Nai Baat:
2025-04-15@07:56:20 GMT

دینی مدارس اور متضاد رجحانات!

اشاعت کی تاریخ: 20th, January 2025 GMT

دینی مدارس اور متضاد رجحانات!

مولانا حسین احمد مدنی ؒ دینی مدارس کے طلبہ اور نصاب و نظام کے حوالے سے بہت متحرک تھے۔ 1926 میں انہوں نے بنگال اور آسام کے دینی مدارس کے لیے باقاعدہ ایک نصاب بھی وضع کیا تھا۔ ایک دفعہ ایک سفر کے دوران ان کی ملاقات مولانا عبد الحمید فراہی ؒ سے ہوئی۔ مولانا حسین احمد مدنی ؒ آسام سے واپس آ رہے تھے اور مولانا فراہیؒ برما سے واپس تشریف لائے تھے۔ دونوں کی اچانک کلکتہ میں ملاقات ہو گئی۔ مولانا فراہیؒ مدرسہ سرائے میر کے ناظم تھے۔ مولانا حسین احمد مدنیؒ نے ان سے پوچھا ’’سنا ہے کہ آپ نے مدرسے سے انگریزی نکال دی ہے اور صرف عربی رکھی ہے؟‘‘ مولانا فراہیؒ نے جواب دیا: ’’انگریزی رکھی جاتی ہے تو غالب آ جاتی ہے عربی پر۔ طلبہ کے دماغ سے عربی تو نکل جاتی ہے اور انگریزی اس کی جگہ لے لیتی ہے۔ میں نے تجربہ کر کے دیکھا ہے، اس لیے انگریزی کو نکال دیا‘‘۔ انسانی نفسیات بتاتی ہیں کہ جہاں وقتی اور طویل المیعاد فوائد کو جمع کیا جائے انسانی نفسیات وقتی فائدے کو ترجیح دیتی ہیں اور اس کے حصول میں لگ جاتی ہیں۔ اسی طرح جہاں دین اور دنیا کو اکٹھا کیا جائے انسانی نفسیات دنیا کی طرف راغب ہوتی ہیں اور دین کو پیچھے چھوڑ دیتی ہیں۔ یہی تجربہ دینی مدارس پر بھی اثر انداز ہوتا ہے اورمولانا فراہی ؒ نے بھی اسی طرف اشارہ کیا ہے۔ جن دینی مدارس میں دینی علوم کے ساتھ دنیاوی علوم کو رکھا گیا وہاں طلبہ کی رغبت دنیاوی علوم کی طرف زیادہ ہو گئی کیونکہ انسان طبعی طور پر دنیا کی طرف جلدی راغب ہوتا ہے اور دین کی طرف رغبت مشکل سے ہوتی ہے۔

دینی مدارس دینی تعلیم کے فروغ کا اہم ذریعہ ہیں۔ موجودہ دور میں جب مادی ترقی اور دنیاوی علوم پر حد سے زیادہ زور دیا جا رہا ہے خالص دینی مدارس کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ شدت سے محسوس کی جا رہی ہے۔ دنیاوی علوم کی اہمیت اپنی جگہ مگر یہ پہلو بھی مدنظر رکھنا چاہیے کہ اگر دنیاوی علوم طلبہ کے دینی مقاصد میں رکاوٹ بن رہے ہوں تو اس پر نظرثانی کرنا ضروری ہے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ جدید علوم کی اہمیت کا انکار کر دیا جائے بلکہ مقصد یہ ہے کہ دینی و دنیاوی علوم میں اعتدال وتوازن برقرار رہے۔ مولانا مدنیؒ اور مولانا فراہیؒ کے مذکورہ مکالمہ میں دینی مدارس کی پالیسی کے حوالے سے ایک گہری بصیرت موجود ہے۔ دیکھنے میں آتا ہے کہ جدید تعلیمی تقاضے دینی مدارس پر اس قدر اثر انداز ہو رہے ہیں کہ دینی علوم کی طرف توجہ اور رجحان کم ہوتا جا رہا ہے جو بہت افسوس ناک ہے۔ دینی مدارس کا اولین اور بنیادی مقصد یہ ہے کہ طلبہ قرآن، حدیث، فقہ اور دیگر اسلامی علوم میں گہرائی اور مہارت حاصل کریں اور ان کے ذہن دنیاوی خیالات اور مادی رغبتوں سے متاثر نہ ہوں۔ دینی مدارس کا مقصد محض کتابی علم دینا نہیں بلکہ اسلامی معاشرتی اصولوں پر ایسے تربیت یافتہ افراد تیار کرنا ہے جو اپنے علم و کردار سے معاشرے کو مذہبی راہنمائی فراہم کر سکیں۔

یہاں میں مولانا یوسف لدھیانویؒ کا ایک واقعہ درج کرنا چاہتا ہوں، مولانا کہتے ہیں کہ میرے طالب علمی کا زمانہ تھا، حدیث شریف سے فارغ ہو چکا تھا، اگلی پچھلی کتابیں پڑھ رہا تھا، میرے دوستوں نے مولوی فاضل کے لیے یونیورسٹی میں داخلے لے لیے کہ مولوی فاضل بن جائیں گے اور اس کے ذریعے کوئی سرکاری ملازمت مل جائے گی۔ میرے دو ساتھی تھے جنہوں نے مولوی فاضل میں داخلہ لے لیا تھا اور اس کی تیاری کر رہے تھے۔ جب بھی ہم اکٹھے بیٹھتے تو مجھ سے کہتے کہ تم بھی امتحان دے لو۔ میں کہتا میں غریب آدمی ہوں اسی روپے داخلہ فیس ہے اتنی فیس میں کہاں سے ادا کروں گا ؟ ایک دن ان میں سے ایک کہنے لگا کہ تمہاری فیس میں ادا کروں گا تم داخلے کے لیے آمادہ ہو جاؤ ۔ میں نے پوچھا سچ کہتے ہو؟ کہنے لگا بالکل، میں نے کہا کہ پہلے تو میں تمہیں ٹالتا تھا مگر اب اصل جواب سنو کہ اگر یو نیورسٹی کی جانب سے میرے نام خط آئے اور اس میں یہ لکھا ہوا ہو کہ آپ کا داخلہ بغیر فیس کے منظور کیا
جاتا ہے آپ از راہ کرم فلاں تاریخ کو ہماری امتحان گاہ تشریف لے آئیں ۔ آ کر بیٹھ جائیں، کچھ نہ لکھیں، سادہ کاغذ چھوڑ کر چلے جائیں، ایک سطر بھی نہ لکھیں، آپ پر کوئی پابندی نہیں اور آپ سے وعدہ کیا جاتا ہے کہ اس کے باوجود آپ کو یونیورسٹی میں سب سے اول نمبر قرار دیا جائے گا۔ بس آپ امتحان گاہ میں قدم رکھنے کی زحمت فرمائیں، میں نے کہا اگر بالفرض یو نیورسٹی کی طرف سے میرے نام اس مضمون کا خط آ بھی جائے تب بھی میں یونیورسٹی کی امتحان گاہ میں قدم رکھنا اپنی توہین سمجھتا ہوں اور اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ یہ مولوی فاضل کے امتحان میں کامیابی کیا چیز ہے، یہ عہدے اور یہ ڈگریاں کیا چیز ہیں، مجھے اپنی نالائقی کے باوجود اس بات پر فخر ہے کہ میں نے اللہ کا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام پڑھا ہے اس کے بعد مجھے کسی ڈگری کی ضرورت نہیں۔

یہ واقعہ سنانے کا مقصد ہرگز یہ نہیں کہ دینی مدارس کے طلباء یونیورسٹیز میں جا کر تعلیم حاصل نہ کریں بلکہ اس سے مقصود صرف یہ ہے کہ ایک عالم دین کو اپنی بنیادی ذمہ داری سے آگاہ ہونا چاہیے اور اس کا عکس اس کی ترجیحات میں بھی نظر آنا چاہیے۔ ایک عالم دین کی بنیادی ذمہ داری علم دین کی حفاظت و اشاعت ہے جو اس نے آٹھ دس سال لگا کر مدرسے میں حاصل کیا ہے۔ آج مدارس کے طلباء کا رجحان یونیورسٹیز اور سرکاری نوکری کے حصول کی طرف زیادہ ہو گیا ہے اوراصل مقاصد کی طرف توجہ بہت کم رہ گئی ہے۔ اس لیے دینی مدارس کی اصل روح کو سمجھنے اور دینی و دنیاوی تعلیم میں اعتدال و توازن قائم کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ دینی مدارس سماج کے وہ قلعے ہیں جو مادیت پرستی کے ماحول میں اسلام کی اصل روح کی حفاظت کر رہے ہیں۔ دینی مدارس اسلامی تہذیب کے وہ آخری مورچے ہیں جن کے بعد الحاد و مادیت کے سیلاب کے سامنے کوئی نظریاتی یا عملی مزاحمت باقی نہیں رہے گی۔ اس لیے ایک طرف دینی مدارس کے فضلاء کو اپنی ذمہ داریاں سمجھنے اور اپنی ترجیحات کے درست تعین کی ضرورت ہے اور دوسری طرف مدارس کے منتظمین کو مدارس کے نصاب و نظام اور پالیسی سازی کے لیے گہری بصیرت اور لانگ ٹرم منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ وقتی فوائد اور جدیدیت سے تاثر کی بنیاد پر کیے گئے فیصلوں کے نتائج خود دینی مدارس، دینی مدارس کے فضلاء اور امت کے حق میں پریشان کن ثابت ہو سکتے ہیں۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: دینی مدارس کے کی ضرورت علوم کی کی طرف اور اس کے لیے ہیں کہ ہے اور

پڑھیں:

نیا وقف قانون سیاسی ہتھیار ہے مسلمانوں کیلئے ہرگز موزوں نہیں ہے، مولانا محمود مدنی

جمعیۃ علماء ہند کے سربراہ نے کہا کہ یہ قانون نہ صرف غیر آئینی ہے بلکہ اکثریتی ذہنیت کی پیدوار ہے، جسکا مقصد مسلمانوں کے صدیوں قدیم مذہبی اور فلاحی ڈھانچے کو تباہ کرنا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ وقف ترمیمی قانون کے حوالے سے مسلم تنظیموں کی دہلی میں ایک اہم میٹنگ منعقد ہوئی۔ وقف ترمیمی ایکٹ پر جمعیۃ علماء ہند کے سربراہ مولانا محمود مدنی نے کہا کہ وقف ترمیمی ایکٹ ملک، سماج یا مسلمانوں کے لئے صحیح نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری لڑائی جاری رہے گی، ختم نہیں ہوگی، خواہ ہمیں کتنی ہی قربانی کیوں نہ دینی پڑے۔ مولانا محمود مدنی نے کہا کہ یہ وقف کا معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ سیاسی ہتھیار ہے۔ انہوں نے کہا کہ کبھی مسلمانوں کے نام پر، کبھی مسلمانوں کو گالی دے کر یا مسلمانوں کا ہمدرد بن کر بد دیانتی کے ارادے کے ساتھ اس ایکٹ کو نافذ کیا گیا ہے، یہ ایکٹ یا ترمیم ملک، سماج یا مسلمانوں کے لئے درست نہیں ہے۔

مولانا محمود مدنی نے اس حوالے سے مزید کہا کہ ہماری لڑائی جاری رہے گی، ختم نہیں ہوگی، خواہ ہمیں کتنی بھی قربانیاں کیوں نہ دینی پڑیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے آزادی سے قبل بھی قربانیاں دی ہیں، اگر ہمیں لڑنا پڑا تو ہم لڑیں گے، اگر ہمیں صبر کرنا ہے تو ہم وہ بھی کریں گے، ہم ہر صورتحال کے لئے تیار ہیں اور ہم انصاف کا انتظار کر رہے ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے پُرامن احتجاج کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ اس قانون کے خلاف ہر جگہ پُرامن احتجاج ہونے چاہیئے۔ واضح ہو کہ اس سے قبل مولانا محمود مدنی نے جمعہ کو جاری کردہ ایک بیان میں کہا کہ وقف ترمیمی ایکٹ کے خلاف سپریم کورٹ میں مفاد عامہ کی عرضی (پی آئی ایل) داخل کی گئی ہے، جس میں قانون کی آئینیت کو چیلنج کیا گیا ہے۔

عرضی میں جمیعۃ علماء ہند نے اپنا موقف رکھتے ہوئے کہا کہ اس قانون میں ایک نہیں بلکہ کئی آرٹیکل کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ خاص طور سے آرٹیکل 14، 15، 21، 25، 26، 29 اور 300 اے کے تحت دیے گئے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی گئی ہے، جو مسلمانوں کے مذہبی و ثقافتی حقوق اور شناخت کے لئے ایک سنگین خطرہ ہے۔ مولانا محمود مدنی نے کہا کہ یہ قانون نہ صرف غیر آئینی ہے بلکہ اکثریتی ذہنیت کی پیدوار ہے، جس کا مقصد مسلمانوں کے صدیوں قدیم مذہبی اور فلاحی ڈھانچے کو تباہ کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ قانون اصلاحی اقدام کے نام پر امتیازی سلوک کا علمبردار ہے اور ملک کے سیکولر تشخص کے لئے خطرہ ہے۔ مولانا محود مدنی نے یہ بھی کہا کہ سپریم کورٹ سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وقف ترمیمی ایکٹ 2025 کو غیر آئینی قرار دیں اور اس کے نفاذ پر فوری طور پر روک لگایا جائے۔

متعلقہ مضامین

  • کراچی میں جے یو آئی کے تحت غزہ ملین مارچ
  • فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی، کراچی میں جے یو آئی کے تحت غزہ ملین مارچ
  • نیا وقف قانون سیاسی ہتھیار ہے مسلمانوں کیلئے ہرگز موزوں نہیں ہے، مولانا محمود مدنی
  • افغانستان کا پاکستان کے دینی مدارس کے کے لئے امداد کا اعلان
  • فلسطینیوں سے یکجہتی: کراچی میں جماعت اسلامی، جے یو آئی کے غزہ مارچ
  • کوئی اسرائیل کو تسلیم کرنے کا سوچ رہا ہے تو ذہن سے نکال دے، مولانا فضل الرحمان
  • کوئی اسرائیل کو تسلیم کرنے کا سوچ رہا ہے تو ذہن سے نکال دے، فضل الرحمان
  • خون کے آخری قطرے تک فلسطین کے عوام کے ساتھ رہیں گے،فضل الرحمان
  • اداکار سمیع خان کا سوشل میڈیا پر منفی رجحانات پر اظہارِ تشویش
  • آئینِ پاکستان میں کہیں نہیں لکھا کہ 6 کینالز کی منظوری صدر نے دینی ہے، سراج درانی