Jasarat News:
2025-04-16@14:55:33 GMT

سندھ میں بدامنی اور جماعت اسلامی کی اے پی سی

اشاعت کی تاریخ: 20th, January 2025 GMT

سندھ میں بدامنی اور جماعت اسلامی کی اے پی سی

صوبہ سندھ میں اغوا، لوٹ مار، قبائلی جھگڑوں اور ڈاکو راج کے خلاف جماعت اسلامی سندھ کی جانب سے آل پارٹیز کانفرنس بروز اتوار 12 جنوری 2025ء کو سکھر کے ایک مقامی ہوٹل میں سندھ کے بدامنی سے بہت زیادہ متاثرہ اضلاع گھوٹکی، کندھ کوٹ، کشمور، شکارپور، جیکب آباد میں قیام امن کے لیے وفاقی اور حکومت سندھ کی توجہ مبذول کروانے کے لیے بہت بڑے پیمانے پر انعقاد درحقیقت امن وامان کی بدترین صورتحال کے شکار عوام کے لیے اُمید، حوصلے کا جاں فزا پیغام اور مسموم فضا میں ایک بے حد خوشگوار ہوا کے جھونکے کی مانند قابل صد تحسین کاوش تھی۔ یہ اے پی سی نہ صرف بہت زیادہ کامیاب ہوئی اور اس میں سندھ بھر کی لگ بھگ ہر سیاسی، سماجی، دینی جماعت بشمول سول سوسائٹی کی بھرپور نمائندگی موجود تھی اور ہر طبقہ فکر سے وابستہ افراد کی نمایاں شخصیات نے اس میں بھرپور شرکت کی بلکہ سندھی پرنٹ، الیکٹرونک اور سوشل میڈیا نے بھی اس کی بڑی پزیرائی کی۔ اس طرح سے گویا جماعت اسلامی صوبہ سندھ کے جواں سال، متحرک اور فعال امیر کاشف سعید شیخ کی سرکردگی میں ان کی ٹیم کی مذکورہ کانفرنس کو کامیابی سے ہم کنار کرنے کے لیے شبانہ روز کی گئی ساری کوششیں پورے طور پر ثمربار اور بار آور ثابت ہوئیں۔

ویسے تو ایک طویل عرصے سے پی پی پی کے دورِ اقتدار میں سارا صوبہ سندھ ہی ہمہ اقسام بدامنی کی آگ میں اس طرح سے جل رہا ہے کہ عملاً ’’اندھیری نگری اور چوپٹ راج‘‘ کا محاورہ پورے طور سے اس وسائل سے مالا مال لیکن نااہل، نالائق اور بدعنوان حکمرانوں کے ہتھے چڑھ جانے والے اس بدقسمت صوبے پر صادق آتا ہے، تاہم اوپر جن اضلاع کا ذکر ہوچکا ہے وہاں تو بدامنی کا راج کچھ اس برے طریقے سے ہے کہ کسی عام فرد کی جان، مال، عزت اور آبرو تو غیر محفوظ ہے ہی اس کے ساتھ ساتھ خود قانون کے محافظ تک بھی جرائم پیشہ عناصر کے ہاتھوں غیر محفوظ ہیں اور آئے دن میڈیا کے توسط سے ڈاکوئوں کے ہاتھوں خود پولیس اہلکاروں کے لٹنے، ان سے نقدی، موبائل فون، اسلحہ، جیکٹیں چھیننے بلکہ انہیں اغوا برائے تاوان کی غرض سے اُٹھا کر لے جانے تک کی دل شکن اور اعصاب شکن اطلاعات سامنے آتی رہتی ہیں جنہیں بدامنی سے متاثرہ اضلاع کے پولیس حکام ڈاکوئوں سے بذریعہ ڈیل ان کی طلب کردہ تاوان کی مطلوبہ رقم دے کر اپنے ہاں قید ڈاکوئوں کو آزاد کرنے کے بعد ان سے بازیاب کروانے میں کامیاب ہوپاتے ہیں۔ ایسی بدترین بدامنی میں جب محکمہ پولیس کا کردار ایسا بدنما ہوگا تو مقامی عوام اور سندھی میڈیا کی جانب سے اسے ’’ڈیل ڈپارٹمنٹ‘‘ کے انوکھے لقب کا سزاوار ٹھیرانا بالکل حق بہ جانب دکھائی دیتا ہے۔

اے پی سی سے دورانِ خطاب امیر صوبہ کاشف سعید شیخ نے جو جو باتیں بھی کہیں وہ جہاں ان کے دردِ دل کی عکاس اور ترجمان تھیں وہیں حکومت سندھ کی امن وامان کی بحالی میں ناکامی اور قانون نافذ کرنے والے تمام اداروں کے اس کردار پر بھی بہت بڑا سوالیہ نشان تھیں جن پر بلامبالغہ ایک کھرب روپے سالانہ سے زائد کے خرچے کے باوصف اہل سندھ اور مذکورہ اضلاع کے عوام خود کو یکسر غیر محفوظ اور غیر مامون پاتے ہیں اور جن کی جان، مال، عزت اور آبرو دن رات جرائم پیشہ عناصر کے ہاتھوں ہر وقت ہی دائو پر لگی رہتی ہے۔ شدید ترین بدامنی سے متاثرہ اضلاع میں کاروباری سرگرمیوں میں بھی بہت زیادہ کمی آچکی ہے اور کاروباری طبقہ بھی اپنے کاروبار اور اہل خانہ کی زندگی، عزت اور آبرو بچانے کی خاطر صوبہ سندھ سے باہر پنجاب کے مختلف شہروں کو قدرے پرامن گردان کر مع خاندان اور کاروبار وہاں منتقل ہونے پر تیزی سے مجبور ہوتا جارہا ہے۔ جس کی نشاندہی امیر صوبہ سمیت اے پی سی کے دیگر مقررین نے بھی کی۔ ایسے میں بجا طور پر حیرت، تشویش اور مایوسی دامن گیر ہونے لگتی ہے کہ آخر حکومت سندھ کے ذمے داران اور پی پی پی کے منتخب عوامی نمائندے آئے دن بڑی تعداد میں بدامنی کی وجہ سے انڈیا نقل مکانی کرنے والے ہندو برادری کے افراد اور پنجاب جا کر اپنے اپنے کاروبار کو ازسرنو شروع کرنے والے کاروباری طبقے کو احساس تحفظ فراہم کرنے کے لیے عملاً ٹھوس اور سنجیدہ اقدامات کرنے سے تجاہل عارفانہ کیوں برت رہے ہیں؟ زبانِ خلق کو نقارہ سمجھنا چاہیے کیوں کہ عوام کے خیال میں بدعنوانی کی وجہ سے حکومت سندھ ہو یا پھر اس کے شریک ہم نوالہ، ہم پیالہ سمیت منتخب عوامی نمائندوں کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی ہے جس کی وجہ سے انہیں عوامی مسائل اور مصائب کو حل کرنے میں کسی قسم کی کوئی بھی دلچسپی باقی نہیں رہی ہے۔

امیر جماعت اسلامی صوبہ سندھ کی زیر صدارت منعقدہ اس کانفرنس میں سندھ میں بدامنی، ڈاکو راج اور قبائلی خون ریز جھگڑوں کے خاتمے کے لیے جہاں ایک ایکشن کمیٹی کے قیام کا اعلان کیا گیا وہیں بدامنی سے متاثرہ اضلاع کے ایس ایس پی کے دفاتر کے سامنے 28 جنوری خیرپور اور شکارپور میں 16 فروری کو انڈس ہائی وے کے مقامات پر عوامی احتجاجی دھرنوں کا بھی اعلان کیا گیا۔ اگر اہل سندھ کو امن وامان میسر نہ آسکا تو بالآخر بات وزیراعلیٰ سندھ ہائوس کے گھیرائو اور اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ پر منتج ہوگی۔ اے پی سی کے اعلامیہ میں جہاں صحافیوں نصر اللہ گڈانی اور جان محمد مہر کے قاتلوں کی گرفتاری کا مطالبہ کیا گیا تھا وہیں برس ہا برس سے اغوا شدہ فضیلہ سرکی اور پریا کماری کی فوری بازیابی کے مطالبات بھی سرفہرست تھے۔ اعلامیہ علامہ حزب اللہ جکھرو نے پڑھ کر سنایا اس پر تمام شرکائے اے پی سی جن میں بھرچونڈ شریف کی درگاہ کے گدی نشین میاں عبدالحق عرف میاں میٹھو، امداد اللہ بجارانی، ڈپٹی قیم صوبہ، ڈاکٹر مہر چند صدر شہری اتحاد کندھ کوٹ، کیو اے ٹی سندھ کے صدر روشن کنرانی، عوامی تحریک کے حاکم جتوئی، اقبال بجارانی، دنیش کمار اقلیتی رہنما سمیت نے صاد کیا۔ اللہ اے پی سی کے فیصلوں میں برکت عطا فرمائے آمین۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: جماعت اسلامی متاثرہ اضلاع حکومت سندھ اے پی سی سندھ کے سندھ کی کے لیے

پڑھیں:

ممتاز عالمی شخصیت پروفیسر خورشید احمد کی وفات

ریاض احمدچودھری

ممتاز عالمی شخصیت پروفیسر خورشید احمد،انگلینڈ کے شہر لیسٹر میں انتقال کر گئے۔ انا للہ و انا الہ راجعون ۔ پروفیسر صاحب کی علم 93 برس تھی ۔ وہ بہت سی کتابوں کے مصنف اور مولانا مودودی کے جاری کردہ ترجمان قرآن کے مدیر اعلیٰ تھے۔پروفیسر صاحب مولانا مودودی کی تفسیر تفہیم القرآن کا ترجمہ بھی کر چکے تھے جو اسلامک فاؤنڈیشن لیسٹر نے شائع کیا۔ پروفیسر صاحب جنرل ضیاء الحق شہید کے دور میں جب پی این اے کی تحریک چل رہی تھی اور بھٹو صاحب کو اقتدار سے علیحدہ کر دیا گیا تھا تو اس کے بعدپی این اے کے فیصلے کے مطابق ملکی سالمیت ، ترقیات و منصوبہ بندی کے وزیر رہے۔ پروفیسر صاحب سینکڑوں بین الاقوامی کانفرنسوں میں شریک ہوتے رہے اور ان کی بے شمار کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ پروفیسر صاحب کافی عرصے سے علیل تھے اور انگلینڈ کے شہر لیسٹر میں قیام پذیر تھے۔ پروفیسر صاحب کئی بار جماعت اسلامی کی مجلس عاملہ میں شامل رہے۔
راقم الحروف سے پروفیسر صاحب کی گاہے بگاہے بہت سی ملاقاتیں ہوتی رہیں۔جب وہ وزیر تھے تو کئی بار لاہور اور اسلام آباد میں ان سے ملاقاتیں ہوئیں اور اس کے علاوہ کراچی ، ملتان اور دیگر شہروں میں ان سے اہم معاملات پر بات کرنے کا شرف حاصل رہا۔ پروفیسرخورشید احمد (23 مارچ 1932 ـ 13 اپریل 2025ء )، ایک پاکستانی ماہر اقتصادیات، فلسفی، سیاست دان، اور ایک اسلامی کارکن تھے جنھوں نے اسلامی معاشی فقہ کو ایک تعلیمی نظم و ضبط کے طور پر تیار کرنے میں مدد کی اور لیسٹر میں اسلامک فاؤنڈیشن کے شریک بانیوں میں سے ایک تھے۔
ایک سینئر قدامت پسند شخصیت، وہ اسلام پسند جماعت اسلامی پارٹی کے دیرینہ کارکن رہے ہیں، جہاں انھوں نے متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم پر 2002ء میں ہونے والے عام انتخابات میں سینیٹ کے لیے کامیابی سے حصہ لیا۔ انھوں نے 2012ء تک سینیٹ میں خدمات انجام دیں۔ جب انھوں نے 1980ء کی دہائی میں ملک کی قومی معیشت کو اسلامائز کرنے کے کردار پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے پلاننگ کمیشن کی سربراہی کی تو انھوں نے ضیاء کی انتظامیہ میں پالیسی مشیر کے طور پر اپنا کردار ادا کیا۔
پروفیسر صاحب 23 مارچ 1932ء کو دہلی، برطانوی ہندوستان میں ایک اردو بولنے والے گھرانے میں پیدا ہوئے۔ دہلی کے اینگلو عربک کالج میں داخلہ لیا۔ 1947ء میں تقسیم ہند کے بعد، یہ خاندان پاکستان منتقل ہو گیا اور لاہور، پنجاب میں آباد ہو گیا، جس کے بعد، اس نے 1949ء میں بزنس اور اکنامکس کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ 1949ء میںانہوں نے اپنا پہلا انگریزی مضمون مسلم اکانومسٹ میں شائع کیا۔ انہوںنے بی اے میں اپنی گریجویشن اکنامکس (1952) میں فرسٹ کلاس آنرز میں حاصل کی۔ انہوں نے ابوالاعلیٰ مولانا مودودی کے فلسفیانہ کام کو پڑھنا شروع کیا اور ان کی جماعت، جماعت اسلامی کے کارکن رہے۔ 1952ء میں، انہوں نے بار کا امتحان دیا اور اسلامی قانون اور فقہ پر زور دیتے ہوئے جی سی یو کے لاء پروگرام میں داخلہ لیا۔ اپنی یونیورسٹی میں، وہ اسلامی علوم میں ٹیوشن کی پیشکش کرتے ہوئے جماعت اسلامی کے طالب علم کارکن رہے۔ لاہور میں پرتشدد فسادات کے نتیجے میں، پروفیسر صاحب نے جی سی یو چھوڑ دیا تاکہ پنجاب پولیس ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے جے آئی کے کارکنوں کی بڑے پیمانے پر گرفتاری اور حراست سے بچ سکیں، اور مستقل طور پر کراچی چلے گئے۔ جہاں انہوں نے کراچی یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور اپنے مقالے کا دفاع کرنے کے بعد معاشیات میں آنرز کے ساتھ ایم ایس سی کی ڈگری حاصل کی۔
1962ء میں، خورشید احمد نے کراچی یونیورسٹی سے اسلامیات میں آنرز کے ساتھ ایم اے کے ساتھ گریجویشن کیا اور 1965ء میں برطانیہ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے کے لیے اسکالرشپ حاصل کیا۔ پروفیسر خورشیداحمد نے لیسٹر یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور اپنی ڈاکٹریٹ کی تعلیم کے لیے فیکلٹی آف اکنامکس میں شمولیت اختیار کی۔ انھوں نے 1967ـ68 میں معاشیات میں پی ایچ ڈی کے لیے اپنے ڈاکٹریٹ کے مقالے کا کامیابی سے دفاع کیا۔ ان کا ڈاکٹریٹ کا مقالہ اسلامی معاشی فقہ پر تھا۔ 1970ء میں، خواندگی کو فروغ دینے کے لیے ان کی خدمات کو لیسٹر یونیورسٹی نے تسلیم کیا، جس نے انھیں تعلیم میں اعزازی ڈاکٹریٹ سے نوازا۔ 1970ء میں، وہ انگلینڈ چلے گئے اور لیسٹر یونیورسٹی میں عصری فلسفہ پڑھانے کے لیے فلسفہ کے شعبہ میں شامل ہوئے۔
پروفیسر خورشید احمد ، ایک انوکھے پاکستانی جن کے تیار کردہ اسلامی معیشت کے منصوبوں سے کئی ممالک مستفید ہو رہے ہیں، مغرب میں جن کے قائم کردہ تعلیمی ،اسلامی تحقیقات اور دعوت ابلاغ کے کئی مراکز چل رہے ہیں جن کو بین الاقوامی سطح پر عالمی خدمات کے اعتراف میں شاہ فیصل ایوارڈ، اور اسلامی ترقیاتی بنک کے اعلیٰ ترین ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ان کی فکر رہنمائی اور منصوبہ بندی سے لاکھوں بے سہارا اور یتیم بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ انہوں نے پاکستان میں جدید طرز کی جامعات کے قیام کے خاکے تیار کئے۔ محترم حافظ نعیم الرحمن،امیر جماعت اسلامی پاکستان ،سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نائب امرا لیاقت بلوچ میاں محمد اسلم ڈاکٹر اسامہ رضی ڈاکٹر عطاء الرحمٰن پروفیسر محمد ابرہیم سیکرٹری جنرل امیر العظیم۔ڈپٹی سیکرٹریز سید وقاص انجم جعفری خالد رحمن اظہر اقبال حسن عبد الحق ہاشمی عثمان فاروق شیخ سید فراست علی شاہ ممتاز حسین سہتو۔جماعت اسلامی کے مرکزی رہنما راشد نسیم حافظ محمد ادریس امیر جماعت اسلامی پاکستان کے سیاسی مشیر ڈاکٹر فرید احمد پراچہ سیکرٹری اطلاعات جماعت اسلامی پاکستان قیصر شریف نے پروفیسر خورشید احمد کے انتقال پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے اور لواحقین سے اظہار تعزیت کیا ہے
پروفیسر خورشید احمد جماعت اسلامی کے بزرگ اعلیٰ اوصاف کے حامل سیاسی رہنما انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے ڈائریکٹر شاہ فیصل ایوارڈ اور نشان امتیاز کے حامل عالمی معاشی دانشور کئی کتابوں کے مصنف اور متعدد عالمی اداروں کے ڈائریکٹر تھے۔ جماعت اسلامی کے رہنماؤں نے کہا پروفیسر خورشید احمد کی ملی قومی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہ نور ستہ اس گھر کی نگہبانی کرے

متعلقہ مضامین

  • سندھ کے بیشتر علاقوں میں گرمی کی لہر 18 اپریل تک جاری رہنے کا امکان
  • ڈاکٹر خورشید احمد بھی ہم سے جدا ہو گے
  • جماعت اسلامی کا اسرائیل کیخلاف 20اپریل کو ملک گیر مارچ کرنے کا اعلان
  • ممتاز عالمی شخصیت پروفیسر خورشید احمد کی وفات
  • 22 اپریل کو ملک بھر میں شٹر ڈاؤن ہڑتال کا اعلان
  • کراچی سمیت سندھ کے کئی علاقے شدید گرمی کی لپیٹ میں
  • اسلامی جمہوریہ ایران کا سفارت خانہ ایران کے صوبہ سیستان و بلوچستان میں 8 پاکستانی شہریوں کے خلاف غیر انسانی اور بزدلانہ مسلح واقعے کی شدید مذمت کرتا ہے۔ سفیر رضا امیری مقدم۔
  • کراچی سمیت سندھ کے کئی علاقوں میں شدید گرمی
  • فلسطینیوں سے یکجہتی: کراچی میں جماعت اسلامی، جے یو آئی کے غزہ مارچ
  • پروفیسر خورشید 93 برس کی عمر میں انتقال کر گئے