سیاست میں انتقام کا عنصر ملک و جمہوریت کیلئے نقصان دہ ہے،کاش سعید شیخ
اشاعت کی تاریخ: 20th, January 2025 GMT
کراچی (اسٹاف رپورٹر)امیر جماعت اسلامی سندھ کاشف سعید شیخ نے کہا ہے کہ سیاست میں انتقام کا عنصر ملک و جمہوریت کے لیے نقصاندہ ہے۔ عدل وانصاف کے بغیر کوئی ملک و معاشرہ آگے نہیں بڑھ سکتا۔ دریائے سندھ پر 6 نہروں کی تعمیر سے لیکر لاکھوں ایکڑ زمین کمپنی سرکار کے حوالے کرنا سندھ کے حقوق پر ڈاکہ ہے جو کہ ارسا قانون سمیت جمہوریت آئین اور عدل وانصاف کے برخلاف ہے۔ انہی ناانصافیوں کی وجہ سے ہمارا ملک دو حصوں میں تقسیم اور مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔ حکمرانوں کے حوس اقتدار اور اسٹیبلشمنٹ کی چالاکیوں سے قومی جماعتوں میں بھی خدشات بڑھ رہے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے 26 جنوری کو حیدرآباد میں منعقد ہونے والی پانی کانفرنس کی تیاریوں و اہداف کے جائزہ اجلاس سے خطاب کے دوران کیا۔صوبائی امیر کا مزید کہنا تھاکہ پانی کانفرنس ان شاء اللہ سندھ کے بڑے مسئلہ کے حل کی جانب پیش قدمی ثابت ہو گا اور عوام کے سامنے پیپلز پارٹی کا دوہرا معیار جو عوام دشمنی پر مبنی ہے سامنے لائے گا،اس موقع پر صوبائی نائب امیر محمد افضال آرائیں، جنرل سیکریٹری محممد یوسف، نائب قیمین مولانا آفتاب ملک ، سہیل احمد شارق،نواب مجاہد بلوچ ، الطاف ملاح اور لوئر سندھ کے ضلعی امراء موجود تھے۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
انصاف تک رسائی امیر اور غریب کیلئے مختلف معیار
انصاف تک رسائی ہر معاشرے کے بنیادی اصولوں میں سے ایک ہے، جو سماج میں امن و سکون، مساوات اور استحکام کی ضمانت دیتا ہے اور اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ ہر فرد کو اپنے حقوق کے تحفظ، قانونی مسائل کے حل اور عدالتی نظام سے مساوی فائدہ حاصل ہو۔ کسی بھی معاشرے میں امیر اور غریب کے درمیان قانون کی عملداری اور انصاف کا معیار ہی یہ طے کرتا ہے کہ وہ اقوامِ عالم میں کہاں کھڑے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جو ریاستیں انصاف کی مناسب فراہمی یقینی بناتی ہیں کامیابی بھی ان کے ہی قدم چومتی ہے۔ جہاں امیر اور غریب یکساں حیثیت سے پیش ہوتے ہوں وہاں کے عوام ریاست پر اپنا حق تسلیم کرتے ہیں اور وہاں کا ہر فرد ریاستی مشینری کا حصہ بن جاتا ہے۔ کسی بھی ریاست کی ترقی میں انصاف کا کلیدی کردار ہے۔ انصاف ایک ایسا بنیادی حق ہے جس کی ضمانت آئینِ پاکستان دیتا ہے لیکن بدقسمتی سے عملی طور پر پاکستان میں انصاف کی فراہمی میں امیر اور غریب کے لیے معیار کا فرق اکثر نمایاں ہوتا ہے۔ جو نا صرف معاشرتی تقسیم اور ناہمواری کو بڑھاتا ہے بلکہ عدالتی نظام ِ انصاف پر عوام کے اعتماد کو کمزور کرتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں قانون و انصاف کا معیار پچھلے کئی سال سے دوہرا ہی رہا ہے۔ ہم بحیثیت قوم انصاف کے معیار کو برقرار رکھنے میں ناکام ہیں۔ فرمانِ نبویﷺ ہے کہ تم سے پہلی قومیں تباہ ہوئیں جہاں طاقتور کے لیے الگ اور غریب کے لیے الگ قانون تھا۔
پاکستان کا عدالتی نظام جو انصاف کی فراہمی کا بنیادی ذریعہ ہے عرصہ دراز سے مختلف مسائل کا شکار ہے۔ یہاں کے عدالتی نظام کی پیچیدگیوں نے انصاف کے حصول کو عام آدمی کے لیے مشکل ترین بنا دیا ہے، جبکہ معاشی طور پر مستحکم افراد کے لیے یہ نسبتاً آسان ہے۔ پاکستان انصاف کی فراہمی میں 180 ممالک کی فہرست میں 120 ویں نمبر پر ہے۔ مظلوم کو انصاف دینے میں تاخیر کرنا بھی ظلم کے مترادف ہے اور پاکستان میں یہ تاخیر عدالتی نظام کا طرہ امتیاز بن چکا ہے۔ ہماری عدالتوں میں تقریباً بائیس لاکھ سے زائد مقدمات زیرالتوا ہیں، بعض مقدمات تو ایسے ہیں جو کئی دہائیاں پرانے ہیں اور ان سے وابستہ سائل انصاف کی راہ تکتے تکتے اللہ کو پیارے ہو گئے مگر انصاف حاصل نہیں کر سکے۔ مقدمات کی اس بھرمار کے باعث عام عوام کو انصاف کی فراہمی میں تاخیر اور عدالتی نظام میں شفافیت کی کمی جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ امیر طبقہ ان تمام مسائل کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، جبکہ غریب وسائل کی کمی، قانونی معلومات کی قلت اور سماجی حمایت کی عدم موجودگی جیسی پیچیدگیوں کے باعث انصاف کے حصول میں ناکام رہتے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ معاشی نا ہمواری بھی انصاف تک رسائی میں ایک اہم رکاوٹ ہے یہاں غریب عوام کے پاس نا تو وکلاء کی فیس، عدالت کی فیس اور سفری اخراجات برداشت کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے اور نا ہی وہ روزمرہ زندگی اور معاشی دبائو کے باعث عدالتی کارروائیوں کے لیے وقت نکال سکتے ہیں۔ یہاں غریب کو سالوں تک مقدمات میں الجھنا پڑتا ہے جو وقت کے ضیاع کے ساتھ ساتھ ان کی مالی حالت کو مزید کمزور کرتا ہے۔ اس کے برعکس امیر افراد کے پاس نا صرف بہترین قانونی ماہرین کی خدمات موجود ہوتی ہیں جس کے باعث عدالتی نظام میں موجود خامیوں سے فائدہ حاصل کرتے ہوئے وہ رشوت یا ذاتی تعلقات کے ذریعے اپنے مقدمات کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرا لیتے ہیں۔ یہ تفریق صرف یہاں کی عدالتوں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ پولیس، انتظامیہ اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں میں بھی دیکھی جا سکتی ہے جہاں امیر افراد کو ان کے تعلقات اور مالی حیثیت کی وجہ سے زیادہ مراعات ملتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا نظامِ انصاف امیر کے لیے جزا جبکہ غریب کے لیے سزا کا منظر پیش کرتا ہے۔ اس غیر مساوی نظام کے نتائج نا صرف غریب طبقے کے لیے مایوسی اور بے بسی کا سبب بنتے ہیں بلکہ پورے معاشرتی ڈھانچے میں عدم توازن اور بد اعتمادی کو فروغ دیتے ہیں۔ انصاف کے حصول میں اس تفریق کا سب سے زیادہ نقصان ان لوگوں کو ہوتا ہے جو پہلے ہی معاشرتی نا ہمواریوں کا شکار ہیں نتیجتاً وہ اکثر اپنے قانونی حقوق سے دستبردار ہو جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب ہمارے معاشرے میں ایسے ایسے جرائم منظرعام پر آ رہے ہیں جن کی بابت چند عشرے قبل تک سوچنا بھی محال تھا۔ کمزور قانونی نظام نے یہاں کے لوگوں سے غلط اور درست، خیر و شر کے مابین تمیز کرنے کی صلاحیت ہی چھین لی ہے۔ یہاں دوہرا قانونی نظام اب عروج پر ہے، طاقتور، دولت مند اور با اثر لوگ جرم کر کے بھی رہا ہو جاتا ہے جبکہ غریب پاکستانی جرم نا کرنے پر بھی جیل کی ہوا کھانے پر مجبور ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’ہر انسان اپنے گناہ (یا جرم) کا خود ذمے دار ہے۔ وہ دوسرے کا نہیں اپنا بوجھ خود اٹھائے گا اور ہر انسان نے رب کے حضور پیش ہو کر اپنے اعمال کا حساب دینا ہے‘۔ (سورۃ انعام 164) انصاف کی بروقت اور درست فراہمی پر ہی دین و دنیا کی فلاح کا دارومدار ہے۔ پاکستان میں انصاف کے نظام کو مساوی اور شفاف بنانے کے لیے اصلاحات ضروری ہیں۔ انصاف کا حصول ہر انسان کا بنیادی حق ہے خواہ وہ امیر ہو یا غریب اس لیے انصاف کے معیار کو مساوی بنانا ایک قانونی تقاضے کے ساتھ ساتھ اخلاقی ذمہ داری بھی ہے۔ ایک مضبوط اور شفاف عدالتی نظام ہی پاکستان کو ایک ترقی یافتہ اور خوشحال ملک بنا سکتا ہے، اس کے بغیر معاشرتی نا ہمواری بڑھتی رہے گی اور اعتماد کا فقدان مزید گہرا ہو گا۔ انصاف کے معیار کو یکساں بنانے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت قانونی نظام میں اصلاحات کرے، مفت قانونی مدد کے پروگرامز کو مؤثر بنائے اور عدالتی عمل کو تیز اور شفاف بنانے کے لیے مزید اقدامات کرے تا کہ ہر شخص خواہ وہ امیر ہو یا غریب، اپنے قانونی حقوق کا تحفظ حاصل کر سکے۔ انصاف کی فراہمی میں اس تفریق کا خاتمہ نہ صرف افراد کے درمیان برابری کا احساس پیدا کرے گا بلکہ معاشرتی ترقی اور استحکام کے لیے بھی بہتری کا باعث بنے گا۔