حیدرآباد،ارسا ایکٹ کیخلاف عوامی تحریک سراپا احتجاج
اشاعت کی تاریخ: 20th, January 2025 GMT
حیدرآباد (اسٹاف رپورٹر) دریائے سندھ پر 6 نئی نہروں کی تعمیر اور کارپوریٹ فارمنگ کے نام پر سندھ کی زمینوں کی نیلامی کے خلاف عوامی ورکرز پارٹی کی جانب سے حیدرآباد پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ مظاہرے کی قیادت کامریڈ لطیف لغاری، دریا خان چانڈیو، کومل سومرو اور کامران سومرو نے کی۔ مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے رہنماؤں نے کہا کہ دریائے سندھ پر 6 نئی نہروں کی تعمیر اور کارپوریٹ فارمنگ کی آڑ میں سندھ کی زمینوں پر قبضے کے پیچھے نہ صرف مقامی حکمران طبقہ ہے بلکہ عالمی سرمایہ دارانہ نظام بھی ہے جو سامراج اور استحصالی ٹولہ ہے کیونکہ ان نہری منصوبوں کا بجٹ بین الاقوامی مالیاتی ادارے اور ملٹی نیشنل کمپنیاں فراہم کر رہی ہیں۔ رہنماؤں نے مزید کہا کہ گزشتہ سات دہائیوں سے پاکستان کے حکمران نہ صرف سندھ کے پانی پر ڈاکہ ڈال رہے ہیں بلکہ اس کی زمینوں پر بھی قبضہ کر رہے ہیں۔ حکمران طبقات کی یہ کھلی جارحیت دراصل سندھی قوم کی نسل کشی کے مترادف ہے۔رہنماؤں نے کہا کہ سندھ کے جاگیردار، پیر، وڈیرے اور نمائندہ جماعت پیپلز پارٹی نہروں کی تعمیر اور زمینیں الاٹ کرنے کے سندھ دشمن منصوبے میں برابر کے شریک ہیں۔ رہنماؤں نے مطالبہ کیا کہ نئی نہریں بنانے کا سندھ دشمن منصوبہ ختم کیا جائے، دریائے سندھ کا قدرتی بہاؤ بحال کیا جائے اور کوٹری کے نیچے پانی فراہم کیا جائے۔ سندھ کی زمینیں عسکری اداروں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کو کارپوریٹ فارمنگ کے لیے دینے کے بجائے زرعی اصلاحات نافذ کی جائیں، زمینداروں سے زمینیں واپس لے کر بے زمین کسانوں اور خواتین کو دی جائیں۔رہنماؤں نے خبردار کیا کہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو احتجاج جاری رہے گا۔ مظاہرے میں پی آر ایس ایف، ناری جمہوری محاذ، عوامی تحریک، پیپلز پارٹی (ش ب)، سندھ ہاری کمیٹی اور دیگر تنظیموں نے بھی شرکت کی۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
ہمیں کم ‘ سندھ کو زیادہ پانی دینے سے بے چینی بڑھ رہی ِ پنجاب کا ارساکو خط
اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ) پنجاب حکومت نے پانی کی تقسیم پر انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) کو خط لکھ دیا۔ محکمہ آبپاشی پنجاب کی جانب سے ارسا کو لکھے گئے خط میں پنجاب کے حصے کا پانی سندھ کو دینے پر سخت مؤقف اپناتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ربیع کی فصلوں کیلئے پانی کی مجموعی طور پر 16فیصد کمی تھی جس پر سندھ کو 19اور پنجاب کو 22 فیصد کم پانی دیا گیا۔ خط کے متن کے مطابق خریف کی فصلوں کے لیے پانی کی 43فیصد کمی ہے اور اس میں بھی پنجاب کے حصے کا پانی زیادہ اور سندھ کا کم روکا جا رہا ہے، سکھر بیراج پر رائس کینال کو غیرقانونی پانی دینے کے معاملہ کو بھی چھپایا گیا، مارچ میں ارسا کی ٹیکنیکل اور ایڈوائزری میٹنگز میں جو فیصلے کیے گئے ان پر عمل نہیں ہو رہا ہے۔ خط کے متن کے مطابق پنجاب کوحصے سے کم اور سندھ کو حصے سے زیادہ پانی دینے سے کسانوں میں بے چینی بڑھ رہی ہے، ناانصافی پر مبنی اقدامات سے امن و امان کا مسئلہ پیدا ہوسکتا ہے۔ مطالبہ کیا گیا ہے کہ ارسا یہ ناانصافیاں رکوائے اور فوری طور پر فیصلے کے مطابق پنجاب کو اس کے حصے کا پانی مہیا کیا جائے۔ دوسری جانب ابتدائی جائزے میں ارسا حکام نے سندھ کو زیادہ پانی دینے کی رپورٹ مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ارسا ہمیشہ پانی کی منصفانہ تقسیم کرتا ہے کسی کا حق لیا نہ کسی کو حق دیا۔ ارسا ترجمان کے مطابق حکام نے پنجاب حکومت کی جانب سے بجھوائے گئے خط کا جائزہ لینا شروع کر دیا ہے، خط کے تمام پہلوئوں کا جائزہ لے گا۔ دریں اثناء ادھر وزیر آبپاشی سندھ جام خان شورو نے پنجاب حکومت کی جانب سے ارسا کو لکھے گئے خط کو مسترد کردیا۔ وزیر آبپاشی نے کہا سندھ کو 1991 کے آبی معاہدہ کے تحت حصے کا پانی دیا جائے۔ سندھ کے کینالز کو رواں ماہ اپریل کے دس دنوں میں 62 فیصد پانی کی قلت برداشت کرنی پڑی، جبکہ 1991 کے پانی معاہدہ کے تحت پنجاب کے کینالوں کو 54 فیصد پانی کی قلت برداشت کرنی پڑی۔ آبی معاہدہ 1991 کے تحت تمام صوبوں کو پانی کی کمی برابری کی بنیاد پر برداشت کرنی ہے، سندھ میں اس وقت کپاس اور چاول کی کاشت ہونی چاہیے، ہم صرف پینے کا پانی دے پا رہے ہیں، جبکہ اس وقت پنجاب میں گندم کی کٹائی کی جارہی ہے۔