Nai Baat:
2025-01-20@08:55:15 GMT

انصاف تک رسائی امیر اور غریب کیلئے مختلف معیار

اشاعت کی تاریخ: 20th, January 2025 GMT

انصاف تک رسائی امیر اور غریب کیلئے مختلف معیار

انصاف تک رسائی ہر معاشرے کے بنیادی اصولوں میں سے ایک ہے، جو سماج میں امن و سکون، مساوات اور استحکام کی ضمانت دیتا ہے اور اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ ہر فرد کو اپنے حقوق کے تحفظ، قانونی مسائل کے حل اور عدالتی نظام سے مساوی فائدہ حاصل ہو۔ کسی بھی معاشرے میں امیر اور غریب کے درمیان قانون کی عملداری اور انصاف کا معیار ہی یہ طے کرتا ہے کہ وہ اقوامِ عالم میں کہاں کھڑے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جو ریاستیں انصاف کی مناسب فراہمی یقینی بناتی ہیں کامیابی بھی ان کے ہی قدم چومتی ہے۔ جہاں امیر اور غریب یکساں حیثیت سے پیش ہوتے ہوں وہاں کے عوام ریاست پر اپنا حق تسلیم کرتے ہیں اور وہاں کا ہر فرد ریاستی مشینری کا حصہ بن جاتا ہے۔ کسی بھی ریاست کی ترقی میں انصاف کا کلیدی کردار ہے۔ انصاف ایک ایسا بنیادی حق ہے جس کی ضمانت آئینِ پاکستان دیتا ہے لیکن بدقسمتی سے عملی طور پر پاکستان میں انصاف کی فراہمی میں امیر اور غریب کے لیے معیار کا فرق اکثر نمایاں ہوتا ہے۔ جو نا صرف معاشرتی تقسیم اور ناہمواری کو بڑھاتا ہے بلکہ عدالتی نظام ِ انصاف پر عوام کے اعتماد کو کمزور کرتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں قانون و انصاف کا معیار پچھلے کئی سال سے دوہرا ہی رہا ہے۔ ہم بحیثیت قوم انصاف کے معیار کو برقرار رکھنے میں ناکام ہیں۔ فرمانِ نبویﷺ ہے کہ تم سے پہلی قومیں تباہ ہوئیں جہاں طاقتور کے لیے الگ اور غریب کے لیے الگ قانون تھا۔

پاکستان کا عدالتی نظام جو انصاف کی فراہمی کا بنیادی ذریعہ ہے عرصہ دراز سے مختلف مسائل کا شکار ہے۔ یہاں کے عدالتی نظام کی پیچیدگیوں نے انصاف کے حصول کو عام آدمی کے لیے مشکل ترین بنا دیا ہے، جبکہ معاشی طور پر مستحکم افراد کے لیے یہ نسبتاً آسان ہے۔ پاکستان انصاف کی فراہمی میں 180 ممالک کی فہرست میں 120 ویں نمبر پر ہے۔ مظلوم کو انصاف دینے میں تاخیر کرنا بھی ظلم کے مترادف ہے اور پاکستان میں یہ تاخیر عدالتی نظام کا طرہ امتیاز بن چکا ہے۔ ہماری عدالتوں میں تقریباً بائیس لاکھ سے زائد مقدمات زیرالتوا ہیں، بعض مقدمات تو ایسے ہیں جو کئی دہائیاں پرانے ہیں اور ان سے وابستہ سائل انصاف کی راہ تکتے تکتے اللہ کو پیارے ہو گئے مگر انصاف حاصل نہیں کر سکے۔ مقدمات کی اس بھرمار کے باعث عام عوام کو انصاف کی فراہمی میں تاخیر اور عدالتی نظام میں شفافیت کی کمی جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ امیر طبقہ ان تمام مسائل کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، جبکہ غریب وسائل کی کمی، قانونی معلومات کی قلت اور سماجی حمایت کی عدم موجودگی جیسی پیچیدگیوں کے باعث انصاف کے حصول میں ناکام رہتے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ معاشی نا ہمواری بھی انصاف تک رسائی میں ایک اہم رکاوٹ ہے یہاں غریب عوام کے پاس نا تو وکلاء کی فیس، عدالت کی فیس اور سفری اخراجات برداشت کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے اور نا ہی وہ روزمرہ زندگی اور معاشی دبائو کے باعث عدالتی کارروائیوں کے لیے وقت نکال سکتے ہیں۔ یہاں غریب کو سالوں تک مقدمات میں الجھنا پڑتا ہے جو وقت کے ضیاع کے ساتھ ساتھ ان کی مالی حالت کو مزید کمزور کرتا ہے۔ اس کے برعکس امیر افراد کے پاس نا صرف بہترین قانونی ماہرین کی خدمات موجود ہوتی ہیں جس کے باعث عدالتی نظام میں موجود خامیوں سے فائدہ حاصل کرتے ہوئے وہ رشوت یا ذاتی تعلقات کے ذریعے اپنے مقدمات کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرا لیتے ہیں۔ یہ تفریق صرف یہاں کی عدالتوں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ پولیس، انتظامیہ اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں میں بھی دیکھی جا سکتی ہے جہاں امیر افراد کو ان کے تعلقات اور مالی حیثیت کی وجہ سے زیادہ مراعات ملتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا نظامِ انصاف امیر کے لیے جزا جبکہ غریب کے لیے سزا کا منظر پیش کرتا ہے۔ اس غیر مساوی نظام کے نتائج نا صرف غریب طبقے کے لیے مایوسی اور بے بسی کا سبب بنتے ہیں بلکہ پورے معاشرتی ڈھانچے میں عدم توازن اور بد اعتمادی کو فروغ دیتے ہیں۔ انصاف کے حصول میں اس تفریق کا سب سے زیادہ نقصان ان لوگوں کو ہوتا ہے جو پہلے ہی معاشرتی نا ہمواریوں کا شکار ہیں نتیجتاً وہ اکثر اپنے قانونی حقوق سے دستبردار ہو جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب ہمارے معاشرے میں ایسے ایسے جرائم منظرعام پر آ رہے ہیں جن کی بابت چند عشرے قبل تک سوچنا بھی محال تھا۔ کمزور قانونی نظام نے یہاں کے لوگوں سے غلط اور درست، خیر و شر کے مابین تمیز کرنے کی صلاحیت ہی چھین لی ہے۔ یہاں دوہرا قانونی نظام اب عروج پر ہے، طاقتور، دولت مند اور با اثر لوگ جرم کر کے بھی رہا ہو جاتا ہے جبکہ غریب پاکستانی جرم نا کرنے پر بھی جیل کی ہوا کھانے پر مجبور ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’ہر انسان اپنے گناہ (یا جرم) کا خود ذمے دار ہے۔ وہ دوسرے کا نہیں اپنا بوجھ خود اٹھائے گا اور ہر انسان نے رب کے حضور پیش ہو کر اپنے اعمال کا حساب دینا ہے‘۔ (سورۃ انعام 164) انصاف کی بروقت اور درست فراہمی پر ہی دین و دنیا کی فلاح کا دارومدار ہے۔ پاکستان میں انصاف کے نظام کو مساوی اور شفاف بنانے کے لیے اصلاحات ضروری ہیں۔ انصاف کا حصول ہر انسان کا بنیادی حق ہے خواہ وہ امیر ہو یا غریب اس لیے انصاف کے معیار کو مساوی بنانا ایک قانونی تقاضے کے ساتھ ساتھ اخلاقی ذمہ داری بھی ہے۔ ایک مضبوط اور شفاف عدالتی نظام ہی پاکستان کو ایک ترقی یافتہ اور خوشحال ملک بنا سکتا ہے، اس کے بغیر معاشرتی نا ہمواری بڑھتی رہے گی اور اعتماد کا فقدان مزید گہرا ہو گا۔ انصاف کے معیار کو یکساں بنانے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت قانونی نظام میں اصلاحات کرے، مفت قانونی مدد کے پروگرامز کو مؤثر بنائے اور عدالتی عمل کو تیز اور شفاف بنانے کے لیے مزید اقدامات کرے تا کہ ہر شخص خواہ وہ امیر ہو یا غریب، اپنے قانونی حقوق کا تحفظ حاصل کر سکے۔ انصاف کی فراہمی میں اس تفریق کا خاتمہ نہ صرف افراد کے درمیان برابری کا احساس پیدا کرے گا بلکہ معاشرتی ترقی اور استحکام کے لیے بھی بہتری کا باعث بنے گا۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: انصاف کی فراہمی میں امیر اور غریب پاکستان میں عدالتی نظام انصاف کے انصاف کا غریب کے کرتا ہے کے باعث کے لیے

پڑھیں:

مالٹا میں پاکستانی مصنوعات کی رسائی کیلیے ضیاء نور اعزازی سرمایہ کاری کونسلر مقرر

کراچی:

وفاقی حکومت نے غیر روایتی مارکیٹوں تک پاکستانی مصنوعات کی رسائی کے لیے مالٹا میں ضیاء نور کو پاکستان کا اعزازی سرمایہ کاری کونسلر مقرر کر دیا ہے۔

اعزازی سرمایہ کاری کونسلر ضیاء نور نے یورپی یونین کے رکن ملک مالٹا میں باہمی تجارت و سرمایہ کاری کے شعبوں میں حکمت عملی مرتب کرلی ہے۔

ایکسپریس سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے ضیاء نور نے کہا کہ مالٹا یورپین یونین میں چھوٹا ملک ضرور ہے لیکن یہ ایک مضبوط پوزیشن کی مارکیٹ ہے جہاں مختلف وسائل اور مصنوعات کی کھپت کا انحصار خالصتاً درآمدات پر مبنی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان ایک مضبوط ایکسپورٹ پورٹ فولیو کے باوجود مالٹا کی مارکیٹ میں انتہائی کم حصہ رکھتا ہے اور پاکستان سے مالٹا کے لیے برآمدات کا حجم 3.85ملین ڈالر پر مشتمل ہے۔

انہوں نے بتایا کہ نئی حکمت عملی کے تحت مالٹا کے لیے رواں سال کے اختتام تک 10ملین ڈالر تک پہنچایا جائے گا۔ مالٹا میں پاکستانی چاول، ٹیکسٹائل، کھیلوں کے سازو سامان، سیمنٹ، فروٹ و سبزیاں، قالین، آئل سیڈز اور ٹائلز سمیت دیگر متعدد اشیاء کی کھپت کے وسیع امکانات موجود ہیں۔ اس تناظر میں پاکستانی نمائندے کی حیثیت سے کام کا آغاز کر دیا گیا ہے جس کے لیے ابتدائی طور پر مالٹا کے درآمد کنندگان اور پاکستانی برآمد کنندگان کے درمیان شعبہ جاتی بنیادوں پر روابط قائم کیے جائیں گے۔

ضیاء نور نے بتایا کہ فی الوقت مالٹا میں استعمال ہونے والے چاول کی ایک بڑی مقدار اٹلی سے درآمد ہو رہی ہے حالانکہ اٹلی خود یہ چاول پاکستان سمیت جنوب ایشیاء سے درآمد کرتا ہے لہٰذا مالٹا کے صارفین کو بالواسطہ طور پر پہنچنے والے پاکستانی چاول مہنگے داموں میں مل رہے ہیں۔ اگر پاکستان سے چاولوں کی براہ راست برآمدات مالٹا کی مارکیٹ میں کی جائے تو بلحاظ قیمت مالٹا کے درآمد کنندگان کو یہ چاول کم لاگت پر میسر ہو سکیں گے اور کسی یورپین ملک کے بجائے براہ راست پاکستانی ایکسپورٹرز سے چاول کے درآمدی معاہدے کر سکیں گے۔

انہوں نے بتایا کہ دوطرفہ تعلقات کے درمیان خلا کو پر کرنے کے لیے مالٹا میں ’’پاکستان سینٹر ورکنگ کیٹالسٹ‘‘ قائم کیا گیا ہے جو پاکستانی مینوفیکچررز اور مالٹیز انٹرپرینورز کے لیے ایک موثر پلیٹ فارم ہے۔ اس پلیٹ فارم کے ذریعے دونوں ممالک کے تاجر و صنعتکار اپنی اپنی مصنوعات اور خدمات سے متعلق آگاہی کے ساتھ نیٹ ورکنگ بھی کرسکتے ہیں۔

ضیاء نور نے بتایا کہ دونوں ممالک کے فوڈ اور آٹوموٹیو سیکٹر سے وابستہ مینوفیکچررز اس پلیٹ فارم کے ذریعے ایک دوسرے کے ملکوں میں مشترکہ سرمایہ کاری اور ٹیکنالوجی کی منتقلی کے مواقع سے مستفید ہوسکتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ پاکستان اور مالٹا کے درمیان باہمی تجارت و سرمایہ کاری انتہائی امید افزاء ہیں۔ مالٹا میں سرجیکل آلات کی کھپت کے بھی وسیع امکانات ہیں اور پاکستانی سرجیکل مینوفیکچررز مالٹا میں جوائنٹ وینچرز کے ذریعے مینوفیکچرنگ یونٹس قائم کرکے مالٹا میں کثیر زرمبادلہ کما کر پاکستان بھیج سکتے ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں ضیاء نور نے بتایا کہ مالٹا کی مارکیٹ بھارت جارحانہ مارکیٹنگ کے ذریعے اپنی مصنوعات کی برآمدات کے حجم کو بڑھا رہا ہے اور فی الوقت مالٹا بھارت سے 600 ملین ڈالر کی متعدد اشیاء درآمد کر رہا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ پالیسی ساز وزیراعظم پاکستان کے اعلان کردہ اڑان پاکستان پروگرام کے تحت یورپین یونین کے اہم ملک مالٹا کے لیے بھی حکمت عملی مرتب کرے کیونکہ بحیثیت سرمایہ کاری قونصلر ہمیں چاول ٹیکسٹائل کلاتھنگ ملبوسات اجناس سمیت دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے کہنہ مشق پاکستانی برآمدکنندگان کی ضرورت ہے۔

متعلقہ مضامین

  • مودی حکومت نے غریب اور محنت کش طبقوں سے اپنا منہ موڑ لیا ہے، راہل گاندھی
  • سیاست میں انتقام کا عنصر ملک و جمہوریت کیلئے نقصان دہ ہے،کاش سعید شیخ
  • سیاسی اور عدالتی معاملات میں مذہب کا سہارا
  • ڈنکی لگا کر بیرون ملک جانے والوں کیلئے فتویٰ جاری 
  • مالٹا میں پاکستانی مصنوعات کی رسائی کیلیے اعزازی کونسلر مقرر
  • تجارتی مراکز پر عالمی معیار کا کارگو نگرانی نظام بنایاجائے، وزیراعظم
  • وزیر اعظم کی کراچی اور تجارت کے دیگر بڑے مراکز پر عالمی معیار کا کارگو سکیننگ نظام قائم کرنے کی ہدایت
  • مالٹا میں پاکستانی مصنوعات کی رسائی کیلیے ضیاء نور اعزازی سرمایہ کاری کونسلر مقرر
  • القادر ٹرسٹ کیس کا فیصلہ شفافیت اور انصاف کی فتح ہے،امیر مقام