حیدرآباد،انسداد تجاوزات عملے کی غفلت کے باعث باچا خان چوک روڈ پر لنڈے کا کاروبار کیا جارہا ہے
اشاعت کی تاریخ: 20th, January 2025 GMT
حیدرآباد،انسداد تجاوزات عملے کی غفلت کے باعث باچا خان چوک روڈ پر لنڈے کا کاروبار کیا جارہا ہے.
ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
طلباء کو نئی سوچ کے ساتھ کاروبار کی طرف لا رہے ہیں
تعارف :
فرحان ریاض ،یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی ، لاہور میں قائم ٹیکنالوجی انکوبیشن سینٹر کے ڈائریکٹر ہیں۔ وہ Tech Based Entrepreneurships کے قائل اور حامی ہیں۔انہوں نے یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی،لاہور سے میکاٹرانکس اورکنٹرول انجینئرنگ میں گریجویشن کی۔ بعد ازاں یہیں سے انجینئرنگ مینجمنٹ میں ماسٹر ز کیا۔
ایک غیر ملکی جامعہ سے بزنس انکوبیشن مینجمنٹ میں کورس کیا۔ بعد ازاں دو ہزاراٹھارہ میں امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے لیڈرشپ کے کورس میں منتخب ہوئے اورامریکہ کی پانچ ریاستوں میں 22 سے زائدuniversities-based incubators کاجائزہ لیا اور مشاہدہ کیا۔رسمی تعلیم سے ہٹ کر انھیں نت نئے کام کرنے کا شوق اور تجسس ہے۔ باہمت اور اولوالعزم ہیں۔
ناکامی سے مایوس ہونے کے بجائے اسے سیکھنے کا ذریعہ گردانتے ہیں۔ سٹارٹ اپس کے شوقین ہیں۔ گزشتہ چودہ سالوں میں پندرہ بار اس تجربے سے گزر چکے ہیں۔کچھ میں کامیاب رہے اور بعض میں کامیابی ان سے روٹھ گئی۔ مختلف ملکی اور بین الاقوامی کانفرنسز میں پاکستان اور اپنے ادارے کی نمائندگی کر چکے ہیں۔اب نوجوان طلباء کو اپنے تجربے اورمہارت سے ٹیک بیسڈ اینٹر پرینیورشپ کی جانب راغب کر رہے ہیں۔
سوال: ایک سرکاری جامعہ میں ٹیکنالوجی اِنکیوبیشن سنٹر کے قیام کا مقصد کیا ہے؟
جواب۔ ٹیکنالوجی اِنکیوبیشن سنٹر کے قیام کا مقصد طلباء کو بتانا ہے کہ ملازمت کے علاوہ او ر بھی مواقع ہیں جہاں وہ مختلف فیلڈز میںاپناCareerبنا سکتے ہیں۔کیونکہ جب سٹارٹ اَپ اور آئی ٹی آپس میں ملتے ہیں تو یہ حیران کن نتائج دیتے ہیں۔
الحمد للہ!!! ہمارے اپنے سٹارٹ اَپ نے بہت اچھی کامیابی حاصل کی ہے۔ شروع شروع میں جب ہم نے یہ سنٹر بنایا توہم طالب علموں کو بتا یا کرتے تھے کہ سلیکون ویلی میں یہ کچھ ہورہا ہے، ایلان مسک یہ کر رہا ہے، تو سٹوڈنٹس کو لگتا تھا کہ سات سمندر پار یہ ہورہا ہے تو انہیں یہ افسانوی باتیں لگتی تھیں۔ اب الحمد اللّٰہ ہم 170 سے زیادہ سٹارٹ اَپس کروا چکے ہیں۔
سوال: یونیورسٹی میں ٹیکنالوجی اِنکوبیشن سنٹر کاآغازکیسے ہوا؟
جواب: ہائر ایجوکیشن کمیشن کی ایک پالیسی تھی۔ دو ہزار چود ہ ، پندرہ میں ہائر ایجوکیشن کمیشن نے Business Incubation Centres (بی آئی سی) کی پالیسی شروع کی تھی۔ تو یو ای ٹی لاہوران جامعات میں شامل تھی جہاں سب سے پہلے اس کی ابتدا ہوئی۔
سوال: سرکاری اداروں میں جب بھی کسی نئے پروجیکٹ یا آئیڈیا پر کام شروع ہوتا ہے تو اس کی مخالفت بھی ہوتی ہے۔آپ کے ادارے کے ساتھ کیا ایسا ہی معاملہ ہوا؟
جواب۔ جی، بالکل مخالفت ہوئی۔ کیونکہ جب بھی آپ روایت یااسٹیٹس کو (Status Quo) کیخلاف جائیں گے تو پھر لوگ مخالفت کریں گے۔ ہمارے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ مخالفت کی کئی جہتیں ہیں۔مثلاًطلباء کا رْجحان کم ہو، اساتذہ کی جانب سے بھی تعاون کا پرجوش مظاہرہ نہ ہو، یا پھر آپ کو انتظامی نوعیت کی الجھنوں یا رکاوٹوں میں الجھا دیا جائے۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ بہتری آتی چلی گئی۔
سوال: آپ بذاتِ خود انجنئیر ہیں،انجینئرزبڑے ڈسپلنڈ ہوتے ہیں اور کسی بھی منصوبے کی تمام جزئیات کو ذہن میں رکھتے ہیں۔ٹیکنالوجی انکیوبیشن سنٹر کے قیام کے وقت کیا اس بات پر غوروفکر ہوا تھا کہ یہ سنٹر کتنے طلباء کو تربیت دے گا؟
جواب: یہ بات عمومی لحاظ سے درست ہے کہ انجینئرز بہت ڈسپلنڈ ہوتے ہیں، تیکنیکی طور پر بہت مضبوط ہوتے ہیں، لیکن کاروباری سْوجھ بوجھ یا فہم نہیں رکھتے۔ اس سینٹرکے ذریعے ہم کچھ چیزوں یا خیالات کو تبدیل کرنا چاہتے تھے۔ شروع میں تو ہم نے کسی تعداد کا تعین نہیں کیا تھا۔ بس ہم طلباء کوکاروبارکی طرف مائل کرنا چاہتے تھے اور سوچ کے نئے زاویے متعارف کروانا چاہتے تھے تو اس میں ہم بڑی حد کامیاب رہے ہیں۔
سوال: اس سینٹر میں کیا مخصوص شعبہ جات کے طلباء آ سکتے ہیں یا یہ سب کے لیے برابر کے مواقع فراہم کرتا ہے؟
جواب: یہ تو سب کے لیے اوپن ہے۔ اور ایک دلچسپ چیز ہے کہ کئی یونیورسٹیز کے سٹارٹ اَپس بڑے بہترین ہیں۔سٹارٹ اپس یا اینٹرپرینیورشپ ایسی چیز ہے جس پر کوئی قدغن نہیں ہے۔ ہم نے ہر ایک کو خوش آمدید کہا ہے۔لیکن ہمارے زیادہ تر سٹارٹ اَپس ٹیکنالوجی بیسڈ (Technology Based) ہیں۔ اور وہ تمام ڈومینز میں کام کر رہے ہیں۔ تو یہ 170 گروپس ہیںکیونکہ ایک سٹارٹ اَپ میںعمومی طور پر تین سے چار لوگ ہوتے ہیں۔
اگراس کو ہم طلباء کے تناظر میں دیکھیں تو وہ چھ سو سے تجاوز کر جاتے ہیں۔ اب اگر ان سٹارٹ اَپس کی بات کی جائے تو اِن تمام نے مل کر تقریباً دو ملین ڈالر زکمائے، 1000جابز یا روزگار کے مواقع پیدا کئے۔ ہمار اسینٹرنیشنل رینکنگ میںچوتھے نمبر پر ہے،جنوبی ایشیا کی ریجنل رینکنگ میں13ویں نمبر پر ہے، اور عالمی سطح پر گلوبل رینکنگ میں 520 ویں نمبر پرہے۔اور یہ سلسلہ بڑھ رہا ہے۔ ایک چھوٹے سے سینٹر سے یہ کامیابی ہمارے لیے ایک اعزاز ہے۔ پاکستان میں جو سٹارٹ اَپ ایکو سسٹم جنم لے رہا ہے ، اگرہم اس کو وسعت دیں تو اس سے پاکستان میں خوشحالی آئے گی۔
سوال: ان170 سٹارٹ اَپس نے کس کس فیلڈ میں کام کیا ہے؟
جواب: دکانوں پر کہا جاتا ہے نا کہ تما م ورائٹی دستیا ب ہے۔ اس طرح ہم نے بھی مختلف فیلڈز میں کام کیا ہے۔چند جو بہترین ہیں،وہ آپ کو بتا تا ہوں۔ ہمارے ٹورازم سٹارٹ اَپس ہیں،کچھ پرفیوم بناتے ہیں،الیکٹرک بائیکس اور وہیکلز پر بھی کام ہوا ہے۔ آئی اوٹی سمارٹ ہومز پربھی کام کیا ہے یعنی میں یہاں بیٹھ کر اپنے گھر کی لائٹس کو آن،آف کر دوں۔ اے سی آن کردوں، موبائل ایپس اور گیمز پر کام ہوا ہے۔ ہمارے سنٹر سے ہی گیمز میں ایک سٹارٹ اَپ نے پچاس ہزار ڈالر ماہانہ کمایا۔ یونیورسٹی میں بہت سے لوگوں نے اس پر یقین نہیں کیا، مگر یہ ناممکنات میں سے نہیں ہے۔کووِڈ کے بعد انہیں زیادہ کامیابی ملی۔ اب وہ اس سے بھی بہتر کر رہے ہیں۔ سافٹ وئیر میں، سافٹ وئیر ہاؤسز میں بہت کام کر رہے ہیں۔ ہماراایک سٹارٹ اَپ بہت کامیاب ہوا تھا۔ ہمارے کیمیکل انجینئرنگ شعبہ کے ایک طالب علم نے نینو ٹیکنالوجی بیسڈ(Nano Technology Based) واٹر فلٹربنایا تھا۔ اب وہ اس کو بین الاقوامی سطح پر لے کر جارہے ہیں۔الحمدللّٰہ ہم ہر فیلڈ میں کام کر رہے ہیں اور اچھا کا م ہور ہا ہے۔
سوال:اِنکیوبیشن سنٹر کے لیے طلباء کو کیسے منتخب کرتے ہیں؟
جواب: بہت سے طریقے ہیں۔ فائنل پروجیکٹس کے موقع پر ہم متعلقہ سپروائزز کے ساتھ بات چیت کر تے ہیں۔ چھٹے سمیسٹر سے ہم طلباء کو قائل کرنے اور انہیں آگہی دینے کی کوشش شروع کر دیتے ہیں۔کیونکہ چھٹے سمیسٹر کے اختتام یاساتویں کے شروع میں انہیں اپنا فائنل پروجیکٹ کا فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ تو ہم طلباء کو کہتے ہیں کہ کوئی ایسا پروجیکٹ چْنیں جو صرف آپ کو فائنل میں اے گریڈ نہ دلائے بلکہ بعد میں اس پر آپ کمپنی بنا سکیں۔تو آپ ایک تیر سے دو شکار کریں۔ اس کے علاوہ ہم مقابلے کرواتے ہیں۔ کچھ عرصے سے چونکہ ہم مقابلے کروا رہے ہیں تو ہمیں اندازہ ہو جاتا ہے کہ کس میں صلاحیت ہے۔ بعض اوقات وِنرز کے علاوہ جو پانچویں یا چھٹی پوزیشن والے ہوتے ہیں ، وہ زیادہ اچھا کام کرتے ہیں۔ بعض اوقات طلباء خود بھی آ جاتے ہیں۔ تو مختلف طریقوں سے ہم طلباء کا انتخاب کرتے ہیں۔
سوال: ہمارے ہاں انڈسٹری کی ضروریات اور تعلیمی اداروں کے نصاب کے درمیان بہت فرق پا یا جاتا ہے۔ کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ انڈسڑی نے آپ سے یا آپ کے اس ادارے سے رابطہ کیا ہو؟
جواب: یہ درست ہے کہ انڈسڑی اور اکیڈیمیا میں بہت فرق پا یا جاتا ہے۔ اس پر بہت بات چیت بھی ہوتی ہے اور بحث مباحثہ بھی ہوتا ہے۔ یہ دونوں اگرچہ انگلش،اردو،پنجابی میں با ت کرتے ہیں مگر زبان بہت مختلف بولتے ہیں۔ انڈسٹری کا مزاج بہت مختلف ہے، کام کرنے کا انداز مختلف ہے جبکہ اکیڈیمیا کا مزاج بالخصوص ریسرچ میں قدرے تساہل والا ہے۔ وہ بہت آرام سے کام کرتے ہیں۔ایک تو یہ فرق یا تضاد ہے۔ دوسرااکیڈیمیا والے کہتے ہیں کہ یہ تو سیٹھ ہیں۔ انہیں علم یا علمی معاملات کا پتہ نہیں ہے۔ میں خود انڈسڑی کے لوگوں سے ملنے جاتا رہا ہوں۔ اور ان کی باتیں سنی ہیں کہ آپ بچوں کو یہ نہیں پڑھاتے، وہ نہیں پڑھاتے،انڈسٹری کی یہ ضروریات اور تقاضے ہیں۔ تو پھر ہم نے اس معاملے پر سوچا اور مختلف اقدامات کئے۔ کیمبرج یونیورسٹی کا ایک ادارہ ہے انہیں ہم نے دعوت دی کہ وہ آئیں اور اس مسئلے پر ہماری مدد کریں۔لاہور اور گوجرانوالہ چیمبر کیساتھ ہمارا رابطہ ہے۔تو اس تعلق کی وجہ سے انڈسٹری سے کچھ لوگ آتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ ہمیں یہ چیز چاہیے، مگر ابھی تک یہ اتنا زیادہ نہیں ہے۔ ہم اس پر بھی کام کر رہے ہیں کہ ریسر چ کو کمرشلائز کردیا جائے۔ ہمارے پاس بہترین آلات و ساز سامان سے آراستہ 25 لیبز ہیں۔نیشنل سینٹر آف ایکسیلینس کی تعداد4ہے۔جس میں سائبر سیکورٹی اور آرٹیفیشل اینٹلی جنس ہے۔ اسی کے توسط سے ہم واپڈا، واسا، سیف سٹی ، لاہور، پنجاب سپورٹس بورڈ کے ساتھ بھی کام کررہے ہیں۔ سولر پر بھی کام کر رہے ہیں۔ انڈسٹری کیساتھ کام کر رہے ہیں۔ مگر اسکو بہتر اور زیادہ بڑے پیمانے پر کیا جاسکتا ہے۔ انڈسڑی کی طرف سے سوالات آتے ہیں اور ہم کوشش کرتے ہیں کہ ان کے جوابات دیں اور انڈسٹری اور تعلیمی اداروں کے درمیان موجود گیپ (Gap) کو کم کریں۔
سوال: آپ کے سینڑ میں ایک سٹارٹ اَپ شروع ہوا، اس نے بہت اچھی کارکردگی دکھائی، مگر بعد میں وہ زوال کا شکار ہو گیا۔ ایسا کوئی میکنز م ہے کہ آپ سٹارٹ اپس کو مانیڑ کرتے رہیں؟
جواب: باضابطہ طور پر تو ایسا کوئی میکنزم نہیں ہے۔ مگر سماجی طور پر ان سے جْڑے رہتے ہیں۔ بعض اوقات ہائر ایجوکیشن کمیشن یاکوئی او ر ادارہ سٹڈی کرواتا ہے تا کہ معلوم ہو سکے کہ اب ان کی کیا کارکردگی ہے۔ لیکن ہم سٹارٹ اپس کو مدد فراہم ضرور کرتے ہیں۔ اس کے بعد ایک اور دلچسپ چیز ہے جس کا ہم نے مشاہدہ کیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ ا ب ہم آئیڈیا کی جگہ شخص کو انکوبیٹ کر رہے ہیں۔ کیونکہ آئیڈیاز تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ ہمارے پاس جو سٹارٹ اپ تھے مثلاً میں نے پرفیوم والے سٹوڈنٹ کا ذکر کیا۔ اب وہ ایک ریسٹورنٹ چلا رہے ہیں۔ ایک اور سٹارٹ اپ تھا جو گاڑیوں کے مختلف پرزہ جات پر کام کر رہا تھا۔اب وہ بڑے بڑے سٹورز کے اندر ریکس(Racks) کی تیاری اور ان کی فراہمی پر کام کررہا ہے۔ اب ہم کوشش کر رہے ہیں کہ کوئی رسمی میکنز م تشکیل دیں۔
سوال: کیا آپ کے ادارے میںکامیاب سٹارٹ اپس کے ساتھ کوئی سیشن وغیر ہ ہوتا ہے تاکہ طلباء کو اندازہ ہوکہ یہ وہ باہمت، پراعتماداور پرجوش افرادتھے جنہوں نے بڑا کامیاب سٹارٹ اپ شروع کیا؟
جواب: جی ، بالکل ہم باقاعدگی سے میٹ اپ(Meet up) اور بات چیت کرتے رہتے ہیں ، راؤنڈ اپ کانفرنسز بھی ہوتی ہیں۔ ان کو ہم اپنے ہاں دعوت دیتے ہیں اور ان کے ہاں بھی جاتے رہتے ہیں۔ سٹارٹ اپ کے ایکسچینج کی بھی کوشش ہوتی ہے۔
سوال: آپ بذاتِ خود بھی بہت کامیاب فرد ہیں۔ آپ نے خودکئی سٹارٹ اَپ کیے۔وہ تجربہ کیسارہا؟
جواب: جی بالکل میں نے خود بھی کئی کا م کیے۔پندرہ سے زائد سٹارٹ اَپس شروع کیے۔ یہ تما م مختلف نوعیت کے تھے۔ میں نے2009 میں پاکستان کا پہلا موبائل Messenger شروع کیا تھا۔ اس کی متعلقہ حلقوں میں بہت پذیرائی ہوئی تھی اور ٹیک میگزینز میں اس پر آرٹیکلز بھی آئے۔ بعض میں کامیاب رہا، کچھ میں ناکامی رہی۔ لیکن کم ازکم مجھے یہ اطمینا ن ضرور ہے کہ میں جس عمل کی طلباء کو ترغیب دے رہا ہوں،وہ خود بھی کر رہا ہوں۔اور میں یہ چاہوں گا کہ میرابیٹا بھی اس فیلڈ میں آئے۔ وہ میکر(Maker) بنے۔ ضروری نہیں کہ وہ سٹارٹ اَپ شروع کرے بلکہ وہ چیزوں کی تخلیق کرے یا ان کی تشکیل کرے۔ اس کی کیا وجہ ہے مجھے نہیں معلوم۔ ابھی تک میں کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں کرپایامگر اچھی چیز یہ ہے کہ میں ہمت نہیں ہارتا۔ Give Upنہیں کرتا۔ استقامت ہے۔ بس اللّٰہ اس کو جاری رکھے،ایک کوشش ہے وہ جاری ہے۔
سوال: آپ نے کس نوعیت کے سٹارٹ اپ شروع کیے تھے؟
جواب: میرے سٹارٹ اپس مختلف نوعیت کے تھے۔ زیادہ تر آئی ٹی بیسڈ (I T Based) تھے۔ ہم نے مارشل آرٹس ٹورنامنٹس کروائے۔لائف سٹائل میگزینز پر بھی کام کیاہوا ہے، جوتوں کی تیاری، ایپس، سافٹ وئیر،فوڈ سٹارٹ اَپ وغیرہ تو بہت زیادہ کام کیا ہے۔ لیکن غلطی کیا تھی میرا کوئی رہنما (Mentor) نہیں تھا۔ میں ٹرائل (Trial) اور ایرر(Error) سے سیکھ رہا تھا۔ اگر مجھے وقت میں واپس جانے کا موقع ملا۔تو میں نوجوان فرحان کو مشورہ دوں گا کہ کوئی رہنما پکڑو اور کسی ایک چیز پر فوکس کرو۔ بہت سے نوجوان فاونڈرز (Founders) میرے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ سر، میں یہ بھی کر رہا ہوں، وہ بھی کررہا ہوں،تو ان میں مجھے اپنا عکس نظر آتا ہے۔ تو میں انہیں کہتا ہوں کہ ایک چیز کو فوکس کرو، کامیاب ہو جاؤ گے۔ میں نے یہ چیز بڑی مشکل سے سیکھی ہے۔ آپ اپنا وقت بچا لو گے۔ کسی ایک چیز کو فوکس کریں اوراسے ایک خاص معیار تک لے کر جائیں۔ اسی پرکا م کریں۔ اگر اس میں ایک خاص مقام تک پہنچ جائیں تو پھر اگرضرورت ہے تو کسی اور آئیڈیے پر کا م کریں۔
سوال: کیا آپ کے انکوبیشن سینٹر کو دیکھ کر دیگر جامعات نے آپ سے رجوع کیا کہ ہمیں بھی انکوبیشن سنٹر بنانے میں مدد کریں؟
جواب: ہائر ایجوکیشن کمیشن کے توسط سے ہمیں دیگر انکوبیشن سینٹر میں لے جایا جاتا ہے۔ جیسے ایچ ای سی کنئیرڈ کالج، اور لاہور کالج فار وویمن یونیورسٹی میں یہ کام بہت اچھا کررہا ہے۔ ہم ان کے ساتھ ضرورت کے مطابق مدد کرتے رہے ہیں کبھی کبھار۔ یہ کوئی باضابطہ نہیں ہے مگر ہم تعاون اور مدد ضرور کرتے ہیں۔
سوال: یہ انکوبیشن سینڑتو یونیورسٹی میں ہے اور صرف یونیورسٹی کے طلباء کے لیے ہے۔ کیا ایساممکن ہے کہ کوئی طالب علم ہو اور وہ کسی اور ادارے میں ہو ، وہ بڑا ذہین اور متحرک ہے۔ اْس کے پاس آئیڈیا ہے کیاوہ آ پ کے سینٹر آ سکتا ہے؟
جواب: ہم سب کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ یہی سٹارٹ اَپ ہماری قسمت بدل سکتا ہے۔خواہ وہ انفرادی ہویا قومی۔ آپ اگر امریکہ کی مثال دیکھیں تو ا س کی ترقی میں بھی ان سٹارٹ اپس سے اپنا کردار ادا کیا ہے۔ ہمارے جو بہترین سٹارٹ اَپس تھے ،وہ یو ای ٹی سے نہیں تھے۔ اور یونیورسٹی جو ہے وہ مقصد نہیں ہے۔ بہت سے بچے ہمارے پاس میٹرک فیل بھی آئے ہیں اور انہوں نے بہترین کام کیا ہے۔ ہم اپنے انتظامی سٹاف(کلرکس) کو،اس کے علاوہ ، وہ بچے جو پڑھے لکھے نہیں ہیں، یا جو تھوڑا بہت کمپیوٹر جانتے ہیں، ان کو ہم اپنے پاس لے لیتے ہیں۔ خواہ وہ یو ای ٹی کے ہوں یا نہ ہوں ، وہ پاکستان کے تو ہیں نا۔ ہماری کوئی ایسی قدغن نہیں ہے۔ ہم سب کے لیے اوپن ہیں۔
سوال: کیا جامعات میں بننے والے انکو بیشن سینٹرزملک میں مثبت تبدیلی لائیں گے؟
جواب: یقیناایک مثبت تبدیلی ہے۔ کیونکہ ہماراسسٹم ابھی نومولود ہے۔ اور یہ اس سمت میں پہلا قدم ہے۔ ایچ ای سی نے ایک اچھا قدم اٹھایا ہے کہ انہوں نے اس پروگرام کا ایک نیٹ ورک بنادیا ہے۔ بس اس معاملے میں ، میری ایک عاجزانہ گزارش ہے کہ جو بھی ان اِنکوبیشن سینٹرز کو چلائیں ، انہیں سٹارٹ اپس کا کچھ علم ہونا چاہیے، نہ کہ محض ڈاکٹریٹ یا سینیارٹی کی بنیاد پر لوگوںکو چْن لیا جائے۔ یہ بہت اچھا پروگرا م ہے اور میرا یہ یقین ہے کہ آئندہ کچھ سالوں میں پاکستان میں اس سے بہت مثبت تبدیلی آئے گی۔ کیونکہ پڑوسی ملک میں یونیورسٹی بیسڈ University Based Start-ups/ Tech Centres نے کاروبار اور سماج میں سوچ کے انداز کو بہت حد تک تبدیل اور متاثر کیا ہے۔