Nai Baat:
2025-01-20@08:56:58 GMT

سزائیں، 22 مطالبات، لرزہ خیز پیغامات

اشاعت کی تاریخ: 20th, January 2025 GMT

سزائیں، 22 مطالبات، لرزہ خیز پیغامات

ایک کھڑکی کھلی اور فوراً ہی بند ہو گئی، اسٹیبلشمنٹ سے رابطہ بحال ہونے کے آرزو مند پہلے ہنسے پھر روئے، ٹھیک چار دن بعد گزشتہ ایک سال سے زیر سماعت 190 ملین پائونڈ (70 ارب روپے) کرپشن کیس میں خان اور ان کی اہلیہ محترمہ کو سزائیں سنا دی گئیں، کرپٹ پریکٹس اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزامات درست ثابت، خان سے صادق اور امین کا ٹائٹل چھن گیا۔ احتساب عدالت کے جج نے 148 صفحات پر مشتمل فیصلہ میں 134 نکات پر تفصیلی رائے دی، 100 سماعتوں کے بعد 18 دسمبر کو فیصلہ محفوظ کرلیا گیا۔ 23 دسمبر 6 جنوری اور 13 جنوری کو سنایا نہ جاسکا 17 جنوری 2025ء کو خان اہلیہ سمیت سزا یافتہ قیدی بن گئے ’’تانگہ آگیا کچہریوں خالی تے سجناں نوں قید بول گئی‘‘ اڈیالہ جیل میں قیدیوں کی تعداد 7609 ہوگئی۔ خان کے 12 وکلاء ایک سال کے دوران اس سوال کا جواب نہ دے سکے کہ برطانیہ سے ریاست پاکستان کو واپس کی جانے والی رقم قومی خزانے کی بجائے سپریم کورٹ کے جرمانہ اکائونٹ میں کیوں جمع کرائی گئی۔ فاضل جج نے 7 منٹ میں فیصلہ سنایا اور چلے گئے۔ اس کے مطابق خان کو 14 سال قید 19 لاکھ روپے جرمانہ، عدم ادائیگی پر مزید 6 ماہ قید، اہلیہ بشریٰ بی بی کو اعانت جرم پر 7 سال قید 5 لاکھ جرمانہ عدم ادائیگی پر مزید 3 ماہ قید بھگتنا ہوگی۔ جیل میں موجود رپورٹرز کے مطابق سزا سنتے ہی خان کے اوسان خطا، چہرے کا رنگ فق ہوگیا۔ لیکن بیرسٹر گوہر نے باہر آکر بتایا کہ خان فیصلہ سن کر ہنس دئیے۔ مشکلیں اتنی پڑیں ان پر کہ آساں ہوگئیں، اس کھلے جھوٹ کو ذہن کی لوٹ کو کیا کہا جائے۔ ایک ٹی وی چینل نے اسے منافقت قرار دے کر سوالیہ نشان لگا دیا۔ برطرف اور راندۂ درگاہ استاذ الملائک نے قہقہہ لگا کر داد دی۔ آگے کیا ہوگا؟ وکلا دو تین روز میں اسلام آباد ہائیکورٹ کا رخ کریں گے۔ سزا معطلی کی درخواست دیں گے کیا 7 منٹ میں فیصلہ معطل ہوجائے گا؟ کہنا آسان لیکن مشکل ہے۔ بی بی صاحبہ کو 13 مقدمات میں 13 منٹ میں ضمانتیں مل گئی تھیں۔ پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی کو اپنے دامن میں پناہ دینے والے حامد رضا کا کہنا ہے کہ سزا سنائے جانے کے باوجود حکومت سے مذاکرات جاری رہیں گے۔ یہ الگ بات کہ خان کو سزا ملنے پر ہمارا لہجہ تلخ ہوجائے گا۔ کیا 16 جنوری کو ہونے والے تیسرے رائونڈ میں پی ٹی آئی کی مذاکرات ٹیم کا لہجہ شہد جیسا میٹھا تھا؟ قومی اسمبلی اور سینٹ کے اجلاسوں میں وہی اووو اووو کی آوازیں آتی رہیں۔ نیتیں، لہجے روئے حسب سابق ہیں۔ چہروں پر خوش اخلاقی کا پینٹ کر کے مذاکرات میں آ بیٹھے ہیں۔ تیسرے رائونڈ میں انہوں نے 3 صفحات پر مشتمل بظاہر اپنے دو مطالبات حکومتی ٹیم کے حوالے کردئیے، جنہوں نے غور سے پڑھا ان کا کہنا تھا کہ 3 صفحات میں 22 مطالبات کیے گئے گویا کوزے میں سمندر بند کردیا گیا۔ کہا گیا حکومتی ٹیم 7 دنوں میں ان مطالبات کا جواب دے پھر چوتھا رائونڈ ہوگا۔ حکومتی ٹیم کے سینیٹر عرفان صدیقی اور رانا ثناء اللہ نے چند گھنٹوں ہی میں ٹی وی پر آکر جواب دے دیا کہ دونوں کمیشن نہیں بن سکتے علی امین گنڈا پور نے کلہاڑے پر پائوں مار دیا۔ ٹی وی چینل پر آکر اعتراف کرلیا کہ 9 مئی کو جلائو گھیرائو کرنے والے پی ٹی آئی کے کارکن تھے جو خان کی گرفتاری پر مشتعل ہو گئے۔ سیدھی سچی بات جن کی تنصیبات جلائی گئیں وہ کیسے چھوڑیں گے۔ 26 نومبر کو کون مرا کہاں مرا کتنے زخمی ہوئے کتنے گمشدہ، کوئی فہرست نہیں کمیشن کیسے بنے گا کیا جج گھر گھر جا کر ہلاک اور زخمی ہونے والوں کی فہرستیں تیار کریں گے اور مرنے والے کیسے اور کیوں مرے کی تحقیقات کریں گے اسیران کا فیصلہ عدالتیں کریں گی۔ جواب آگیا مذاکرات کا چوتھا رائونڈ مشکوک، ادھر طاقتوں کی جانب سے دو روح فرسا اور لرزہ خیز پیغامات نے راتوں کی نیندیں اڑا دیں، سپریم کورٹ کو بتا دیا گیا کہ 9 مئی کے ماسٹر مائنڈ کا ٹرائل فوجی عدالت ہی میں ہوگا۔ دوسرا پیغام پشاور میں سیاسی قیادت سے خطاب میں دیا گیا کہ امن خراب کرنے والوں فیصلہ کن جواب دیا جائے گا۔ آخر میں ذکر اس کھڑکی کا اور پھر بیان اپنا، چار دن پہلے کھڑکی دو منٹ کے لیے کھلی اور بند ہوگئی۔ قوم یوتھ کے ٹیوبرز، تجزیہ کاروں نے اسٹیبلشمنٹ سے رابطہ کی بحالی پر شادیانے بجائے بانی پی ٹی آئی نے اس خبر کو خوش آئند قرار دیا۔ بات کا بتنگڑ بنا دیا گیا۔ بات کچھ بھی نہ تھی۔ پشاور میں بیرسٹر گوہر کا آرمی چیف سے آمنا سامنا ہوگیا۔ آرمی چیف نے پشاور کے کور کمانڈر ہائوس میں سیاسی قیادت کو مدعو کیا تھا۔ اسٹیبلشمنٹ سے رابطوں کے دروازے کھلنے کے آرزو مند اسی موقع کی تلاش میںتھے۔ بیرسٹر گوہر اسلام آباد سے مبینہ طور پر گنڈا پور کے ہیلی کاپٹر میں پشاور پہنچے، نظر انداز کیے جانے پر مایوسی ہوگئی۔ گنڈا پور نے دوران گفتگو آرمی چیف کو 26 بار سر کہہ کر رام کرنے کی کوشش کی لیکن مرد آہن نے بات چیت خوارج کے خلاف انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز پر سیاسی رہنمائوں کو اعتماد میں لینے تک محدود رکھی۔ بریفنگ چار گھنٹے جاری رہی۔ اٹھ کر جانے لگے تو بیرسٹر گوہر آگے بڑھے ’’سر آپ سے بات کرنی ہے‘‘ جواب تھا ’’کرلیں‘‘ بیرسٹر گوہر نے بانی کی رہائی سمیت سیاسی امور چھیڑنے چاہے۔ شائستگی سے جواب ملا ’’سیاسی امور پر سیاستدانوں سے بات کریں‘‘ ملاقات ختم، کھڑکی بند،واپسی پر پہلے ملاقات کی تردید لیکن خان سے ملاقات کے بعد دوسرے دن خوشی سے دمکتے چہرے کے ساتھ تصدیق کر دی کہ گنڈا پور اور میری آرمی چیف سے ملاقات ہوگئی۔ ’’آج کا دن اور اتنا مختصر، دن گنے جاتے تھے اس دن کے لیے‘‘ جیل میں ملاقاتیں کیسے ہوتی ہیں، خاندان رل جاتے ہیں۔ خان کو سختیوں کا سامنا نہیں، 50 لاکھ کا تو کھانا کھا گئے ہیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ اڈیالہ جیل میں مقیم میاں بیوی کے بچے اپنی ماں اور باپ کے پاس لندن اور لاہور میں عیش کی زندگی گزار رہے ہیں۔ گزرے وقتوں کی نشانی بیٹی ٹیریان بھی سوتیلے بھائیوں کے ساتھ ہے پتا نہیں کس کی بیٹی ہے ماں زندہ ہوتی تو عدالت میں کھلنڈرے کھلاڑی کا نام بتا دیتی، کھڑکی کھلنے اور بند ہونے پر خان کے متضاد بیانات نے انہیں جیل تک محدود کردیا ہے۔ وکلا دل کے بہلانے کو کچھ بھی کہتے رہیں۔ حقیقت یہی ہے کہ رستہ نہیں کھلا، تصفیہ نہیں ہوا، حالات بدلنے تک حالات یہی رہیں گے، سختیاں بڑھیں گی۔ کھڑکی کھلنے سے حکومت کے وسوسوں میں اضافہ ہوگیا۔ کہیں ایسا نہ ہوجائے کہیں، ویسا نہ ہوجائے، تاہم قریب رہنے والے چڑیوں اور کبوتروں نے خبر دی کہ دو تین اعلیٰ منصب پر فائز افسران وزیر اعظم ہائوس کی جانب آتے جاتے دیکھے گئے، حکومت کے وسوسے دور کر دئیے گئے، سینئر صحافی اور بے لاگ تبصرے کرنے والے مجیب الرحمان شامی سے پوچھا گیا، خان دوبارہ وزیر اعظم بن سکتے ہیں جواب دیا کیوں نہیں، وزیر اعظم ہائوس اور اڈیالہ جیل کے قریبی تعلقات ہیں رویہ درست کرلیں فاصلہ ہی کتنا ہے۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: بیرسٹر گوہر پی ٹی آئی گنڈا پور آرمی چیف جیل میں دیا گیا

پڑھیں:

راولپنڈی پولیس کی موثر پولیسنگ، سال 2024 میں 2803 مجرمان کو سزائیں

راولپنڈی پولیس کی موثر پولیسنگ، سال 2024 میں 2803 مجرمان کو سزائیں WhatsAppFacebookTwitter 0 18 January, 2025 سب نیوز

راولپنڈی(بیورورپورٹ) راولپنڈی پولیس کی موثر پولیسنگ، سال 2024 میں معزز عدالتوں نے 2803 مجرمان کو سزائیں سنائیں، قتل کے مقدمات میں ملوث 73 مجرمان کو سزائیں سنائی گئیں،اغوا برائے تاوان کے مقدمہ میں 1 مجرم کو سزا سنائی گئی، ڈکیتی میں ملوث 06 مجرمان کو سزائیں سنائی گئیں،گزشتہ سال 185 منشیات فروشوں کو معزز عدالتوں سے سزائیں سنائی گئیں، منشیات فروشوں کو 20 سال تک کی سزائیں سنائی گئیں

،اقدام قتل اور ضرر کے 18 مجرمان کو سزائیں جبکہ کار و موٹرسائیکل چوری میں ملوث 276 مجرمان کو سزائیں سنائی گئی،چوری، نقب زنی اور دیگر چوری میں ملوث 266 مجرمان کو سزائیں سنائی گئیں، ناجائز اسلحہ رکھنے والے 163 مجرمان کو سزائیں سنائی گئیں، گزشتہ سال دیگر جرائم میں ملوث 1815 مجرمان کو سزائیں سنائی گئیں، راولپنڈی پولیس کی موثر تفتیش اور پیروی مقدمہ سے مجرمان کی سزایابی ممکن ہوئی، تفتیشی افسران کی استعداد کار بڑھانے اور تفتیش کے معیار کو مزید بہتر بنانے کے لیے تمام اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں

، ایس ڈی پی اوز اور ایس ایچ اوز تمام مقدمات کی تفتیش کی براہ راست نگرانی کر رہے ہیں، اہم اور سنگین نوعیت کے مقدمات کی تفتیش میں ایس ایس پی انوسٹی گیشن اور ڈی ایس پی لیگل وقتا فوقتا تفتیشی اور سپروائزری افسران سے میٹنگ کر کے ہدایات جاری کر رہے ہیں، جرائم پیشہ عناصر کو قانون کی گرفت میں لانے کے ساتھ ساتھ معزز عدالت سے ملزمان کی سزایابی کے لیے تمام قانونی تقاضے پورے کیے جارہے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • پی ٹی آئی کے تحریری مطالبات سے مسلم لیگ ن کی مرکزی قیادت کو آگاہ کردیا گیا
  • احتجاج ہمارا آئینی حق ہے، پولیس دفتر پر چھاپے مار رہی ہے، پی ٹی آئی بلوچستان
  • پی ٹی آئی کے مطالبات سےلیگی مرکزی قیادت کو آگاہ کردیا گیا
  • بائیڈن کی ایک روزمیں مزید 2500 مجرموں کی سزائیں معاف
  • راولپنڈی پولیس کی موثر پولیسنگ، سال 2024 میں 2803 مجرمان کو سزائیں
  • مذاکرات کے دوہری حکمت عملی پر عرفان صدیقی کا پی ٹی آئی کو جواب
  • بائیڈن کی جاتے جاتے ریکارڈ معافی، ایک دن میں 2500 مجرموں کی سزائیں معاف
  • سزائیں ہمارے حوصلے پست نہیں کر سکتیں، تحریک انصاف
  • پہلے بھی ایسی سزائیں دی گئیں جو ہائیکورٹ میں جا کر ختم ہوئیں، علیمہ خان