سندھ میں بدامنی اور جماعت اسلامی کی اے پی سی
اشاعت کی تاریخ: 20th, January 2025 GMT
صوبہ سندھ میں اغوا، لوٹ مار، قبائلی جھگڑوں اور ڈاکو راج کے خلاف جماعت اسلامی سندھ کی جانب سے آل پارٹیز کانفرنس بروز اتوار 12 جنوری 2025ء کو سکھر کے ایک مقامی ہوٹل میں سندھ کے بدامنی سے بہت زیادہ متاثرہ اضلاع گھوٹکی، کندھ کوٹ، کشمور، شکارپور، جیکب آباد میں قیام امن کے لیے وفاقی اور حکومت سندھ کی توجہ مبذول کروانے کے لیے بہت بڑے پیمانے پر انعقاد درحقیقت امن وامان کی بدترین صورتحال کے شکار عوام کے لیے اُمید، حوصلے کا جاں فزا پیغام اور مسموم فضا میں ایک بے حد خوشگوار ہوا کے جھونکے کی مانند قابل صد تحسین کاوش تھی۔ یہ اے پی سی نہ صرف بہت زیادہ کامیاب ہوئی اور اس میں سندھ بھر کی لگ بھگ ہر سیاسی، سماجی، دینی جماعت بشمول سول سوسائٹی کی بھرپور نمائندگی موجود تھی اور ہر طبقہ فکر سے وابستہ افراد کی نمایاں شخصیات نے اس میں بھرپور شرکت کی بلکہ سندھی پرنٹ، الیکٹرونک اور سوشل میڈیا نے بھی اس کی بڑی پزیرائی کی۔ اس طرح سے گویا جماعت اسلامی صوبہ سندھ کے جواں سال، متحرک اور فعال امیر کاشف سعید شیخ کی سرکردگی میں ان کی ٹیم کی مذکورہ کانفرنس کو کامیابی سے ہم کنار کرنے کے لیے شبانہ روز کی گئی ساری کوششیں پورے طور پر ثمربار اور بار آور ثابت ہوئیں۔
ویسے تو ایک طویل عرصے سے پی پی پی کے دورِ اقتدار میں سارا صوبہ سندھ ہی ہمہ اقسام بدامنی کی آگ میں اس طرح سے جل رہا ہے کہ عملاً ’’اندھیری نگری اور چوپٹ راج‘‘ کا محاورہ پورے طور سے اس وسائل سے مالا مال لیکن نااہل، نالائق اور بدعنوان حکمرانوں کے ہتھے چڑھ جانے والے اس بدقسمت صوبے پر صادق آتا ہے، تاہم اوپر جن اضلاع کا ذکر ہوچکا ہے وہاں تو بدامنی کا راج کچھ اس برے طریقے سے ہے کہ کسی عام فرد کی جان، مال، عزت اور آبرو تو غیر محفوظ ہے ہی اس کے ساتھ ساتھ خود قانون کے محافظ تک بھی جرائم پیشہ عناصر کے ہاتھوں غیر محفوظ ہیں اور آئے دن میڈیا کے توسط سے ڈاکوئوں کے ہاتھوں خود پولیس اہلکاروں کے لٹنے، ان سے نقدی، موبائل فون، اسلحہ، جیکٹیں چھیننے بلکہ انہیں اغوا برائے تاوان کی غرض سے اُٹھا کر لے جانے تک کی دل شکن اور اعصاب شکن اطلاعات سامنے آتی رہتی ہیں جنہیں بدامنی سے متاثرہ اضلاع کے پولیس حکام ڈاکوئوں سے بذریعہ ڈیل ان کی طلب کردہ تاوان کی مطلوبہ رقم دے کر اپنے ہاں قید ڈاکوئوں کو آزاد کرنے کے بعد ان سے بازیاب کروانے میں کامیاب ہوپاتے ہیں۔ ایسی بدترین بدامنی میں جب محکمہ پولیس کا کردار ایسا بدنما ہوگا تو مقامی عوام اور سندھی میڈیا کی جانب سے اسے ’’ڈیل ڈپارٹمنٹ‘‘ کے انوکھے لقب کا سزاوار ٹھیرانا بالکل حق بہ جانب دکھائی دیتا ہے۔
اے پی سی سے دورانِ خطاب امیر صوبہ کاشف سعید شیخ نے جو جو باتیں بھی کہیں وہ جہاں ان کے دردِ دل کی عکاس اور ترجمان تھیں وہیں حکومت سندھ کی امن وامان کی بحالی میں ناکامی اور قانون نافذ کرنے والے تمام اداروں کے اس کردار پر بھی بہت بڑا سوالیہ نشان تھیں جن پر بلامبالغہ ایک کھرب روپے سالانہ سے زائد کے خرچے کے باوصف اہل سندھ اور مذکورہ اضلاع کے عوام خود کو یکسر غیر محفوظ اور غیر مامون پاتے ہیں اور جن کی جان، مال، عزت اور آبرو دن رات جرائم پیشہ عناصر کے ہاتھوں ہر وقت ہی دائو پر لگی رہتی ہے۔ شدید ترین بدامنی سے متاثرہ اضلاع میں کاروباری سرگرمیوں میں بھی بہت زیادہ کمی آچکی ہے اور کاروباری طبقہ بھی اپنے کاروبار اور اہل خانہ کی زندگی، عزت اور آبرو بچانے کی خاطر صوبہ سندھ سے باہر پنجاب کے مختلف شہروں کو قدرے پرامن گردان کر مع خاندان اور کاروبار وہاں منتقل ہونے پر تیزی سے مجبور ہوتا جارہا ہے۔ جس کی نشاندہی امیر صوبہ سمیت اے پی سی کے دیگر مقررین نے بھی کی۔ ایسے میں بجا طور پر حیرت، تشویش اور مایوسی دامن گیر ہونے لگتی ہے کہ آخر حکومت سندھ کے ذمے داران اور پی پی پی کے منتخب عوامی نمائندے آئے دن بڑی تعداد میں بدامنی کی وجہ سے انڈیا نقل مکانی کرنے والے ہندو برادری کے افراد اور پنجاب جا کر اپنے اپنے کاروبار کو ازسرنو شروع کرنے والے کاروباری طبقے کو احساس تحفظ فراہم کرنے کے لیے عملاً ٹھوس اور سنجیدہ اقدامات کرنے سے تجاہل عارفانہ کیوں برت رہے ہیں؟ زبانِ خلق کو نقارہ سمجھنا چاہیے کیوں کہ عوام کے خیال میں بدعنوانی کی وجہ سے حکومت سندھ ہو یا پھر اس کے شریک ہم نوالہ، ہم پیالہ سمیت منتخب عوامی نمائندوں کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی ہے جس کی وجہ سے انہیں عوامی مسائل اور مصائب کو حل کرنے میں کسی قسم کی کوئی بھی دلچسپی باقی نہیں رہی ہے۔
امیر جماعت اسلامی صوبہ سندھ کی زیر صدارت منعقدہ اس کانفرنس میں سندھ میں بدامنی، ڈاکو راج اور قبائلی خون ریز جھگڑوں کے خاتمے کے لیے جہاں ایک ایکشن کمیٹی کے قیام کا اعلان کیا گیا وہیں بدامنی سے متاثرہ اضلاع کے ایس ایس پی کے دفاتر کے سامنے 28 جنوری خیرپور اور شکارپور میں 16 فروری کو انڈس ہائی وے کے مقامات پر عوامی احتجاجی دھرنوں کا بھی اعلان کیا گیا۔ اگر اہل سندھ کو امن وامان میسر نہ آسکا تو بالآخر بات وزیراعلیٰ سندھ ہائوس کے گھیرائو اور اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ پر منتج ہوگی۔ اے پی سی کے اعلامیہ میں جہاں صحافیوں نصر اللہ گڈانی اور جان محمد مہر کے قاتلوں کی گرفتاری کا مطالبہ کیا گیا تھا وہیں برس ہا برس سے اغوا شدہ فضیلہ سرکی اور پریا کماری کی فوری بازیابی کے مطالبات بھی سرفہرست تھے۔ اعلامیہ علامہ حزب اللہ جکھرو نے پڑھ کر سنایا اس پر تمام شرکائے اے پی سی جن میں بھرچونڈ شریف کی درگاہ کے گدی نشین میاں عبدالحق عرف میاں میٹھو، امداد اللہ بجارانی، ڈپٹی قیم صوبہ، ڈاکٹر مہر چند صدر شہری اتحاد کندھ کوٹ، کیو اے ٹی سندھ کے صدر روشن کنرانی، عوامی تحریک کے حاکم جتوئی، اقبال بجارانی، دنیش کمار اقلیتی رہنما سمیت نے صاد کیا۔ اللہ اے پی سی کے فیصلوں میں برکت عطا فرمائے آمین۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: جماعت اسلامی متاثرہ اضلاع حکومت سندھ اے پی سی سندھ کے سندھ کی کے لیے
پڑھیں:
سندھ میں امن قائم نہ کرنے کی ذمے داری پی پی ہے،مجاہد چنا
سکھر(نمائندہ جسارت) سندھ میں امن و امان کی مخدوش صورتحال 16 سال سے برسر اقتدار پیپلزپارٹی حکومت کی ناکامی ہے، اربوں روپے امن و امان اور ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن کے نام پر خرچ کرنے کے باوجود عوام عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ جماعت اسلامی کی سکھر میں بدامنی و ڈاکوراج کے خلاف ہونے والی کل جماعتی کانفرنس کے فیصلے کے مطابق 28جنوری کو سندھ بھر میں امن و امان کی ناکامی پر ایس ایس پی آفسز کے سامنے دھرنے دیئے جائیں گے۔یہ بات جماعت اسلامی سندھ کے سیکرٹری اطلاعات مجاہد چنا نے سکھر پریس کے دورے کے موقع پر بات چیت کے دوران کہی۔ انہوں نے نومنتخب صدر پریس کلب آصف ظہیرخان لودھی ، جنرل سیکریٹری امداد بوزدار ودیگر عہدیداران کو مبارکباد اور اپنی نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ سندھ باب الاسلام اور پیار محبت و امن کی سرزمین ہے۔ عوام کے اصل اشوز سے توجہ ہٹانے اور کچے و پکے کی زمین پر قبضے سمیت پیپلزپارٹی کے اقتدار کو طول دینے کے لیے ڈاکو راج اور بدامنی کا بازار گرم کیا گیا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ چاروں طرف سیکیورٹی اداروں کے قلعے اور اربوں رپے خرچ کرنے کے باوجود لاکھو کی کی آبادی کو 50 ڈاکو یرغمال بناکر رکھیں۔ یہ ڈاکو کسی وڈیرے پولیس اور وزیر کے بیٹے کو کیوں نہیں اغوا کرتے؟ انہوں زور دیا کہ ریاست ماں کا درجہ رکھتی ہے اپنے بچوں شہریوں کی جان و مال کی حفاظت حکومت کی ائینی و اخلاقی ذمے داری ہے۔