڈ ریفرنس میں بانی پی ٹی آئی کو 14 سال قید با مشقت اور بشریٰ بی بی کو 7 کی سال قید ہوئی ہے۔ آجکل الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا سمیت چوک چوراہوں میں یہ خبر کسی سپرہٹ فلم کی طرح چھائی ہوئی ہے۔ انگریزی کے محاورے ’’ٹاک آف دا ٹائون‘‘ کی طرح ٹی وی چینلوں سے لے کر گلی محلوں تک تقریباً ہر شخص کی زبان پر یہی تذکرہ ہے۔ اس میں ایک بڑی تعداد میں وہ لوگ ہیں جو عمران خان کے حمایتی ہیں اور نہ ہی مخالف مگر محض اپنی زبان کا چسکا پورا کرنے کے لیے جہاں دو چار دوست اکٹھے ہوں کسی نہ کسی بہانے اس موضوع کو چھیڑ دیتے ہیں۔ کالم نگاروں، نیوز اینکروں، سیاستدانوں اور سیاسی تجزیہ نگاروں کی تو ظاہر ہے مجبوری ہے کیونکہ اِن سب نے اپنا اپنا ’’چورن‘‘ بیچنا ہوتا ہے۔ باقی رہے عوام تو اس میں دو طرح کے لوگ ہر جگہ پیش پیش ہیں ایک وہ جو خان صاحب کے حمایتی ہیں اور دوسرے وہ جو اُن کے مخالفین ہیں۔ آجکل اس ایک موضوع پر ان دونوں گروہوں میں گھمسان کا رن پڑا ہواہے۔ اب کوئی مانے یا نہ مانے سچ یہی ہے کہ زبردست مقابلے کی اس ٹکر میں یا ٹکر کے اس مقابلے میں اخلاقی اور قانونی بنیادوں پر رفتہ رفتہ خان صاحب کے حمایتیوں کے حوصلے پست ہوتے جا رہے ہیں۔ یاد رہے کہ ہمارے ہاں ایک وقت ایسا بھی تھا جب اپنے ملنے جلنے والوں میں پی ٹی آئی کے کسی حمایتی کے سامنے خان صاحب پر ذرا سی تنقید بھی جان اور تعلقات کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف تھی۔ خان صاحب کی ایک کال پر پتا نہیں کہاں کہاں سے اُن کے ماننے والے مرد و زن کی ٹولیاں سرکاری و نجی املاک کے جلائو گھیرائو اور ہنگاموںکے لیے بھنگڑے اور لڈیاںڈالتے ’’جوک در جوک‘‘ سڑکوں پر نکل آتے تھے۔ مگر پھر جیسے جیسے خان صاحب کے ’’ایبسو لوٹلی ناٹ‘‘ عرف ’’ہم کوئی امریکہ کے غلام ہیں‘‘ اور پھر اپنی رہائی کے لیے ’’ٹرمپ کارڈ‘‘ پر تکیہ کے ساتھ 190 ملین پائونڈ جیسے ریفرنس میں سزا اور بشریٰ بیگم اینڈ گوگی گینگ کی ہوش ربا کرپشن کے انکشافات سے ’’صاف چلی شفاف چلی‘‘ جیسے جھوٹے بیانیوں کا ’’دھڑن تختہ‘‘ ہوا ہے۔ آثار بتاتے ہیں کہ ایک بڑی تعداد میں خان صاحب کی اندھی محبت میں گرفتار اُن کے ’’فدائن‘‘ تائب ہو چکے ہیں یا اگلے کچھ عرصہ میں ہونے والے ہیں۔ زیادہ پرانی بات نہیں ہے جب عدالتی حکم پر خان صاحب کو گرفتار کیا جا رہا تھا تو اس کی مزاحمت میں پی ٹی آئی کے قائدین اور کارکنان نے جس طرح قانون نافذ کرنے والے حکومتی اہلکاروں پر کسی دہشت گرد گروہ کی طرح پیٹرول بمبوں سے حملہ کرنے کے ساتھ اُن پر بیہمانہ تشدد کر کے بین الاقوامی سطح پر ملکی آئین اور قانون کا تماشا بنایا تھا۔ ایک سیاسی جماعت کی طرف سے ملکی تاریخ میں اس قسم کے احتجاج کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ پاکستان میں سیاسی جدوجہد کرنے والوں کی تاریخ گواہ ہے کہ اپنی سیاسی جدوجہد کے دوران بڑے بڑے سیاسی رہنمائوں کو جیلوں میں سچے جھوٹے مقدموں میں قید و بند کی صعوبتیں سہنا پڑی ہیں۔ لیکن آج تک کسی نے یہ دیکھا، سنا اور پڑھا نہیں کہ اپنے لیڈر کی گرفتاری کے وقت یا اسیری دوران کبھی کسی سیاسی پارٹی کی طرف سے اس کی رہائی کے لیے ملک کے سرکاری اداروں پر اس قسم کے حملے اور جلائو گھیرائو دیکھنے میں آئے ہوں۔ تازہ ترین مثالوں میں مسلم لیگ نواز کی اعلیٰ قیادت نواز شریف، شہباز شریف، مریم نواز اور حمزہ شہباز کے ساتھ پیپلز پارٹی کے رہنما آصف علی زرداری اور فریال تالپور کے نام لیے جا سکتے ہیں جنہوں نے بغیر کسی مزاحمت کے ناصرف گرفتاری دی بلکہ اس کے بعد لمبے عرصے تک جیلوں میں بھی رہے۔ دونوں ملک گیر مقبول ترین سیاسی پارٹیاں ہیں اور دونوں کے پاس لاکھوں کی تعداد میں سیاسی ورکر ہیں مگر ان میں سے کبھی کسی پارٹی کے لیڈر نے اپنے لیے تمام تر مشکلات اور زیادتیوں کے باوجود اپنے کارکنوں کو ملک گیر جلائو گھیرائو اور حکومتی اداروں کے خلاف پُرتشدد احتجاج اور منفی پراپیگنڈے کی ایسی کال اور ہدایات نہیں دی جس کا مظاہرہ پی ٹی آئی کی لیڈر شپ کی طرف سے دیکھنے میں آیا ہے۔
حتیٰ کہ جب محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت ہوئی تو ایسے کڑے وقت میں بھی موجودہ صدر پاکستان اور اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی کے اہم رہنما آصف علی زرداری نے ’’پاکستان کھپے‘‘ کا نعرہ لگا کر ملکی و قومی مفادات کا تحفظ کیا۔ احتجاج کے نام پر ملک بھر میں نو مئی کو اہم قومی اداروں پر حملوں میں جس طرح قومی املاک کو جلایا گیا اور اس کے بعد زمان پارک میں خان صاحب کی گرفتاری کے وقت پی ٹی آئی کی قیادت اور اس کے کارکنان نے جس قسم کا پُرتشدد مظاہرہ کیا اسے مختلف نیوز چینلوں کے ذریعے پوری دنیا نے دیکھا۔ ایسا دکھائی دے رہا تھا جیسے حساس قومی اداروں اور قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں پر پی ٹی آئی کے کارکنان کی آڑ میں باقاعدہ تربیت یافتہ کوئی دہشت گرد ٹولہ حملہ آور ہو گیا ہو۔ 65ء اور 71ء کی بھارتی جارحیت کے بعد قیام پاکستان سے اب تک اتنے عرصے میں ملک کو پہلی بار ایسی افراتفری اور انتشار کا سامنا تھا۔ یہ ایک نئی قسم کی جنگ تھی جس کا انتہائی خوفناک نتیجہ خدانخواستہ ملک میںبڑے پیمانے پر قتل و غارت اور خانہ جنگی کی صورت نکل سکتا تھا لیکن شکر الحمدللہ ہماری سیاسی و عسکری قیادت نے اس نازک ترین صورتحال کو بڑے تحمل اور سمجھداری سے کنٹرول کر کے ناصرف ملک اور قوم کو کسی بہت بڑے المیے سے دوچار ہونے سے بچا لیا بلکہ اپنی زبردست پالیسیوں سے ڈیفالٹ ہوتے ہوئے ملک کو معاشی محاذ پر بھی تمام تر خدشات سے نکال کر ایک بار پھر سے ترقی کی راہ پر ڈال دیا ہے۔ جس کے ثمرات اب عام لوگوں تک بھی پہنچنا شروع ہو گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب اُن معصوم لوگوں کی آنکھیں بھی کھلنا شروع ہو گئی ہیں جو اس سے پہلے خان صاحب کے ’’سبز باغوں‘‘ اور اُن کے جھوٹے پراپیگنڈے کا بڑی بُری طرح شکار تھے۔ خبر ہے کہ عدالت سے خان صاحب کو سزا ملنے پر اُن کی مخالف سیاسی پارٹیوں کے کارکنان نے ملک بھر میں بھنگڑے ڈالنے کے ساتھ مٹھائیاں بانٹی ہیں جبکہ اندر کی خبر یہ ہے کہ دن بہ دن ملک کے حالات بہتر ہوتے دیکھ کر پی ٹی آئی کے کچھ پرانے کارکنان اور چند ایک سرکردہ قائدین نے ابھی تک خود تو مٹھائی نہیں بانٹی مگر ادھر اُدھر مٹھائی بانٹنے والوں سے لے کر چھپ چھپا کے کھائی ضرور ہے۔ بلکہ کسی مخبر نے تو یہاں تک بھی بتایا ہے کہ پی ٹی آئی کے ان قائدین نے اندر کھاتے خان صاحب کی اس سزا پر دل ہی دل میں خوب بھنگڑے بھی ڈالے ہیں۔
.ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: پی ٹی ا ئی کے خان صاحب کی خان صاحب کے کے ساتھ کے لیے
پڑھیں:
مذاکرات کمیٹی ڈرامہ
سچی بات یہ ہے کہ جب تک رانا ثناء اللہ اور عرفان صدیقی صاحب موجود ہیں اور سیاسی صورت حال کا حصہ ہیں اس وقت تک پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات کی بیل منڈھے نہیں چڑھ سکتی ، جتنی مرضی کمیٹیاں بنالیں ،جتنے مرضی وفد تیار کر لیں ،ایسا ممکن ہی نہیں ۔
یہی معاملہ پی ٹی آئی کا ہے کہ جب تک بانی تحریک انصاف خو د کو عقل کل سمجھنے کے غرے سے نہیں نکلتے ،کسی اور پر اعتبار کرنے کا حوصلہ اپنے اندر پیدا نہیں کرتے ،اس حوالے سے سب پانی میں مدھانی مارنے کے مترادف ہے۔
دراصل معاملہ یہ ہے کہ ن لیگ سمجھتی ہے اس کے پاس عرفان صدیقی سے بڑا دماغ نہیں ہے اور رانا ثنااللہ سے زیادہ بصیرت کا حامل کوئی سیاستدان نہیں ہے ۔اس وقت تک ملک میں سیاسی تنائو ایسا ہی رہے گا جیسا موجود ہے اور پی ٹی آئی والے جب تک کپتان کوکسی پروہت کے درجے سے نیچے کا انسان نہیں گردانتے، ملک اسی طرح سیاسی انتشار کی دلدل میں پھنسا رہے گا۔
کانوں کا کچا کپتان کچھ عرصے کے لئے شیر افضل مروت اور بیرسٹر گوہر کو کشادہ دست بنا نہیں دیتا توامکان کے سب در بند رہیں گے، اور حقیقت تو یہ بھی ہے کہ شہباز حکومت نے اب کسی نہ کسی طور معیشت کے بے لگام گھوڑے کو لگام ڈال ہی لی ہے۔ان دنوں آٹا دال اور گھی نہ سہی سبزیوں اور پھلوں کو تو بگھیاڑوں کے پنجوں سے نجات کی راہ نکال ہی لی ہے ،ٹماٹر جو تین سو روپے کل تک پہنچ گئے تھے جنوبی پنجاب میں ایک سو روپے کلو سے بھی نیچے آگئے ہیں ،اسی طرح دوسری سبزیوں کا حال ہے ،گویاکہ مہنگائی کے جن کو کسی حد تک بوتل میں بند کرلیا ہے ۔
پنجاب کی مہارانی مریم نواز پنجاب کے عوام کو رام کرنے میں زینہ زینہ کامیابی کی اور روانہ ہیں ۔اچھا ہے کہ وہ رانا ثناء اللہ اور عرفان صدیقی جیسے مشیر نہیں رکھتیں بھلے ان کے منصوبوں کی غلط تشریح کرنے کے لئے عظمی بخاری ہی کافی ہیں جو مبالغہ آرائی میں مہارت رکھتی ہیں اور اچھی بھلی خبط عظمت کا شکار بھی دکھائی دیتی ہیں ۔ وزیراعلیٰ اگر انہیں کے مشورں کے حصار میں ہوتیں تو بہت سارے کرنے کے کام رہ جاتے جو مریم بی بی بہت عمدہ طریقے سے انجام دے رہی ہیں۔
ایک بات جو سمجھ میں نہیں آنے والی ہے وہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی ہو یا پی ایم ایل این دونوں جانب کے سفارتکار سیاسی تدبرسے زیادہ سیاسی زعم میں ہی مبتلا ہیں اور لفظوں کے بیوپاری کا کاروبار تو افغان امریکہ جنگ میں چل نکلا تھا انہیں زیبا نہ تھا کہ فارم سینتالیس والوں کی حکومتوں کو الفاظ کے تاج محلوں کی زینت بنانے کی ہررت میں طلسماتی کردار اداکر کے فسطائیت کے راستے اقتدار کے ایوانوں تک پہنچاتے ،مگر میں نے بہت قریب سے دیکھا کہ ان کی بھی بہت مجبوریاں ہیں انہیں مجبوریوں کے بیچ دبئی اور سعودی عرب کے ایک مجرم نے اپنا راستہ کیا بنایا کہ قومی اسمبلی کا رکن بن بیٹھااور جن کامعاشی قتل کیا وہ آج تک اسے بددعائیں دے رہے ہیں۔
یقینا ان بد دعائوں کا اثر اس پر بھی تو پڑتا ہوگا جو سونے کا چمچ لے کر تو پیدا نہیں ہوا تھا مگر سیم زر اگلتے عہدوں پر تو رہ چکا اور ابھی تک انہیں مناصب کے سحر میں ہے جو اسے کسی پل چین نہیں لینے دیتا اور رانا ثناء اللہ کو یہ فکر دامن گیر ہے کہ مذاکراتی کمیٹی تشکیل نہیں دی جا سکتی ،کیونکر تشکیل کے عمل سے آشنا ہوجائے ؟ ایسا ہوگا تو ان کی اور بہت سے دوسرے لوگوں کی سیاست کی کتاب بند ہوجائے گی۔ان کی معیشت تنگ ہوجائے گی۔معاشرت تہہ و بالا ہوجائے گی۔اس لئے یہ ضروری ہے کہ دونوں طرف سے مذاکرات کمیٹی کا ڈرامہ چلتے رہنا چاہیئے ،یہ رک گیا تو عالمی سطح پر کپتان کی شہرت کا جادو پھر سے جاگنے لگ جائے گا۔
اور وہ جنہیں یہ خطرہ لاحق ہے کہ ٹرپ کوئی طوفان لے آئے گا ان کی ذہنی اذیت بڑھ جائے گی ،حالانکہ ٹرمپ بھی جانتا ہے کہ کپتان نے اسے ہی للکار کر کہا تھا’’ ہم کوئی غلام ہیں ‘‘ یہ الگ بات ہے کہ اب اس نعرے کو حرز جاں بنانے والے سب ایرے غیرے مراجعت پر تلے ہوئے ہیں اور وہ جن کی مظاہروں کے وقت ہوا نکل جاتی ہے وہ بھی اس خوش فہمی میں برے طریقے سے پھنسے ہوئے ہیں کہ ان کی تبدیلی کا خواب اب ٹرمپ ہی پورا کرے گا۔ان سے کوئی پوچھے پھر تمہارے بڑے جس مذاکرات کمیٹی کا ڈرامہ رچائے ہوئے ہیں اس کا کیا بنے گا ،جبکہ بیرسٹر گوہر تو اب بھی مصر ہیں کہ’’ اسٹیبلشمنٹ ڈائریکٹ ان سے بات کرے‘‘ اور اسٹیبلشمنٹ جانتی ہے کہ بانی پی ٹی آئی کے یو ٹرن لیتے دیر ہیں لگتی ۔