حاجیوں کو سہولیات دینا حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہیے، سلیم میمن
اشاعت کی تاریخ: 20th, January 2025 GMT
حیدرآباد (اسٹاف رپورٹر) حیدرآباد چیمبر آف اسمال ٹریڈرز اینڈ اسمال انڈسٹری کے صدر محمد سلیم میمن نے کہا ہے کہ حج ایک مقدس فریضہ ہے اور اِس فرض کو ادا کرنے والے حاجیوں کو اُن کے اپنے شہر میں تمام سہولیات دینا ہر حکومت کی اوّلین ترجیح ہونی چاہیئے۔ اُنہوں نے کہا کہ حیدرآباد چیمبر آف اسمال ٹریڈرز اینڈ اسمال انڈسٹری نے اپریل 2024ءسے حاجیوں کو حیدرآباد میں مستقل حج دفتر کے قیام اور ویکسی نیشن کی سہولت دینے کے لیے نہ صرف وفاقی وزیر برائے مذہبی امور و بین المذہبی ہم آہنگی، چودھری سالک حسین کو بلکہ حیدرآباد کے تمام ممبر نیشنل اسمبلی اور ممبر صوبائی اسمبلی کو بھی خطوط لکھے ہیں اور ان سہولیات کو حیدرآباد میں مہیاءکرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ جس پر حیدرآباد کے ایم پی ایز اور ایم این ایز کی جانب سے حج پروگرام 2025 میں اُن تمام سہولیات کو حیدرآباد میں مہیاءکرنے کا وعدہ بھی کیا گیا تھالیکن اِس پر اَب تک کوئی خاطر خواہ عمل نظر نہیں آیا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ وزارت حج کی جانب سے اِن سہولیات دینے پر تو کوئی قدم نہیں اُٹھایا گیا بلکہ ڈائریکٹر حج کراچی کی جانب سے چیمبر کو ایک خط موصول ہوا جس میں حیدرآباد میں 1800 سے زائد حاجیوں کے لیے دو روزہ ٹریننگ سیشن کروانے کے لیے جگہ اورجنریٹر، کولڈرنگ، پانی کی بوتلیں، بینرز ڈسپلے سمیت متعلقہ تمام سہولیات فراہم کرنے کا کہا گیا۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
’اوووو، اووووو‘
وزیر اعظم شہباز شریف نے لوگوں کو بتایا کہ جاپانی احتجاج کرتے ہیں تو صرف ’ اووو اووو‘ کی آوازیں نکالتے ہیں۔ وزیر اعظم نے اپنی طرف سے یہ طنز اپوزیشن پر کیا۔ ان کا یہ کہانی سنانے کا مقصد تھا کہ ہماری اپوزیشن کو بھی احتجاج میں صرف ’اووو ، اووو‘ کرنا چاہیے۔ شاید وہ یہ کہنا چاہتے تھے کہ اپوزیشن نہ دھرنا کر سکتی ہے، نہ لانگ مارچ کر سکتی ہے نہ وفاق پر کے پی کے حکومت حملہ کر سکتی ہے۔ نہ نعرے لگا سکتی ہے نہ ڈنڈے لہرا سکتی ہے نہ روڈ بلاک کر سکتی ہے۔
نہ سوشل میڈیا پر گالی گلوچ ہونی چاہیے نہ حکومت کی کارکردگی پر بات ہونی چاہیے نہ اسمبلی میں تقریریں ہونی چاہئیں نہ بھوک ہڑتال کی دھمکی دینی چاہیے نہ خاموش انقلاب کی للکار سنانی چاہیے۔ شاید وہ کہنا چاہیتے تھے’اووو اووو ‘ سے زیادہ احتجاج کرنے والوں کو نو مئی کے مجرمان کے برابر تصور کیا جائے۔ ان کی زبانیں اور لگامیں دونوں کھینچ لینی چاہئیں۔
ہر قوم، فرد، فرقے کے احتجاج کا اپنا طریقہ ہوتا ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ وزیر اعظم کسی ایک طریقے کو مروج کرنے کی کوشش کرے اور سارا زمانہ اس جانب چل پڑے۔ وزیر اعظم ایک مثال دیں اور سارا معاشرہ سدھر جائے۔ سماج اس طرح نہیں بدلا کرتے۔ خاص طور پر ہمارا سماج جس میں ہر زمانے میں ایک نئے بیانیے کی پنیری لگی۔ ایک نئے طرز حکومت کی ترویج کی گئی، ایک نئے انقلاب کی نوید سنائی گئی۔
77برس گزر گئے بیانیہ کا چرخہ ہی فٹ نہیں بیٹھ رہا۔ ملک بار بار پینترے بدل رہا۔ کبھی یہاں زراعت مستحسن ہوتی ہے، کبھی نیشلائزیشن معراج پاتی ہے، کبھی انڈسٹریلائزیشن کا بخار چڑھتا ہے، کبھی جہاد فرض اولین بنتا ہے، کبھی جمہوریت بہترین انتقام کہلاتی ہے، کبھی جمہوریت بہترین انتظام بن جاتی ہے، کبھی ووٹ کی عزت بیانیہ بنتی ہے اور کبھی تان ’تیرا باپ بھی دے گا آزادی ‘ پر ٹوٹتی ہے۔ اس کھچڑی میں ہمیں احتجاج کا نہ سلیقہ رہا نہ قرینہ آیا۔ گرچہ ’اووو اووو ‘ کی کوئی روایت ہمارے ہاں موجود نہیں مگر لوگ پھر اپنے اپنے طریقے سے ’اووو اووو ‘ کی گنجائش نکال ہی لیتے ہیں۔
دیکھیے حکومت کے خلاف جس نے احتجاج کرنا ہو تو وہ فارم 47اور 45کی کہانی شروع کر دیتا ہے۔ شہباز شریف کی نقلیں اتارتے ہیں۔ ملک کی خاطر امداد مانگنے کو بھیک مانگنے کے مترادف سمجھتے ہیں۔’مہنگائی شریف‘ ان کو کہا گیا ۔ دھرنے ان کے خلاف کیے۔ لانگ مارچ ان کے خلاف ہوئے۔ ایک صوبہ وفاق کے خلاف اس حکومت میں صف آرا ہوا۔ سول نافرمانی کی تحریک ان کے خلاف شروع ہوئی۔ بیرون ملک پاکستانیوں کو رقم بھیجنے سے اس دور میں منع کیا گیا۔ کارکردگی کے حوالے سے ان کو تختہ مشق بنایا گیا۔ بین الاقوامی ہزیمت کا سامان ان کے لیے اکٹھا کیا گیا۔ گرنیل نے ان کے خلاف ٹوئٹ کیے۔ یہ اس دور کی اپوزیشن کی ’اوووو اووو ‘ ہے۔
اب اگر اسی مثال میں حکومت اور اپوزیشن کی نشستیں تبدیل کر کے دیکھیں تو 9مئی کے جواب میں گرفتاریاں نہیں ہونی چاہئیں تھیں، صرف ’اووو اووو‘ ہونا چاہیے تھا۔ 26نومبر کو گولی نہیں چلنی چاہیے تھی صرف ’اووو اووو‘ ہونا چاہیے تھا۔ عمران خان کے ساتھیوں کو گرفتار نہیں ہونا چاہیے تھا بلکہ صرف ’اووو اووو‘ کر کے ان کو معاف کر دینا چاہیے تھا۔ بشریٰ بی بی کے خلاف فیصلہ نہیں آنا چاہیے تھا صرف ’اووو اووو‘ کا نعرہ لگنا چاہیے تھا۔ تحریک انصاف کے کارکنوں پر کریک ڈاؤن نہیں ہونا چاہیے تھا بلکہ انہیں بھی صرف ’اووو اووو‘ پر ٹرخانا چاہیے تھا۔
سچ پوچھیں تو اس دور میں احتجاج اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بھی بہت ہوا۔ سلسلہ تو جنرل باجوہ سے شروع ہوا۔ کسی حاضر سروس آرمی چیف کے ساتھ وہ نہیں ہوا جو جنرل باجوہ کے ساتھ ہوا۔ سوشل میڈیا پر جو کچھ ہو سکتا تھا ہوا۔ جتنی تضحیک توہین اور تذلیل ہو سکتی تھی ہوئی۔ جنرل باجوہ کا بھی دل چاہتا ہو گا کہ یہ انصافی، جاپانیوں کی طرح صرف ’اووو اووو‘ آوازیں نکالیں اور ان کی جان چھوڑ دیں۔
190 ملین پاؤنڈ، المشہور القادر ٹرسٹ کیس میں سابق وزیر اعظم کو 14سال قید ہوئی۔ جہاں سب نے عمران خان کو ’مذہب کا بیوپاری‘ کہہ کر پکارا ۔ وہاں حکومت پر بھی ہر طرف سے گالیوں کی بارش ہوئی۔ اسٹیبلشممنٹ بھی تنقید کے بار تلے آئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سارے معاملے میں ملک ریاض کے خلاف کسی نے احتجاج نہیں کیا۔ حالانکہ 190 ملین پاؤنڈ بھی ان کے پکڑے گئے اور القادر یونیورسٹی بھی انہوں نے رشوت میں دی لیکن نہ ان کو عمران خان نے رگیدا، نہ حکومت نے گرفتاری کی دھمکی دی نہ اسٹیبلشمنٹ نے بحریہ ٹاؤن کے خلاف کریک ڈاؤن کیا۔ پراپرٹی ٹائیکون کے خلاف نہ میڈیا بولا نہ سوشل میڈیا پر کسی نے بات کی۔ نہ کسی نے ’اووو ‘ کی نہ ’آآآ‘ کی آواز نکالی۔ نہ کوئی ایف آئی آر ہوئی نہ کوئی گرفتاری عمل میں آئی نہ کوئی عدالت میں حاضری ہوئی نہ ایک دن کی بھی قید مقدر بنی۔
یوں لگتا ہے کہ حکومت، اسٹیبلشمنٹ اور اپوزیشن کی لڑائی میں ملک ریاض بحریہ ٹاؤن کے کسی اونچے پلازے کی چھت پر کھڑا اس سارے نظام پر قہقہے لگا رہا ہے، جس نظام میں سابق وزیر اعظم کو عمر قید دی جا سکتی ہے، حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجائی جا سکتی ہے، فوج کی تنصیبات پر آگ لگائی جا سکتی ہے لیکن ملک ریاض کے خلاف نہ احتجاج ہو سکتا ہے نہ ان سے اختلاف ہو سکتا ہے۔ لگتا ہے اس ملک میں سب کچھ ملک ریاض ہی ہے۔ وہی فیصلہ کرتا ہے کہ اس نظام نے کب پینترا بدلنا ہے اور کب صرف ’اووو اووو‘ کرنا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
عمار مسعودعمار مسعود کالم نگار، سیاسی تجزیہ کار، افسانہ نگار اور صحافی۔ کبھی کبھی ملنے پر اچھے آدمی ہیں۔ جمہوریت ان کا محبوب موضوع ہے۔ عوامی مسائل پر گہری نظر اور لہجے میں جدت اور ندرت ہے۔ مزاج میں مزاح اتنا ہے کہ خود کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ تحریر اور لہجے میں بلا کی کاٹ ہے مگر دوست اچھے ہیں۔
اردو کالم جنرل قمر جاوید باجوہ شہباز شریف عمار مسعود عمران خان ملک ریاض حسین