امن معاہدہ یا ایک اور کربلا کا پیش خیمہ؟
اشاعت کی تاریخ: 20th, January 2025 GMT
قطر میں اسرائیل و حماس کے مابین ہونے والے جنگ بندی معاہدے کی سیاہی بھی خشک نہ ہوئی تھی کہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے پھر سے اپنی سفاکانہ کارروائیوں کا آغاز کر دیا۔ جنگ بندی کے اعلان سے اب تک بچوں سمیت 123 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں نہ صرف یہ بلکہ جنگ بندی کے باقاعدہ آغاز سے پانچ منٹ قبل اسرائیل کی جانب سے غزہ پر شدید بمباری جاری رہی۔ یہ کیسی جنگ بندی ہے جس کے اعلان کے بعد بھی سیکڑوں معصوموں کی جان لے لی گئی؟ غزہ کو نیتن یاہو نے کھنڈرات میں تبدیل کر دیا ہے جہاں کبھی زندگی مسکرایا کرتی تھی۔ جنگ بندی کے معاہدے کے بعد ایک پریشان کن صورتحال نے جنم لیا ہے۔ جہاں ایک طرف جنگ بندی کی خلاف ورزیاں جاری ہیں وہیں اسرائیلی وزیراعظم کے تازہ ترین بیان نے اس کے مذموم ارادوں کا پتہ بھی دے دیا ہے۔ مسلمانوں کے خون کا پیاسا نیتن یاہو اپنی کرپشن بچانے کے لیے زیادہ دیر اس معاہدے پر قائم نہیں رہے گا، جس کا باقاعدہ اعلان بھی کر دیا ہے۔ معاہدے کے بعد اسرائیلی وزیراعظم نے اپنے ایک خطاب میں کہا ہے کہ جنگ بندی معاہدے کا پہلا مرحلہ عارضی ہے، اگر دوسرا مرحلہ بے نتیجہ رہا تو جنگ کا دوبارہ آغاز کریں گے۔ پہلا مرحلہ صرف چھ ہفتوں پر محیط ہے جس میں 98 اسرائیلی یرغمالیوں میں سے بقیہ 33 کو دو ہزار فلسطینیوں کے بدلے رہا کیا جائے گا۔ اطلاعات کے مطابق اسرائیل حماس کے اہم سیاسی قیدی جن میں مروان برغوطی اور احمد سادات شامل ہیں کو رہا کرنے سے انکاری ہے۔ تاہم حماس ان اہم سیاسی قیدیوں کی رہائی کے لیے دباؤ برقرار رکھے ہوئے ہے۔ اہم مسئلہ یہ ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم اور وزیروں کے بیانات آنے والے وقت میں مزید تباہ کن جنگ کا پیغام دے رہے ہیں۔ اسرائیلی وزیر خزانہ بیزالل سموٹریچ نے غزہ کے باسیوں کو جنگ بندی معاہدے پر جشن منانے پر ان کا مذاق اڑاتے ہو کہا ہے کہ غزہ تباہ اور کھنڈرات میں تبدیل ہو گیا ہے۔ غزہ ناقابل رہائش ہے اور یہ ایسا ہی رہے گا۔ سموٹریچ کا کہنا تھا کہ یہ خوشی وہ جلد ہی ان سے چھین لیں گے۔ اسرائیلی وزیر خزانہ نے فلسطینی معاشرے کو ایک حیوانی معاشرہ قرار دیا ہے جو موت کو تقدس بخشتا ہے اور اپنے کھنڈرات پر رقص کرتا ہے۔ اسرائیلی حکمرانوں کے ارادے انتہائی خطرناک ہیں۔ وہ غزہ کے بچے کھچے باسیوں کی مسکراہٹ کو ایک بار پھر مٹانے کی باتیں کر رہے ہیں۔ ان کے بیانات سے ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے مزید دردناک غم، آہیں اور سسکیاں غزہ کے لوگوں کی منتظر ہیں۔ خطرات اور خدشات کو اسرائیلی وزیراعظم نے مزید یہ کہہ کر ہوا دے دی ہے آنے والی ٹرمپ انتظامیہ اسرائیل کی سہولت کاری کرے گی۔ نیتن یاہو نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ سے بدھ کے روز اس کی ٹیلیفونک گفتگو ہوئی ہے جس میں ٹرمپ نے یقین دہانی کرائی ہے کہ یہ ڈیل عارضی ہے، اسرائیل پر عائد تمام پابندیوں کو ختم کر دیا جائے گا اور جدید اسلحہ کی فراہمی کو بھی یقینی بنایا جائے گا تاکہ دوبارہ جنگ کا آغاز پہلے سے زیادہ قوت اور طاقت کے ساتھ کیا جائے۔
نیتن یاہو انسان کے روپ میں ایک ایسا درندہ ہے جو طاقت کے حصول کو برقرار رکھنے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔ اس بار اسرائیلی وزیراعظم کی نظر صرف غزہ پر نہیں بلکہ وہ مشرق وسطیٰ میں امریکی حمایت کے ساتھ ایک نیا جنگی کھیل کھیلنے کو تیار ہے۔ حالیہ بیانات سے مشرق وسطیٰ میں امن کا خواب چکنا چور ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ ان بیانات سے نہ صرف نیتن یاہو نے اپنے ارادے عیاں کیے ہیں بلکہ نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی سوچ کو بھی آشکار کیا ہے۔ یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ آیا نیتن یاہو کی بات پر یقین کیا جائے یا نہیں؟ ٹرمپ کی صدارتی انتخابی مہم دنیا سے جنگ و جدل کے خاتمے کے گرد گھومتی تھی۔ ان کے اسی بیانئے کو امریکی عوام نے پذیرائی بخشی اور بھاری اکثریت سے کامیابی دلائی۔ ان حالات میں کیا وہ غزہ بلکہ پورے فلسطین و مشرق وسطیٰ پر یہودیوں کو من مانی کی اجازت دیں گے؟ ویسے ٹرمپ کا ماضی اس حوالے سے کچھ زیادہ امید افزا نہیں۔ 2017 میں ٹرمپ نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالخلافہ تسلیم کر کے یہ ثابت کر دیا تھا کہ اسرائیل کے مفادات کا تحفظ یقینی بنانا ان کی ترجیحات میں شامل ہے۔ مگر اب کی باری ہواؤں کا رخ کچھ بدلا بدلا دکھائی دیتا ہے۔ غزہ پر اسرائیلی مظالم نے انسانیت کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی ہے۔ اسرائیل کے خلاف دنیا بھر میں ہونے والے عوامی احتجاج سے رائے عامہ کی سوچ بھی واضح ہے۔ امریکی عوام کی اکثریت بھی اسرائیلی وزیراعظم کے ظالمانہ جنگی جرائم سے بخوبی واقف ہے۔ بات وہی ہے کہ کیا امریکی عوام کا ردعمل ٹرمپ کو ایسا گھناؤنا فعل کرنے کی اجازت دے گا؟ ابھی کئی اہم سوالات ہیں جو اس جنگ بندی معاہدے کے بعد جنم لے رہے ہیں۔ ان کے جوابات آنے والے وقت میں ظاہر ہونگے۔ ابھی تک حالات گمبھیر ہیں۔ کچھ عرصہ قبل اپنے ایک کالم میں ذکر کیا تھا کہ 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر حماس کی جانب سے کیا گیا حملہ دانشمندی سے عاری تھا۔ فیصلہ کرنے والوں نے اس کے بھیانک نتائج کو مدنظر نہیں رکھا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جہاں اسرائیل کے تقریباً 1100 لوگ مارے گئے وہیں 47 ہزار پانچ سو سے زائد بے گناہ، معصوم بچے اور فلسطینی شہری شہید ہو گئے۔ ایک لاکھ 10 ہزار سے زائد لوگ زخمی ہوئے۔ غزہ تباہ و برباد ہو گیا اور اب کھنڈرات کا منظر پیش کر رہا ہے۔ اتنے بھاری نقصان اور انسانی المیہ کے بعد قطر میں بیٹھ کر جو دونوں پارٹیوں نے صلح کی ہے وہ بھی عارضی ہے۔ لہو کی ہولی ایک بار پھر کھیلی جائے گی اور اگر اسرائیل اور فلسطین کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ یہاں اسرائیل کی جانب سے بارہا خون کی ہولی کھیلی گئی ہے جس میں ہمیشہ فلسطین کو بھاری جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا۔ آزادی کی جد وجہد کے خواہش مند فیصلہ کرنے والوں نے حکمت کا راستہ نہ اپنایا۔ وہ بھول گئے تھے کہ ان کا مقابلہ محض اسرائیل سے نہیں بلکہ ان طاقتور ممالک سے جن کے جدید جنگی ہتھیاروں کی بدولت اسرائیل فلسطینیوں کے خون کی ہولی کھیلتا ہے۔
اس کا نقصان یہ ہوا کہ لاکھوں نہتے فلسطینی بچے، خواتین، مرد اور بوڑھے شہری شہید ہوئے۔ گھر اجڑ گئے۔ اب تو پورا غزہ دردناک اور انسانیت سوز مناظر پیش کر رہا ہے جسے دیکھنے کی تاب نہیں۔ اتنے بڑے قتل عام کے بعد بھی اسرائیل کی پیاس بجھی نہیں۔ معاہدے کے باوجود اسرائیل کا غزہ پر حملوں کا سلسلہ جاری ہے جس سے بظاہر یہ امن معاہدہ زیادہ دیر تک ٹکتا ہوا نظر نہیں آ رہا۔ سخت بیانات اور عارضی جنگ بندی اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کے ارادوں اور مشرق وسطیٰ کے خلاف سازش کو آشکار کر رہی ہے۔ مہذب دنیا کو معاہدے پر عملدرآمد کرانے کیلئے اسرائیل پر دباؤ مسلسل جاری رکھنا ہو گا وگرنہ اسرائیل کے عزائم غزہ کو ایک بار پھر کربلا بنانے کے ہیں۔
ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: اسرائیلی وزیراعظم جنگ بندی معاہدے نیتن یاہو نے اسرائیل کے اسرائیل کی معاہدے کے دیا ہے رہا ہے کر دیا کے بعد
پڑھیں:
غرہ جنگ بندی مذاکرات، صیہونی حکومت کی جانب سے نئے مطالبات
حماس کو حال ہی میں غزہ کی پٹی میں جنگ بندی کے لیے ایک نئی اسرائیلی تجویز موصول ہوئی ہے۔ اس تجویز میں 45 دنوں کی عارضی جنگ بندی شامل ہے، جس کا مقصد اس عرصے کے دوران مستقل جنگ بندی کے ساتھ ساتھ فلسطینی قیدیوں کے بدلے یرغمالیوں کی رہائی کے لیے بات چیت کرنا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ مصر نے کہا ہے کہ جنگ بندی مذاکرات کے سلسلے میں اسرائیل کی نئی شرائط بحران پیدا کر رہی ہیں تاہم معاملات جلد مثبت ہوں گے۔ مصر کی سٹیٹ انفارمیشن سروس کے سربراہ ضیا رشوان نے کہا ہے کہ غزہ جنگ بندی مذاکرات میں مصری قطری ثالثی بین الاقوامی قانون، جائز حقوق اور بین الاقوامی قانونی قراردادوں کی طرف موقف کی وجہ سے ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ قاہرہ اور دوحہ کی طرف سے پیش کردہ تجاویز انصاف کے اصولوں پر کاربند اور بحران کی انسانی اور سیاسی جہتوں کو مدنظر رکھ کر پیش کی گئی ہیں۔ رشوان نے میڈیا کے بیانات میں وضاحت کی کہ اسرائیل اس دور کے دوران اپنی مذاکراتی تجاویز پیش کرنے کا خواہشمند تھا، جو اس کے خیال میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اگلے ماہ خطے کا دورہ کرنے کے ارادے سے متعلق اندرونی ٹائمنگ کے مسئلے سے منسلک ہے۔ امریکہ تل ابیب پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ اس تاریخ سے پہلے مذاکراتی فوائد حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے حالیہ دورہ واشنگٹن سے امریکی انتظامیہ کے ساتھ تعلقات میں ان کے سابقہ استقبالیہ کے مقابلے میں ایک غیر معمولی بحران کا انکشاف ہوا، جو غزہ پر جاری جنگ کے حوالے سے سیاسی اور بین الاقوامی مزاج میں تبدیلی کی عکاسی کرتا ہے۔
ان کا خیال تھا کہ اسرائیل کی نئی شرائط اسرائیلی حکومت کے اندرونی بحران کی عکاسی کرتی ہیں۔ ان سے اس کی طاقت کی پوزیشن کی عکاسی نہیں ہوتی۔ انہوں نے کہا کہ ثالث اس دور کی نازک نوعیت سے واقف ہیں اور اسرائیل مذاکرات کے ذریعے اپنے مطالبات کی حد کو غیر حقیقی طور پر بڑھا رہا ہے۔ حماس کو حال ہی میں غزہ کی پٹی میں جنگ بندی کے لیے ایک نئی اسرائیلی تجویز موصول ہوئی ہے۔ اس تجویز میں 45 دنوں کی عارضی جنگ بندی شامل ہے، جس کا مقصد اس عرصے کے دوران مستقل جنگ بندی کے ساتھ ساتھ فلسطینی قیدیوں کے بدلے یرغمالیوں کی رہائی کے لیے بات چیت کرنا ہے۔ اسرائیلی تجویز میں مزاحمت کو غیر مسلح کرنے کی شرط رکھی گئی ہے۔ اسرائیلی تجویز کی ایک بنیادی شرط مصری اقدام سے بالکل مختلف ہے۔ اس تجویز میں 10 اسرائیلی قیدیوں کو مرحلہ وار رہا کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے، جس کا آغاز جنگ بندی کے پہلے دن اسرائیلی نژاد امریکی قیدی عیڈان الیگزینڈر کی رہائی سے ہو۔ اس کے بعد کے مراحل میں عمر قید کی سزا پانے والے 120 فلسطینی اسیران کی رہائی کے بدلے 9 اضافی اسرائیلی قیدیوں کی رہائی اور 7 اکتوبر 2023ء کے بعد گرفتار کیے گئے 1,100 سے زائد فلسطینی قیدیوں کی رائی بھی شامل ہے۔
اس تجویز میں دونوں فریقوں کے درمیان اسرائیلی قیدیوں اور فلسطینی اسیران کی قسمت کے بارے میں معلومات کا تبادلہ اور اسرائیل کے زیر حراست 160 فلسطینیوں کی باقیات کے بدلے میں 16 اسرائیلی یرغمالیوں کی لاشوں کے حوالے کرنا بھی شامل ہے۔ اس میں سات دنوں کے لیے غزہ کی پٹی کے علاقوں سے اسرائیلی فوج کے انخلاء کی شرط بھی رکھی گئی ہے، جس میں رفح اور غزہ کے شمال اور مشرقی غزہ کے کچھ علاقے شامل ہیں۔ اس تجویز میں غزہ کی پٹی میں انسانی امداد کے داخلے، شہریوں تک اس کی رسائی کو یقینی بنانے کے لیے ایک طریقہ کار کے قیام اور بے گھر افراد کو پناہ دینے کے لیے ساز و سامان کی فراہمی پر زور دیا گیا ہے۔ تاہم اس تجویز میں ایک شق شامل ہے جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ اسرائیل "غزہ کو غیر مسلح علاقہ قرار دے”، جسے حماس ایک سرخ لکیر سمجھتی ہے۔حماس کے بیرون ملک سیاسی بیورو کے رکن سامی ابو زہری نے الجزیرہ کو بتایا کہ ان کی تحریک ان تمام پیشکشوں کے لیے فراخ دلی کا مظاہرہ کرے گی جو فلسطینی عوام کے مصائب کو کم کر سکتی ہیں، لیکن اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو جنگ بندی کے کسی بھی معاہدے کو ناکام بنانے کے لیے ناممکن شرائط کا تعین کر رہے ہیں۔ وہ حماس کے ہتھیار ڈالنے کے معاہدے کی تلاش میں ہے۔