Jasarat News:
2025-01-20@08:29:07 GMT

شہزادی ریاست خاتون

اشاعت کی تاریخ: 20th, January 2025 GMT

شہزادی ریاست خاتون

میں: لگتا ہے آج پھر کوئی کہانی سنانا چاہ رہے ہو۔۔۔
وہ: ہاں اور یہ کہانی تمہیں تمہارا بچپن پھر سے یاد دلادے گی۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ۔۔۔

میں: اتنی جلدی کیا ہے کہانی سنانے کی میری بات تو پوری ہونے دو، عنوان پڑھ کر تو مجھے بچپن کی نہ جانے کتنی ہی کہانیاں یاد آگئیں۔ خاص طور پر الف لیلہ کی وہ کہانیاں جن میں ایک شہزادہ اور شہزادی ہوتے تھے، شہزادی کو جن اٹھاکے لے جاتا تھا اور شہزادہ اپنے زور ِبازو اور جوشِ ایمانی پر بھروسا کرتے ہوئے تن تنہا شہزادی کو بچانے نکل جاتا، راستے میں آبادی سے دور کسی جھونپڑی میں مصروف ِ عبادت ایک باریش بزرگ اسے ایک لاکٹ یا انگوٹھی تھما دیتے یا کوئی اسم اعظم بتادیتے جو شہزادے کو اُس شیطان صفت جن کے شر سے محفوظ رکھنے میں ڈھال کا کردار ادا کرتا تھا۔ شہزادہ نہ جانے کتنے جتن کرکے اونچی نیچی گھاٹیوں اور جنگل بیانوں سے ہوتا ہوا بالآخر شہزادی کو جن کے چنگل سے چھڑانے میں کامیاب ہوجاتا تھا اور تقریباً تمام ہی کہانیوں کا اختتام اسی ایک جملے پر ہوتا تھا۔ ’شہزادہ اور شہزادی خیریت سے اپنے محل واپس آگئے اور سب ہنسی خوشی رہنے لگے‘۔

لیکن اس سے پہلے کہ تم اپنی کہانی سنائو میرے ذہن میں ایک بات آرہی ہے کہ تمہیں نہیں لگتا کہ ریاست خاتون نامی ایک شہزادی کو بھی ایک جن اٹھاکے لے گیا ہے، برسوں سے وہ اسی کی قید میں ہے اور شہزادہ ہے کہ اس کی مدد کو پہنچ ہی نہیں پارہا؟ کیا اس بار شہزادہ بہت بزدل واقع ہوا ہے؟

وہ: ہاں لگتا تو کچھ ایسا ہی ہے لیکن اگر تم غور کرو تو شہزادے کا اتنا قصور نہیںکیوں کہ جب شہزادی ریاست خاتون کا اغوا ہوا یا جب اسے جن نے دن دہاڑے اٹھالیا تو اس وقت تو اس کی عمر گیارہ یا بارہ سال کے لگ بھگ ہی تھی یعنی وہ اس خطرناک جن کی قید میں ہی اپنے پورے شباب کو پہنچی۔ اگر حساب لگائو تو، اب وہ کم وبیش ۸۰ سال کے قریب ہوگئی ہوگی، اور شہزادہ بھی چوں کہ اسی جدید دور کا ہے جس میں ہر انسان کو صرف اپنی ذات اور اپنے مفاد سے سروکار ہے، اس نے سوچا ہوگا کہ بھاڑ میں جائے ریاست خاتون اور مجھے کون سا اس سے کوئی عشق ہوا ہے جو اس کو چھڑانے کے لیے اپنی جان جوکھم میں ڈالوں یا اس کے انتظار میں اپنی ساری عمر گنوادوں۔ اور اس بڑھاپے میں اگر مجھے وہ مل بھی گئی تو سوائے اس کی خدمت کے دوسرا کوئی فیض تو پا نہیں سکوں گا اس سے۔

میں: لیکن جہاں تک میرا حافظہ میرا ساتھ دے رہا ہے شہزادہ تو اپنی شہزادی سے بہت محبت کرتا تھا، جب ہی تو اُس نے بڑی قربانیوں اور جدوجہد کے بعد شہزادی کو سابقہ جن سے آزاد کراکے اسے ایک نئی زندگی کا تحفہ دیا تھا۔ جبکہ وہ والا جن تو اس موجودہ جن کے مقابلے میں کہیں زیادہ دیوہیکل اور قوی تھا اور اس کے قبضے میں تو ریاست خاتون جیسی نہ جانے کتنی شہزادیاں اور بھی تھیں۔ پھر اس نے اس بار اپنی جان سے عزیز ریاست خاتون کو اس طاقتور جن سے کیوں نجات نہیں دلائی۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ شہزادے نے کوشش کی ہو لیکن رستے میں اسے کہیں کسی جھونپڑی میں کوئی عبادت گزار بوڑھا ہی نہ ملا ہو؟ جو اسے کوئی جادوئی منتر یا اسم اعظم وغیرہ بتادیتا جو شہزادی کو اُس خطرناک جن کی قید سے چھڑانے میں اس کے کام آجاتا۔

وہ: مگر میری یادداشت کے مطابق پہلے والے جن کی قید سے چھڑانے کی جدوجہد کے دوران شہزادے کو ایک بوڑھا ملا تھا، جس کی رہنمائی اور مدد سے وہ شہزادی ریاست خاتون کو آزاد کرانے میں بحسن وخوبی کامیاب ہوگیا تھا۔ بس وہ بوڑھا رہنما چہرے مہرے سے عبادت گزار دکھائی نہیں دیتا تھا لیکن اس کا دل ایمان کی روشنی سے منور تھا، جسے اس نے اپنے اقوال اور اصولوں پر مبنی طرزِ زندگی سے ثابت بھی کرکے دکھایا۔

میں: لیکن میرے خیال سے ہمیں اس پہلو کو بھی سمجھنا چاہیے کہ ہر دور ایک سانہیں ہوتا حالات کے بدلنے سے اس دور کے تقاضے بھی بدل جاتے ہی۔ اگر شہزادہ کسی مصلحت، معاشی مجبوری یا کسی نفسیاتی دبائو کی وجہ سے شہزادی کو جن کی قید سے چھڑوانے میں ابھی تک کامیاب نہیں ہوسکا تو ہر ذی شعور کو مل بیٹھ کر مظلوم شہزادی کو اس مسلسل جبر اور ظلم و زیادتی سے ہر صورت آزاد کرانا چاہیے۔

وہ: پر مجھے ایک خوف ابھی بھی چین نہیں لینے دے رہا کہ اگر کسی طرح شہزادی ریاست خاتون کو جن کی قید سے آزاد کرانے کی کوئی سبیل نکل بھی آئی تو کیا شہزادی کو یاد ہوگا کہ وہ کون ہے اور اسے اتنے برسوں تک کس ناکردہ گناہ کی سزا دی گئی، کیا وہ اپنے اصل مقصد وجود سے آشنا رہی ہوگی۔ کیا تمہیں نہیں لگتا اس پر اس عرصے میں کیسے کیسے ستم ڈھائے گئے ہوں گے نہ جانے کس کس طرح کے انجکشن اس کے جسم میں اُتارے گئے ہوں گے، اس کے کھانے میں جانے کون کون سی زہر آلود غذائیں شامل کی گئی ہوں گی، جس نے اس کے وجود اور دل ودماغ کو ہر زاویے سے ہلا کے رکھ دیا ہوگا۔

میں: تمہارا اندیشہ اور خوف بالکل درست ہے کیوں کہ ا تنی طویل قید کے دوران اُس خطرناک جن نے باری باری اور الگ الگ پے رول پہ رکھے گئے ملازمین کے ذریعے ریاست خاتون کی جو درگت بنائی ہوگی شہزادی کے لیے اس کے بھیانک اثرات سے نکلنا قطعی آسان نہیں ہوگا۔ لیکن تمہارے منہ میں گھی شکر، اگر شہزادی کو جن کی قید سے کسی بھی طرح آزاد کرالیا گیا تو پھر اس کا خیال رکھنے اور اس کی ہر لحاظ سے حفاظت کی ذمے داری پورے سماج کو اپنی جان پر کھیل کے پوری کرنی ہوگی۔ یقینا برسوں قید کے اندھیروں، گھٹن اور تعفن کے ماحول میں رہنے کے بعد کھلی آنکھوں سے نیلے آسمان کو دیکھنا اور ایک خوشگوار فضا میں سانس لینا شہزادی ریاست خاتون کے لیے زندگی کا سب سے پرمسرت اور حیران کن لمحہ ہوگا۔

وہ: لیکن حالات وواقعات کو دیکھتے ہوئے جن کے چنگل سے شہزادی کی آزادی محض ایک خوش فہمی اور خام خیالی سے زیادہ نہیں ہے کیوں کہ جن ذی شعوروں سے تم ریاست خاتون کی رہائی کی امید لگا رہے ہو ان کو تو اتنا شعور بھی نہیں کہ وہ گزشتہ کئی عشروں سے کسی جن کی قید میں ہے۔ اور اب تو جن نے حالات پر اپنا کنٹرول اتنا مضبوط کرلیا ہے کہ پے رول پہ رکھے گئے ملازمین کی وفاداری بھی ہر شک وشبہ سے بالاتر ہوگئی ہے۔

میں: معذرت میرے بھائی تمہاری آج کی کہانی تو ریاست کی بے بسی کی نذر ہوگئی۔

وہ: کوئی بات نہیں وہ کہانی پھر کبھی سہی میرے خیال سے شہزادی ریاست خاتون کو جن کی قید سے بلا تاخیر رہائی دلانا میری کہانی سے زیادہ ضروری اور ناگزیر ہے۔ اگر اب بھی اس مجبور شہزادی کی آزادی کے لیے کوئی تدبیر نہ کی گئی تو کہیں ایسا نہ ہو اس کی آہ و فریاد، کیا جنگل کیا شہر سب ہی کچھ نیست ونابود کرڈالے۔ جاتے جاتے ایک اور فی البدیہہ قِطعہ سنتے جائو۔ؔ

گھر سے آسیب کا سایہ جائے
کس طرح جن کو بھگایا جائے
آئو مل کوئی تدبیر کریں
نیند سے خود کو جگایا جائے

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: شہزادی ریاست خاتون ریاست خاتون کو کو جن کی قید سے شہزادی کو جن کے لیے اور اس

پڑھیں:

پاراچنار کا لہو پکار رہا ہے، ریاست کی بے حسی اور شیعیانِ پاکستان کی ذمہ داری

اسلام ٹائمز: پاراچنار میں جاری بربریت اس بات کی متقاضی ہے کہ ریاست، قانون نافذ کرنیوالے ادارے اور شیعیانِ پاکستان فوری اور مشترکہ اقدامات کریں۔ مظلوم عوام کو انصاف دلانا اور انکے جان و مال کی حفاظت کرنا ایک قومی اور دینی فریضہ ہے۔ محافظوں کی موجودگی میں مظالم کا تسلسل نہ صرف اداروں کی ناکامی کو ظاہر کرتا ہے بلکہ یہ بھی ثابت کرتا ہے کہ مظلوموں کی مدد کیلئے عوام کو خود متحرک ہونا ہوگا۔ پاراچنار کے مظلوموں کی حمایت نہ صرف انسانی فریضہ ہے بلکہ اسلامی تعلیمات کی روح بھی یہی ہے۔ تحریر: تبسم نقوی

پاراچنار، جو خیبر پختونخوا کے قبائلی علاقے کرم ایجنسی کا اہم علاقہ ہے، حالیہ برسوں میں دہشت گردی، فرقہ واریت اور ظلم و ستم کا شکار رہا ہے۔ یہ علاقہ شیعہ مسلمانوں کی قابلِ ذکر تعداد کی موجودگی کے باعث کئی دہائیوں سے انتہاء پسند گروہوں کی نفرت اور حملوں کا ہدف بنا ہوا ہے۔ معصوم انسانوں کے خون سے رنگے ہوئے یہ مناظر انسانیت پر بدنما داغ اور ریاست کی کارکردگی پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہیں۔

پاراچنار کی موجودہ صورتحال
تین ماہ سے زیادہ عرصے سے شیعیان پاراچنار محاصرہ میں ہیں، جہان ضروریات زندگی (ادویہ، خوراک) کی قلت بہت زیادہ ہے، جس کے سبب سو سے زیادہ بچے اپنی زندگی کی بازی ہار گئے ہیں۔ حالیہ دنوں میں پاراچنار میں ایک مرتبہ پھر بربریت کے نئے باب کا اضافہ ہوا ہے۔ مقامی شیعہ آبادی کے قافلوں پر مسلسل حملے ہو رہے ہیں، جن میں نہ صرف معصوم انسانوں کو بے دردی سے قتل کیا گیا بلکہ امدادی سامان کو بھی لوٹ لیا گیا۔ سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ یہ مظالم ان قافلوں پر کیے گئے، جو ریاستی محافظوں کی نگرانی میں سفر کر رہے تھے۔ یہ دوسری مرتبہ ہوا ہے کہ محافظوں کی موجودگی کے باوجود قافلوں پر حملہ کیا گیا اور حملہ آور نہ صرف معصوم لوگوں کو قتل کرنے میں کامیاب رہے بلکہ امدادی سامان بھی لوٹ کر لے گئے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ محافظ، جنہیں عوام کی حفاظت کے لیے تعینات کیا گیا تھا، خاموش تماشائی بنے رہے اور کسی قسم کی کارروائی نہیں کی۔ یہ صورتحال ریاست اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ناکامی کو واضح کرتی ہے۔

ریاستی اداروں کی بے حسی
حکومتی ادارے نہ صرف ان مسائل کو حل کرنے میں ناکام رہے ہیں بلکہ ان کی موجودگی میں یہ مظالم جاری ہیں۔ پاراچنار کی عوام بارہا اپیل کرچکی ہے کہ انہیں تحفظ فراہم کیا جائے، مگر بدقسمتی سے ان کی آواز صدا بہ صحرا ثابت ہو رہی ہے۔ محافظوں کی موجودگی کے باوجود حملوں کا تسلسل اس بات کا ثبوت ہے کہ یا تو ریاست ان عناصر کے خلاف کارروائی کرنے سے قاصر ہے یا پھر دانستہ طور پر اس معاملے کو نظرانداز کیا جا رہا ہے۔

شیعیانِ پاکستان کا وظیفہ
ان حالات میں شیعیانِ پاکستان پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ان مظلوموں کی آواز بنیں اور اپنے حق کے لیے ہر ممکن قدم اٹھائیں۔ ان کے وظیفے کے چند اہم پہلو درج ذیل ہیں:
1۔ اجتماعی اتحاد اور یکجہتی:
شیعہ قوم کو چاہیئے کہ وہ اپنی صفوں میں اتحاد کو مضبوط کریں۔ آپسی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر ایک مشترکہ مقصد کے لیے متحد ہوں اور مظلوموں کے حق میں مضبوط آواز اٹھائیں۔
2. مؤثر آواز اٹھانا:
ملکی اور بین الاقوامی سطح پر پاراچنار کے مظلوموں کے لیے آواز بلند کی جائے۔ میڈیا، سوشل میڈیا اور دیگر پلیٹ فارمز پر ان مظالم کو اجاگر کیا جائے، تاکہ دنیا کو اس حقیقت سے آگاہ کیا جاسکے کہ ریاستی محافظوں کی موجودگی میں یہ مظالم کیسے ہو رہے ہیں۔
3. قانونی اور سیاسی جدوجہد:
شیعہ قیادت کو چاہیئے کہ وہ قانونی اور سیاسی پلیٹ فارمز پر اس مسئلے کو اجاگر کریں۔ پارلیمنٹ میں اس معاملے پر زور دیا جائے اور حکومت کو مجبور کیا جائے کہ وہ مؤثر حکمت عملی اپنائے۔
4. عملی امداد:
پاراچنار کے مظلوم عوام کو مالی اور عملی امداد فراہم کی جائے۔ زخمیوں کا علاج، متاثرہ خاندانوں کی کفالت اور لوٹے گئے وسائل کی بحالی کے لیے اقدامات کیے جائیں۔

ریاست کی ذمہ داری
ریاست پاکستان پر یہ لازم ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھے۔ پاراچنار جیسے حساس علاقے میں سکیورٹی کے سخت اقدامات کیے جائیں اور دہشت گردوں کے خلاف فوری اور مؤثر کارروائی کی جائے۔ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ پاراچنار میں جاری ظلم و ستم نہ صرف مقامی عوام بلکہ پوری قوم کی یکجہتی اور سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔

نتیجہ
پاراچنار میں جاری بربریت اس بات کی متقاضی ہے کہ ریاست، قانون نافذ کرنے والے ادارے اور شیعیانِ پاکستان فوری اور مشترکہ اقدامات کریں۔ مظلوم عوام کو انصاف دلانا اور ان کے جان و مال کی حفاظت کرنا ایک قومی اور دینی فریضہ ہے۔ محافظوں کی موجودگی میں مظالم کا تسلسل نہ صرف اداروں کی ناکامی کو ظاہر کرتا ہے بلکہ یہ بھی ثابت کرتا ہے کہ مظلوموں کی مدد کے لیے عوام کو خود متحرک ہونا ہوگا۔ پاراچنار کے مظلوموں کی حمایت نہ صرف انسانی فریضہ ہے بلکہ اسلامی تعلیمات کی روح بھی یہی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • نائیجریا میں آئل ٹینکر الٹ گیا، آگ لگنے سے 60 افراد ہلاک
  • نائیجیریا میں آئل ٹینکر دھماکا، 60 افراد ہلاک
  • نائیجیریا میں آئل ٹینکر دھماکا، 60 افراد ہلاک
  • پہلی مسلمان مدیرہ محمدی بیگم اور پہلی خاتون پائلٹ حجاب امتیاز علی کا آپس میں کیا رشتہ تھا؟
  • عمران خان نے ریاست کو بہت نقصان پہنچایا‘ ایم کیوایم
  • اسرائیل کی ناجائز ریاست کو کسی صورت تسلیم نہیں کیا جاسکتا، منعم ظفر
  • 190 ملین پاؤنڈ سے مزید 20 ارب روپے کا منافع ریاست نے حاصل کیا، فیصل چوہدری
  • پاراچنار کا لہو پکار رہا ہے، ریاست کی بے حسی اور شیعیانِ پاکستان کی ذمہ داری
  • کل فیصل آباد کے طالب علم نے کہا آپ کو دیکھ کر پتہ چلا ریاست ماں کی طرح ہوتی ہے، مریم نواز