WE News:
2025-04-15@09:11:57 GMT

عمران خان اور ’کٹھ پتلی‘ حکومت سے مذاکرات

اشاعت کی تاریخ: 20th, January 2025 GMT

عمران خان کی مشکلات کم ہونے کی بجائے بڑھتی جا رہی ہیں۔ تحریک انصاف اور حکومتی کمیٹیوں کے مذاکرات عملی طور پر شروع ہونے سے پہلے ہی ’لا حاصل‘ ہوتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ حکومت کا کہنا ہے کہ اِدھر مذاکرات کی بات شروع ہوتی ہے اُدھر خان صاحب کی دھمکی آمیز ٹویٹ آ جاتی ہے۔ مذاکرات کے باقاعدہ آغاز سے قبل ہی عمران خان کی طرف سے وزیراعظم شہباز شریف کو آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے ’کٹھ پتلی اور اردلی‘ قرار دینے پر حکومتی وزرا سیخ پا ہوگئے اور کہنے لگے کہ ایسے حالات میں مذاکرات آگے کیسے بڑھ سکتے ہیں۔

حکومتی کمیٹی کے ارکان کہتے ہیں 2 ملاقاتوں میں تحریک انصاف کی کمیٹی نے ہر اگلی ملاقات کے لیے ہفتے کا وقت مانگ لیا۔ ان کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف شاید 20 جنوری سے پہلے کوئی بات آگے نہیں بڑھانا چاہتی، کیونکہ ان کی نظریں نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حلف برداری پر لگی ہیں کہ شاید وہ حلف اٹھاتے ہی گرین لینڈ خریدنے یا قبضہ کرنے کے بعد وہ فوراً پاکستان کی مقتدرہ کو عمران خان کی رہائی کےاحکامات صادر کردیں گے۔ مگر ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ افغانستان سے اچانک فوجی انخلا کے بعد امریکی مفادات اس خطے میں ختم ہوتے نظر آرہے ہیں۔ اگرچہ چین کے سی پیک منصوبے پر امریکا سنجیدہ تحفظات رکھتا ہے، مگر عین ممکن ہے وہ عمران خان کی رہائی کے بجائے اپنا فوکس سی پیک ہی پر رکھے۔

یہ بھی پڑھیں:سیاستدان اور معیاری تعلیم کا خواب؟

عمران خان کی تند و تیز ٹوئٹس کے پیچھے بہت سے عوامل ہوسکتے ہیں، مگر 2 بہت اہم ہیں۔ پہلا یہ کہ وہ سمجھتے ہیں کہ بیرونی دباؤ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو مجبور کردے گا یوں انہیں رہائی مل جائے گی اور دوسرا شاید ان کے خیال میں موجودہ حکومت سیاسی استحکام کے بغیر معاشی استحکام کا خواب پورا نہیں کر پائے گی، اور انہیں جیل سے نکالے بغیر سیاسی استحکام ممکن نہیں۔ وہ اپنی ہر ٹویٹ کے ذریعے ملک کی سیاست میں ایک ہیجانی صورت حال برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔

اعصاب کی اس جنگ میں جیت کس کی ہوگی کوئی نہیں جانتا۔ حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے عمران خان کے 2 بڑے مطالبات ہیں۔ تحریک انصاف کے تمام سیاسی اسیران کی رہائی اور 9 مئی اور 26 نومبر کے واقعات پر 31 جنوری تک جوڈیشل کمیشن بنانا۔ ایک طرف عمران خان کہتے ہیں کہ وہ تمام مقدمات کا سامنا کریں گے دوسری طرف وہ اپنے سمیت تمام رہنماؤں کی رہائی بھی چاہتے ہیں۔

پچھلے کچھ عرصے سے بیک ڈور رابطوں کا ڈھول پیٹا جا رہا ہے۔ عمران خان کی بہن علیمہ خان سمیت بعض رہنماؤں نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ خفیہ رابطوں کی تصدیق کی ہے، مگر دوسری جانب سے مکمل خاموشی ہے۔ علیمہ خان نے کہا کہ 26 نومبر کو ڈی چوک کی بجائے سنگجانی میں احتجاج کرنے کے بدلے میں عمران خان کی رہائی کی یقین دہانی کرائی گئی۔ مگر بانی پی ٹی آئی نے صاف انکار کر دیا۔ اپنی حالیہ ٹوئٹ میں عمران خان کہا کہ یہ تاثر بالکل غلط ہے کہ سنگجانی کے مقام پر احتجاج کے بدلے میں انہیں رہائی کی آفر کی گئی۔ ان کی اپنی جماعت اور فیملی میں تضادات کی بھرمار ہے۔

بیرون ملک پاکستانیوں سے خان صاحب کی ترسیلات زر کے بائیکاٹ کی اپیل بھی ناکام ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے رواں مالی سال کی پہلی ششماہی (جولائی تو دسمبر) میں ریکارڈ 17 اعشاریہ 845 ارب ڈالر پاکستان بھیجے۔ یعنی ان میں 4 اعشاریہ 4 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا۔

یہ بھی پڑھیں:نیا سال اور نئی سیاسی چالیں

عمران خان کی حکومت گرنے کے بعد بھی یہی تاثر تھا کہ عمران خان کے ساتھ اظہار یکجہتی کے طور پر دنیا بھر میں مقیم پاکستانی ترسیلات زر بھیجنا بند کردیں گے۔ مگر ہر سال لاکھوں کی تعداد میں پاکستانی بیرون ملک جا رہے ہیں اور اسی طرح ترسیلات زر بھیجنے کا سلسلہ جاری ہے اور پاکستان میں حکومت کوئی بھی ہو ان میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔ بیرون ملک مقیم پاکستانی کسی سیاسی لیڈر یا وزیراعظم کو ترسیلات نہیں بھیجتے بلکہ وہ اپنے خاندان کو سپورٹ کرتے ہیں جسے وہ کسی سیاسی لیڈر کے کہنے پر بند نہیں کر سکتے۔

دھواں دھار تقرریں، جلسے، امریکا، اسٹیبلشمنٹ اور تمام سیاسی جماعتوں پر سازش کے زریعے حکومت گرانے کے الزامات، پھر 9 مئی اور 26 نومبر، عمران خان تمام حربے استعمال کرچکے، مگر شنوائی نہیں ہو رہی۔ اب آخری امید امریکی نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ رہ گئے ہیں کہ شاید وہ پاکستان پر دباؤ ڈال کر ان کی رہائی کا بندوبست کردیں۔ چور حکمرانوں کے ساتھ مذاکرات نہ کرنے کے نعرے لگانے والے عمران خان اب حکومت کے ساتھ مشروط مذاکرات کے لیے تیار ہوگئے ہیں۔ مگر حکومت ان مذاکرات کو سنجیدگی سے نہیں لے رہی۔

یہ بھی پڑھیں:نوجوانوں کو بیرون ملک جانے سے کیسے روکیں؟

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تحریک انصاف تنہائی اور اندرونی خلفشار کا شکار ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ موجودہ حالات میں حکومت کی سینیئر قیادت عمران خان کی کسی ڈیل کے نتیجے میں رہائی کے حق میں نہیں ہے۔ اگرچہ عام تاثر یہ ہے کہ عمران خان کی رہائی سے ملک میں سیاسی استحکام آئے گا جس سے ملک میں معاشی استحکام کے امکانات بڑھ سکتے ہیں۔ حکومت سمجھتی ہے کہ اس نے تمام مشکل فیصلے کر لیے اور اب معیشت کی بہتری کے اثرات نظر آنا شروع ہوچکے ہیں۔ اب اسے ڈر ہے کہ عمران خان کی واپسی ان کی مشکلات میں اضافہ کرسکتی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

احمد ولید

آرمی چیف حکومت شہبازشریف عمران خان مذاکرات معیشت.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: ا رمی چیف حکومت شہبازشریف مذاکرات عمران خان کی رہائی تحریک انصاف ان کی رہائی بیرون ملک کے ساتھ ہیں کہ کے لیے

پڑھیں:

عمران سے جیل میں نومبر میں امریکی پاکستانی سے ملاقات کا انکشاف

لندن (نیوز ڈیسک) سابق وزیر اعظم اور جیل میں بند پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین عمران خان نے گزشتہ سال نومبر میں ایک ایسے شخص سے طویل بات چیت کی تھی جو اب اعلیٰ حکام کے ساتھ حالیہ اہم بات چیت کا حصہ ہیں۔

نجی خبررساں ادارے کے مطابق یہ مذاکرات عمران خان کی رہائی اور پی ٹی آئی اور طاقتور حکام کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کیلئے ممکنہ طریقے تلاش کرنے کے بارے میں ہیں۔

انتہائی موقر ذرائع نے اس نمائندے کو بتایا ہے کہ امریکی پاکستانیوں کے ایک گروپ کے گزشتہ ماہ (مارچ) کے تیسرے ہفتے میں عمران خان کے ساتھ مذاکرات سے بہت پہلے اڈیالہ جیل میں عمران خان اور ایک ایسے شخص کے درمیان بات چیت کے کئی سیشنز منعقد ہوئے تھے۔

یہ شخص اب حالیہ مذاکرات اور بات چیت کا حصہ ہے۔ عمران خان اور طاقتور پاکستانی انتظامیہ کے درمیان تعطل کو ختم کرنے کیلئے جو کوششیں ہو رہی ہیں اُن میں فوُڈ اور ریئل اسٹیٹ کی امریکی پاکستانی شخصیت تنویر احمد، تحریک انصاف امریکا چیپٹر کے سینئر رہنما عاطف خان، سردار عبدالسمیع، ڈاکٹر عثمان ملک، ڈاکٹر سائرہ بلال اور ڈاکٹر محمد منیر شامل ہیں۔

جیل میں عمران خان سے ملاقات کرنے والے امریکی پاکستانی افراد دو دہائیوں سے عمران خان کے ذاتی دوست اور انہیں عطیات دیتے رہے ہیں۔ جب عمران خان وزیراعظم تھے تب بھی ملاقات کیلئے آتے رہتے تھے اور امریکا سے پاکستان آنے والے وفد کو جوڑنے میں بھی انہوں نے اہم کردار ادا کیا۔

اِن دو ملاقاتوں کے دوران جو کچھ ہوا؛ ان کے متعلق معتبر ذرائع نے دلچسپ معلومات شیئر کی ہیں۔

گزشتہ سال امریکی پاکستانیوں کے ساتھ نومبر میں ہوئی ملاقات کے دوران عمران خان نے حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مفاہمت کی ضرورت کو سمجھا اور معاملات کے حل کیلئے تقریباً حامی ظاہر کی ۔ اور پھر انہیں یقین دلایا گیا کہ لاکھوں لوگ اسلام آباد لانگ مارچ میں شامل ہوں گے جس سے اس قدر افراتفری پیدا ہوگی کہ نظام کو فیصلہ کن مذاکرات کی طرف لایا جا سکے گا۔

ذرائع کے مطابق کے پی کے تین سینئر رہنمائوں نے عمران خان کو یقین دلایا کہ لاکھوں لوگ اسلام آباد پر دھاوا بول دیں گے اور پی ٹی آئی کی شرائط پر عمران خان کو رہا کرایا جائے گا۔

اُس وقت بشریٰ بی بی اس پورے منظرنامے میں شامل نہیں تھیں اور ان کی شمولیت کے حوالے سے بھی کوئی فیصلہ نہیں ہوا تھا۔ عمران خان اس مارچ کی کامیابی کیلئے اس قدر پرامید تھے کہ انہوں نے امریکی پاکستانیوں کے ساتھ مذاکرات ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔

Post Views: 1

متعلقہ مضامین

  • عمران خان کو مذاکرات کے لیے راضی کیا، بات چیت سود مند ہوگی، اعظم سواتی 
  • عمران خان کو مذاکرات کے لیے راضی کیا، بات چیت سود مند ہوگی، اعظم سواتی
  • عمران خان کو مذاکرات کے لیے راضی کر لیا ہے.اعظم سواتی کا دعوی
  • عمران خان کو مذاکرات کے لیے راضی کر لیا، اعظم سواتی کا دعویٰ
  • عمران خان سے جیل میں امریکی پاکستانی شخص کی ملاقات کا انکشاف
  • عمران سے جیل میں نومبر میں امریکی پاکستانی سے ملاقات کا انکشاف
  • بانی پی ٹی آئی کی رہائی کے لئے ہر کال پر لبیک کہیں گے،عمر ایوب
  • ہری پور میں پی ٹی آئی کا ورکرز کنونشن: عمران خان کی رہائی کے لئے ہر کال پر لبیک کہیں گے:عمر ایوب
  • ہری پور میں پی ٹی آئی کا ورکرز کنونشن: عمران خان کی رہائی کے لیے ہر کال پر لبیک کہیں گے،عمر ایوب
  • بلوچستان میں مذاکراتی تعطل، بلوچ خواتین کی رہائی پر ڈیڈلاک برقرار