Jasarat News:
2025-01-20@08:19:18 GMT

استاد کی تذلیل معاشرے کی تباہی

اشاعت کی تاریخ: 20th, January 2025 GMT

استاد کی تذلیل معاشرے کی تباہی

ایک استاد محترم کی تصویر سوشل میڈیا پر دیکھ کر دلی دُکھ ہوا کہ استاد ہتھکڑی میں جکڑا ہوا ہے اور اس کا بدبخت شاگرد جس کو وہ علم و شعور سے آشنا کرنے اور ترقی و کمال کے مدارج طے کرانے کے لیے سعی کرتا ہے اُس طالب علم کا غصہ عروج پر ہے اور وہ کہہ رہا ہے کہ مجھے میرے استاد نے مارا ہے اس کو سخت سزا دی جائے کم سے کم اس کا تبادلہ کیا جائے۔ اور یوں علم کی روشنی اس ذلت آمیز روش سے سندھ میں ٹمٹا رہی ہے، استاد جس رتبہ سندھ میں ماں باپ سے بھی بڑھ کر ہوا کرتا تھا کہا جاتا تھا ماں باپ اولاد کو زمین پر لاتے ہیں تو استاد ان کو علم سے آشنا کرکے آسمان تک لے جاتا ہے اس میں کوئی دورائے بھی نہیں ہے۔ آدمی انسان جب ہی بنتا ہے جب وہ علم سے آراستہ ہوجاتا ہے۔ دنیاوی ترقی ہو یا اخروی نجات کا معاملہ یہ استاد کی محنت شاقہ ہی اس کی راہ پہ گامزن کرتی ہے۔ سیدنا علی کرم اللہ وجہ کا قول ہے کہ جس نے ایک لفظ سکھایا اس نے غلام بنالیا اس کی مرضی وہ غلام رکھے یا آزاد کرے، ایسی متبرک ہستی استاد کو ہتھکڑی لگا دیکھ کر صرف اس الزام پر کہ اس نے اپنے شاگرد کو مار پیٹ کی یوں رسوا کرنا علم کا نوحہ ہے۔

جناب لقمان کے معروف اقوال میں ہے کہ بچے کو مارنا ایسا ہے جیسی فصل کو کھاد جس کا بروقت استعمال جلا بخشتا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر عالم انسان کے محسن منبع شریعت نبی اکرمؐ کا فرماں مبارک ہے کہ جو بچہ دس سال کا ہوجائے تو اُس کو سختی سے نماز پڑھائو، استاد مار اور پیار دونوں کو استعمال میں لائے جیسے کہ اس حدیث میں آیا ہے کہ سات سال کی عمر کے بچے کو پیار سے نماز کی طرف راغب کرے، وہ دن بھی ہوا کرتے تھے کہ شاگرد اسکول میں استاد کے ہاتھوں پٹائی کی بات گھر آکر والدین کو کرتا تو مزید مار اس شکایت کی ملا کرتی تھی یوں مار اور پیار کا معیار تعلیم اتنا شاندار ہے کہ اب کہا جاتا ہے کہ اس دور کا میٹرک پاس آج کل کی ماسٹر ڈگری سے بھی اچھے معیار تعلیم کا حامل ہے یہ حقیقت بھی ہے۔ اس وقت استاد اولاد کی طرح شاگرد کو پڑھایا کرتے تھے، ٹیوشن کی ہوس نہ تھی اور نہ ہی نقل کی چھوٹ اور پھر ایسی نسل تیار ہوتی تھی جو تعلیم کے ساتھ تربیت سے آراستہ، اب معاشرہ جو تباہی کی طرف گامزن ہے اس کا بڑا سبب اک یہ بھی ہے کہ استاد کو سختی کرنے کا کوئی حق نہیں اگر وہ کرے گا تو ہتھکڑی لگے گی سو اب سندھ میں اساتذہ میں یہ جملہ عام ہوتا جارہا ہے کہ ’’پڑھو نہ پڑھو پگھار ہماری کھڑی‘‘۔ اب رٹا کلچر ہے ایک شاگرد کھڑا ہو کر ایک جملہ پڑھتا ہے اور تمام شاگرد کورس کے انداز میں دہراتے ہیں اور انہیں لفظوں کی شناخت تک نہیں ہوتی نہ ہی جملہ کی پہچان کر وہ کیا پڑھ رہے ہیں اب تعلیم کا نظام میک اپ زدہ ہوگیا۔ بھاری فیسوں، خوب صورت ڈریس، چمکیلا شناختی کارڈ کا قلاوہ، اچھل کود، پروگرامات لاحاصل کی بھرمار سے بچوں کا دل بہلانا ہی مقصد تعلیم قرار پایا ہے۔ ہوم ورک اول تو ملتا ہی نہیں، کچھ استاد دیتے ہیں تو شاگرد اُن کے پاس ٹیوشن پڑھ کر یہ ہوم ورک مکمل کرتے ہیں۔ کہاں تعلیم کے ساتھ تربیت کا اسکولوں میں انتظام ہوا کرتا تھا کہ بڑوں کے ادب، چلنے پھرنے کے آداب، کھانے بیٹھنے کے اطوار سب ذہن نشین کرائے جاتے تھے، اب رونا ہے معاشرے کا کہ نئی نسل بگڑ کر دھول ہوتی جارہی ہے۔ درس گاہوں سے فارغ ہونے والے والدین کے حقوق و احترام سے عاری ہورہے ہیں۔ تو بات پھر یہی ہے کہ علم پڑھانے، تربیت کرنے والے استاد کو سرزنش کرنے کے جرم میں اگر والدین ہتھکڑی کا اہتمام کریں گے تو ان کے حقوق بھی نئی تربیت یافتہ نسل کے ہاتھوں پابند سلاسل ہوں گے۔

اساتذہ کی تذلیل علم کی توہین ہے اور پھر میڈیا پر تشہیر نسل کی تباہی ہے۔ جرمنی میں اساتذہ کی عزت و توقیر کا یہ عالم ہے کہ سب سے زیادہ تنخواہ اساتذہ کی ہوتی ہے، ملک کے وزرا، رکن پارلیمنٹ نے احتجاج کیا کہ ہماری تنخواہ بڑھ کر ہونی چاہیے تو جرمنی کی حکمراں نے خوب صورت جواب دیا کہ جو اساتذہ حکمراں، وزرا، ماہرین بناتے ہیں اُن سے زیادہ دوسرے اس کے حقدار کیسے ہوسکتے ہیں، یوں ہی جرمنی جنگ عظیم کی تباہی و بربادی کے بعد پھر دنیا میں اپنا مقام بنا گیا۔ اساتذہ کی بے قدری تباہی کا آغاز ہے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: اساتذہ کی ا ہے کہ ہے اور

پڑھیں:

برے کام کا انجام برا ہے…

سوا سال سے غزہ میں امریکہ اور اسرائیل کی مشترکہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے مظاہر تاریخ عالم میں ثبت ہو چکے۔ اس سے سنبھلے نہ تھے کہ شام کے 13 ہولناک سالوں میں اپنے ہی عوام پر بمباریوں، ممنوعہ خوفناک کیمیائی حملوں کی ہزار داستان مع شواہد کے دنیا کے سامنے آگئی۔ یہ حقیقت بھی خود مستند ترین مغربی میڈیا نے کھول دی کہ اس میںامریکہ، ایران،لبنان، روس، فرانس کی پشت پناہی / مدد شامل رہی۔ اسرائیل کے لیے تمام مغربی ممالک کا اسلحہ، ڈالر اور امریکی و یٹو حاضر تھا،اورشام میںروس کا ویٹو۔ انتہا پسندانہ جنگ جس میں مسلمان سے جینے کا حق چھین لینا ہی گلوبل انصاف ہے۔ سو آج انتہا پسندی، دہشت گردی کی انتہائی متنازعہ اصطلاحیں سفاک لطیفے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتیں۔ اللہ کی مکافاتِ عمل کی لاٹھی کیلی فورنیا پر جہنم زار بنانے کو برسی ہے۔ یہ اصطلاحیںسیاہ دھوئیں کے بادلوں، سرخ غضب ناک شعلوں اور ہیبتناک آگ بھرے طوفانوںمیں جل کر راکھ ہو گئیں۔ طوفانی ہوائیں بگولے ’Tornado‘کہلاتی ہیں۔ کیلی فورنیا میں یہ صدی کے شدید ترین فائر نیڈو ’Firenado‘آگ بھرے بگولے بن گئے۔ (160 کلومیٹر فی گھنٹہ)’و ما کان ربک نسیاً ‘اور تیرا رب بھولنے والا نہیں ہے۔ (مریم:64)’ ان بطش ربک لشدید۔‘بے شک تمھارے رب کی پکڑ بہت سخت ہے۔ (البروج: 12)انسانیت سوز تاریخی واقعات ہی پر اللہ کا اظہارِ غضب ہے۔ ’جن لوگوں نے مومن مردوں اور عورتوں پر ظلم و ستم توڑا اور پھر اس سے تائب نہ ہوئے،یقینا ان کے لیے جہنم کا عذاب ہے اور ان کے لیے جلائے جانے کی سزا ہے۔‘ (البروج: 10) ٹیکساس جو کیلی فورنیا سے 25 گھنٹے دور ہے۔ وہاں ایک پاور سب سٹیشن (فورٹ ورتھ میں) میں یکایک دھماکے کے بعد انتہائی خوفناک آگ بھڑک اٹھی۔ گاڑھا سیاہ دھواں، بہت پھیلی ہوئی شدید ترین آگ۔

ابھی تو ٹرمپ نے اقتدار میں آنے کے خمارمیں حماس کو دھمکی دی کہ میرے حلف اٹھانے تک یرغمال اسرائیلی نہ چھوڑے تو مشرقِ وسطیٰ میں پوری جہنم بھڑک اٹھے گی۔ اسے بار بار دہرایا۔ پانامہ کینال پر قبضے کا نعرہ لگایا۔ جس پر پاناما والے بھڑک اٹھے۔ ہر گز نہیں! پھر ٹرمپ نے ڈنمارک سے گرین لینڈ دبوچ لینے کا ارادہ ظاہر کیا۔ وہ دونوں ناراض ہوگئے۔ کینیڈا کو اپنا 51 واں صوبہ بنانے کی خواہش کر دی۔ ٹروڈو نے تڑخ کر ناراضی ظاہر کی۔ مشرقِ وسطیٰ پر جہنم بھڑکانے کے ارادے پرتو اللہ نے از خود نوٹس لے کر بات بخوبی سمجھا دی۔کیلی فورنیا میں12ہزار بلڈنگیں آگ نگل گئی۔ (اعداد و شمار مسلسل بڑھتے جا رہے ہیں۔) گھر، رہائشی بلڈنگیں، شاپنگ مالز، ہوٹل، میکڈونلڈ، عبادت گاہیں سب کچھ بلا تفریق (عین غزہ کی طرح) جل گیا۔ ایک تیز ترین آگ ہالی ووڈکی پہاڑیوں پر چڑھ دوڑی۔ وہاں ایک دن پہلے پروگرام میں خدا کا انکار کرتے قہقہے لگا رہے تھے۔ سیاحتی مقامات گھیرے میں آگئے۔ گنجان آباد سٹوڈیو سٹی جل اٹھی۔ تین لاکھ 80 ہزار آبادی کو انخلا کا حکم ہوا۔ غزہ میں اسرائیل دوڑیں لگواتا تھا، چھوٹی سی غزہ پٹی میں مقید آبادی کو بار بار۔ اب شمال چھوڑ دو۔ اب جنوب سے نکل جاؤ۔

کہتے ہیں یہ ہالی وڈ کی خوفناک فلم جیسے مناظر ہیں۔ ایک جیتی جاگتی فلم غزہ میں چلی تھی۔ فرق حکم دینے والے کا ہے۔ ’اس کے بعد اس کی قوم پر ہم نے آسمان سے کوئی لشکر نہیں اتارا۔ ہمیں لشکر بھیجنے کی کوئی حاجت نہ تھی۔ بس ایک دھماکا ہوا اور یکایک وہ سب بجھ کر رہ گئے۔‘ (یٰسٓ :29-28) اللہ اسباب سے بے نیاز ہے۔ ٹینک؟ بحری بیڑے اسلحے سے لدے؟ بمبار جہاز؟ کچھ بھی تو نہیں! ہوا اور چند چنگاریاں! اللہم اجرنا من النار اللہ آگ سے بچائے۔ دنیا و آخرت میں۔ (آمین)۔

مہنگی ترین جنگیں لڑنے کے بعد یہ مہنگی ترین قدرتی آفت ہے۔ ارب ہا ڈالر کا نقصان۔ تباہی، تعمیر نو، صحت، سیاحت، انشورنس کی صنعت۔ بائیڈن دورے پر آیا تو کہا: ’لگتا ہے کہ یہاں ہدفی ’ٹار گٹڈ بمباری‘ ہوئی ہے۔(بیچ میں سلامت گھر بھی موجود ہیں) پولیس چیف نے کہا: ’لگتا ہے جیسے ایٹم بم پھٹا ہو‘۔ مناظر نہایت ہیبت انگیز ہیں۔ فائر نیڈو: پہاڑوں سے ایک لمبی اوپر کو جاتی تھرکتی سفید، پیلی، ناریخی لکیر، رنگوں کے گرد سیاہی اور لالی پھیلی ہوئی۔غضبناکی عیاں۔ چٹختی آوازیں۔ ٹرمپ کی دھمکی ’جہنم بھڑکا دوں گا؟‘ انسان اگر خدا نخواستہ ایسے ہی کفریہ تکبر اور خدائی لہجے میں پھنکا رتا دنیا سے رخصت ہو جائے تو آگے موت پر فوراً ہی دوسری دنیا میں آنکھ کھل جاتی ہے۔ ملک الموت کو سامنے پاکر گرفتاری دینی پڑتی ہے۔ قرآن منظر کشی کرتا ہے! ’وہ (کافر) جن کی روح فرشتے قبض کرتے ہیں اس حالت میں کہ وہ اپنی جانوں پر ظلم کر رہے تھے تو وہ فوراً ہتھیار ڈال دیتے ہیں، ہم تو کوئی برائی نہیں کر رہے تھے۔۔۔‘ (النحل: 28)
اب تو خود امریکی اقرار کر رہے ہیں۔ مثلاً معروف گائیکہ ٹیلر سوفٹ کہتی ہے:’(تقریباً) ڈیڑھ سال سے غزہ ہم نے میزائیلوں سے جلایا جو امریکی ٹیکسوں کے ذریعے ہوا۔ صرف 2 دن میں (God)اللہ کی سزا ایسی برسی امریکہ پر۔ غزہ کے رہائشیوں کو ہم نے بے پناہ دکھوں، اذیتوں سے دو چار کیا۔ یہ اللہ کی پکڑ اور غضب ہے غزہ سے بڑے علاقے پر ۔‘ اب وہی جیمز ووڈز اپنا گھر نذر آتش ہونے پرCNN کے سامنے پھوٹ پھوٹ کر رو رہا ہے جو کہتا تھا:’ کوئی Ceasefire (آگ بجھ جانا!) نہیں، کوئی معافی نہیں!‘ آگ بھڑکتی رہی پورا گھر چاٹ جانے تک! نوسیز فائر۔ ( با لآ خر غزہ میں آج سیز فائر متوقع ہے!) آگ میں بائیڈن، ٹرمپ، نیتن یا ہو جیسی دیوانگی ہے۔ یہ طوفانی ہوا اور آگ نہیں ،بے گناہ مظلوم غزہ کی عورتوں بچوںکی آہوں اور کراہوں کے بگولے اور شعلے ہیں۔ قنوت نازلہ اور دعائیں ہیں۔ فلسطینی 8 سالہ بچہ اللہ کے آگے روتا فریاد کرتا وڈیو کلپ میں محفوظ ہے۔ اللہ ہمیں ان کا سیاہ، تاریک دن دکھا ۔سو وہ بچہ دیکھ لے گاڑھے سیاہ دھوئیں سے روسیاہ سپر پاور! ایک رئیس امریکی کا افغان گارڈ بلال تخی کہتا ہے (اپنے مالک کا جلا ہوا ٹوٹا پھوٹا گھر دیکھ کر) کہ ’یہ منظر تو میرے جنگ زدہ ملک افغانستان کا ہے۔‘ ایک منظر عراق کا بھی ہے جہاں امریکی فوجی قہقہے لگاتا ہرے بھرے درختوں پر پائپ سے آتش گیر مادے کی آگ برسا کر انھیں بھسم کر رہا ہے۔ اب امریکی جنگلوں کے ساتھ امیر ترین آبادی بھسم ہے۔ فاعتبروا۔۔۔۔ مقامِ عبرت ہے!
پاکستان میں دو روزہ بین الاقوامی کانفرنس ،’ مسلم معاشروں میں لڑکی کی تعلیم‘ ہوئی۔ اگرچہ پاکستان میں لڑکیوں کی تعلیم سے بڑھ کر معیاری تعلیم سے محرومی ،نصاب اور تربیت کے مسائل گھمبیر ہیں۔ تعلیمی بجٹ حکومتی ترجیحات میں شامل نہیں۔ ملالہ کی تقریر کی شہ سرخیاں لگیں تو حیران کن تھا کہ ساری تقریر اول تا آخر افغانستان کی ’مظلوم‘ لڑکی پر مرکوز تھی گویا ملالہ افغانستان کی نمائندہ تھی؟ اس کی آمد کا مقصدافغان حکومت پر لفظی گولہ باری کرنا تھا؟ تعلیم سے محرومی سے بڑھ کر اس وقت مسلم دنیا کا سلگتا ہوا مسئلہ مسلمان لڑکی کے جینے کا حق ہے۔ غزہ میں سکول تو در کنار گھر، کتابیں، تعلیمی ادارے، طالبات، مائیں، اساتذہ سب مار دیے، جلا دئیے ڈھا دیئے۔ نوحہ گری ہوتی تو اس پر ہوتی۔ طالبان جینے کا حق تو دیتے ہیں! یہ پوری کا نفرنس غزہ میں نوجوان نسل کی زندگی اور تعلیم، خوراک، آزادی اور صحت پر ہوتی تو قرینِ انصاف تھا۔

خود یورپ کا حال شرمناک ہے جہاں انگلینڈ کے حوالے سے BBC رپورٹ کے مطابق طالبات کی بڑی تعداد اپنے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لیے جسم فروشی پر مجبور ہے۔ بعض طلباء طالبات جوا کھیلنے، طبی تجربات کے لیے خود کو پیش کرتے ہیں مجبوراً، ٹیوشن فیس آکسفورڈ جیسے اداروں میں ادا کرنے کے لیے ۔ یہ سب ملالہ کی طرح مفت تعلیم کی لگژری کے حامل نہیں ہیں۔پھر وہ جو ’ان پڑھ‘ ماؤں کی گود سے پل کر امریکی یورپی تعلیم سے بہرہ مند قوتوں کو شکست دینے پر قادر ہوئے؟ ہم اس مخمصے سے جتنا دور رہیں اتنا بہتر۔ اپنی خیر منائیں اور مخلوط تعلیم کے ہو لناک اثرات سے بچیوں کو محفوظ رکھنے کے لیے کانفرنس کریں سر جوڑیں، خود کشی، جنسی جرائم کی بنا پر، گینگ ریپ نوعیت کی روز افزوں بلائیں۔

یورپ تو اس امر کا بھی مجرم ہے کہ اتنا انتہاپسند اور تنگ نظر کہ لڑکی سرڈھانپ لے یا منہ ڈھانپ لے تو سکول کالج سے خارج۔ یا پھر بچوں تک کے نصابوں میں بحرِ مردار کی سڑاند LGBTQ کے تذکرے لازم۔ پناہ بخدا! مسئلہ تربیت اور اخلاقی اقدار کا زیادہ بڑا ہے۔ پھپھوندی لگی ایسی تعلیم سے کیا حاصل!
سچ ہے کہ برے کام کا انجام برا ہے!

متعلقہ مضامین

  • سندھ حکومت کو جامعات کے متعلق اپنے فیصلوں پر نظر ثانی کرنی چاہیے،پروفیسررئیس احمد منصوری
  • نظامِ تعلیم
  • بنی گالہ کے درباری اور حواری ظل تباہی کی کرپشن پر پردے ڈال کر اپنی اپنی نوکریاں بچا رہے ہیں،عظمی بخاری
  • سندھ کی جامعات میں پیر اور منگل کو بھی تدریسی سرگرمیاں معطل رکھنے کا اعلان
  • ٹک ٹاک پر ون بائٹ چیلنج نے لبنانی طالبعلم کی جان لے لی
  • برے کام کا انجام برا ہے…
  • خواب ایک ایسے معاشرے کا
  • چین اور ویتنام دوستانہ پڑوسی اور اسٹریٹجک ہم نصیب معاشرہ ہے، چینی صدر
  • سندھ حکومت ہڑتالی اساتذہ سے رابطہ کرے، فاروق فرحان